لاڑکانہ

لاڑکانہ جاتے ہوئے طبعیت پر بوجھ تھا۔ لیکن حکم حاکم مرگ مفاجات والی بات تھی۔ ذمہ داری تھی اور نوکری میں نخرہ کیسا۔ تو جناب موہنجوڈارو کی فلائٹ سے روانگی ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں نے عوام کے لئے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ لیکن صدر یا وزیر اعظم بنے پر سب سے پہلے اپنے آبائی شہر میں ہوائی اڈا قائم کرنا اور اپنی ذاتی رہائش گاہ کو ایوان صدر یا ایوان وزیر اعظم کا مرتبہ دلانا ضروری ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب نے لاڑکانہ اپنی رہائش گاہ پر عوام کا پیشہ خوب خرچ کیا۔اب داماد (جی ہاں پورے سندھ کے داماد ہیں ، بے نظیر اپنے آپ کو سندھ کی بیٹی کہتی تھیں۔)نواب شاہ اور بلاول ہاوس پر قومی دولت لٹا رہے ہیں۔چھوٹا سا جہاز تھا۔ جس میں تیس پینتیس مسافر تھے۔ لاڑکانہ کے پانچ چھ ، باقی سکھر کے ، فلائٹ لاڑکانہ سے سکھر جاتی ہے۔ سندھی اجرک کے ڈیزائن کا لنچ بکس کا ڈبہ خاصا بڑا تھا،لیکن اندر ایک ٹھنڈا پیٹیز اور ایک کیک کا ٹکڑا تھا۔ مشروب اور چائے کے خاتمے کے ساتھ لاڑکانہ پہنچ گئے۔جہاز میں سوار ہونےوالوں کی اکثریت سرکاری ملازم تھے یا کاروباری یا ملٹی نیشنل کے ملازمین۔ عام آدمی تو اب جہاز کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ہوائی اڈے پر دھول مٹی اڑ رہی تھی۔ شہر جانےوالی سڑک چار برس سے تعمیر کے مراحل میں ہے۔ دھول مٹی کنکر سارے راستے میں ہیں۔ سنا ہے اربوں کا بجٹ رکھا گیا تھا۔ سب کھا پی کر برابر ہوگیا۔ کام اب بھی نامکمل ہے۔ مارچ کی آخری تاریخ تھی، چند دن بعد بھٹو کی برسی ہوگی پورے ملک سے جیالے یہاں آئیں گے۔ صدر اور وزیر اعظم بھی ۔۔ لیکن لاڑکانہ یونہی رہے گا۔ شہر کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔  74 میں پہلی بار اسٹوڈینس یونین کا ٹور لے کر لاڑکانہ آئے تھے۔ چھوٹا سا شہر مگر صاف ستھرا تھا۔شہر کی پررونق جگہ اسٹیشن تھا۔ جہاں لوگ نظر آتے تھے۔ رات کو شہر میں کتے یا فقیروں کا راج ہوتا تھا۔ اب لاڑکانہ میں بڑی بڑی ہوٹلیں ، عمارت،اور نئی نئی ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل