چل چل میرے خامہ چل

چل چل میرے خامہ چل


عطا محمد تبسم

بہت دنوں سے لکھنے کو طبعیت نہیں چاہ رہی۔ اس لیئے لکھا بھی نہیں۔ جس دور میں الفاط بے توقیر ہوجائیں۔ لکھے ہوئے لفظوں کیحرمت کا کوئی احساس ہی نہ ہو اس میں لکھنا بے معنی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ آپ کو جو صلاحیت بخشی گئی اس کے مطابق حق ادا کیا یا نہیں تو پھر جو بھی صلاحیت ہے۔ا س کے مطابق عمل کرنا مقدر ٹھیرا۔ جب تک جی میں جان ہے۔ اور اس دنیا میں زندہ ہیں کچھ نہ کچھ تو کرتے رہنا ہے۔ آپ کو جو کچھ آتا ہے وہی کریں گے۔ ہماری قسمت میں قلم سے رشتہ ناتہ جڑا ہے۔ اس لئے لکھنا ہی مقدر ٹھیرا۔ آج کل برقی پیغامات کا دور ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں گشتی فون (موبائیل فون کا یہ اردو ترجمہ شائد آپ کو پسند نہ آئے)کا پیغامات کا صندوق بھر جاتا ہے۔ لوگ بھی خوب ہیں ان کے پاس وقت بھی ہے اور پیشہ بھی۔ دونوں کا ضیاع کرتے ہیں۔ آج کل رمضان ہے تو احادیث اور قران کی آیات کے پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ رمضان میں عبادت کرنے والے رات دن قران پڑھ رہے ہیں۔ سن رہے ہیں۔ عمل کی توفیق اللہ نے دی ہے تو عمل بھی کر رہے ہیں۔ اب ان پیغامات سے کیا مقصد پھر ان کو مٹا نا بھی پڑتا ہے۔ دل میں اللہ کی آیات مٹاتے ہوئے خوف آتا ہے۔ یہی حال حدیث کے پیغامات کا ہے۔ حدیث عمل کرنے کے لئے ہیں۔ پیروی سنت نبوی صرف پڑھنے کے لئے تو نہیں ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے پیغامات ہیں کہ آئے جاتے ہیں۔ پھر ان کو بغیر سوچے سمجھے آگے بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی ایک بات بھی بغیر تصدیق آگے چلی گئی تو اس کا وبال سب کی گردن پر ہوگا۔ آگے آپ کی مرضی۔لطیفہ بھی بھیجے جاتے ہیں۔ بچپن میں ملا دو پیازہ کے لطیفے سنے اور سنائے جاتے تھے۔ اب جا کر پتہ چلا ملا دو پیازہ تو اچھے بھلے عالم فاضل تھے۔ اصل نام ابوالحسن تھا۔عرب کے شہر طائف میں پیدا ہوئے۔ ملا دوپیازہ کیسے بنے اس بارے میں کہتے ہیں کہ ایک دن ایک امیر نے انھیں دعوت پر بلایا۔ وہاں دستر خوان پر دو پیازہ پلاﺅ بھی تھا۔ جو ملا کو بہت پسند آیا۔ ملا ابو الحسن دو پیازہ پلاﺅ پر ایسے لہلوٹ ہوئے کہ پھر جہاں دعوت ہوتی پوچھتے کیا دو پیازہ پلاﺅ بھی دسترخوان پر ہوگا۔ بس وہ دن ہے کہ لوگ انھیں ملا دو پیازہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ملا تو چلے گئے لطیفے رہ گئے۔ چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ کراچی والوں کے لئے یہ بھی ایک خبر ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے میں کوئی ایک بھی قتل نہ ہوا۔ یہ اللہ کا فضل اور احسان ہے۔ اس پر سجدہ شکر بجا لانا چایئے۔ اللہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک اور چراغ گل ہوا

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔