اشاعتیں

ستمبر, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دراز رسی آہستہ آہستہ کھینچی جا رہی ہے۔

عطا محمد تبسم این آر او ایک برا قانون ہے، این آر او کالعدم قانون ہے جس کا کوئی وجود نہیں عدالت عالیہ نے گزشتہ سال دسمبر میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ لیکن سننے والوں نے اسے اس طرح سنا جیسے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جیسے بہرے کان سننے سے معذور ہوتے ہیں۔ انھیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہا گیا ہے اور کس سے کہا گیا ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔ دس ماہ بعد عدالت نے دوبار اس کیس کو کھولا تو چاروں طرف ایک سراسیمگی پھیل گئی۔ کسی کو یقین نہ آرہا تھا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔یہ 17 رکنی بنچ کا فیصلہ تھا۔ جس کے لئے 14 درخواستیں دائر کی گئیں جن میں سے 12 درخواستیں سماعت کے لئے منظور کی گئیں تھیں۔ ان درخواست دہندگان میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد‘ سابق بیوروکریٹ روئےداد خان‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ شاہد اورکزئی اور 5 قیدیوں کی درخواستیں بھی شامل تھیں جبکہ اسفندیار ولی‘ انور سیف اللہ اور پنجاب کے و زیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی درخواستوں کو بھی سماعت کے لئے منظور کیا گیا تھا۔ مقدمہ کے دوران عدالت نے نیب‘ اٹارنی جنرل وفاق‘ چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری صاحبان اور وزارت قانون کے سیکرٹری سمیت متعدد حکام کو نوٹس جاری
قیوم جتوئی کس کی زبان بول رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے دور میں جس دن چن زیب نے وزیر اعظم کی رہائش گا ہ کے باہر خودکشی کے لئے اپنے آپ کو آگ لاگا لی تھی۔ اسی دن سے میاں صاحب کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ اب جب سے ایک اور مفلوک الحال بے روز گار شخص نے سید زادے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر خود سوزی کی ہے۔ میں ڈر رہا ہوں کہ موجودہ حکومت کے دن بھی پورے ہوگئے ہیں۔ جانے والے اپنی حماقتوں سے جاتے ہیں، اور ان کے کرتوت ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں رات دن بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ محاذ آرائی کون کررہا ہے اور نئے محاذ کون کھول رہا ہے۔ سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہوش و حواس سے بیگانے ہوکر ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں ۔ جو بدنامی ہی کا سبب نہیں بنتی بلکہ منڈیٹ کا بھی جنازہ نکال دیتی ہیں، پیپلزپارٹی کی قیادت میں وفاقی حکومت کی عدلیہ سے محاذ آرائی کے بعد سیاسی تبدیلی کی باتیں زوروں پر ہیں،حکومت کا کیا بنتا ہے، یہ سب کو سامنے نظر آ رہا ہے۔ سابق وفاقی وزیر مملکت برائے دفاعی پیدوار عبدالقیوم جتوئی سے پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف اور کرپشن کے حق میں جن ارشادات عالیہ کا اظہار کیا ہے، وہ ایک فرد

کیسا مقدمہ ۔۔۔۔۔کیسی سزا

تصویر
ا بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی اندھیر نگری چوپٹ راجہ ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنانے کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ ترقی کے اس دور میں بھی وہی اندھیر نگری ہے۔ عافیہ کو امریکہ کی عدالت سے دی جانے والی ۶۸ سال قید کی سزا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ میں پانچ سال میں پہلی بار کسی عورت کو انتہائی سزا دی گئی ہے۔ یہ سزا مسلمان نوجوانوں کو امریکہ کی جانب سے ایک تنبیہ ہے کہ وہ اگر حریت فکر ، آزادی اظہار اور امریکہ کے دہرے معیار کے خلاف کوئی بات کریں گے تو انھیں درس عبرت بنادیا جائے گا۔ عافیہ ایک ایسی مظلوم عورت ہے۔ جس کی پکار پر کوئی ابن قاسم مدد کو نہ آیا۔ اس پر ظلم کرنے والے خود اس کی اپنی قوم کے حکمران افراد ہیں۔ جو کبھی غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوجاتے تھے۔ آج ڈالروں کی جھنکار نے انھیں اپنی قوم کی اس بیٹی کی چیخوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ایک مظلوم نہتی عورت سے خوفزدہ ہے۔ اس مظلوم عورت کے شیر خوار بچے کو اس سے چھین کرمار ڈالا گیا۔ اس کے دو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک ڈھکوسلا ثابت ہوا۔ جس میں انصاف کا قتل کیا گیا ہے۔اس مقدمے پر ساری دنیا کی نظریں ت
چھٹتی نہیں ہے کا فر منہ سے لگی ہوئی عطا محمد تبسم مولانا فضل الرحمان ، مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ حکومت ان کو ایسی راس آئی ہے کہ چھٹتی نہیں ہے کا فر منہ سے لگی ہوئی۔ بے نظیر ہوں، یا نواز شریف، مشرف ہوں یا زرداری ان کی پانچوں انگلیاں ہی کیا، سب کچھ گھی میں ہے۔ ملک میں آگ لگے یا سیلاب آئے ان کی قدم پاکستان کی سرزمین پر ٹکتے ہی نہیں۔ ملک میں سیلاب آیا تو مولانا عمرے پر چلے گئے، لال مسجد کا سانحہ ہوا تو مولانا لندن جا بیٹھے۔ ان کے بھائی مولانا عطا الرحمن بھی وزارت ، گاڑیوں، اور بیرونی دوروں کے شوقین ہیں۔ حکومت میں رہنے سے سارے شوق پورے ہوجاتے ہیں۔ ابھی مولانا دوبئی سے آئے ہیں۔ قصد امریکہ جانے کا تھا۔ پر امید بر نہ آئی۔امریکیوں نے انھیں اپنے ملک آنے سے روک دیا گیا ہے۔ ادھر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم خان سواتی کو امریکا جانے کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ مولانا فضل الرحمن نیویارک میں ہونے والی او آئی سی کی سالانہ رابطہ کانفرنس میں شرکت کیلئے دوحہ سے روانہ ہورہے تھے۔ تاہم انہیں دوحہ ایئرپورٹ پر امریکی حکام
عافیہ کی رہائی حکومت پوائینٹ اسکور کرسکتی ہے۔ عطا محمد تبسم اس دن بھی سارے دوست ڈاکٹر عافیہ کے گھر جمع ہوئے تھے۔ جو عافیہ کی رہائی کے لئے طویل جدوجہد کے بعد اس مرحلے پر پہنچے ہیں۔برطانیہ سے ایون رڈلی مریم اور گونتابے کے قیدی معظم بیگ آئے تھے۔ کراچی کے دوستوں میں سلیم مغل، انتخاب سوری ، شہزاد مظہر،پاسبان کے الطاف شکور ، صحافتی برادری، این جو اوز اور دانشور سب یہ سوچ رہے تھے کہ اب عافیہ کی رہائی کیسے ہو۔عصمت آپا ، عافیہ کی والدہ کے آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ احمد جو اپنی ماں سے بچھڑ کو ادھورا سا سہما ہوا بچہ ہے۔ مریم تو اب تک شاک کی کیفیت میں ہے۔ فوزیہ کہہ رہی تھی کہ عافیہ تو اسی دن مر گئی تھی۔ جب اس کے بچے اس سے چھین لئے گئے تھے۔ امریکی عدالت ایک ایسے قیدی پر مقدمہ چلا رہی ہیں جو ظلم وستم سے ذہنی طور پر معذور ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کے مقدمے کے دوران اس کی بیٹی مریم کو بار بار اس کے سامنے لاکر دھمکی دی جاتی رہی کہ اگر اس نے لب کشائی کی تو اس کی بیٹی عمر بھر اسے نہ مل سکے گی۔ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بردہ فروش حکمرانوں نے اسے اپنے اقتدار پر قربان ک
ایک تعارف۔۔۔ عطا محمد تبسم اسکول میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اردو کے استاد نے تعریف کی،یوں لکھنے سے دلچسپی بڑھی،پڑھنے کا شوق آنہ لائیبریری لے گیا۔ ان دنوں بچوں کی دنیا، تعلیم وتربیت جیسے رسالے تھے،کتابوں کے شوق کی آبیاری کرنے کے لئے کوئی رہنما نہیں تھا۔ اس لئے جو ملا پڑھ لیا، قاسم محمود کے شاہکار نے ادب کی راہ دکھائی،مفتی کی علی پور کا ایلی نیشنل سنٹر میں روزانہ جاکر پڑھتا، لائیبریری کے اوقات ختم ہونے پر گھر چلا جاتا، کئی دنوں میں یہ کتاب ختم کی،کالج میں ایک محسن دوست مل گیا، اس نے ادب کے ستھرے ذوق کو مہمیز کیا،تعلیم ، معاش اور طلبہ سیاست نے صحافت کی راہ دکھائی۔کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے اساتذہ اور دوست احباب نے اردو اور انگریزی پر توجہ دلائی، لیکن بچپن میں پیلے اسکول کی تعلیم انگریزی والوں کا کیا مقابلہ۔ سو زندگی بھر ایک طالب کی طرح حرف حرف سیکھنے کا عمل جاری ہے۔حیدرآباد شہر میں پیدائش،جامعہ سندھ سے ایم اے معاشیات،اور جامعہ کراچی سے ایم اے صحافت کے بعد اخبارات ، اور تعلقات عامہ سے رشتہ نان جو جڑا ہے۔بلاگ کے دوستوں سے سیکھنے کا عمل جاری ہے۔ ابھی تک درست طریقے پر نہ تو بلاگ بنا پای

شہید انقلاب ڈاکٹر عمران فاروق

عطا محمد تبسم عید کے بعد کراچی میں کیا ہوگا۔ یہ ایک عمومی سا سوال تھا۔ جو عید پر ملنے جلنے والے ایک دوسرے سے پوچھا کرتے تھے۔ اس سوال کی وجہ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت اور مخلوط حکومت میں نمایاں کردار ادا کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے وہ بیانات اور خطاب تھے۔ جن میں انقلاب اور جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔ قائد تحریک کی سالگرہ ۷۱ ستمبر کو منائی جاتی ہے اور ایم کیو ایم کے کارکن اس دن کا خصوصیت سے انتظار کرتے ہیں کہ اس دن انھیں اپنے رہنما کے جنم دن پر خوشیا ں منانے کا موقع ملتا ہے تو دوسری جانب نائین زیرو کے نزدیکی میدان میں موسیقی اور گانوں کا منفرد شو ہوتا ہے جس میں ملک کے بڑے فنکار شرکت کرتے ہیں۔ٹھیک بارہ بجے الطاف حسین اپنے ساتھیوں سے یک جہتی کے لئے خطاب کرتے ہیں۔ ملک میں سیلاب کی صورت حال کے سبب اس بار سالگرہ کی تقریبات سادگی سے منائی جانے والی تھی کہ اچانک ایک ناگہانی افسوس ناک خبر نے ماحول کو سوگوار کر دیا۔لندن میں ایم کیو ایم کے مرکز کے قریب ایم کیو ایم کے کنوینر عمران فاروق کو نامعلوم قاتل نے چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا۔عمرا

میوزیکل چیئر کا گیم

عطا محمد تبسم حیدرآباد سے کراچی کا سفر آرام سے دو گھنٹے میں طے ہوگیا۔ گھر سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر راشد منہاس روڈ پر کراچی کا ٹریفک اپنے پورے جوبن پر تھا۔ دور دور تک کاروں ،بسوں،رکشائ، موٹر سائیکلوں ،ٹرک، مزدا ٹرک،ویگن کی ایک نا ختم ہونے والی بھیڑ تھی۔کراچی کے باشعور شہریوں میں قائد اعظم کے فرمودات اتحاد، تنظیم ، نظم وضبط کے کوئی آثار نہیں تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ حیدرآباد سے کراچی کو سفر دو گھنٹے، اور کراچی میں آدھ کلو میٹر کا فاصلہ بھی دو گھنٹے میں طے ہوا۔ کراچی کا ٹریفک اب ایک ڈراﺅنے خواب کی صورت ہے۔ جس میں پھنس جانے کا تصور ہر گاڑی چلانے والے کو ایک جنونی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ کسی طرح میں نکل کر اپنی منزل پر پہنچ جاﺅں۔گھر آنے پر ٹی وی سے پتہ چلا کہ پورے کراچی میں ہر جگہ ٹریفک جام ہے جو بعض مقامات پر رات ایک دو بجے تک رہا۔ کراچی کے شہری جس طرح اب ٹارگٹ کلنگ کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرچکے ہیں۔ ایسے ہی ٹریفک جام کو بھی اس شہر میں رہنے کا ایک ٹیکس سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے۔ سپر ہائی وے پر دور دور تک سیلاب متاثرین کی جھونپڑ پٹیاں ہیں۔ عورتیں بچے صبح شام سڑک پر ہاتھ پھیلائے