اشاعتیں

2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

داتا کی نگری کا نیا مسافر

تصویر
لاہور میں ہوتے ہوئے داتا صاحب کا خیال نہ آئے اور حاضری نہ دی جائے یہ ممکن نہ تھا،میں ٹھیلے والے کے پاس تازہ تازہ پیلے پیلے سنہری رنگت والے امرود دیکھ کر ٹھر گیا، امرود کاٹ کر اس نے تھیلی میں ڈال دیئے، میں امرود کھاتا رکشا والے کے پاس گیا اور پوچھا داتا دربار چلو گے۔اس نے اثبات میں سر ہلا کر رکشہ اسٹارٹ کرلیا، میں امرود کھاتا رکشہ میں بیٹھ گیا، ابھی ایک بجا تھا، لیکن داتا دربار کی مسجد میں جانے والوں کا ہجوم تھا۔ رکشا رکا تو میں نے کرایہ اور امرود کی تھیلی رکشہ والے کے حوالے کی اور مسجد جانے والوں کی لائین میں کھڑا ہوگیا۔ وہاں موجود پولیس والے سے پوچھا نماز کتنے بجے ہوگی۔ اس نے کہا دو بجے، داتا کا مزار تو پہلے جیسے ہی ہے، مرائج خلائق عام سیدھے سادے دیہاتی بھی ہیں تو بابو لوگ بھی پر اب سیکورٹی بہت ہے، ہر طرف پولیس والے، چوکنا تلاشی لیتے ہوئے۔ ہر طرف کیمرے لگے ہیں۔ پہلے داتا کے مزار پر دیہاتی اور سادہ لوح لوگوں کے لٹنے اور جیب تراشی کی وارداتیں بھی  ہوتی تھیں۔ لیکن اب سب نوسر باز یہاں سے دوڑ گئے ہیں۔ پولیس والے جو یہاں موجود ہیں۔چپل جوتے رکھنے والوں کے اڈے اب اندد ہیں،دیگیں چڑھانے والوں

روٹھ جانے والے یہ شہزادے اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

 عطا محمد تبسم  لگ بھگ پنتیس برس گزر گئے۔ لیکن یہ حادثہ آج بھی دل پر اسی طرح رقم ہے۔ جب بھی کبھی وہ منظر یاد آتا ہے۔ دل کانپ اٹھتا ہے۔ ایک ساتھ چون لاشیں اور ان کے جنازے حیدرآباد ایئر پورٹ پر رکھے ہوئے تھے۔ جدھر نظر اٹھتی لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، آہیں اور سسکیاں تھی کہ رکنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایک ساتھ اتنی ساری اموات ، وہ بھی سٹی کالج حیدرآباد کے جواں سال طالب علموں کی، جو سالانہ ٹور پر مری گئے تھے۔ ان کی بھری بس نتھیا گلی سے گہری کھائی میں جا گری تھی۔ یہ لاشیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے حیدرآباد کے ایئرپورٹ پر ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ لائی گئی تھیں۔سب لاشوںپر سندھی اجرکیں پڑی تھیں۔ ایدھی نے کفن کا انتظام کیا تھا۔حیدرآباد کا یہ سانحہ ایسا دردناک تھا کہ کسی پل چین نہ تھا۔ یہ سب میرے کالج کے شہزادے ، میرے دوست، روز کے ملنے والے ہر وقت چہلیں کرنے والے تھے۔کئی دن تک نیند آنکھوں سے روٹھی رہی۔ آنکھیں جلتی تھیں، اور گرم سیال آنسو بن بن کر ان سے بہتا تھا۔ میرا ایک کزن رفیق بھی اس حادثے میں دور جابسا تھا۔ اب بھی یاد آتا ہے تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ فیصل آباد میں بھی کم و بیش یہی مناظر ہیں۔ وہ

کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹہری

تصویر
افغامستان میں بی بی سی کے نامہ نگار امریکی فوجی کی گولی سے ہلاک ہوئے۔ عطا محمد تبسم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے لاکھوں نے گناہ اور معصوم انسانوں کو قتل کیا ۔ نائیں الیون کے بعد اب ساری دنیا کے سامنے یہ حقیقت آچکی ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی ڈرامہ تھا۔ جس کا واحد مقصد امریکہ کی جانب سے افغانستان،عراق، ایران،پاکستان جیسے ممالک پر قبضہ کرنا اور مصر، لیبیا، مراکش، سوڈان،سعودی عرب، اردن، جیسے اسلامی ممالک میں اپنے پٹھو حکمران کو برسراقتدار لانا تھا۔ امریکہ اپنی اس جارحیت میں اپنا کردار اب بھی ادا کر رہا ہے۔ اور بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ امریکی فوجیوں نے درندگی اور وحشیانہ پن کی انتہاءکرتے ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاکھوں عورتوں، بچوں، بوڑھے اور نوجوانوں کا قتل عام کیا ہے۔ جس پر امریکہ کو انسانیت کبھی معاف نہیں کرے گی۔ایک دن یوم حساب ہوگا۔ اور اس میں شامل ہر کردار کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت کے بہت سے واقعات میں امریکیوں کے ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں۔ جس کے بعد وہ ان واقعات کو انسانی غلطی، فرینڈلی فائر، غلط فہمی، جیسے الفاظ کا سہارا لےکر بنی نوع انسان

اور چوبو۔۔۔ اور ۔۔۔چوبو

.جیو ٹی وی کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں کراچی کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے معروف تجزیہ نگار ریٹائرڈ ائر مارشل شہزاد چوہدری نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کی نمائندہ جماعت تھی اور اس نے لسانی تفریق کو سنبھالا اور دبایاہوا تھا لیکن جماعت کا زور توڑنے کے لیے اس کے مقابلے میں ایم کیو ایم کھڑی کی گئی جس کا خمیازہ آج بھگتا جارہا ہے اور ایم کیو ایم بنانے والے پریشان ہیں۔ میڈیا کے لال بجھکڑوں کو پتہ ہی نہیں کے بابائے کراچی عبد الستار افغانی کے زمانے کا کراچی کتا پرامن تھا۔ شہر میں آپ کہیں بھی چلے جائیں۔آزادی سے برنس روڈ پر نہاری کھائیں یا کھارادر میں حلیم اور آئس کریم کے مزے لوٹیں۔کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔ضیا الحق کو جماعت اسلامی کراچی سے بیر ہوا تو انہوں نے کونسل توڑی،افغانی کو جیل بھیجا اور راتوں رات ایم کیو ایم کھڑی کردی۔مسلم لیگ والے غوث علی شاہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مہاجر خوش کے کراچی اور حیدرآباد میں اقتدار مل گیا۔ اب کوٹہ سسٹم ختم ہوجائے گا۔ ملازمتیں ملیں گی، مہاجر قوم تسلیم کرلی گئی۔ کیا پتہ تھا کہ آئندہ بیس برس میں اس شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر نہ ختم ہونے والا انسانی خون بہے گا۔ قلم

یوسف خان اور نوٹ بک کے سادہ صفحات

تصویر
. یار تم سے کہا تھا۔ِِ،،میرے بارے میں کچھ لکھ دے۔میری کالم کی کتاب کمپوز ہے۔ تو اس کو دیکھ لے،،۔ یوسف خان نے پریس کلب کی پارکنگ لاٹ میں کھڑے کھڑے یہ بات کہی اور پھر بھول گئے۔ پھر اچانک انہیں کبھی یاد آیا اور انھوں نے کہا،، تم نے اب تک میرے بارے میں کچھ لکھ کر نہیں دیا۔کب لکھے گا۔ میرے مرنے کے بعد۔۔۔،، خان کی باتیں ایسی تھیں کہ ان پر فوری لکھنے کو دل کرتا تھا۔ لیکن ان سے ڈر بھی لگتا تھا۔ اس لئے اس سمت پیش رفت نہیں کی۔ کچھ عرصے پہلے آغا خان اسپتال میں ان کی علالت کا سن کر گیا۔ خاصی دیر آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑا رہا ۔ بعد میں وہ صحت یاب ہوکر کلب آنا شروع ہوئے۔ پریس کلب میں ان دنوں ان سے ملاقات تو ہوتی تھی لیکن بات نہیں ہوتی تھی وہ کچھ حساس ہوگئے تھے۔ ملاقات ہوتی تو میں یوسف خان سے ہیلو ہائے کرکے ان کے پاس بیٹھ جاتا۔ ان کا دل کرتا تو کوئی بات کرلیتے یا خاموش بیٹھے رہتے۔ محفل عروج پر ہوتی تو اچانک اٹھ کر چل دیتے۔اب تو ٹی وی پر ان کی آمد بھی کم ہوگئی تھی۔ان کے برجستہ جملے اور کاٹ دار تبصرے اکثر لوگوں کو برداشت نہیں ہوتے تھے۔ لیکن عوام میں ان کی مقبولیت تھی۔ ان کے تبصرے اور تجزئے پسند کئے جات

جھوٹ کے پائوں کہاں

 . عامر لیاقت کی ویڈیو کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ یا لوگوں نے تو میلہ لگا لیا ہے۔ کچھ کہ رہے ہیں کہ اس کا بید باجا بج گیا ہے۔ اور کچھ اسے رفو گری کرانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ کوئی اسے میدیا پرڈیکٹ کہ رہا ہے تو کوئی اسے مکافات عمل کہ رہا ہے۔ جب جاہل عال بن جائیں اور دین کو اپنے قد و قامت کی بلندی کے لئے استعمال کریں تو ایک دن تو ایسا ہوتا ہے کہ رسوائی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ جھوٹوں پر خدا کی لعنت اور پھٹکار پڑتی ہی ہے۔ آج ہی آج میں انھوں نے اس کا لزام دھر دیا کہ یہ میڈیا کی کاری گری ہے۔اور ان کی آواز ڈب کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ عامر لیاقت کے جیو پر پیش ہونے والے پروگرام خود عامر لیاقت کی پرائیویٹ پرڈیکشن ہوتے تھے۔ جو جیو کو فروخت کئے جاتے تھے۔ اب بھلا بتائے کہ جھوٹا کون ہے۔ صیح کیا ہے۔ یہ تو سب کچھ ان کے اپنے اسٹوڈیو میں ریکارڈ ہوتا تھا۔ .

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: شہر خموشاں

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: شہر خموشاں : "عطا محمد تبسم رات شہر کی سڑکوں پر تاریکی اور سناٹا تھا، کھبی کبھی کہیں سے فائرنگ کی آواز آتی، گھر سے فون آیا تھا، علاقے میں کشیدگی..."

کراچی والے بہت خوش ہیں۔

  عطا محمد تبسم پاکستان میں صحافت بے حد آسان بھی ہے اور مشکل ترین بھی ۔ آپ کوچہ صحافت میں قدم رکھ کر اسلام آباد میں شاندار قیمتی پلاٹ بھی حاصل کرسکتے ہیں اور شلیم شہزاد اور کئی دوسرے صحافیوں کی طرح کسی قبرستان میں دو گز زمیں بھی ۔ آپ جہازوں میں غیر ملکی دورے بھی کرسکتے ہیں اور سنئیر صحافی محمد علی خالد کی طرح سڑکوں پر پیدل مارچ بھی۔ آپ لاکھوں کی تنخواہ بھی لے سکتے ہیں اور ٹرانسلیٹر عبد الرحیم کی طرح چند سو روپے پر رات دن قلم کی محنت اور مشقت کی راہ بھی اپنا سکتے ہیں. سید سلیم شہزاد اسلام آباد میں ایشیا ٹائمز آن لائن کے بیورو چیف تھے۔ اس پہلے وہ کراچی میں اسٹار میں رپورٹر تھے۔ انھیں خبروں سے عشق تھا۔ اور اسی عشق نے انھیں امتحان میں ڈال دیا ۔ کرچی میں ان سے پریس کلب یا کسی اور جگہ ملاقات ہوتی تو ان کی مسکراہٹ اور زندہ دلی اور صحافت میں بے باکی سے سابقہ پڑتا۔29 مئی کو سلیم شہزاد اسلام آباد میں اپنے گھر سے ایک ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو دیتے کے لیے نکلتے ہیں اور پھر لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے ہیومن رائٹس واچ کے علی دایان حسن کو بتا دیا تھا کہ اگر وہ قتل ہوجائیں یا اگر وہ لاپتہ یا قت

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: دھرنا سیاست۔ کیا ملک کی تقدیر بدل دے گی ؟

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: دھرنا سیاست۔ کیا ملک کی تقدیر بدل دے گی ؟ : "عطا محمد تبسم دنیا کی تاریخ میں انسان اپنے عمل سے ہر تبدیلی لا سکتا ہے۔ اور تبدیلی کے لئے عوام اپنے گھروں سے نکل پڑیں تو پھر دنیا کی کوئی ..."

دھرنا سیاست۔ کیا ملک کی تقدیر بدل دے گی ؟

عطا محمد تبسم دنیا کی تاریخ میں انسان اپنے عمل سے ہر تبدیلی لا سکتا ہے۔ اور تبدیلی کے لئے عوام اپنے گھروں سے نکل پڑیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انھیں اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے التحریر سکوائر پر اٹھارہ دن تک دھرنا دینے والے خمیہ زن احتجاجی مظاہرین کا جذبہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اپنے مطالبات میں جس نظم و ضبط سے یہ اٹھارہ دن گزرے وہ دیدنی تھے۔ مصری عوام دیوانہ وار جھوم جھوم کر مصر کے پرچم کو ہوا میں لہرا تے تھے۔ التحریر سکوائر، مزاحمتی تحریک میں تاریخ کا حصہ بن گیا۔ آج سا ری دنیا میں عوام احتجاج کے لئے پرامن انداز میں اپنے مطالبات کے حق کے لئے دھرنے دیتے ہیں۔ عرب دنیا میں عوام اپنے آمر حکمرانوں سے نبرد آزما ہے۔ پاکستان کے عوام نے بھی ایک آمر کو رخصت کرنسے کے لئے وکلاءاور سول سوسائٹی کے ساتھ جو بےمثال تحریک چلائی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ دنیا میں دھرنا سیاست یا احتجاج شمالی امریکہ سے شروع ہوا۔ جہاں گوروں کے مقابلے میں کالوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ انکے اسکول کالج کیفے ریستورانت،بسیں سب الگ تھیں۔ فروری 1961 میں نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے چا کالے طالب علم ایک

ذرا سی غیرت

عطا محمد تبسم ہمارے ایک دوست نے ہمیں رائے دی ہے کہ ہم  ویٹ   کے اشتہار پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ انھوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس ایڈریس پر اپنا احتجاج ای میل کریںPlease support "SAV Team" to stop this vulgar ad of Veet in educative, respectful & peaceful way. Just write an e-mail to sumera.nizamuddin@reckittbenckiser.com , tauseef.faisal@rb.com as soon as possible & circulate that mail amongst your friends & relative circle to write more & more mails to these two. میڈیا کس قدر خود سر ہوگیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کوئی پروگرام دیکھیں۔ یا تو بچے ایسے کسی ایڈ پر اٹھ کر چلے جاتے ہیں یا ہم ریموٹ سے مدد لیتے ہیں یا پھر خجالت محسوس کرکے رہ جاتے ہیں۔۔ الیکٹرک میڈیا کے اس دور سے قبل اشتہارات کی سنسر کا نظام تھا۔ پی ٹی وی کی پالیسی اس بارے میں سخت تھی۔ ضیاالحق کے دور میں بنی اس پالیسی کو بھی ہم نے طاق پر سجا دیا ہے۔ اب اشتہارات میں بچوں کو جھوٹ بولنا، ساتھیوں کو بے وقوف بنانا، چوری کرنا،بداخلاقی کرنا، بدتمیزی کرنا سکھایا جاتا ہے۔ بچیوں کو اشتہار می

غریب عوام کے ارب پتی نمائندے

عطا محمد تبسم پاکستان کے سیاست دان اب بدنامی سے نہیں ڈرتے ، کرپشن، لوٹ مار، دھونس دھاندلی،اختیارات کا ناجائز استعمال، ذاتی مقاصد کے لئے پوری قوم کو داﺅں پر لگا دینا ، ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔گذشتہ برسوں میں لوٹ مار کرپشن، دھوکہ دہی کا جس بڑے پیمانے پر چلن ہوا ہے اس نے عوام کا بھوکوں مار دیا ہے، بے روزگاری،منگائی اور دہشت گردی، اور آئے دن کے ہونے والے حادثات نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے روز بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب سیاست دانوں کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے سیاست دان ارب پتی ہیں، رات دن قوم کے غم میں لنچ ڈنر کھاتے ہیں۔ تقریر کرتے ہوئے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ اربوں کی کرپشن کرتے ہیں ، جیل میں جاکر عیش کرتے ہیں۔ لیکن لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں کرتے۔صدر آصف زرداری کے اثاثے اور دولت کا کوئی شمار نہیں ہے۔ اب وہ پاکستان ہی کے نہیں بلکہ دنیا کے بڑے دولت مندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان اکانومی واچ کے صدر کے مطابق ن لیگ کے سربراہ اور موجودہ حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں۔دونوں سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار سمجھتے ہیں۔طریقہ واردات الگ مگر

لاڑکانہ

لاڑکانہ جاتے ہوئے طبعیت پر بوجھ تھا۔ لیکن حکم حاکم مرگ مفاجات والی بات تھی۔ ذمہ داری تھی اور نوکری میں نخرہ کیسا۔ تو جناب موہنجوڈارو کی فلائٹ سے روانگی ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں نے عوام کے لئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ لیکن صدر یا وزیر اعظم بنے پر سب سے پہلے اپنے آبائی شہر میں ہوائی اڈا قائم کرنا اور اپنی ذاتی رہائش گاہ کو ایوان صدر یا ایوان وزیر اعظم کا مرتبہ دلانا ضروری ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے لاڑکانہ اپنی رہائش گاہ پر عوام کا پیشہ خوب خرچ کیا۔اب داماد (جی ہاں پورے سندھ کے داماد ہیں ، بے نظیر اپنے آپ کو سندھ کی بیٹی کہتی تھیں۔)نواب شاہ اور بلاول ہاوس پر قومی دولت لٹا رہے ہیں۔چھوٹا سا جہاز تھا۔ جس میں تیس پینتیس مسافر تھے۔ لاڑکانہ کے پانچ چھ ، باقی سکھر کے ، فلائٹ لاڑکانہ سے سکھر جاتی ہے۔ سندھی اجرک کے ڈیزائن کا لنچ بکس کا ڈبہ خاصا بڑا تھا،لیکن اندر ایک ٹھنڈا پیٹیز اور ایک کیک کا ٹکڑا تھا۔ مشروب اور چائے کے خاتمے کے ساتھ لاڑکانہ پہنچ گئے۔جہاز میں سوار ہونےوالوں کی اکثریت سرکاری ملازم تھے یا کاروباری یا ملٹی نیشنل کے ملازمین۔ عام آدمی تو اب جہاز کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ہوائی اڈے پر دھول مٹی اڑ رہ

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: مسخروں کی حکومت

SahaneChamman صحن چمن کی باتیں: مسخروں کی حکومت : "عطا محمد تبسم ہم نے بھی کیسے کیسے مسخروں کو حکومت دے دی ہے،جو ایک جوکر کی طرح رنگ برنگی ٹائیاں پہن کر میڈیا کے سامنے بڑھکیں مارتے ہیں،او..."

مسخروں کی حکومت

عطا محمد تبسم ہم نے بھی کیسے کیسے مسخروں کو حکومت دے دی ہے،جو ایک جوکر کی طرح رنگ برنگی ٹائیاں پہن کر میڈیا کے سامنے بڑھکیں مارتے ہیں،اور ایسی تقریر کرتے ہیں، جو اگر کوئی سرکاری پرٹوکول سے با ہر کرے تو عوام اسے لتر رسید کریں۔لیکن اب ہمارے میڈیا کی مجبوری ہے یا منافقت کے وہ ان لا یعنی فضول باتوں کو بھی شہ سرخیوں میں جگہ دیتا ہے۔ اگر اس ملک میں صحافت میں قابل جوہر ہوتے تو یہ بیانات اور باتیں مراسلوں میں بھی شائع نہ کرتے۔ کل حافظ آباد میں ہمارے وزیر داخلہ نے جو جھک ماری ہے وہ اخبار والوں نے چھاپ کر پھر اپنے دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں،، وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ توہین قرآن کا مرتکب امریکی پادری ٹیری جونز لقاعدہ اور طالبان کا ایجنٹ ہے،ڈرون حملے پاکستان نہیں بلکہ امریکاکروارہاہے،ان حملوں کو روکنا ہمارے بس میں ہے نہ ہی 66ہزارفٹ کی بلندی پراڑنے والے ڈرون مارگرانے کی ٹیکنالوجی ہے داخلہ نے کہا کہ قرآن پاک کی توہین کرنے والا امریکی پادری دہشت گرد ہے، اس ناپاک جسارت پر عالم اسلام میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے،رحمن ملک نے منور حسن، عمران خان، فل الرحمن، مولانا تقی عثمانی، م

جنرل موٹرز کا دیوالیہ

جنرل موٹرز کسی زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی موٹر ساز کمپنی تھی ۔لیکن زمانے نے اس کمپنی کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ امریکہ میں بے راوزگاری کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جنرل موٹرز کا شمار ٹیوٹا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی کمپنی کے طور پر ہو تا تھا۔ ۱۰۱ سال سے موٹر سازی کے کاروبار میں اس کی اجارہ داری تھی۔یہ کمپنی ۳۴ ملکوں میں ٹرک اور کاریں بناتی تھی۔پوری دنیا میں اس کے ملازمین کی تعداد۰۰۹۴ ۳ سے زائد تھی۔ دنیا کے ۰۴۱ ملکوں میں اس کے سیلز کے مراکز تھے۔شیورلیٹ، کیڈی لیک،بیوک،اپیل،واکس ہیل ہولڈمین، پونیٹیاک، سیب، سٹیم، والنگ سب اسی کمپنی کی گاڑیاں تھیں۔دنیا بھر کے حکمرانوں اور امیر آدمیوں کے لئے ایک صدی تک ساماں عیش و عشرت فراہم کر نے والی یہ کمپنی اب دیوالیہ ہوگئی ہے۔ جس کے اثرات سے بچنے کے لئے امریکہ ہاتھ پاوئں مار رہا ہے۔ ۷۲ ستمبر ۸۰۹۱ کو یہ ہولڈنگ کمپنی موشی گن میں قائم ہوئی تھی۔ ۰۸ا۹ تک یہ دنیا کی بہترین کمپنی تھی۔ دنا بھر میں اس کے ۰۵۱ اسمبلنگ پلانٹ تھے۔اس اس کے ۲۹ ہزار ملازمین اور ۵ لاکھ رٹائرڈ ملازمین کا مستقبل خطرے میں ہے۔حال ہی میں جنرل موٹرز ا نے پنی مشہور گاڑی کے ماڈل ہمر کو ستمبر کے آخر

دہشت گردی کا عالمی منظر نامہ

نائین الیون کو ا مریکی شہر نیو یارک کا ورلڈ ٹریڈ مرکز دہشت گردی کا نشانہ کیا بنا اس کے بعد سے ساری دنیا ہی تبدیل ہو گئی ۔ دنیا کی اس کا یا پلٹ میں امریکہ، برطانیہ ، اور اس کے اتحادی ملک شامل ہیں ۔ باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے اب تک دہشت گردی کی کسی متفقہ تعریف پر متفق نہیں ہوئے ۔ اس کے با وجود ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف مہم جاری ہے۔عالمی سطح پر دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں مختلف حکومتیں اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یورپ امریکہ برطانیہ جرمنی اسرائیل، بھارت بھی اپنے شہروں اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے حوالے سے سخت سے سخت قوانین متعارف کروانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی اب ایک علاقے تک محدود نہیں رہی۔ ستمبر گیارہ کے بعد یہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ اِس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی جس انداز میں مختلف جہتوں میں افزائش پا رہی ہے وہ حیران کن ہونے کے ساتھ انتہائی پریشان ک ±ن بھی ہے۔ اس کے سدِ باب کے لئے دنیا بھر کے مختلف حصوں میں قائم حکومتیں مزید سخت سے سخت قوانین کو متعارف کروانے میں مصروف ہیں۔ اِس مناسبت سے یورپی م