دھرنا سیاست۔ کیا ملک کی تقدیر بدل دے گی ؟

عطا محمد تبسم

دنیا کی تاریخ میں انسان اپنے عمل سے ہر تبدیلی لا سکتا ہے۔ اور تبدیلی کے لئے عوام اپنے گھروں سے نکل پڑیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انھیں اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے التحریر سکوائر پر اٹھارہ دن تک دھرنا دینے والے خمیہ زن احتجاجی مظاہرین کا جذبہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اپنے مطالبات میں جس نظم و ضبط سے یہ اٹھارہ دن گزرے وہ دیدنی تھے۔ مصری عوام دیوانہ وار جھوم جھوم کر مصر کے پرچم کو ہوا میں لہرا تے تھے۔ التحریر سکوائر، مزاحمتی تحریک میں تاریخ کا حصہ بن گیا۔ آج سا ری دنیا میں عوام احتجاج کے لئے پرامن انداز میں اپنے مطالبات کے حق کے لئے دھرنے دیتے ہیں۔ عرب دنیا میں عوام اپنے آمر حکمرانوں سے نبرد آزما ہے۔ پاکستان کے عوام نے بھی ایک آمر کو رخصت کرنسے کے لئے وکلاءاور سول سوسائٹی کے ساتھ جو بےمثال تحریک چلائی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

دنیا میں دھرنا سیاست یا احتجاج شمالی امریکہ سے شروع ہوا۔ جہاں گوروں کے مقابلے میں کالوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ انکے اسکول کالج کیفے ریستورانت،بسیں سب الگ تھیں۔ فروری 1961 میں نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے چا کالے طالب علم ایک مشہور زمانہ اسٹور میں داخل ہوئے اور سامان خریدنے کے بعد ایک لنچ کاونٹر پر جاکر بیٹھ گئے جو صرف گوروں کے لئے مخصوص تھا ۔ انھوں نے کافی کا آڈر دیا۔ انتظامیہ نے انھیں سرو کرنے سے انکار کردیا۔ یہ طلبہ یہاں بیٹھے رہے۔ یہاں تک کے اسٹور کے بند ہونے کا وقت ہوگیا۔

دوسرے دن اسٹور کھلنے پر یہ طلبہ پھر آگئے اس بار ان کی تعداد دو درجن سے زائد تھی۔ انھوں نے کاونٹر پر کھانے کا آرڈر دیا۔ انتظامیہ نے انھیں اس دن بھی سرو کرنے سے انکار کر دیا۔لیکن اس کے باوجود یہ طلبہ وہاں بیٹھے رہے۔ یہ خبریں مقامی اخٰبارات میں شائع ہوئی تو اگلے دن اس دھرنے میں مزید اضافہ ہوگیا۔یہاں تک کہ اسٹور والوں کے لئے کاروبار کرنا ممکن نہ رہا۔ 6 فروری کے دن جب اسٹور کے اندر اور باہر بہت بڑا مجمع تھا تو ایک فون کال آئی جس میں کہا گیا تھا کہ اسٹور میں بم رکھا ہے جس کے بعد تما ہجوم منتشر ہوگیا۔ دو ماہ تک اسٹور بند رہے لیکن جب اسٹور کھلا تو احتجاج اور دھرنا دوبارہ شروع ہوگیا۔ اور گورے بھی کالوں کی حمایت میں آگئے۔ اس دھرنے کے نتیجے میں پورے امریکہ میں کالوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خلاف ایک ملک گیر تحریک برپا ہوئی۔ اور یہ قوانین تبدیل ہوئے۔



دھرنا سیاست پاکستان میں اب اتنی مقبول ہوگئی ہے کہ گھروں میں بچے بھی اپنی فرمایش پوری نہ ہونے پر دھرنے کی دھمکی دینے لگے ہیں۔ دھرنا پاکستان کی جدید تاریخ میں جماعت اسلامی بلکہ صحیح لفظوں میں قاضی حسین احمد صاحب نے متعارف کرا یا۔ قاضی کے دھرنے نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ انھوں نے ملک کی سیاست کا رخ بھی موڑا۔ قاضی حسین احمد صاحب کی قیادت میں سب سے مشہور دھرنا اسلام آباد میں بے نظیر حکومت میں دیا تھا۔ جس میں جماعت اسلامی کے چار کارکنوں کی شہادت ہوئی ۔ خود قاضی صاحب بھی حکومتی تشدد کا شکار ہوئے۔ اس کے نتیجے میںبے نظیر صاحبہ کی حکومت تو ختم ہو گئی لیکن کھیر نواز شریف کے ہاتھ آئی اور نوازشریف صاحب وزیر اعظم بن گئے۔ قاضی حسین احمد اپنے دونوں ادوار میں اس احتجاجی سیاست کا حصہ بنے رہے۔ اور انھوں نے ایم ایم اے کا اتحاد بناکر سیاسی طور پر کامیابی بھی حاصل کی ۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سید منور حسن کا مزاج قاضی صاحب جیسا تو نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنے موقف کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے آنے کے بعد جماعت کے ریلی ، لانگ مارچ ، ملین مارچ،اور دھرنوں میں کمی آئی ہے۔ 5 دسمبر 2010 کو جماعت اسلامی نے پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد کے سامنے چھ گھنٹے تک دھرنا دیا تھا ، اس موقع پر کارکنوں میں خشک چنے کے پیکٹ تقسیم کئے گئے۔ اسلام آباد پولیس نے ریڈ زون کو مکمل طور پر سیل کردیا تھا۔ دھرنا کے پنڈال کے چاروں طرف خاردار تاریں لگادیں۔ شرکاءکو واک تھرو گیٹ سے گزارا گیا تھا اورپولیس کی بھاری نفری دھرنا کے پنڈال کے اردگرد حفاظتی فرائض انجام دیتی رہی جماعت کا یہ ایک پرامن دھرنا تھا ۔سید منور حسن نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے قبل حکومت کے خلاف 25فروری کو مزنگ چوک میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ ان کی تما م جہدوجہد کا مرکز پاک امریکا تعلقات کے خاتمے اور امریکہ اور آئی ایم ایف کی غلامی سے بھی نجات کے لئے ہے۔

اب ہمارے یہاں دھرنا سیاست مقبولیت کا درجہ اختیار کر گئی ہے۔اس لئے ہر طرف دھرنا دھرنا نظر آتا ہے۔ اس دھرنے میں بھی عوام ہی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاہراہیں بند ہوجانے سے مسافر پریشان ہوتے ہیں۔ اور بھوک پیاس اور دیگر مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ کراچی اور سندھ ان دھرنوں کا خصوصی مرکز ہیں۔گذشتہ دنوں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی طرف سے دو بار قومی شاہراہ پر دھرنا دیا گیا ۔ جس میں ق لیگ کی ممبر قومی اسمبلی ماروی میمن، مختلف سیاسی و سماجی رہنماوں ،لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت 700 افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ میہڑ میں بیج، کھاد، راشن اور خیمے نہ ملنے کے خلاف 20 سے زائد دیہات کے سیکڑوں سیلاب متاثرین نے قومی شاہراہ کے مختلف مقامات پر 3 گھنٹے دھرنا دیا، شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور اور زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے ملازمین نے ریٹائرڈ افسران کو ہٹانے اور دیگر مطالبات کے حق میں ہڑتال کی اور وائس چانسلر آفس کے سامنے دھرنا دیا۔ جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کے بیہمانہ قتل پر کراچی، لاہور،پشاور، راولپنڈی کوئٹہ اور اندرون سندھ سمیت ملک بھر میں صحافیوں نے یوم سیاہ مناتے ہوئے دھرنے دیئے ۔ جئے سندھ محاذ کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے حیدرآباد میں گل سینٹر سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی اور دھرنا دیا گیا۔ ‘ مرکزی جمعیت علماء پاکستان حیدرآباد کی جانب سے مہنگائی کے خلاف پریس کلب حیدرآباد پر احتجاجی دھرنا دیا گیا تھا۔ دھرنا سیاسی جماعتوں ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقا ت میں مقبول ہے۔ کچھ عرصہ قبل فنڈز کے اجراء کے حوالے سے سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز اور وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ کے درمیان ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے تو وزیر خزانہ نے نئی اسکالرشپس بندکرنے اور سرکاری جامعات کو فنڈز دینے سے انکار کردیا اس موقع پر وائس چانسلرز کی کمیٹی نے حکومت کو دھمکی دی کہ اگر فنڈز کا اجراءبند ہوا تو تمام سرکاری جامعات کو تالے لگا کر شاہراہ دستور پر دھرنا دیا جائے گا۔ صحافی اور میڈیا والے بھی اب اپنے مطالبات کے لئے دھرنا دیتے ہیں۔ ان کے خلاف معاشرے کے بااثر طبقات اور سیاسی جماعتیں بھی دھرنا سیاست کرتی ہیں۔ جیو اور جنگ کے خلاف بھی ایک ایسا دھرنا دیا گیا جس میں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی تھی۔ ٹیلیویژن چینلز کے مالکان کی تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے جیو نیٹ ورک کے دفتر اور صحافیوں کو ہراساں کرنے پر سخت مذمت کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ جیو کے دفتر کے سامنے دھرنے میں شامل سیاسی جماعت کے عہدیداروں کی باز پرس کی جائے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں۔پاکستان کے شورش زدہ علاقے مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی سندھ آمد کے خلاف سندھی قوم پرست جماعتوں نے پنجاب سندھ سرحد کے قریب دھرنا دیا تھا ۔ دھرنے کی قیادت سندھ ترقی پسند پارٹی کے رہنمائ ڈاکٹر قادر مگسی نے کی تھی۔

کراچی کے عوام ان دنوں ایک طرف تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے گزر رہے ہیں تو دوسری جانب بجلی اور پانی کے لئے بلبلاتے عوام کے دھرنے ہیں جو شہر کی کسی بھی شاہراہ پر کسی وقت بھی ہوسکتے ہیں۔ کراچی کے عوام نے جمہوریت کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ وہ قومی ، علاقائی، لسانی، مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے ان دھرنوں میں حصہ لیتے ہیں اور ا نھیں کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور ججوں کی بحالی کا وعدہ پورا نہ ہوا تو سب سے پہلے 28 اگست 2008 کو کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر وکلاءکی جانب سے دو گھنٹے کا دھرنا دیا گیا ۔ صدر آصف زرداری کے خلاف ملک میں ہونے والا یہ پہلا دھرنا تھا۔ جس کے بعد تحریک چلی اور ججوں کی بحالی ہوئی۔ کراچی میں یوم عاشور پر بم دھماکے میں ہلاکتوں کے بعد بھی یہاں دھرنا دیا گیا۔ ضیا الحق کے دور میں عشر کے مسئلے پر بھی شعیہ برادری کی جانب سے ایم اے جناح روڈ پر کئی گھنٹو ں کا دھرنا دیا گیا تھا۔



اب کراچی پر ایک بار پھر ساری دنیا کی نظریں ہیں۔ ناٹو فورسسز کی سپلائی لائین کو روکنے کے لئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 21 اور 22 مئی 2011ء کو کراچی میں ڈرون حملے روکنے کے لئے جس دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دھر نے کے اعلان نے حکمرانوں اور عوام کو اضطراب سے دوچار کردیا ہے۔ ڈرون حملے سرحد اور وزیرستان کے علاقے میں ہوتے ہیں۔ احتجاج بھی وہیں ہوتا ہے۔ لیکن کراچی جیسے شہر میں یہ پہلا موقع ہے کہ ان حملوں پر اتنا بڑا قدم اٹھایا جارہا ہے۔ عوام عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔ اور پشاور کے بعد کراچی کے اس دھرنے کو کامیاب بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو آزاد ملک کے طور پر قائم رکھنے کی خواہش رکھنے والا ہرفرد اس دھرنے پر نظریں گاڑھے ہوئے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں بشمول اپوزیشن اور دینی سیاسی جماعتوں کو یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ عمران خان صحیح ر ±خ پر کام کررہے ہیں اور وہ غیرت مندی کا مظاہرہ کررہے ہیںکہ پاکستان کی خودمختاری کی نفی کرنے والے ملک کے خلاف عوامی آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن مسلم لیگ ن عمران خان سے خوش نہیں ہے ۔اس کا اظہار قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار خان کے اس بیان سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے خفیہ ایجنسیوں پر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور دھرنے میں خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں اوروہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کو تمام ثبوت فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں، عمران خان نے پشاور میں ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے کے بعد کم و بیش اپنی دس سالہ سیاسی جدوجہد میں انہیں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر جس انداز سے پذیرائی ملی ہے اس پر وہ نازاں اور مسرور ہی نہیں بلکہ ملک میں بہت جلد تبدیلی لانے کے بارے میں بھی انتہائی پرعزم ہیں۔

دھرنا دینا اور اس میں شرکت کرنے کے حوالے سے مغربی دنیا میں تیاریوں کا سلسلہ کئی مہینوں پر محیظ ہوتا ہے۔ وہ دھرنے کی جگہ، عوام کی ضروریات، ہنگامی حالات اور لوگوں کے تحفظ کے لئے مناسب اقدامات اور تیاریاں کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور عوام بھی ان دھرنوں اور ریلیوں میں فیسٹیول اور میلے ہی کی طرح شرکت کرتے ہیں۔ ایسے دھرنوں میں شرکت سے پہلے لوگوں کو ہدایات دینی چاہیئے کہ وہ اکیلے پولیس کی طرف بڑھنے کی کوشش مت کریں، ٹولیوں کی صورت میں آگے بڑھیں، اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں پوری معلومات رکھیں، ایسے لوگوں کے ساتھ جائیں جو آپکے دوست ہوں یا آپکو اچھی طرح جانتے ہوں اور آپکو کچھ ہونے کی صورت میں آپکی مدد یا خبر رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں– ایسے جوتے پہنیں کہ آپ کو پہننے اور دوڑنے میں آرام دہ ہوں، ایسے کپڑے پہنیں جو آپ کے جسم کو زیادہ سے زیادہ ڈھکے رکھیں اور گیس کو کھال پر لگنے سے بچائیں، اپنے ساتھ پانی اور نمک ضرور رکھیں، پینے کے لئے اور گیس کا شکار ہونے کی صورت میں منہ دھونے کے لئے پانی ضرور ساتھ رکھیں، کوشش کریں کہ دو قمیضیں پہنیں تاکہ بوقت ضرورت اوپر والی شرٹ کو اتار کر اور بھگو کر آنسو گیس کے خلاف استعمال کر سکیں، اپنے ساتھ اپنی شناختی علامات ضرور رکھیں تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں آپ کی شناخت ہو سکے،اتنے پیسے ضرور ساتھ رکھیں کہ اپنے ساتھ دو تین لوگوں کے کھانے پینے اور فون کا خرچہ پورا کر سکیں، گھڑی ، کیمرہ ، کاغذ پینسل ہمراہ رکھیں تاکہ اہم معلومات کو ریکارڈ کر سکیں ، اگر آپ سانس، شوگر یا کسی اور مرض میں مبتلا ہیں تو انہیلر ،انسولین اور مطلوبہ ادویات ساتھ رکھیں، کوئی ایسی چیز نا پہنیں جسکی وجہ سے آپ یا وہ چیز آسانی سے گرفت میں آ سکے، مثلاً زیورات، کھلے بال، ٹائی، کانوں کے لٹکتے ہوئے بندے وغیرہ، کھانے پینے کا پورا خیال رکھیں تاکہ لمبے وقت تک احتجاج کا حصہ بن سکیں، اگر لمبے وقت کا احتجاج ہے تو نیند ضرور حاصل کریں۔ ہمارے یہاں ہجوم میں دہشت گردی کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ جس کا بھی انتظا م ضروری ہے۔ اس دھرنے کی ضرورت کے بارے میں عمران خان کاکہنا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ سے پاکستان کو 70ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ ان سے کئی ہزار انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ان کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی جنگ نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف ہی عوام کو انصاف دلائے گی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداکردہ جماعتیں یہ کام نہیں کرسکتی۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتیں دور کھڑی تماشا دیکھ رہی ہیں اگر یہ جماعتیں دھرنا دیں تو 72 گھنٹوں میں ڈرون حملے ختم ہوسکتے ہیں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل