اشاعتیں

Coloumn لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

شائد کسی کو یہ بات سمجھ آجائے۔

تین  دن گھر میں بند رہنے سے ایک مشق ہوگئی ہے۔  شائد  آئی ندہ اس سے  بھی زیادہ گھر میں بند ر ہنا پڑے،ساتھ ہی وہ جو بار بار موبائیل کھول کر دیکھنے اور پیغام پڑھنے کی عادت سی ہوگئی تھی ۔ اس  میں بھی بریک سا لگ گ یا، رہا موٹر سائیکل کی سواری  اس جنجال سے بہت پہلے جان چھڑالی ہے۔ کراچی میں موٹر سائیکل چالیس لاکھ سے زائد ہیں۔ اگر یہ سڑک پر نہ ن کلیں تو سڑکوں پر کیا خاک رونق ہوگی۔ غرض کہ یہ تین دن آرام سے ان ناولوں کو ختم کرنے میں صرف ہوئے، جو ایک عرصے سے ہماری فر صت کی راہ دیکھ رہے تھے۔  بس ایک چینل کا اودھم د ھاڑ باقی تھا۔ اگر ہمارے پیارے رحمان بابا اس کا بھی کوئی توڑ کر لیتے تو پھر راوی کی طر ف سے چین  ہی چین تھا۔  اس کے لئے ر او ی کا چین لکھنا ضروری نہ تھا۔ چینل والوں کو اب کوئی نئی راہ دیکھنی چاہیئے۔ اب نہ بریکنگ نیوز کا مزا ہے نہ لائیو ٹران سمیشن کا ایک ہی ل کیر کو بار بار پیٹنے سے اس کا سارا مزا جاتا رہا۔ معرکہ کربلا تو گذرے برسوں ہوگئے۔ لیکن اس عظیم قربانی کی یاد ہماری قوم نے پہلی بار جس جوش جذبے،عقیدت احترام ، جان جھوکوں میں ڈال کر منائی ہ...

چل چل میرے خامہ چل

چل چل میرے خامہ چل عطا محمد تبسم بہت دنوں سے لکھنے کو طبعیت نہیں چاہ رہی۔ اس لیئے لکھا بھی نہیں۔ جس دور میں الفاط بے توقیر ہوجائیں۔ لکھے ہوئے لفظوں کیحرمت کا کوئی احساس ہی نہ ہو اس میں لکھنا بے معنی ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ آپ کو جو صلاحیت بخشی گئی اس کے مطابق حق ادا کیا یا نہیں تو پھر جو بھی صلاحیت ہے۔ا س کے مطابق عمل کرنا مقدر ٹھیرا۔ جب تک جی میں جان ہے۔ اور اس دنیا میں زندہ ہیں کچھ نہ کچھ تو کرتے رہنا ہے۔ آپ کو جو کچھ آتا ہے وہی کریں گے۔ ہماری قسمت میں قلم سے رشتہ ناتہ جڑا ہے۔ اس لئے لکھنا ہی مقدر ٹھیرا۔ آج کل برقی پیغامات کا دور ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں گشتی فون (موبائیل فون کا یہ اردو ترجمہ شائد آپ کو پسند نہ آئے)کا پیغامات کا صندوق بھر جاتا ہے۔ لوگ بھی خوب ہیں ان کے پاس وقت بھی ہے اور پیشہ بھی۔ دونوں کا ضیاع کرتے ہیں۔ آج کل رمضان ہے تو احادیث اور قران کی آیات کے پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ رمضان میں عبادت کرنے والے رات دن قران پڑھ رہے ہیں۔ سن رہے ہیں۔ عمل کی توفیق اللہ نے دی ہے تو عمل بھی کر رہے ہیں۔ اب ان پیغامات سے کیا مقصد پھر ان کو مٹا نا بھی پڑتا ہے۔ دل میں اللہ ک...

اور چوبو۔۔۔ اور ۔۔۔چوبو

.جیو ٹی وی کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں کراچی کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار ریٹائرڈ ائر مارشل شہزاد چوہدری نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کی نمائندہ جماعت تھی اور اس نے لسانی تفریق کو سنبھالا اور دبایاہوا تھا لیکن جماعت کا زور توڑنے کے لیے اس کے مقابلے میں ایم کیو ایم کھڑی کی گئی جس کا خمیازہ آج بھگتا جارہا ہے اور ایم کیو ایم بنانے والے پریشان ہیں۔ میڈیا کے لال بجھکڑوں کو پتہ ہی نہیں کے بابائے کراچی عبد الستار افغانی کے زمانے کا کراچی کتا پرامن تھا۔ شہر میں آپ کہیں بھی چلے جائیں۔آزادی سے برنس روڈ پر نہاری کھائیں یا کھارادر میں حلیم اور آئس کریم کے مزے لوٹیں۔کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔ضیا الحق کو جماعت اسلامی کراچی سے بیر ہوا تو انہوں نے کونسل توڑی،افغانی کو جیل بھیجا اور راتوں رات ایم کیو ایم کھڑی کردی۔مسلم لیگ والے غوث علی شاہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مہاجر خوش کے کراچی اور حیدرآباد میں اقتدار مل گیا۔ اب کوٹہ سسٹم ختم ہوجائے گا۔ ملازمتیں ملیں گی، مہاجر قوم تسلیم کرلی گئی۔ کیا پتہ تھا کہ آئندہ بیس برس میں اس شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر نہ ختم ہونے والا انسانی خون بہے گا۔ قلم ...

یوسف خان اور نوٹ بک کے سادہ صفحات

تصویر
. یار تم سے کہا تھا۔ِِ،،میرے بارے میں کچھ لکھ دے۔میری کالم کی کتاب کمپوز ہے۔ تو اس کو دیکھ لے،،۔ یوسف خان نے پریس کلب کی پارکنگ لاٹ میں کھڑے کھڑے یہ بات کہی اور پھر بھول گئے۔ پھر اچانک انہیں کبھی یاد آیا اور انھوں نے کہا،، تم نے اب تک میرے بارے میں کچھ لکھ کر نہیں دیا۔کب لکھے گا۔ میرے مرنے کے بعد۔۔۔،، خان کی باتیں ایسی تھیں کہ ان پر فوری لکھنے کو دل کرتا تھا۔ لیکن ان سے ڈر بھی لگتا تھا۔ اس لئے اس سمت پیش رفت نہیں کی۔ کچھ عرصے پہلے آغا خان اسپتال میں ان کی علالت کا سن کر گیا۔ خاصی دیر آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑا رہا ۔ بعد میں وہ صحت یاب ہوکر کلب آنا شروع ہوئے۔ پریس کلب میں ان دنوں ان سے ملاقات تو ہوتی تھی لیکن بات نہیں ہوتی تھی وہ کچھ حساس ہوگئے تھے۔ ملاقات ہوتی تو میں یوسف خان سے ہیلو ہائے کرکے ان کے پاس بیٹھ جاتا۔ ان کا دل کرتا تو کوئی بات کرلیتے یا خاموش بیٹھے رہتے۔ محفل عروج پر ہوتی تو اچانک اٹھ کر چل دیتے۔اب تو ٹی وی پر ان کی آمد بھی کم ہوگئی تھی۔ان کے برجستہ جملے اور کاٹ دار تبصرے اکثر لوگوں کو برداشت نہیں ہوتے تھے۔ لیکن عوام میں ان کی مقبولیت تھی۔ ان کے تبصرے اور تجزئے پسند کئے جات...

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: شہر خموشاں

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: شہر خموشاں : "عطا محمد تبسم رات شہر کی سڑکوں پر تاریکی اور سناٹا تھا، کھبی کبھی کہیں سے فائرنگ کی آواز آتی، گھر سے فون آیا تھا، علاقے میں کشیدگی..."

کراچی والے بہت خوش ہیں۔

  عطا محمد تبسم پاکستان میں صحافت بے حد آسان بھی ہے اور مشکل ترین بھی ۔ آپ کوچہ صحافت میں قدم رکھ کر اسلام آباد میں شاندار قیمتی پلاٹ بھی حاصل کرسکتے ہیں اور شلیم شہزاد اور کئی دوسرے صحافیوں کی طرح کسی قبرستان میں دو گز زمیں بھی ۔ آپ جہازوں میں غیر ملکی دورے بھی کرسکتے ہیں اور سنئیر صحافی محمد علی خالد کی طرح سڑکوں پر پیدل مارچ بھی۔ آپ لاکھوں کی تنخواہ بھی لے سکتے ہیں اور ٹرانسلیٹر عبد الرحیم کی طرح چند سو روپے پر رات دن قلم کی محنت اور مشقت کی راہ بھی اپنا سکتے ہیں. سید سلیم شہزاد اسلام آباد میں ایشیا ٹائمز آن لائن کے بیورو چیف تھے۔ اس پہلے وہ کراچی میں اسٹار میں رپورٹر تھے۔ انھیں خبروں سے عشق تھا۔ اور اسی عشق نے انھیں امتحان میں ڈال دیا ۔ کرچی میں ان سے پریس کلب یا کسی اور جگہ ملاقات ہوتی تو ان کی مسکراہٹ اور زندہ دلی اور صحافت میں بے باکی سے سابقہ پڑتا۔29 مئی کو سلیم شہزاد اسلام آباد میں اپنے گھر سے ایک ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو دیتے کے لیے نکلتے ہیں اور پھر لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے ہیومن رائٹس واچ کے علی دایان حسن کو بتا دیا تھا کہ اگر وہ قتل ہوجائیں یا اگر وہ لاپتہ ی...