برظانوی صحافی ایوان ریڈلی کے ساتھ یہ تصویر فاران کلب کی تقریب میں لی گئی ایوان ریڈلی سے میرا پہلا تعارف نائین الیون کے بعد اس وقت ہوا تھا، جب روزنامہ ڈان میں ان کی طالبان کے قید کی روئیداد شائع ہوئی۔ میں نے اس روئیداد کو قومی اخبار میں ترجم ہ کرکے دو پورے صفحات پر شائع کیا۔ یہ روئیداد بہت مقبول ہوئی۔ ایوان ریڈلی نے قید کے دوران طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ رہا ہونے کے بعد قرآن کریم کا مطالعہ کروں گی اس لیے آزادی نصیب ہونے کے بعد انہوں نے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا، ساتھ ہی اسلام میں انسانی حقوق اور عورت کے مقام کو بھی جاننا شروع کیا، طویل مطالعہ کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔ایواون ریڈلی جون2002ء میں کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام کے دائرے میں شامل ہو گئیں۔ جس کے بعد سے وہ مسلسل اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کر رہی ہیں، میڈیا پر ان کی توانا آ واز دنیا بھر میں سنائی دیتی اور محسوس کی جاتی ہے۔ ریڈلی نے گذشتہ روز فاران کلب کی تقریب میں مہمان خاص کی حیثیت سے شام کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں خط
ایک نوجوان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔ ایک خاندان تباہ برباد ہوگیا، پی ٹی آئی کو ایک لاش مل گئی، قربانی قربانی قربانی۔۔۔۔۔۔۔ سیاست دان عوام سے جان مال کی قربانی مانگتے ہی رہے ہیں۔ لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو سب بھول جاتے ہیں۔ وہ ایوب خان، یحیحی خان، مجیب، بھٹو،نواز شریف ،بے نظیر، مشرف اور الطاف حسین بن جاتے ہیں۔ کپتان کو پتہ نہیں وہ کہاں جا رہے ہیں ۔کئی بر اپنے بیانات بدلتے ہیں۔ تبدیلی تبدیلی تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو کچھ نہیں پتہ کیا تبدیلی لانی ہے۔ ان کے آس پاس جو چہرے ہیں انھیں دیکھ کر تبدیلی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ کاش فیصل آباد میں یہ سانحہ نہ ہوتا۔ اب لاہور اور کراچی اور پورا پاکستان بند ہونا ہے، جانے کیا ہوگا۔
چل چل میرے خامہ چل عطا محمد تبسم بہت دنوں سے لکھنے کو طبعیت نہیں چاہ رہی۔ اس لیئے لکھا بھی نہیں۔ جس دور میں الفاط بے توقیر ہوجائیں۔ لکھے ہوئے لفظوں کیحرمت کا کوئی احساس ہی نہ ہو اس میں لکھنا بے معنی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ آپ کو جو صلاحیت بخشی گئی اس کے مطابق حق ادا کیا یا نہیں تو پھر جو بھی صلاحیت ہے۔ا س کے مطابق عمل کرنا مقدر ٹھیرا۔ جب تک جی میں جان ہے۔ اور اس دنیا میں زندہ ہیں کچھ نہ کچھ تو کرتے رہنا ہے۔ آپ کو جو کچھ آتا ہے وہی کریں گے۔ ہماری قسمت میں قلم سے رشتہ ناتہ جڑا ہے۔ اس لئے لکھنا ہی مقدر ٹھیرا۔ آج کل برقی پیغامات کا دور ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں گشتی فون (موبائیل فون کا یہ اردو ترجمہ شائد آپ کو پسند نہ آئے)کا پیغامات کا صندوق بھر جاتا ہے۔ لوگ بھی خوب ہیں ان کے پاس وقت بھی ہے اور پیشہ بھی۔ دونوں کا ضیاع کرتے ہیں۔ آج کل رمضان ہے تو احادیث اور قران کی آیات کے پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ رمضان میں عبادت کرنے والے رات دن قران پڑھ رہے ہیں۔ سن رہے ہیں۔ عمل کی توفیق اللہ نے دی ہے تو عمل بھی کر رہے ہیں۔ اب ان پیغامات سے کیا مقصد پھر ان کو مٹا نا بھی پڑتا ہے۔ دل میں اللہ ک
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں