آٹے دال کا بھاﺅ

عطا محمد تبسم
بجٹ اجلاس میں شرکت کرنے والے عوامی نمائندوں سے ایک ٹی وی اینکر پرشن نے یہ سوال کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آٹے کی فی کلو قیمت کیا ہے۔ یا دال کی قیمت فی کلو کیا ہے،یا گوشت کس بھاﺅ بک رہا ہے تو کسی عوام نمائندے کو آٹے ، دال، گوشت کو بھاﺅ نہیں معلوم تھا۔یہ ہمارے منتخب نمائندے ہیں۔ جو پاکستان کے عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچے ہیں، جو ہمارے لئے بجٹ کی منظوری دیتے ہیں۔جو عوام کا غم کھاتے ہیں۔ ایرکنڈیشن گاڑیوں،دفاتر،گھروں میں رہتے ہیں۔عوام کے ٹیکس سے اپنی مراعات اور الاونس لیتے ہیں۔جہازوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں وقت گزارتے ہیں۔ اس دو سالہ عوامی جمہوری دور میں عوام پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کسی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ حکومت کے دو سال میں مارچ 2008تامارچ 2010،آٹا13 روپے سے بڑھ کر 34 روپے اورچینی21 روپے سے بڑھ کر 67 روپے ،پیٹرول46 روپے71 روپے،موٹرسائیکل32000 روپے سے بڑھ کر62000 روپے،یو ایس ڈالر 60 سے بڑھ کر 83 روپے،کال اور ایس ایم ایس ٹیکس%15 سے بڑھ کر %21 اور لوڈشیڈنگ%30 سے بڑھ کر %150 ہوگئی ہے۔چائے کی پتی (250 گرام کا پیکٹ) 65 روپے سے بڑھ کر 124 روپے کا ہوگیا ہے، مرغی کا گوشت 71 روپے سے بڑھ کر 116 روپے ہوگیا ہے۔( یاد رہے کہ یہ اعداد شمار مارچ تک کے ہیں۔ تین ماہ میں ان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔) روزمرہ کی کے استعمال کی ہر چیز، سبزیاں اور پھل، بجلی اور قدرتی گیس کے نرخ، پٹرولیم مصنوعات ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔ کراچی کے عوام پر کے ایس سی کی صورت میں جو قہر نازل ہورہا ہے۔ اس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ تازہ ترین یہ ہے کہ کے ای ایس سی کو کراچی کے عوام سے چار ارب چونتیس کروڑ پچاسی لاکھ روپے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اور سات ماہ میں کے ای ایس سی کراچی کے عوام سے پانچ روپے بائیس پیسے فی یونٹ کے حساب سے اضافی بل وصول کرے گی۔نیپرا جس نے کے ای ایس سی کے اعداد شمار کوماننے سے انکار کیا تھا، اب صارفین کے حقوق سے زیادہ کے ای ایس سی کے مفادات کی پاسبانی کررہی ہے۔ کراچی کی سیاسی ، سماجی، عوامی تنظیموں کو اس ناانصافی پر اپنی آواز بلند کرنی چاہئے۔کے ای ایس سی نے اپنا یہ ہرجانے کا دعوی مقررہ مدت میں پیش نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی اسے دو ارب روپے کا فائدہ اس ایک فیصلے سے پہنچایا جارہا ہے۔ اس کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں۔ جو ڈوریاں ہلا رہی ہیں۔ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ کے ای ایس سی کی ملکیت میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ دوسری جانب کے ای ایس سی کے ذریعے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔، بجلی کے موجودہ نرخ 3.91 روپے ہیںجو ۰۵ یونٹ والے صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں۔ 100 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین اور کمرشل اور صنعتی صارفین کیلئے نرخوں میں عام صارف کے مقابلے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ گھریلو صارفین جو 101 سے 300 یونٹس کے درمیان بجلی استعمال کرتے ہیں ان کیلئے نرخ 4.96 روپے فی یونٹ (علاوہ ٹیکس) ہے، جو 301 سے 700 یونٹ استعمال کرتے ہیں ان کیلئے نرخ 8.03روپے فی یونٹ ہے جبکہ 700 یونٹس سے زائد استعمال کرنے والوں کیلئے نرخ 10 روپے فی یونٹ (ٹیکس کے بغیر) ہے۔ کمرشل صارفین کیلئے بجلی کے نرخ فروری 2008ء میں 9.53 روپے فی یونٹ (بشمول ٹیکس) ہوا کرتے تھے جبکہ اب یہ قیمت 14.93 روپے فی یونٹ (بشمول ٹیکس) تک جا پہنچی ہے۔ یہی صورتحال گیس کی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ایل پی جی کی قیمتیں 817 روپے فی سلنڈر سے بڑھ کر 1092 فی سلنڈر ہوگئیں یعنی 270 روپے فی سلنڈر۔، ڈیزل 37.86 سے 69.27 فی لٹر اور مٹی کا تیل 42 سے 72 روپے فی لٹر تک پہنچ چکا ہے۔ وہ غریب جو ایل پی جی نہیں خرید سکتے، جن کے پاس قدرتی گیس نہیں ہے اور لکڑی استعمال کرتے ہیں ان کیلئے لکڑی کی قیمتیں 230 روپے فی 40 کلوگرام سے بڑھ کر 302 روپے ہوگئی ہےگزشتہ 2 برس کے دوران ہوشربا مہنگائی کے نتیجے میں تقریباً ہر شہری کی زندگی اس سطح سے 50 فیصد زیادہ مہنگی ہوگئی ہے جتنی یہ فروری - مارچ 2008ء میں ہوا کرتی تھی۔ جب موجودہ حکومت نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ ایک طرف ملک کی اقتصادی حالت خراب ہوگئی ہے تو دوسری طرف کرپشن میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ گڈگورننس دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ عام شہری کی زندگی بد سے بدتر ہوچکی ہے؛ ملک کے تاجر طبقے تباہ حال ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ صنعتی یونٹ بند ہورہے ہیں۔ اسٹاک ایکسچیج کی صورتحال یہ ہے کہ ایک سال میں تین چار کمپنیاں لسٹیڈ ہوئی ہیں۔ حکومت کا سینسٹو پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ فروری 2008ء میں 173 تھا جو جنوری 2010ء میں بڑھ کر 254 تک پہنچ چکا ہے؛ روز مرہ کے استعمال کی کئی اشیاء کی قیمتوں میں 250 سے 300 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عوامی اجتماعات میں روٹی، کپڑا اور مکان کے وعدے کرنے والے حکمرانوں نے فروری 2008ء سے حقیقتاً انہیں بے مثال مہنگائی دی ہے۔ہم ایک بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اور مستقبل میں بھی کوئی امید نظر نہیں آتی۔جب تک عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کے فضا قائم نہیں ہوگی،یہ صورتحال مزید بگڑتی جائے گی۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ سنگین حالات کو محسوس کرے۔ اور عالمی اداروں کے عوام دشمن معاہدوں سے الگ ہوکر عوام کی سہولت کے اقدامات کرے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک اور چراغ گل ہوا

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔