اشاعتیں

جون, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
افغانستان میں ایک کھرب ڈالر کی معدنیات کا انکشاف عطا محمد تبسم امریکہ اب افغانستان سے نہیں جائے گا۔کیونکہ اب تک اس نے افغانستان میں جو سرمایہ کاری کی تھی اس کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں ایسے معدنی ذخائر کا سراغ لگایا گیا ہے۔ جو امریکہ کے اب تک ہونے والے سارے نقصانات کا ازالہ کردے گا۔ یہ ذخائر اب سے پہلے معلوم نہیں ہوئے تھے۔ خیال یہ ہے کہ ان ذخائرسے افغان معیشت کو تبدیل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ان ذخائر کی مالیت کا اندازہ 1 ٹریلین امریکی ڈالر کا ہے۔ افغانستان میں معدنی ذخیرے کی تلاش کا کام خاصے عرصے سے جاری تھا۔امریکی حکام کے مطابق اس ذخیرے میں لوہا ، تانبا ، کوبالٹ ، سونے اور لتیم جیسے اہم صنعتی دھاتیں بہت بڑی مقدار میں ہیں اور بہت سی ایسی معدنیات بھی ہیں جو جدید صنعت کے لئے ضروری ہیں۔خیال کیا جارہا ہے کہ بالآخر افغانستان کان کنی میں سب سے زیادہ اہم ملکوں میں سے ایک میں ہو سکتا ہے۔پینٹا گون کی ایک خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں پتہ چلنے والے ذخائر میں لتیم جیسی قیمتی دھات ہے جو ،" لیپ ٹاپ اور BlackBerrys کے لئے بیٹری کی تعمیر میں اہم خام مال. کے طور
تصویر
پاکستان کرونیکل نوجوان نسل کے لئے ایک تحفہ عطا محمد تبسم عقیل عباس جعفری چپکے چپکے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ اور پھر جب اس کی کوئی نئی کاوش سامنے آتی ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ عقیل عباس جعفری کس پرجیکٹ پر کام کررہا تھا۔عقیل عباس کی نئی تحقیقی کتاب ’پاکستان کرونیکل‘ ایک ایسی تحقیقی کاوش ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انھوں نے اپنے محدود وسائل میں ایک بڑا تحقیقی کام کیا ہے۔وہ مستقل مزاجی اور لگن سے کام کرتے ہیں۔ اوراپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ تحقیق و تحریر میں مبتلا رہنے والوں کو بھی یہ بات ایک مرتبہ چونکا دے گی کہ کسی نے تن تنہا پاکستان کی 70 برسوں کی سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معاشی تاریخ کو ایک دستاویزی صورت دی ہے۔ تقریباً گیارہ سو صفحات پر مشتمل بڑے سائز کی اس کتاب کو اس قدر دقتِ نظری کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ شاید کسی بڑے حکومتی ادارے نے، بڑی ٹیم کے ساتھ، ایک معرکہ سرانجام دیا ہے۔اس کتاب کے شروع میں پیرس کی مشہور شاہراہ شانزے لیزے کا 1901ء کا ایک منظر ہے۔ بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی کی اس شاہکار تصویر میں پورے یورپی معاشرے کو اپنی تمام تر تفاصیل کے ساتھ محف
تصویر
موزے،برساتی کوٹ، سیل فون کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ عطا محمد تبسم دو دن پہلے پریس کلب میں میرے ایک دوست کے پاس امریکہ سے فہد ہاشمی کے والد کا فون آیا۔ طویل گفتگو کے بعد میرے دوست نے بتایا کہ ہاشمی صاحب کراچی میں رہتے تھے ۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ جنہں1980میں دو ڈھائی سال کی عمر میں پاکستان سے امریکہ لے گئے تھے۔ ان بچوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ، ان کی اردو بھی واجبی سے ہے۔ ان میں چھوٹا بیٹا فہد ہاشمی ہے۔فہد ہاشمی نیویارک کے علاقے کوئینز میں پلے بڑھے۔ انہوںنے بروکلین کالج سے 2003 میں پولیٹیکل سائنس کی ڈگری لی۔اور پھر انٹرنیشنل ریلیشنز میں لندن کی میٹرو پولیٹن یونیورسٹی سے 2006 میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ نائین ایلیون کے بعد امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف جو ظالمانہ پالیسی اختیار کی۔ اس پر امریکیوں نے بھی احتجاج کیا۔ فہد ہاشمی بھی امریکی پالیسوں اور مسلمانوں کے خلاف امریکی امتیازی رویہ پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتا تھا۔ امریکی معاشرہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ لیکن فہد کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ فہد ہاشمی ایک ذہین اور پڑھنے لکھنے والا طالب علم تھا۔دوران طالب عالمی اس کا تعارف ’ال
ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک تازہ لہر عطا محمد تبسم کراچی میں ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک تازہ لہر آئی ہے۔گزشتہ ایک ہفتے میں شہر میں چار ڈاکٹر ہلاک کردئیے گئے ہیں۔ اس ایک ماہ میں تقریبا آٹھ ڈاکٹر ہلاک کئے جاچکے ہیں۔حیدرآباد میں گزشتہ ہفتے پروفیسر ڈاکٹر اسلم میمن کو دن دھاڑے اغوا کیا گیا۔ جو تا حال لاپتہ ہیں۔انھیں تاوان کے لئے اغوا کیا گیا ہے۔پشاور میں ڈاکٹرز کا اغوا اب باقاعدہ کاروبار ہے۔ اور بڑی تعداد ایسے ڈاکٹروں کی ہے جو اس ہولناک تجربے سے گزر چکے ہیں۔ پاکستان میں آبادی کے تناسب سے دو ہزار تین سو افراد پر ایک ڈاکٹر کی سہولت ہے۔ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر حکومت کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔حالات میں جب بھی ایسی بے یقینی کی فضا ہوتی ہے۔ ملک سے برین ڈرین ( ذہین افراد کا ملک سے چلے جانے )کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس ایک ماہ میں سندھ سے تین سو ڈاکٹر اور پنجاب سے بارہ سو ڈاکٹر ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔کوئٹہ کے حالات بھی خراب ہیں ۔ جہاں ایک ماہ میں سات ڈاکٹر قتل کردئیے گئے۔اندرون سندھ کی صورت حال بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔جمعہ کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے کراچی میں ڈاکٹروں کے قتل کی مذ

آٹے دال کا بھاﺅ

عطا محمد تبسم بجٹ اجلاس میں شرکت کرنے والے عوامی نمائندوں سے ایک ٹی وی اینکر پرشن نے یہ سوال کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آٹے کی فی کلو قیمت کیا ہے۔ یا دال کی قیمت فی کلو کیا ہے،یا گوشت کس بھاﺅ بک رہا ہے تو کسی عوام نمائندے کو آٹے ، دال، گوشت کو بھاﺅ نہیں معلوم تھا۔یہ ہمارے منتخب نمائندے ہیں۔ جو پاکستان کے عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچے ہیں، جو ہمارے لئے بجٹ کی منظوری دیتے ہیں۔جو عوام کا غم کھاتے ہیں۔ ایرکنڈیشن گاڑیوں،دفاتر،گھروں میں رہتے ہیں۔عوام کے ٹیکس سے اپنی مراعات اور الاونس لیتے ہیں۔جہازوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں وقت گزارتے ہیں۔ اس دو سالہ عوامی جمہوری دور میں عوام پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کسی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ حکومت کے دو سال میں مارچ 2008تامارچ 2010،آٹا13 روپے سے بڑھ کر 34 روپے اورچینی21 روپے سے بڑھ کر 67 روپے ،پیٹرول46 روپے71 روپے،موٹرسائیکل32000 روپے سے بڑھ کر62000 روپے،یو ایس ڈالر 60 سے بڑھ کر 83 روپے،کال اور ایس ایم ایس ٹیکس%15 سے بڑھ کر %21 اور لوڈشیڈنگ%30 سے بڑھ کر %150 ہوگئی ہے۔چائے کی پتی (250 گرام کا پیکٹ) 65 روپے سے بڑھ کر 124 روپے کا ہوگیا ہے، مرغی کا گ

آئی ایم ایف کا بجٹ قوم کو مبارک ہو

                              عطا محمد تبسم  عالمی مالیاتی ادارے یا آئی ایم ایف کے ساتھ پچھلے سال جو معاہدہ طے ہوا۔اس معاہدے کے کے مطابق حکومت بجلی، تیل، گندم، گنے اور بعض دیگر اشیا پر دی جانے والی مالی امداد ختم کرنے کی پابند ہے۔ جبکہ سٹاک مارکیٹ پر کیپیٹل گینز ٹیکس سمیت جائیداد کی خرید وفروخت اور مختلف سروسز پر نئے ٹیکس بھی لاگو کرنے ضروری ہیں۔اس صورت حال میں بجٹ پیش کرنا حکومت کے لئے اور بھی مشکل تھا کہ کسی کو پاکستان پر اعتماد نہیں ہے۔ ہمارے اعداد شمار بھی اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ حکومتی افراد پر بھی کسی کو کوئی اعتماد سرے سے نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ قومی بجٹ اور حفیظ شیخ دونوں اسمبلی میں ایک ساتھ آئے۔ٹیکسوں کے نفاذ پر ابھی تک چاروں صوبوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے اس لئے ویٹ کا مسئلہ فی الحال اکتوبر تک لٹکا دیا گیا ہے۔اس نئے ٹیکس کے لگنے کے بعد یہ توقع کرنا کہ اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑے گا محض طفل تسلی ہے۔ اس ٹیکس کا اثر کم و بیش ہر چیز پر پڑے گا اور اسی نسبت سے مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر الیکٹرانکس اور عام گھریلو استعمال کی چیزوں کی ق

میں ان غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں

عطامحمد تبسم ،میں ان غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں،کل صبح تک 1500 لوگ اندر کردیئے جائیںِ، کمرے میں ایک آواز گونجی اور اس کے ساتھ ہی سرخ گاﺅن والی شخصیت پردے کے پیچھے غائب ہوگئی۔انوار الحق نے فوری طور پر 1500کے ہندسے کو 17 پر تقسیم کرنا شروع کردیا، کیونکہ صوبے (مشرقی پاکستان)میںضعلوں کی تعداد سترہ تھی۔ وہ پریشان تھے کہ تقسیم میں باقی بچنے والے چار کے ہندسے کا کیا کریں۔ این ایم خان عقدے وا کرنے کے ماہر تھے۔ بولے میمن سنگھ بڑا ضلع ہے، وہاں سے چار لوگ اور پکڑ لو۔ اگلی صبح تک 1500 سو لوگ گرفتار کئے جاچکے تھے۔ان قسمت کے ماروں میں رکشا کھینچنے والے، محنت کش،بے گناہ مسافر، غریب خوانچے والے اور بے یارومددگار راہ گیر سب شامل تھے۔ تین ماہ سے کم عرصے میں مشرقی بنگال کو تسخیر کرنے کے بعد اسکندر مرزا کراچی واپس چلے گئے۔ مئی 1954 کا یہ واقعہ الطاف گوہر نے ،،ایوب خان فوجی راج کے پہلے دس سال ،، نامی کتاب میں اسکندر مرزا کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ سرخ گاﺅن والے اسکندر مرزا تھے۔ جنہوں ۶۵ سال پہلے کسی بھی واقعے کے نتیجے میں پولیس کی کاروائی کے لئے جو رہنمائی کا اصول طے کیا تھا۔ اس پر آج بھی اسی طرح عم

مصلحتوں اور مجرمانہ غفلتوں کا شکار کراچی

عطامحمدتبسم ہم ابھی ایک خونی مہینے سے گزر کر آئے تھے۔مئی کو اگر ماضی میں دیکھا جائے تو یہ کراچی کے شہریوں کے لیے کئی برس سے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ مئی کے مہینے میں یہاں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو ماضی کو بھلا دیتا ہے۔ مئی 2010ءکو ہی لے لیں تو کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں 42 سے زائد بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دو کارکنوں کا قتل ہوا۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے، پارٹی کے ایم این اے عبدالقادر نے اپنے استعفی کا اعلان کردیا۔ جون کو شروع ہوئے ابھی ایک ہی دن خیریت سے گزرا ہے کہ لیاری میں ایک خونی لڑائی چھڑ گئی ہے۔ کراچی میں گروہی ، نسلی،سیاسی،بھتہ مافیا، منشیات فروش،زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی اجارہ داری ہے۔ جس میں عام شہری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ شہر کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت کوئی معمولی سا واقعہ ، یا جھگڑا ایک تصادم کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں حالات خراب ہوجاتے ہیں۔ مسلح افراد کراچی کی گلیوں اور محلوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔اور جب تک حالات پر قابو پایا جاتا ہے۔کئی قیم

پاکستانی صحافیوں کی بے مثال بہادری

عطامحمد تبسم میری طلعت حسین سے ملاقات کلفٹن کے ساحل پر واقع ایک ہوٹل میں اس وقت ہوئی تھی۔ جب وہ ایک صحافتی ورکشاپ میں شریک تھے۔اس ورکشاپ میں بھارت سے آنے والے کئی صحافی موجود تھے۔ خوبصورت، وجہیہ اور انگریزی اردو میں یکساں مہارت رکھنے والے طلعت حسین ان دنوں اسلام آباد میں دی نیوز کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ٹیلی ویژن پر ان کا مقبول پروگرام سویرے سویرے جاری تھا۔ بعد میں پی ٹی وی ورلڈ پر ان کا پروگرام نیوز نائٹ بھی مقبول ہوا۔بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ طلعت حسین نے ہیڈ اینڈ شولڈر کے ایک اشتہار میں ماڈلنگ بھی کی ہے۔وہ پاکستان کے معدوے ان چند صحافیوں میں سے ہیں۔جو نیشنل ڈیفینس کالج، ایر وار کالج، نیول وار کالج، پاکستان فارن سروس ٹرینگ اکیڈمی اور قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے بلائے جاتے ہیں۔ وہ سی این این، لاس اینجلس ٹائمز، گارجین، نیویارک ٹائمز جسے اخبارات میں لکھتے ہیں۔ یوں انھیں عالمی شہرت حاصل ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ان کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔ جن میں لائیو وتھ طلعت ان کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ پیر کے دن جب اسرائیل نے غزہ کے محصور اور مظلوم باشندوں کو امدادی سامان لے جانے والے قافلے پ