ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک تازہ لہر

عطا محمد تبسم
کراچی میں ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک تازہ لہر آئی ہے۔گزشتہ ایک ہفتے میں شہر میں چار ڈاکٹر ہلاک کردئیے گئے ہیں۔ اس ایک ماہ میں تقریبا آٹھ ڈاکٹر ہلاک کئے جاچکے ہیں۔حیدرآباد میں گزشتہ ہفتے پروفیسر ڈاکٹر اسلم میمن کو دن دھاڑے اغوا کیا گیا۔ جو تا حال لاپتہ ہیں۔انھیں تاوان کے لئے اغوا کیا گیا ہے۔پشاور میں ڈاکٹرز کا اغوا اب باقاعدہ کاروبار ہے۔ اور بڑی تعداد ایسے ڈاکٹروں کی ہے جو اس ہولناک تجربے سے گزر چکے ہیں۔ پاکستان میں آبادی کے تناسب سے دو ہزار تین سو افراد پر ایک ڈاکٹر کی سہولت ہے۔ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر حکومت کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔حالات میں جب بھی ایسی بے یقینی کی فضا ہوتی ہے۔ ملک سے برین ڈرین ( ذہین افراد کا ملک سے چلے جانے )کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس ایک ماہ میں سندھ سے تین سو ڈاکٹر اور پنجاب سے بارہ سو ڈاکٹر ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔کوئٹہ کے حالات بھی خراب ہیں ۔ جہاں ایک ماہ میں سات ڈاکٹر قتل کردئیے گئے۔اندرون سندھ کی صورت حال بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔جمعہ کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے کراچی میں ڈاکٹروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت سوز قرار دیا ۔ اورنگی ٹاو ¿ن میں ایک ڈاکٹر کو پیر کی شام دو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ چالیس سالہ ڈاکٹر بابر عبدالمنان کو زخمی حالت میں عباسی شہید ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔ بدھ دو جون کو ایک پچاس سالہ ڈاکٹر جنید شاکر کو نیو کراچی کے سیکٹر ای میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شاکر اپنی نجی کلینک سے موٹر سائیکل پر گھر جا رہے تھے کہ بارش اور لوڈشیڈنگ کے دوران نامعلوم افراد نے انہیں ہلاک کر دیا اور جمعرات کے روز صبح ڈاکٹر حسن رضا کو جب وہ نیشنل میڈیکل سینٹر سے اپنی ڈیوٹی ختم کرکے نکلے تھے قتل کیا گیا۔جمعہ چار جون کو کراچی میں کالا پل کے قریب پنتیس سالہ ڈاکٹر حسن حیدر بخاری کو گولیاں مارک ہلاک کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ نیشنل میڈیکل سینٹر سے اپنی رات کی ڈیوٹی ختم کرکے گھر واپس پہنچے تھے کہ انہیں نامعلوم کار سواروں نے ہلاک کر دیا۔ ان کو تین گولیاں سر میں ماری گئی تھیں۔ کراچی سے ملحقہ بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں ہفتے کی شب نا معلوم ملزمان نے ساکران روڈ پر واقع ماروی کلینک کے مالک ڈاکٹر مدن لعل ولد رام چند کو موبائل فون چھیننے کے دوران مزاحمت کرنے پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ مقتول کافی عرصے سے حب کے ساکران روڈ پر ماروی کلینک چلاتا تھا۔ادھر جیکب آباد کے ڈاکٹر ڈاکٹرامرکھتری کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے سول اسپتال سے شہرکے مختلف راستوں سے مارچ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اعجازجکھرانی کی رہائش گاہ کے سامنے پہنچ کر دھرنا دے کر روڈ بلاک کی ۔ دوسری جانب پی ایم اے جیکب آباد کے ایک وفد نے ڈاکٹر اے جی انصاری اور ڈاٹرگل محمد برڑو کی قیادت میں وفاقی وزیر جسٹس ریٹائرڈ عبدالرزاق تھہیم سے ملاقات کی اورانہیں ڈاکٹرکے قتل سے متعلق معلومات سے آگاہ کیا۔ ان ہی دنوں میںسانگھڑ میں ایک ڈاکٹر کو بھی قتل کیا گیا۔ اس حوالے سے میں نے پی ایم اے کے مرکزی صدر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن سومرو سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان وارداتوں نے ڈاکٹر کمیونٹی میں بے چینی پیدا کردی ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ڈاکٹروں کے خلاف پھر وہی مہم چلائی جا رہی ہے جو 2000ء کی دہائی کے آغاز میں شروع کی گئی تھی۔ انہوں نے ڈاکٹروں کے خلاف حالیہ مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان واقعات کو نہ روکا گیا تو خدشہ ہے کہ ایک بار پھر ڈاکٹر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سی سی پی او وسیم صاحب اور ان کے ساتھ دیگر پویس اہلکار آئے تھے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پولیس کو الرٹ کریں گے۔جب کہ۔ پولیس نے تمام ڈاکٹروں کے قتل کے مقدمات نامعلوم افراد کے خلاف درج کیے ہیں اور تاحال کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ ایک ڈاکٹر اپنے مریض کا علاج ،کسی مذہبی،گروہی، لسانی،علاقائی،تعصب سے بالا تر ہوکر کرتا ہے۔ اس کے کام کے اوقات ایسے ہیں کہ وہ آسانی سے ٹارگٹ بن جاتا ہے۔ یہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک سازش ہے۔ جس کا پورے معاشرے کو مل کر مقابلہ کرنا چاہیئے۔اگر کل ڈاکٹر نہ ہوگا تو آپ کس سے علاج کرائیں گے۔ ذرا اس پر ٹھنڈے دل سے سوچیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل