ساری امیدیں ختم ہوئیں۔۔۔۔۔۔
عطا محمد تبسم
زندگی کے راستے کتنے کھٹن اور جاں لیوا ہیں۔دشت کی آبلہ پائی میں زخم روح کے ناسور بن جاتے ہیں۔ ایک امید کا سہارا تھا کہ کچھ جانیں بچ جائیں گی۔ لیکن رات گئے کائرہ صاحب کی پریس کانفرینس نے یہ امید بھی ختم کردی۔ جائے حادثہ کے مناظر ہولناک تھے۔ حادثے کے بعد سوائے آگ راکھ ، جسموں کے ٹکڑے، کے کچھ بھی نہ بچا۔انسان فانی ہے۔ موت کے سو بہانے ہوتے ہیں۔مر نے والے مر جاتے ہیں۔ اور جانے والوں کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ نہ جانے آج کیوں مجھے جولائی ۴۷۹۱ یاد آ رہا ہے۔ سٹی کالج حیدرآباد اسلام آباد میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافروں میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔آج جانے کیوں مجھے چھ جولائی ۴۷۹۱ یاد آرہی ہے۔ وہ بھی ایک ایسا ہی اجتماعی سانحہ تھا۔ سٹی کالج حیدرآباد کے طلبہ سالانہ ٹور پر مری گئے تھے۔ جہاں ان کی بس نتھیا گلی سے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گر گئی تھی۔ ۴۵ نوجواں طالب علم اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔تین دن تک ہم حیدرآباد کی سڑکوںاور گلیوں میں گھومتے رہے، رات کو نیند نہیں آتی تھی، سارے دوست یاد آتے تھے۔ حیدرآباد ایر پورٹ پر ۴۵ جنازے قطار سے رکھے ہوئے تھے۔ میرے ہوش میں یہ پہلا اجتماعی حادثہ تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ دور بھی پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت تھی، یہ بھی جولائی کا مہینہ ہے، بہت سا وقت گزر گیا ہے۔ لیکن اب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ نجانے یہ اتفاق ہے کہ قدرت کی جانب سے کوئی انتباہ ۔ بعض اوقات قوموں کو اجتماعی غلطیوں پر ایسی ہی سزا دی جاتی ہیں۔ قدرت کی مصلحتوں کے اشارے ہوتے ہیں،سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ جہاز کے ملبے سے ایک سے ایک اندوہناک کہانی نکل رہی ہے اور طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اپنی نوعیت کا یہ انوکھا سانحہ اس وقت پیش آیا جب ملک کے گوشے گوشے میں لوگ شبِ برات کی مقدس شب میں عبادت کرکے دعاو ¿ں سے فارغ ہوئے تھے۔ ایک ایک مسافر اپنے پیچھے کئی کئی کہانیاں چھوڑ گیا۔ مارگلہ کی پہاڑیاں، جہاں لوگ خوشیاں حاصل کرنے جاتے ہیں،ان مسافروں کی ابدی آرام گاہ بن گئی ہے۔ ب غلام عباس کی بیٹی مائیوں بیٹھی تھی۔ دلہن کی سہیلیاں اور خاندان والے مہندی سجانے میں مصروف تھے۔ غلام عباس صاحب شادی کی مصروفیات میں سے چند گھنٹوں کا وقت نکال کر کچھ دفتری امور کو نمٹانے کے لیئے اسلام آباد گئے تھے۔ ان کی بیٹی رخصتی کے لئے باپ کا انتظار کر رہی ہے۔ گلشن اقبال کا وہ نو بیاتہا جوڑا جس کی صرف چاروز قبل 23 جولائی کو شادی ہوئی تھی اور جو ہنی مون منانے کے لئے اسلام آباد گیا تھا۔اس کے والدین اور دیگر رشتہ داروں اب بھی ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اپنی پلکوں پر خواب سجائے رخصت ہونے والے یوتھ پارلیمنٹ کے چھ دو ستوں کاان کے دوست اور احباب ہمیشہ انتظار کر تے رہیں گے۔ آنکھوں سے سے مسلسل آنسوﺅں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ برسات تو تھم گئی لیکن آنسو ﺅں کی یہ برسات یونہی جاری رہے گی۔فضائی حادثے میں پائلٹ سمیت عملے کے تمام ارکان جاں بحق ہوگئے ہیں۔کیپٹن پرویز اقبال چوہدری فرسٹ آفیسر مجتدین ، ایئر ہوسٹس حنا عثمان ، ام حبیبہ اور جویریہ فراز کو ان کے اہل خانہ اور ساتھی ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔یہ رقت آمیز مناظر، غم سے نڈھال والدین اورعزیز اوقارب و لواحقین ، جانے ان سب کو کب صبر آئے گا۔ حادثے کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ تخریب کاری، حادثہ یا انسانی غلطی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ”بلیک باکس“ کی تلاش سے کیا ہوگا۔ اندازے اندازے اور امکانات ۔کیا کوئی ایسی رپورٹ منظر عام پر آئے گی۔ جس میں ذمہ داروں کا تعین ہو۔ آئیندہ ایسی غلطی کا اعادہ نہ ہو۔آج قومی سوگ ہے۔ تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے۔اس حادثے سے انسانی محبت اور خلوص کے بہت سے پہلو بھی ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فضائی حادثے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔کمیٹی کو کام کرتے ہوئے ٹی وی چینلز کے مختلیف پروگراموں کی ویڈیو بھی دیکھنی چاہئے جس میںمختلف ماہرین نے جو کچھ کہا ہے اس کا بھی جائزہ لینا چاہیئے۔ شائد اس سے کوئی مدد مل سکے۔
عطا محمد تبسم
زندگی کے راستے کتنے کھٹن اور جاں لیوا ہیں۔دشت کی آبلہ پائی میں زخم روح کے ناسور بن جاتے ہیں۔ ایک امید کا سہارا تھا کہ کچھ جانیں بچ جائیں گی۔ لیکن رات گئے کائرہ صاحب کی پریس کانفرینس نے یہ امید بھی ختم کردی۔ جائے حادثہ کے مناظر ہولناک تھے۔ حادثے کے بعد سوائے آگ راکھ ، جسموں کے ٹکڑے، کے کچھ بھی نہ بچا۔انسان فانی ہے۔ موت کے سو بہانے ہوتے ہیں۔مر نے والے مر جاتے ہیں۔ اور جانے والوں کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ نہ جانے آج کیوں مجھے جولائی ۴۷۹۱ یاد آ رہا ہے۔ سٹی کالج حیدرآباد اسلام آباد میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافروں میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔آج جانے کیوں مجھے چھ جولائی ۴۷۹۱ یاد آرہی ہے۔ وہ بھی ایک ایسا ہی اجتماعی سانحہ تھا۔ سٹی کالج حیدرآباد کے طلبہ سالانہ ٹور پر مری گئے تھے۔ جہاں ان کی بس نتھیا گلی سے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گر گئی تھی۔ ۴۵ نوجواں طالب علم اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔تین دن تک ہم حیدرآباد کی سڑکوںاور گلیوں میں گھومتے رہے، رات کو نیند نہیں آتی تھی، سارے دوست یاد آتے تھے۔ حیدرآباد ایر پورٹ پر ۴۵ جنازے قطار سے رکھے ہوئے تھے۔ میرے ہوش میں یہ پہلا اجتماعی حادثہ تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ دور بھی پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا۔ بھٹو صاحب کی حکومت تھی، یہ بھی جولائی کا مہینہ ہے، بہت سا وقت گزر گیا ہے۔ لیکن اب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ نجانے یہ اتفاق ہے کہ قدرت کی جانب سے کوئی انتباہ ۔ بعض اوقات قوموں کو اجتماعی غلطیوں پر ایسی ہی سزا دی جاتی ہیں۔ قدرت کی مصلحتوں کے اشارے ہوتے ہیں،سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ جہاز کے ملبے سے ایک سے ایک اندوہناک کہانی نکل رہی ہے اور طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اپنی نوعیت کا یہ انوکھا سانحہ اس وقت پیش آیا جب ملک کے گوشے گوشے میں لوگ شبِ برات کی مقدس شب میں عبادت کرکے دعاو ¿ں سے فارغ ہوئے تھے۔ ایک ایک مسافر اپنے پیچھے کئی کئی کہانیاں چھوڑ گیا۔ مارگلہ کی پہاڑیاں، جہاں لوگ خوشیاں حاصل کرنے جاتے ہیں،ان مسافروں کی ابدی آرام گاہ بن گئی ہے۔ ب غلام عباس کی بیٹی مائیوں بیٹھی تھی۔ دلہن کی سہیلیاں اور خاندان والے مہندی سجانے میں مصروف تھے۔ غلام عباس صاحب شادی کی مصروفیات میں سے چند گھنٹوں کا وقت نکال کر کچھ دفتری امور کو نمٹانے کے لیئے اسلام آباد گئے تھے۔ ان کی بیٹی رخصتی کے لئے باپ کا انتظار کر رہی ہے۔ گلشن اقبال کا وہ نو بیاتہا جوڑا جس کی صرف چاروز قبل 23 جولائی کو شادی ہوئی تھی اور جو ہنی مون منانے کے لئے اسلام آباد گیا تھا۔اس کے والدین اور دیگر رشتہ داروں اب بھی ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اپنی پلکوں پر خواب سجائے رخصت ہونے والے یوتھ پارلیمنٹ کے چھ دو ستوں کاان کے دوست اور احباب ہمیشہ انتظار کر تے رہیں گے۔ آنکھوں سے سے مسلسل آنسوﺅں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ برسات تو تھم گئی لیکن آنسو ﺅں کی یہ برسات یونہی جاری رہے گی۔فضائی حادثے میں پائلٹ سمیت عملے کے تمام ارکان جاں بحق ہوگئے ہیں۔کیپٹن پرویز اقبال چوہدری فرسٹ آفیسر مجتدین ، ایئر ہوسٹس حنا عثمان ، ام حبیبہ اور جویریہ فراز کو ان کے اہل خانہ اور ساتھی ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔یہ رقت آمیز مناظر، غم سے نڈھال والدین اورعزیز اوقارب و لواحقین ، جانے ان سب کو کب صبر آئے گا۔ حادثے کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ تخریب کاری، حادثہ یا انسانی غلطی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ”بلیک باکس“ کی تلاش سے کیا ہوگا۔ اندازے اندازے اور امکانات ۔کیا کوئی ایسی رپورٹ منظر عام پر آئے گی۔ جس میں ذمہ داروں کا تعین ہو۔ آئیندہ ایسی غلطی کا اعادہ نہ ہو۔آج قومی سوگ ہے۔ تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے۔اس حادثے سے انسانی محبت اور خلوص کے بہت سے پہلو بھی ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فضائی حادثے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔کمیٹی کو کام کرتے ہوئے ٹی وی چینلز کے مختلیف پروگراموں کی ویڈیو بھی دیکھنی چاہئے جس میںمختلف ماہرین نے جو کچھ کہا ہے اس کا بھی جائزہ لینا چاہیئے۔ شائد اس سے کوئی مدد مل سکے۔
وفاقی وزراء کی بات ماننا بيوقوفی ہے ۔ وہ سچ کم ہی بولتے ہيں ۔ ابھی جائے حادثہ پر کوئی پہنچا بھی نہ تھا کہ وزيرِ داخلہ نے پانچ زخمی ہسپتال پہنچانے کا اعلان کر ديا تھا ۔
جواب دیںحذف کریںکيا آپ جانتے ہيں کہ جائے حادثہ پر پہلے درجن بھر مقامی لوگ پہنچے اور امدادی کاروائی شروع کی ۔ بعد ميں ايک ہيلی کاپٹر جائزہ لے کر گيا اس کے بعد امدادی جماعت روانہ ہوئی جو دو گھنٹے بعد جائے حادثہ پر پہنچی
از راہ کرم نام اور يو آر ايل والی آپشن فعال کر ديجئے
افتخار اجمل بھوپال
http://www.theajmals.com