سو جو تے سو پیاز

عطا محمد تبسم

آپ نے سو پیاز اور سو جوتے والا لطیفہ سنا ہے۔اگر یاد نہیں آ رہا تو ایک بار پھر سن لیں۔ ایک جاٹ کسی مقدمے میں پھنس گیا۔عدالت نے سزا سنا دی۔سزا سو پیاز کھانے یا سو جوتے کھانے کی تھی۔سزا کے انتخاب کا حق ملزم کو دیا گیا۔ جاٹ نے سزا سن کر ہنس کر کہا یہ تو کوئی سزا نہیں ہے۔لو جی میں سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ میں سو پیاز کھاﺅں گا۔ سو اس کے آگے پیاز کا ٹوکرا رکھ دیا گیا۔ اب جناب جاٹ نے پیاز کھانا شروع کیا۔ ایک دو تین۔۔۔۔ دس بارہ پیاز کھائی ہوں گی۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔اب پیاز نہیں کھائی جارہی تھی۔ کہنے لگا کہ میں سو جوتے کھانے کو تیار ہوں۔ پھر جاٹ کو جوتے لگنا شروع ہوئے۔ابھی گنتی بیس تک پہنچی تھی کہ جاٹ چلانے لگا ہائے مرگیا۔ ہائے مر گیا۔ روکو روکو ۔۔۔ میں پیاز کھانے کو تیار ہوں۔ دوبار سے پیاز کا ٹوکرا اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے پیاز کھانا شروع کی اور۔۔ کچھ دیر بعد کہنے لگا بس جی بس ۔۔ میں جوتے کھانے کو تیار ہوں۔ سارا گاﺅں یہ تماشا دیکھتا رہا۔ جاٹ کبھی پیاز اور کبھی جوتے کھاتا رہا۔ اور یوں اس نے سزا بھگتی کہ سو پیاز بھی کھائی اور سو جوتے بھی کھائے۔ آپ نے کیلے کے چھلکے پر پھسل کر دیکھا ہے۔ آسان لگتا ہے نا۔۔۔ بس کیلے کے چھلکے پر پاﺅں رکھ دو۔ باقی آپ کو کیا کرنا ہے ۔ جو کرنا ہے وہ چھلکے نے کرنا ہے۔ آپ کو تو اس وقت ہی پتہ چلے گا۔ جب آپ چاروں شانے چت سڑک پر پڑے ہوں گے۔نہ جانے وہ کیسے مشیر اور دوست ہیں جنہوں نے چار دن پہلے صدر مملکت کو عدلیہ کے ججوں کو لگانے کا نوٹیفیکیشن نکالنے کا مشورہ دیا تھا۔راتوں رات ایک بحران نے جنم لیا۔ پورے ملک میں لوگوں کی نیندیں حرام ہوگئی۔ سڑکوں پر جلسے جلوس،عدالتوں میںبائیکاٹ، جلسے،ہنگامہ، کسی کے پتلے جلے،کسی کی تصویر پر جوتوں کی برسات ہوئی،کہیں زندہ باد کہیں مردہ باد کے نعرے لگے۔اسٹاک مارکیٹ کی حالت پتلی ہوگئی۔ عوام بیچارے حیران ۔ ۔۔ یا اللہ آٹا،چینی،بجلی،گیس،اور پیڑول کی یہ مہنگائی۔۔ اور حکمرانوں کا یہ شوق پنجہ آزمائی۔کون جیتے گا اور کون ہارے گا۔لیکن بھگتنا تو عوام کو ہوگا۔چیف کی بحالی پر کیسی کیسی نکتہ آفرینی کی گئی۔ مشرف کے غیر قانونی اقدام کو ختم کرنے کے لئے سبحان اللہ کیسی کیسی قانونی موشگافیاں کی گئی۔کیسے مشیر اور دوست ہیں جنہوں نے کہاکہ معطل ججوں کی بحالی ایگزیکٹو آرڈر سے نہیں ہوسکتی۔انہیں ازسرِنو حلف اٹھانا پڑے گا۔انکی بحالی آئینی پیکیج کے بغیر ممکن نہیں ہے۔لیکن پھر کیا ہوا ان ججوں کو ایک اوورسیز اور ایک لوکل ٹیلی فون کال پر بحال کرنا پڑا اور بدنامی بھی کمائی۔پھر این آر اوکیس میں بھی ان مشیروں اور دوست نما دشمنوں نے ایک سو بیس دن کی وہ مہلت گنوا دی۔ جس میں پارلیمنٹ کو اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ عدالت میں این آر او کا دفاع کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔اور جب عدالت نے اسے کالعدم قرار دے دیا تو آپ اس فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے بجائے پورے معاملے کو سیاست قرار دے دیا۔جمہوریت کے خلاف سازش سازش کا شور مچ گیا۔آئی ایس آئی کو ماتحت کرنے کا مشورہ بھی ان دوستوں کا ہوگا۔ جو نوٹیفیکیشن سات گھنٹے بعد ہی واپس لینا پڑا۔اپنے ہی ملک کے اداروں کو فتح کرنے کا مشورہ دینے والے۔یہ کون لوگ ہیں۔ ان کے مقاصد کیا ہیں۔ جمہوریت کو ان آستین کے سانپوں سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ باہر والے تو ایوان صدر میں آ نہیں سکتے۔ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان بلکہ اب تو امن امان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سیاست کے کھیل میںاورکوئلوں کی دلالی میں منھ کالا ہو تا ہی ہے۔لیکن منھ کالا کرانے والے، راستے میں کیلے کے چھلکے بچھانے والے،اور سو پیاز اور سو جوتے کھلوانے والوں کے نام عوام کو پتہ چلنا چاہئے۔





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل