قیوم جتوئی کس کی زبان بول رہے ہیں۔


میاں نواز شریف کے دور میں جس دن چن زیب نے وزیر اعظم کی رہائش گا ہ کے باہر خودکشی کے لئے اپنے آپ کو آگ لاگا لی تھی۔ اسی دن سے میاں صاحب کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ اب جب سے ایک اور مفلوک الحال بے روز گار شخص نے سید زادے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر خود سوزی کی ہے۔ میں ڈر رہا ہوں کہ موجودہ حکومت کے دن بھی پورے ہوگئے ہیں۔ جانے والے اپنی حماقتوں سے جاتے ہیں، اور ان کے کرتوت ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں رات دن بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ محاذ آرائی کون کررہا ہے اور نئے محاذ کون کھول رہا ہے۔ سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہوش و حواس سے بیگانے ہوکر ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں ۔ جو بدنامی ہی کا سبب نہیں بنتی بلکہ منڈیٹ کا بھی جنازہ نکال دیتی ہیں، پیپلزپارٹی کی قیادت میں وفاقی حکومت کی عدلیہ سے محاذ آرائی کے بعد سیاسی تبدیلی کی باتیں زوروں پر ہیں،حکومت کا کیا بنتا ہے، یہ سب کو سامنے نظر آ رہا ہے۔ سابق وفاقی وزیر مملکت برائے دفاعی پیدوار عبدالقیوم جتوئی سے پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف اور کرپشن کے حق میں جن ارشادات عالیہ کا اظہار کیا ہے، وہ ایک فرد کی رائے نہیں بلکہ اس طبقہ اشرافیہ کے مجموعی کردار کی زبان ہے، استعفیٰ لینے سے نہ تو اس خیال کی نفی ہوتی ہے۔ اور نہ ہی کہنے والوں کو اس پر شر مندگی ہے۔ قیوم جتوئی تو اس وقت بھی شرمسار نہیں ہوئے تھے، جب اسلام آباد میں وہ ایک قبحہ خانے سے رسیوں میں جکھڑے ہوئے پولیس کی وین میں ڈالے جارہے تھے۔ سیلاب میں گھرے ہوئے مظفر گڑھ سے جو شاہکار جمہوریت برآمد ہوئے ہیں۔ ان میں حنا ربانی کھر ، جمشید دستی، اور قیوم جتوئی ہیں، جو ہزار بار بھی جعلی ڈگری، جعل سازی، فحاشی کریں تو اسی طرح عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہوتے رہیں گے۔پاکستان میں اب یہی کلچر ہے جس کا فروغ کیا جارہا ہے۔ عبدالقیوم جتوئی نے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں نیوز کانفرنس میں پاک فوج اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف جس گل افشانی کا مظاہرہ کیا ہے، پورے ملک میں اسی کلچر کو پیدا کیا جارہا ہے۔ سر شام اقتدار کے ایوانوں میں جو میکدے سجتے ہیں۔ ان سے رخصت ہونے کو کس کافر کا دل چاہے گا۔ یہ ترپ کے پتے ہیں جو ایک ایک کرکے استعمال کئے جارہے ہیں، مسٹر جتوئی اسلام آباد میں وزیر اعظم گیلانی سے ملاقات میں انہیں مطمئن کرنے میں ناکام نہیں رہے بلکہ ان کی اس اداکاری کو سراہا گیا ہے کہ ان کو جو اسکرپٹ پڑھنے کو دیا گیا تھا انھوں نے اس کو کمال مہارت سے پڑھا ہی نہیں بلکہ جن حلقوں تک بات پہنچانی مقصود تھی ۔ اور جن کو مطعون کرنا تھا، وہ کام کمال خوبی سے انجام پایا۔سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی جماعت کے اہم رکن اور وزیر مملکت نے ملک کے دو اہم اداروں کے خلاف جو اظہار کیا گیا ہے۔اب اس پر ڈبیٹ ہورہی ہے، کہا جارہا ہے کہ اس میں غلط کیا ہے۔ اس وقت ملک کو لوٹنے اور کھوکھلا کر نے والا گروہ ڈھٹائی پر تلہ ہوا ہے۔ قوم پرستی کی بنیاد پر اب برائیاں بھی اچھائیا ں بناکر پیش کی جارہی ہیں۔ ''کرپشن کو مساوات کا درجہ دے دینا چاہیے، سندھی، پشتون، بلوچ، سرائیکی اور پنجابیوں کو مشترکہ طور پر کرپشن میں حصہ دینا چاہیے''۔ پاکستان کے چاروں صوبوں اور جنوبی پنجاب کو کیا اسی لئے الگ الگ بولی کی بنا پر اپنی ایک الگ پہچان کرا ئی جارہی ہے۔ پاک فوج ،عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف جو توہین آمیز الفاظ استعمال کیے گئے اور پوری دنیا پر میڈیا پر یہ بات سامنے آئی۔ اس کا ذمہ دار ایک فرد نہیں حکومت ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس کی ذات کو کیوں نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب عدالت عالیہ میں اٹھارویں ترمیم اور این آر او پر اہم فیصلے ہونے ہیں۔ چیف پر ایک وفاقی وزیر کی جانب سے جعلی ڈومی سائل کا الزام کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جب کہ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ چیف جسٹس اپنے بچپن ہی سے کوئٹہ میں مقیم چلے آ رہے ہیں۔ مشرف نے جو کچھ کیا اس کو ،،ہم پاک آرمی کو اس لیے وردی اور بوٹ مہیا نہیں کرتے کہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کو قتل کرتی پھرے''۔ کا الزام دے کر پوری فوج کو بدنام کرنا بھی ایک سازش ہے۔ اب قیوم جتوئی یہ کہ دینا کہ انہوں نے پاک فوج اور چیف جسٹس کے خلاف بیان اپنی ذاتی حیثیت میں دیا تھا اور ان کا مقصد کسی ادارے پر تنقید کرنا ہرگز نہیں تھا۔ ایک فیس سیونگ والی بات ہے۔ وہ میڈیا سے خطابت کے جوش میں یہ بھول گئے تھے کہ وہ وفاقی وزیر بھی ہیں لیکن ان کے بیان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی عہدے داروں میں حکمران جماعت کی قیادت کی بدعنوانیوں کو طشت ازبام کرنے اور خاص طور پر صدرآصف علی زرداری کے خلاف ماضی کے ادوار کی مبینہ کرپشن کے کیس دوبارہ کھولنے پر اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سخت غصہ پایا جا رہا ہے اور اب وہ کرپشن ہی کو جائز قرار دینے کے مطالبے کرنے لگے ہیں۔دیکھئے اب اور کونسا نیا مطالبہ جمہوریت کے ایوانوں سے سامنے آتا ہے۔

تبصرے

  1. اچھا تجزیہ ہے
    جناب آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ فونٹ کا کچھ کریں، پڑھنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک اور چراغ گل ہوا

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔