یوسف خان اور نوٹ بک کے سادہ صفحات

. یار تم سے کہا تھا۔ِِ،،میرے بارے میں کچھ لکھ دے۔میری کالم کی کتاب کمپوز ہے۔ تو اس کو دیکھ لے،،۔ یوسف خان نے پریس کلب کی پارکنگ لاٹ میں کھڑے کھڑے یہ بات کہی اور پھر بھول گئے۔ پھر اچانک انہیں کبھی یاد آیا اور انھوں نے کہا،، تم نے اب تک میرے بارے میں کچھ لکھ کر نہیں دیا۔کب لکھے گا۔ میرے مرنے کے بعد۔۔۔،، خان کی باتیں ایسی تھیں کہ ان پر فوری لکھنے کو دل کرتا تھا۔ لیکن ان سے ڈر بھی لگتا تھا۔ اس لئے اس سمت پیش رفت نہیں کی۔ کچھ عرصے پہلے آغا خان اسپتال میں ان کی علالت کا سن کر گیا۔ خاصی دیر آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑا رہا ۔ بعد میں وہ صحت یاب ہوکر کلب آنا شروع ہوئے۔ پریس کلب میں ان دنوں ان سے ملاقات تو ہوتی تھی لیکن بات نہیں ہوتی تھی وہ کچھ حساس ہوگئے تھے۔ ملاقات ہوتی تو میں یوسف خان سے ہیلو ہائے کرکے ان کے پاس بیٹھ جاتا۔ ان کا دل کرتا تو کوئی بات کرلیتے یا خاموش بیٹھے رہتے۔ محفل عروج پر ہوتی تو اچانک اٹھ کر چل دیتے۔اب تو ٹی وی پر ان کی آمد بھی کم ہوگئی تھی۔ان کے برجستہ جملے اور کاٹ دار تبصرے اکثر لوگوں کو برداشت نہیں ہوتے تھے۔ لیکن عوام میں ان کی مقبولیت تھی۔ ان کے تبصرے اور تجزئے پسند کئے جاتے تھے۔ ان کے کھلی کھلی اور بے لاگ باتیں ان کے بہت سے دوستوں کو بری بھی لگتی۔لیکن وہ سچ کہنا اور برملا کہنا نہیں چھوڑتے۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں وہ بعد میں آئے لیکن وہ سکہ بند صحافی پہلے سے تھے۔ مساوات، حریت،کے بعد انھوں نے نوائے وقت کراچی سے رشتہ جوڑا ۔ جو ساری زندگی قائم رہا۔ سب ایڈیٹر کے حیثیت سے نوائے وقت میں ان کے ہم عصروں میں جہانزیب خان، اخلاق احمد،انورسن رائے، احمد فواد شامل تھے۔ میںان کے نزدیک بیٹھتا تھا۔ محمد سرور نیوز ایڈیٹر تھے۔ نوائے وقت کا یہ سنہرا دور تھا۔ یوسف خان ترجمہ کی مشین تھے۔ وہ بہت تیز اور صحت کے ساتھ اردو ترجمہ کیا کرتے تھے۔ وہ رپورٹر بھی بہت اچھے تھے۔ بڑے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ان کے رابطے سیاسی کارکنوں سے بہت گہرے تھے۔ وہ بڑے سیاست دانوں کی نسبت سیاسی کارکنوں کا بہت خیال رکھتے۔ ان کی خبریں شائع کرتے۔اگر ان کی سیاسی جماعت ان کی خدمات سے عدم توجہی برتتی تو اس پر لیڈروں کی گرفت کرتے۔ مسلم لیگی رہنما زاہد رفیق کی بیماری پر میاں نواز شریف کو مخاطب کرکے کالم لکھا۔ خلیل قریشی کی خدمات پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو کئی بار متوجہ کیا۔ وہ دوستوں کے دوست تھے۔ صحافیوں اور فوٹوگرافرز کا خاص خیال رکھتے۔ یوسف خان جب پریس کلب کے سیکریڑی بنے تو انھوں نے ہاکس بے اسکیم میں صحافیوں کی ہاوسنگ اسکیم کے لئے زور و شور سے نہ صرف کام کیا بلکہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔بہت سے صحافیوں کو جو اس اسکیم کے دائرے سے باہر تھے۔ انھیں اس اسکیم میں شامل کرایا۔یوسف خان نے پریس کلب میں باقاعدہ باجماعت نماز پڑھنے کی جگہ کا بندوبست کیا۔ اس سے پہلے پریس کلب میں باجماعت نماز کا اہتمام نہ تھا، حیدرآباد سے انھیں محبت تھی۔ ان کے چچا حیدرآباد لطیف آباد میں رہتے تھے۔ اس حوالے سے وہ اکثر حیدرآباد کا ذکر کرتے۔ قومی اخبار سے انھیں خصوصی دلچسپی تھی۔ نوائے وقت میں شائع ہونے والے ان کے کالم اکثر قومی اخبار میں شائع ہوتے تھے۔ جنہیں قارئین کی بڑی تعداد پڑھتی اور پسند کرتی تھی۔ ان کی تحریر مختصر اور جاندار تھی۔ نوٹ بک ان کے کالم کا عنوان تھا۔ وہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ مجھے کالم لکھنے پر اکساتے،اور ان پر حوصلہ افزا تبصرہ بھی کرتے۔ میرے کالم کو عنوان،، صحن چمن کی باتیں ،، ان ہی کا تجویز کردہ تھا۔ اکثر وہ کالم پڑھ کر فون کرتے یا ایس ایم ایس کرتے۔ ایس ایم ایس پر دو تین لفظ ہی سیروں خون بڑھا دیتے۔ مختصر لکھنے پر زور دیتے اور کہتے کہ مختصر تحریر پڑھی جاتی ہیں۔ قومی اخبار کے ایڈیٹر الیاس شاکر کے ساتھ ان کا طویل ساتھ رہا ہے۔ نوائے وقت میں رپورٹر کی حیثیت سے دونوں نے سیاسی رپورٹنگ میں ایک طویل اننگ کھیلی ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ان کی بیٹ کی سیاسی جماعتیں ان سے بہت کم ناراض ہوتی تھیں۔ لیکن دونوں نے کبھی خبر پر کمپرومائز نہیں کیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی، پیر صاحب پگارا، پروفیسر غفور احمد، انکی رپورٹنگ کی تعریف کرتے۔ کراچی میں نوائے وقت کی مقبولیت میں دونوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔بے نظیر بھٹو کبھی ان سے مشورہ لیا کرتی تھیں۔ اپوزیشن کے زمانے میں بے نظیر بھٹو ستر کلفٹن میں کبھی کبھی نذیر خان، یوسف خان، اور ڈان کے حضور احمد شاہ کو بلاتی اور سیاسی صورتحال پر ان سے بات چیت کرتی تھیِ۔ وہ ان کے سیاسی مشوروں کی قدر بھی کرتی ۔لیکن اقتدار میں آکر انھیں خان صاحب کی یاد بہت کم آئی۔ یوسف خان کراچی کے ان صاحب بصیرت اور محنتی رپورٹرز میں تھے۔ جو اکثر بڑے ایونٹ کو خطرات کے باوجود خود کور کرتے۔ چیف رپورٹر کی حیثیت سے وہ یہ ذمہ داری دوسرے ساتھیوں کو تفویض کرسکتے تھے۔ بارہ مئی کے خونی واقعات اور کارساز پر بے نظیر بھٹو کے جلوس پر بم دھماکے کے وقت یوسف خان بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ ایسے میں موت ان سے چند گز کے فاصلے سے گزر گئی۔ لیکن انھوں نے نڈر ہوکر اس کا سامنا کیا۔ صحافیوں کے حقوق اور آزادی صحافت کے وہ سچے سپاہی تھے۔ ان احتجاجی جلسے جلوسوں میں ان کی شرکت ساتھیوں کا حوصلہ بڑھاتی تھی۔ انکے تبصرے اور تجزیے بڑے کٹیلے ہوتے تھے۔ وہ سیاست دانوں کے لباس، خوراک، پہناوے، طور طریقوں پر ایسے انداز میں کالم تحریر کرتے کہ لوگ عش عش کر اٹھتے۔ لاہور کے ایک پبلیشر نے یوسف خان کے کالم کی مقبولیت دیکھتے ہوئے ان کے کالم ایک کتاب کی شکل میں چھاپ دیئے۔اور ان کا ذکر بھی نہ کیا۔ وہ سرقے کی اس واردات کا اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے۔ وہ سیاست دانوں کے بہت سے رازوں کے امین تھے۔ میں اکثر ان سے کہتا کہ وہ کتاب لکھیں۔ لیکن انھیں اس کی فرصت نہ ملی۔ انھیں بچوں سے بہت محبت تھی۔ وہ ان کے مستقبل کے بارے میں سوچتے تھے۔ان کے لئے دن رات محنت کرتے تھے۔وہ ملک اور کراچی کے لئے حساس دل رکھتے تھے۔ ان کی حساسیت ہی نے ان کی طبعیت پر اثر کیا۔ یوسف خان نے ہمیشہ محنت اور دیانت کا راستہ اختیار کیا۔ ورنہ اس دور میں جب ان سے خبریں چھپوانے والے بہت سے لوگ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔ وہ ان سے فائدے اٹھا سکتے تھے۔ وہ آج بھی اپنی موٹر سائیکل پر ہی رپورٹنگ کرتے تھے۔ جبکہ اس شعبے میں آنے والے ان کے بہت سے جونئیرز چمکیلی موٹر گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ یوسف خان نے ساری زندگی نیک نامی کمائی۔ اور اس کا اندازہ ان کے جنازہ کو دیکھ کر ہوا،سرکار اور وزراءسے لے کر عام کارکن اور دوست ساتھیوں کی بہت بڑی تعداد انھیں الوداع کہنے آئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا۔کہ یوسف خان اگر زندہ ہوتے تو میں کہتا ،،خان صاحب آپ کا جلوس جنازہ تو بہت زبردست تھا،،۔ وہ مجھ سے معصومیت سے پوچھتے،، یار سچ بتا کیا واقعی اتنے لوگ تھے،،۔ اب سوچتا ہوں یوسف خان بہت جلدی میں تھے۔ میں نے قبرستان جاتے ہوئے سہیل دانش سے کہا خان صاحب اپنی عادت کے مطابق اچانک خاموشی سے اٹھ کر چل دیئے۔ سہیل دانش نے کہا ہا ں یہ ان کا خاص اسٹائل تھا۔ خان تم ہمیشہ یاد آتے رہوگے۔ تماری نوٹ بک کے بہت سے صفحات سادہ رہ گئے



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل