بابو


بابو (والد صاحب) کے کاغذات میں 1964 کی یہ رسید ملی الفاروق ہائی اسکول ریشم گلی نیا نیا بنا تھا مشتاق صاحب ہیڈ ماسٹر تھے ان دنوں شام کی کلاسوں کا نائٹ اسکول کاآغاز کیا تھا پانچویں کلاس کا دن میں طالب علم تھا رات میں چھٹی کلاس نو بجے تک کلاس ہوتی باہر کی دکانوں پر ریکاڈنگ یا ریڈیو پر بلند آہنگ گانے ستارو تم تو سوجائو پریشان رات ساری ہے سنتے سنتے ڈیسک پر سوجاتا مسٹر جمیل اور نسیمہ والی انگریزی کی کتاب پڑھائی جاتی اور اسپیلنگ پر زور دیا جاتا اس زمانے میں اورینٹ ہوٹل اور سلطان ہوٹل کے درمیان والی اورنگ زیب مسجد کاقضیہ شروع ہوگیا مسجد نیچے تھی اورینٹ ہوٹل اونچا روز جلوس نکلتے اور کوہ نور چوک میدان جنگ بن جاتا شیلنگ ہوتی جلوس سٹی کالج سے نکلتے عثمان کینڈی رضوان صدیقی رحمت ہٹلر جیسے طالب علم رہنما تھے. پانچ روپے فیس تھی بابو کے لئے تو شائد بہت ہوگی ماہانہ تنخواہ ہی 64 روپے تھی لیکن سونا بھی 64 روپے تولہ تھا سنار گلی سے نکلتے تو ہر دکان پر لٹکی سلیٹ پر چاک سے بڑا بڑا نرخنامہ لکھا ہوتا سونے کا آج کا بھاو جانے کیسے پیٹ پر پتھر باندھ کر یہ خرچے برداشت کرتے اسکول کے زمانے میں کالے بوٹ سفید قمیض خاکی پینٹ اسکول ڈریس تھا ابا نے پرانے فوجی بوٹ کی جوڑی ایک موچی کو دی ہوپ فل اسکول کے نزدیک جو مزار ہے اس کے برابر میں دکان تھی اس موچی کی ماہر فن تھا میں روزانہ اسکول سے آتے ہوئے اس کی دکان پر جاتا اور پوچھتا میرا جوتا بن گیا . ایک ماہ کے بعد اس نے بہت اچھے اور مضبوط جوتے بناکر دیئے بہت عرصے تک چلے. ریگولر داخلہ چھٹی کلاس میں گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہوا داخلے کے لیے ٹیسٹ لیا جاتا تھا پاس ہونے والوں کی.لسٹ لگتی میرا نام لسٹ میں آیا تو داخلہ ہوگیا سامنے گول بلڈنگ بن رہی تھی اسکول کے پیچھے ریڈیو اسٹیشن تھا برابر میں ڈپٹی کمشنر ہاوس تھا شائد نیاز احمد کمشنر تھے ان دنوں رسالہ روڈ اور اسٹیشن روڈ مرکزی شاہراہ تھیں چوڑی اور صاف صبح سویرے خاک روب جھاڑو دیتے چھلی میں کچرا اٹھاتے گھوڑے تانگے چلتے تھے موٹر بہت کم تھی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک اور چراغ گل ہوا

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔