اشاعتیں

جولائی, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
ساری امیدیں ختم ہوئیں۔۔۔۔۔۔ عطا محمد تبسم زندگی کے راستے کتنے کھٹن اور جاں لیوا ہیں۔دشت کی آبلہ پائی میں زخم روح کے ناسور بن جاتے ہیں۔ ایک امید کا سہارا تھا کہ کچھ جانیں بچ جائیں گی۔ لیکن رات گئے کائرہ صاحب کی پریس کانفرینس نے یہ امید بھی ختم کردی۔ جائے حادثہ کے مناظر ہولناک تھے۔ حادثے کے بعد سوائے آگ راکھ ، جسموں کے ٹکڑے، کے کچھ بھی نہ بچا۔انسان فانی ہے۔ موت کے سو بہانے ہوتے ہیں۔مر نے والے مر جاتے ہیں۔ اور جانے والوں کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ نہ جانے آج کیوں مجھے جولائی ۴۷۹۱ یاد آ رہا ہے۔ سٹی کالج حیدرآباد اسلام آباد میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافروں میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔آج جانے کیوں مجھے چھ جولائی ۴۷۹۱ یاد آرہی ہے۔ وہ بھی ایک ایسا ہی اجتماعی سانحہ تھا۔ سٹی کالج حیدرآباد کے طلبہ سالانہ ٹور پر مری گئے تھے۔ جہاں ان کی بس نتھیا گلی سے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گر گئی تھی۔ ۴۵ نوجواں طالب علم اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔تین دن تک ہم حیدرآباد کی سڑکوںاور گلیوں میں گھومتے رہے، رات کو نیند ن