موزے،برساتی کوٹ، سیل فون کی حفاظت کرنی چاہیئے۔
عطا محمد تبسم
دو دن پہلے پریس کلب میں میرے ایک دوست کے پاس امریکہ سے فہد ہاشمی کے والد کا فون آیا۔ طویل گفتگو کے بعد میرے دوست نے بتایا کہ ہاشمی صاحب کراچی میں رہتے تھے ۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ جنہں1980میں دو ڈھائی سال کی عمر میں پاکستان سے امریکہ لے گئے تھے۔ ان بچوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ، ان کی اردو بھی واجبی سے ہے۔ ان میں چھوٹا بیٹا فہد ہاشمی ہے۔فہد ہاشمی نیویارک کے علاقے کوئینز میں پلے بڑھے۔ انہوںنے بروکلین کالج سے 2003 میں پولیٹیکل سائنس کی ڈگری لی۔اور پھر انٹرنیشنل ریلیشنز میں لندن کی میٹرو پولیٹن یونیورسٹی سے 2006 میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ نائین ایلیون کے بعد امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف جو ظالمانہ پالیسی اختیار کی۔ اس پر امریکیوں نے بھی احتجاج کیا۔ فہد ہاشمی بھی امریکی پالیسوں اور مسلمانوں کے خلاف امریکی امتیازی رویہ پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتا تھا۔ امریکی معاشرہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ لیکن فہد کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ فہد ہاشمی ایک ذہین اور پڑھنے لکھنے والا طالب علم تھا۔دوران طالب عالمی اس کا تعارف ’المہاجرون‘ نامی تنظیم سے ہوا۔اس کی لمبی ڈارھی اور اسلام اور مسلمانوں کے لئے اس کی ہمدردی اور امریکہ کے مسلمانوں کے خلاف اقدامات نے اسے امریکی پالیسوں سے اختلاف کا راستہ دکھایا۔ لیکن وہ امریکی شہری تھا۔ قانون کی پاسداری کو مقدم رکھتا تھا۔ اس لئے وہ کسی خلاف قانون کام میں ملوث نہیں ہوا،لیکن امریکی انیٹیلیجنس اور ایف بی آئی اس کے پیچھے لگی رہی۔ چھہ جون کو اسے ہیتھرو ایئر پورٹ سے گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر القاعدہ سے رابطے، فوجی ساز وسامان اور رقم کی فراہمی کا الزام لگایا گیا۔ جب وکیل نے فوجی امداد کی تفصیلات پوچھی تو یہ موزے اور برساتی کوٹ نکلا۔ امریکیوں کی پوری کوشش تھی کہ فہد کو برطانیہ سے امریکہ لے جایا جائے۔ وہ برطانیہ سے امریکہ کے حوالے کئے جانے والے پہلے فرد ہیں۔ 2007 میں امریکی فہد ہاشمی کو امریکہ لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں اسے اے کیٹیگری سیکورٹی میں تین سال تک 23 گھنٹے قید تنہائی میں رکھا جاتا رہا۔ جب ایک گھنٹے اس کی اہل خانہ سے ملاقات کرائی جاتی تو اس دوران چاروں طرف کیمرے لگے ہوتے۔ اس رویہ نے فہد کو نفسیاتی مریض بنادیا۔ اس کی داستان اس قدر ہولناک تھی کہ اس کی ایک امریکی پروفیسر نے اس پر احتجاج کی مہم شروع کردی۔ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی کیمونٹی میں یہ کیس بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔جو مقدمے سے قبل ہاشمی کی قید کے حالات پر اعتراض کررہے ہیں۔ ہاشمی کو مین ہیٹن کی جیل کی کوٹھری میں لگ بھگ تین سال تک دن کے 23 گھنٹوں کے لیے تنہا رکھا جاتا تھا۔


بروک لین کالج کی سیاسیات کی پروفیسرژاں تھیو ئارس نے ہاشمی کو پڑھایا تھا اور انھوں نے ا ±س کے مقدمے کی تشہر کے لیے ایک مہم منظم کرنے میں بھی مدد کی تھی جس میں مین ہیٹن میں چندہ اکھٹا کرنے کی ایک حالیہ مہم بھی شامل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہاشمی کی قید کے حالات اذیت رسانی کے زمرے میں آتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ اِس قسم کے حالات غیر انسانی ہیں۔ یہ بین الااقوامی معیار کے منافی ہیں۔ یہ لوگوں کی اہلیت پراور مسٹر ہاشمی کی جانب سے خود اپنا دفاع کرنے کی اہلیت پر ایک غیر مناسب سودے بازی کے مترادف ہے۔اور سچی بات یہ ہے کہ یہ غیر امریکی رویہ ہے۔ جیل کے باہر فہد ہاشمی کے حمایتیوں کا طویل عرصے تک باقاعدگی سے احتجاج بھی جاری رہا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ ہاشمی کو قانونی کارروائی سے پہلے ہی اذیتناک حراست میں رکھا گیا ہے۔ لیکن امریکی اپنے اس خلاف قانوں رویہ پر شرمندہ نہیں ہیں۔ وہ اسے معمول کی کاروائی قرار دیتے ہیں۔پاکستانی نژاد امریکی شہری سید فہد ہاشمی کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے جرم میں بدھ کو نیو یارک کی ایک عدالت نے پندرہ سال قید، اوررہا ہو کرمزید تین سال نگرانی میں گزارنے کی سزا سنا ئی۔ڈاکٹر عافیہ کی طرح یہ کیس بھی مسلمان نوجوانوں کو یہ باور کرانے کے لئے ہے کہ وہ اپنے دل سے جذبہ جہاد کو نکال پھینکیں۔ ورنہ انھیں دنیا میں عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔ امریکیوں نے مسلمانو پر تشدد کے جو نئے انداز پنائے ہیں۔ ان پر امریکی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شرمندہ ہیں۔ اور مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ قیدیوں کو طویل عرصے قید تنہائی میں رکھ کر انہیں نفسیاتی مریض بنادیا جاتا ہے۔ پھر ایسے ٹاﺅٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ جو قیدیوں کی ہمدری حاصل کرتے ہیں۔ اور انھیں عدالت میں اعتراف جرم اور ہلکی سزا سنانے کے لئے ہموار کرتے ہیں۔ فہد ہاشمی پر بھی یہی نسخہ آزمایا گیا۔ جج نے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم اعتراف کرتے ہو۔ تو اس نے کہا الحمدولللہ۔ جی ہاں ۔ پھر اس کا جرم بھی کیا ہے ، ایسے مقدمات تو پاکستانی پولیس بھی بناتی رہی ہے، چوہدری ظہور الہی پر بھینس کی چوری سے مشابہ اس مقدمے میں موزے، برساتی کوٹ، سیل فون کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کو اپے موزے،برساتی کوٹ، سیل فون کی حفاظت کرنی چاہیئے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل