اشاعتیں

اگست, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اور چوبو۔۔۔ اور ۔۔۔چوبو

.جیو ٹی وی کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں کراچی کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار ریٹائرڈ ائر مارشل شہزاد چوہدری نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کی نمائندہ جماعت تھی اور اس نے لسانی تفریق کو سنبھالا اور دبایاہوا تھا لیکن جماعت کا زور توڑنے کے لیے اس کے مقابلے میں ایم کیو ایم کھڑی کی گئی جس کا خمیازہ آج بھگتا جارہا ہے اور ایم کیو ایم بنانے والے پریشان ہیں۔ میڈیا کے لال بجھکڑوں کو پتہ ہی نہیں کے بابائے کراچی عبد الستار افغانی کے زمانے کا کراچی کتا پرامن تھا۔ شہر میں آپ کہیں بھی چلے جائیں۔آزادی سے برنس روڈ پر نہاری کھائیں یا کھارادر میں حلیم اور آئس کریم کے مزے لوٹیں۔کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔ضیا الحق کو جماعت اسلامی کراچی سے بیر ہوا تو انہوں نے کونسل توڑی،افغانی کو جیل بھیجا اور راتوں رات ایم کیو ایم کھڑی کردی۔مسلم لیگ والے غوث علی شاہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مہاجر خوش کے کراچی اور حیدرآباد میں اقتدار مل گیا۔ اب کوٹہ سسٹم ختم ہوجائے گا۔ ملازمتیں ملیں گی، مہاجر قوم تسلیم کرلی گئی۔ کیا پتہ تھا کہ آئندہ بیس برس میں اس شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر نہ ختم ہونے والا انسانی خون بہے گا۔ قلم

یوسف خان اور نوٹ بک کے سادہ صفحات

تصویر
. یار تم سے کہا تھا۔ِِ،،میرے بارے میں کچھ لکھ دے۔میری کالم کی کتاب کمپوز ہے۔ تو اس کو دیکھ لے،،۔ یوسف خان نے پریس کلب کی پارکنگ لاٹ میں کھڑے کھڑے یہ بات کہی اور پھر بھول گئے۔ پھر اچانک انہیں کبھی یاد آیا اور انھوں نے کہا،، تم نے اب تک میرے بارے میں کچھ لکھ کر نہیں دیا۔کب لکھے گا۔ میرے مرنے کے بعد۔۔۔،، خان کی باتیں ایسی تھیں کہ ان پر فوری لکھنے کو دل کرتا تھا۔ لیکن ان سے ڈر بھی لگتا تھا۔ اس لئے اس سمت پیش رفت نہیں کی۔ کچھ عرصے پہلے آغا خان اسپتال میں ان کی علالت کا سن کر گیا۔ خاصی دیر آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑا رہا ۔ بعد میں وہ صحت یاب ہوکر کلب آنا شروع ہوئے۔ پریس کلب میں ان دنوں ان سے ملاقات تو ہوتی تھی لیکن بات نہیں ہوتی تھی وہ کچھ حساس ہوگئے تھے۔ ملاقات ہوتی تو میں یوسف خان سے ہیلو ہائے کرکے ان کے پاس بیٹھ جاتا۔ ان کا دل کرتا تو کوئی بات کرلیتے یا خاموش بیٹھے رہتے۔ محفل عروج پر ہوتی تو اچانک اٹھ کر چل دیتے۔اب تو ٹی وی پر ان کی آمد بھی کم ہوگئی تھی۔ان کے برجستہ جملے اور کاٹ دار تبصرے اکثر لوگوں کو برداشت نہیں ہوتے تھے۔ لیکن عوام میں ان کی مقبولیت تھی۔ ان کے تبصرے اور تجزئے پسند کئے جات

جھوٹ کے پائوں کہاں

 . عامر لیاقت کی ویڈیو کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ یا لوگوں نے تو میلہ لگا لیا ہے۔ کچھ کہ رہے ہیں کہ اس کا بید باجا بج گیا ہے۔ اور کچھ اسے رفو گری کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ کوئی اسے میدیا پرڈیکٹ کہ رہا ہے تو کوئی اسے مکافات عمل کہ رہا ہے۔ جب جاہل عال بن جائیں اور دین کو اپنے قد و قامت کی بلندی کے لئے استعمال کریں تو ایک دن تو ایسا ہوتا ہے کہ رسوائی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ جھوٹوں پر خدا کی لعنت اور پھٹکار پڑتی ہی ہے۔ آج ہی آج میں انھوں نے اس کا لزام دھر دیا کہ یہ میڈیا کی کاری گری ہے۔اور ان کی آواز ڈب کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ عامر لیاقت کے جیو پر پیش ہونے والے پروگرام خود عامر لیاقت کی پرائیویٹ پرڈیکشن ہوتے تھے۔ جو جیو کو فروخت کئے جاتے تھے۔ اب بھلا بتائے کہ جھوٹا کون ہے۔ صیح کیا ہے۔ یہ تو سب کچھ ان کے اپنے اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوتا تھا۔ .