روٹھ جانے والے یہ شہزادے اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے



 عطا محمد تبسم 

لگ بھگ پنتیس برس گزر گئے۔ لیکن یہ حادثہ آج بھی دل پر اسی طرح رقم ہے۔ جب بھی کبھی وہ منظر یاد آتا ہے۔ دل کانپ اٹھتا ہے۔ ایک ساتھ چون لاشیں اور ان کے جنازے حیدرآباد ایئر پورٹ پر رکھے ہوئے تھے۔ جدھر نظر اٹھتی لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، آہیں اور سسکیاں تھی کہ رکنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایک ساتھ اتنی ساری اموات ، وہ بھی سٹی کالج حیدرآباد کے جواں سال طالب علموں کی، جو سالانہ ٹور پر مری گئے تھے۔ ان کی بھری بس نتھیا گلی سے گہری کھائی میں جا گری تھی۔ یہ لاشیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے حیدرآباد کے ایئرپورٹ پر ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ لائی گئی تھیں۔سب لاشوںپر سندھی اجرکیں پڑی تھیں۔ ایدھی نے کفن کا انتظام کیا تھا۔حیدرآباد کا یہ سانحہ ایسا دردناک تھا کہ کسی پل چین نہ تھا۔ یہ سب میرے کالج کے شہزادے ، میرے دوست، روز کے ملنے والے ہر وقت چہلیں کرنے والے تھے۔کئی دن تک نیند آنکھوں سے روٹھی رہی۔ آنکھیں جلتی تھیں، اور گرم سیال آنسو بن بن کر ان سے بہتا تھا۔ میرا ایک کزن رفیق بھی اس حادثے میں دور جابسا تھا۔ اب بھی یاد آتا ہے تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ فیصل آباد میں بھی کم و بیش یہی مناظر ہیں۔ وہاں بھی صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ مائیں تڑپ رہی ہیں۔ اور باپ غم سے نڈھال ہیں۔ ۵۳ برس پہلے یہ حادثہ مری میں ہوا تھا۔ اب کلہر کہار میں ہوا ہے۔ عجب اتفاق یہ ہے کہ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اور آج بھی اتنے برسوں بعد پیپلز پارٹی ہی کی حکومت ہے۔ یہ حادثے اب تو حرز جاں ہوچکے ہیں۔ پوری قوم جنازوں کو کندھا دیتے دیتے تھک گئی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم بحیثیت ایک قوم اللہ کے مجرم ہیں۔ ہم نے تخلیق پاکستان کے وقت اپنے رب حقیقی سے جو وعدہ کیا تھا۔اس کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ اور آل موسی کی طرح ایک عزاب میں گرفتار ہیں۔ ورنہ پاکستان میں ایسا کیا ہے کہ زلزلے، سیلاب، ڈینگی، حادثات، ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور سربریدہ لاشیں، چلو یہ مان بھی لیا جائے کہ خودکش دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، اغوا، قتل ،لوٹ مار،دہشت گردی کے واقعات ہمارے دشمنوں کی چالیں اور سازش ہیں۔ تو پھر یہ زلزلے، سیلاب، بارشیں، حاثات کیا ہیں۔ کیا اس پر ہم غور فکر نہیں کرتے، جس کے لئے رب کریم نے بار بار کہا ہے۔ ہم پھر اس پر شور کرتے رہیں گے کہ بس کا حادثے جس کی غفلت کے نیتجے میں ہوا۔ اور اتنا بڑا جانی نقصان ہوا ان سب کو سرعام پھانسی پر لٹکا دو۔سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اس حادثے کا سوموٹو ایکشن لے اور اس مقدمے کو دہشت گردی والی عدالت میں چلائے تا کہ جلد سے جلد مجرموں کو سزا دی جا سکے۔ لیکن اپنے اعمال پر توجہ کرنے پر تیار نہیں۔ ظلم کے اس نظام کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ان چوروں اور رشوت خوروں کو نہیں پکڑتے جنہوں س نے بس کو تکنیکی سرٹیفکیٹ دیا، جس نے پرانی بس کو موٹر وے پر چلنے کی اجازت دی ۔ لیکن یہ ایک واقعہ تھوڑی ہے۔ روزانہ ایسے واقعات ہر شہر میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب کوئی ایسا حادثہ ہو جس میں اجتمائی طور پر جانیں ضائع ہوں تو چیخ پڑتے ہیں۔ لیکن اپنے رب سے معافی کی درخواست نہیں کرتے۔ ان معصوم بچوں کو جنہوں نے ابھی زندگی کی کتنی بہاریں دیکھنا تھیں۔ اس ملک کے مستقبل کے پھول چلے گئے۔ ایک لمحے میں اتنے سارے پھول جیسے جسموں کا لقمہ اجل ہو جانے کا تصور ہی دل دہلا دیتا ہے۔ رنج و غم کو بے پناہ کرب میں بدل دینے والا پہلو یہ ہے کہ موت کی آغوش میں چلے جانے والوں کی اکثریت نوخیز طلباء پر مشتمل تھی۔ میرے سٹی کالج کے شہزادوں کی طرح۔ان نوعمر بچوں کی موت نے کلیجہ چھلنی کر دیا ہے۔ میں رات میں ٹی وی پر یہ منا ظر دیکھنے کی تاب نہ لاسکا۔نیند آنکھوں سے دور ہے۔ آنکھ سے گرم سیل بہتا ہے۔ اور رات میں اپنے رب کے آگے سربسجود ہوکر معافی کے لئے روتا ہوں۔ بچوں کے ساتھ ان کے والدین، بھائیوں، بہنوں کے چہرے گھوم رہے ہیں۔ چند لمحوں کے اندر اندر سب کچھ بدل جاتا ہے۔ روٹھ جانے والے یہ شہزادے اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے؟ ہم نے یہ سرزمیں انگاروں سے بھر دی ہے اور اسی لئے یہ روٹھ کر چلے گئے ہیں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک اور چراغ گل ہوا

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔