کہ سید کھری بات کہتا ہے اس زمانے میں۔



عظا محمد تبسم
سید منور حسن میں ایک ہی خرابی ہے۔ وہ صاف اور کھری بات کہتے ہیں، لگی لپٹی نہیں رکھتے۔وہ زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتے تھے،سید صاحب چینلز پر ہوں یا جلسہ یا پریس کانفرینس وہ اخبار میں سرخیاں اور چینلز کی بریکنگ نیوز بن جاتے،انھوں نے دینی جماعتوں کے اتحاد کے نام پر ذاتی سیاست اور مال بٹورنے والے مولانا کو سیاست میں ناک آوٹ ہی نہیں کیا بلکہ ان کی سیاسی ساکھ بھی تمام کردی۔ اب وہ زیرو ہیں۔ فوج سے جماعت اسلامی کے تعلق کو فاصلہ ہی نہیں دیا بلکہ ان سے ڈٹ کر اختلاف بھی کیا۔ان کی سادگی، سچائی،دینداری اور کھرا پن ان کے مخالفین کو ہضم نہیں ہوتا۔ لیکن سارا پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا گواہ ہے کہ سید کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے، انھوں نے آج اس ذمہ داری اور امانت کا بار بھی سراج الحق کو سونپ دیا۔ جو خود بھی ایک درویش ہے، وہ وزیر رہتے ہوئے بھی عام آدمی کی طرح رہتا ہے، اس کے پاس نہ گارڈ ہیں نہ پولیس کی ہٹو بچو والی گاڑیاں، آج سراج الحق کوآئندہ 5 سال کے لئے نیا امیر منتخب کرلیا گیا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے دامن میں کیسے کیسے ہیرے، جواہر موجود ہیں۔ نو منتخب امیر جماعت اسلامی سراج الحق 7 اپریل کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔سید مودودی اور میاں طفیل کے بعد اسلامی جمیعت طلبہ سے تعلق رکھنے والے یہ تیسرے امیر جماعت ہیں۔جماعت اسلامی کے ناظم انتخابات کے مطابق نئے امیر کے انتخاب کیلئے منور حسن، لیاقت بلوچ اور سراج الحق کے ناموں پر 25 ہزار 533 ارکان جماعت اسلامی نے خفیہ رائے شماری میں حصہ لیا اور اکثریت نے سراج الحق کے حق میں رائے دی جس کے بعد سراج الحق 5 برس تک امیر جماعت اسلامی کی ذمہ داریاں سرانجام دیں گے۔سابق امیر سید منور حسن 29 مارچ 2009 کو پانچ سال کیلئے امیر منتخب ہوئے تھے۔سراج الحق کی درویش صفت طبیعت اور مجاہدانہ اوصاف کی بدولت تحریکی اورعوامی حلقوں میں انکو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ میٹرک تک بنیادی تعلیم مختلف سکولوں میں حاصل کی جس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج تیمر گرہ سے بی اے کی ڈگری لی، پشاور یونیورسٹی سے بی ایڈ اور پھر ایم اے کیا۔ تعلیمی دور میں اٹھویں جماعت سے ہی کالجز یونیورسٹیز کی سطح پر ملک گیر تنظیم (اسلامی جمعیت طلبہ) سے وابستہ ہوگئے۔ تین سال صوبہ سرحد جمعیت کے ناظم رہے۔بعد ازاں1998میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ بنے۔ تعلیمی مراحل سے فراغت کے بعد جب عملی میدان میں گئے تو تقریبا ایک سال جماعت اسلامی کے کارکن کے طور پر کام کیا بعد میں رکن بن گئے۔ ایک سال ضلع دیر میں جندول کے علاقہ میںرکن کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ پھر جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے سیکرٹری جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اکتوبر2002کے انتخابات میں دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی بطور سینئر وزیر حکومت میں چار سال فرائض سرانجام دیے۔بعد ازاں 2003 میںجماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر بنے۔ جماعت اسلامی صوبہ سرحد کی گراں بار ذمہ داری آپ نے احسن انداز میں نبھائی۔اپریل 2009میں جماعت اسلامی کے مرکزی انتخاب کے بعد انہیں امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن نے نائب امیر کی ذمہ داری سونپی،جسے وہ بخوبی انجام دیتے رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت میں آپ نے جو موثر کردار ادا کیا اس کے اپنے اور بیگانے سب ہی معترف ہیں۔ کئی غیر ملکی اداروں نے صوبہ سرحد میں اپنے سروے رپورٹوں میں ان کے دورحکومت میں بہترین کارکردگی پر تعریف کی۔ سراج الحق صاحب اردو، انگریزی،فارسی، عربی،پشتو اور دیگر زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ پشتو کے علاوہ اردو میں بھی آپ کی تقریر عوامی حلقوں میںپسند کی جاتی ہے۔ آپ جماعت اسلامی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مشرق وسطیٰ اورکئی یورپی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔آپ کی صلاحیتوں اوراہم دینی و سیاسی حیثیت کی بدولت دنیا بھر سے آپ کو عالمی کانفرنسوں میں دعوت دی جاتی ہے۔جماعت اسلامی اور پاکستان کے عوام کو درویش صفت امیر سراج الحق مبارک ہو۔ اللہ انھیں کامیاب وکامران کرے۔

تبصرے

  1. سراج الحق صاحب 1988 میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بنے تھے۔ 1998 شاید غلطی سے شایع ہوگیا۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک اور چراغ گل ہوا

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔