اشاعتیں

2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

شائد کسی کو یہ بات سمجھ آجائے۔

تین  دن گھر میں بند رہنے سے ایک مشق ہوگئی ہے۔  شائد  آئی ندہ اس سے  بھی زیادہ گھر میں بند ر ہنا پڑے،ساتھ ہی وہ جو بار بار موبائیل کھول کر دیکھنے اور پیغام پڑھنے کی عادت سی ہوگئی تھی ۔ اس  میں بھی بریک سا لگ گ یا، رہا موٹر سائیکل کی سواری  اس جنجال سے بہت پہلے جان چھڑالی ہے۔ کراچی میں موٹر سائیکل چالیس لاکھ سے زائد ہیں۔ اگر یہ سڑک پر نہ ن کلیں تو سڑکوں پر کیا خاک رونق ہوگی۔ غرض کہ یہ تین دن آرام سے ان ناولوں کو ختم کرنے میں صرف ہوئے، جو ایک عرصے سے ہماری فر صت کی راہ دیکھ رہے تھے۔  بس ایک چینل کا اودھم د ھاڑ باقی تھا۔ اگر ہمارے پیارے رحمان بابا اس کا بھی کوئی توڑ کر لیتے تو پھر راوی کی طر ف سے چین  ہی چین تھا۔  اس کے لئے ر او ی کا چین لکھنا ضروری نہ تھا۔ چینل والوں کو اب کوئی نئی راہ دیکھنی چاہیئے۔ اب نہ بریکنگ نیوز کا مزا ہے نہ لائیو ٹران سمیشن کا ایک ہی ل کیر کو بار بار پیٹنے سے اس کا سارا مزا جاتا رہا۔ معرکہ کربلا تو گذرے برسوں ہوگئے۔ لیکن اس عظیم قربانی کی یاد ہماری قوم نے پہلی بار جس جوش جذبے،عقیدت احترام ، جان جھوکوں میں ڈال کر منائی ہے۔ اس کے لئے بابا جی رحمان، اور صدر زرداری ک

چل چل میرے خامہ چل

چل چل میرے خامہ چل عطا محمد تبسم بہت دنوں سے لکھنے کو طبعیت نہیں چاہ رہی۔ اس لیئے لکھا بھی نہیں۔ جس دور میں الفاط بے توقیر ہوجائیں۔ لکھے ہوئے لفظوں کیحرمت کا کوئی احساس ہی نہ ہو اس میں لکھنا بے معنی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ آپ کو جو صلاحیت بخشی گئی اس کے مطابق حق ادا کیا یا نہیں تو پھر جو بھی صلاحیت ہے۔ا س کے مطابق عمل کرنا مقدر ٹھیرا۔ جب تک جی میں جان ہے۔ اور اس دنیا میں زندہ ہیں کچھ نہ کچھ تو کرتے رہنا ہے۔ آپ کو جو کچھ آتا ہے وہی کریں گے۔ ہماری قسمت میں قلم سے رشتہ ناتہ جڑا ہے۔ اس لئے لکھنا ہی مقدر ٹھیرا۔ آج کل برقی پیغامات کا دور ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں گشتی فون (موبائیل فون کا یہ اردو ترجمہ شائد آپ کو پسند نہ آئے)کا پیغامات کا صندوق بھر جاتا ہے۔ لوگ بھی خوب ہیں ان کے پاس وقت بھی ہے اور پیشہ بھی۔ دونوں کا ضیاع کرتے ہیں۔ آج کل رمضان ہے تو احادیث اور قران کی آیات کے پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ رمضان میں عبادت کرنے والے رات دن قران پڑھ رہے ہیں۔ سن رہے ہیں۔ عمل کی توفیق اللہ نے دی ہے تو عمل بھی کر رہے ہیں۔ اب ان پیغامات سے کیا مقصد پھر ان کو مٹا نا بھی پڑتا ہے۔ دل میں اللہ ک

صحن چمن کی باتیں: جانے یہ سب بے خوف کیوں ہوگئے ہیں۔

صحن چمن کی باتیں: جانے یہ سب بے خوف کیوں ہوگئے ہیں۔ : عطا محمد تبسم آج بارش کا امکان ہے۔ مجھے محکمہ موسمیات پر یقین نہیں ہے۔ اس لئے گھر سے نکلتے ہوئے چھتری اور برساتی نہیں لی۔ یہ بات کچھ صحیح...

جانے یہ سب بے خوف کیوں ہوگئے ہیں۔

عطا محمد تبسم آج بارش کا امکان ہے۔ مجھے محکمہ موسمیات پر یقین نہیں ہے۔ اس لئے گھر سے نکلتے ہوئے چھتری اور برساتی نہیں لی۔ یہ بات کچھ صحیح نہیں ہے۔ ہم کراچی والے بارش سے کیا ڈریں گے۔ ہم تو برستی گولیوں اور جلتے ڈائروں میں گھروں سے نکل جاتے ہیں۔ شہر میں کتنی اموات ہوئی ۔ یا تو ٹی وی کی بریکنگ نیوز سے پتہ چلتا ہے یا ٹریفک کے بہاﺅ سے۔ رات کو اچانک سلائیڈ چلنا شروع ہوئی ہوٹل بند کرنے کے احکامات جاری ہوگئے ہیں۔ تھوڑی سی حیرانی ہوئی ، پھر خیال آیا شائد بجلی ہوٹل والے زیادہ خرچ کرنے لگے ہیں۔ اس لئے کوئی نئی ترکیب نکالی گئی ہے۔ لیکن پھر اندازہ ہوا کہ اب شہر کے چائے خانے نشانہ ہیں ۔ ٹارگٹ کلنگ شہر میں جاری ہے اور ہوٹلوں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ صبح اخبار کی سرخی سے پتہ چلا کہ شہر میں پندرہ افراد قتل ہوچکے ہیں۔ بوری بند لاشیں جگہ جگہ پھینکی جارہی ہیں۔ اب تو لوگ رکشہ میں لاش ڈال کر ایمبولینس والوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ لکھا ہے اخبار میں ، حیران ہوں۔ یہ کیسا ملک ہے ۔ جس کے ہر شہر میں ایک نیا ڈرامہ ہے۔ کہیں پانچ سو ہتھیار بند جیل توڑنے نکل آتے ہیں۔ تو کہیں بسوں کو روک کر مسافروں کو

چھاتی کا سرطان کم عمر خواتین کے لئے خطرہ

چھاتی کا سرطان کم عمر خواتین کے لئے خطرہ