عمران فاروق کے قاتل

عطا محمد تبسم 

س تھے۔ اس سوال کی وجہ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت اور مخلوط حکومت میں نمایاں کردار ادا کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے وہ بیانات اور خطاب تھے۔ جن میں انقلاب اور جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔ قائد تحریک کی سالگرہ ۷۱ ستمبر کو منائی جاتی ہے اور ایم کیو ایم کے کارکن اس دن کا خصوصیت سے انتظار کرتے ہیں کہ اس دن انھیں اپنے رہنما کے جنم دن پر خوشیا ں منانے کا موقع ملتا ہے تو دوسری جانب نائین زیرو کے نزدیکی میدان میں موسیقی اور گانوں کا منفرد شو ہوتا ہے جس میں ملک کے بڑے فنکار شرکت کرتے ہیں۔ٹھیک بارہ بجے الطاف حسین اپنے ساتھیوں سے یک جہتی کے لئے خطاب کرتے ہیں۔ ملک میں سیلاب کی صورت حال کے سبب اس بار سالگرہ کی تقریبات سادگی سے منائی جانے والی تھی کہ اچانک ایک ناگہانی افسوس ناک خبر نے ماحول کو سوگوار کر دیا۔لندن میں ایم کیو ایم کے مرکز کے قریب ایم کیو ایم کے کنوینر عمران فاروق کو نامعلوم قاتل نے چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا۔عمران فاروق لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ 1992میں حکومت کی طرف سے ایم کیو ایم کے خلاف شروع کئے گئے آپریشن کے بعد روپوش تھے۔ اس دوران ان کے خلاف کئی مقدمات درج کئے گئے تھے۔ ان مقدمات کو سیاسی انتقام کا نام دے کر انہوں نے اپنی جان کو درپیش خطرے کے پیش نظر لندن میں سیاسی پناہ لے رکھی تھی۔ 

کراچی میں نسلی اور سیاسی فسادات کی تاریخ بیس برس پرانی ہے۔ جہاں کسی بھی ہلاکت پر ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں۔ گزشتہ ماہ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی رضا حیدر کے قتل کے بعد شہر میں ہونے والے ہنگامے اور فسادات میں 85 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی خبر ملتے ہی شہر میں سوگ کی فضا پھیل گئی اور خوف کا ماحول محسوس کیا جانے لگا تھا۔ جس پر ایم کیو ایم کی قیادت نے انتہائی منظم انداز سے حالات کو قابو میں کیا۔ اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایم کیو ایم کی صف اول کی قیادت کے ایک فرد کی موت پر کراچی میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ لندن میں ہونے والے اس قتل نے سیاسی حلقوں میں ایک خوف پیدا کر دیا ہے۔ لندن پاکستانی سیاست دانوں کی جنت ہے۔ جہاں وہ ملکی سیاست سے گھبرا کر پناہ لیتے رہے ہیں۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ڈاکٹر عمران فاروق کی موت پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ اگرعمران فاروق کی موت سیاسی قتل ثابت ہوئی تو اس سے نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے سیاست دانوں کو تشویش ہو سکتی ہے۔ اخبار گارڈین کے مطابق عمران فاروق کے ساتھی ان کی موت کو سیاسی قرار دے رہے ہیں۔ برطانیہ کو سیاسی بنیاد پر پناہ گاہ کے حوالے سے دنیا میں محفوظ ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ عمران فاروق کا قتل ابھی تک ایک معمہ ہے۔ پولیس کے مطابق 50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن کے شمالی علاقے میں اپنے گھر کے سامنے زخمی حالت میں پایا گیا۔ ان پر چاقو کے متعدد وار کیے گئے تھے جبکہ ان کے سر پر بھی چوٹ کے نشان تھے۔ لندن پولیس کا کہنا ہے کہ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق کی شہادت پر جس دل گرفتگی اور اظہار غم کیا ہے۔ اس نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بھی غم زدہ کر دیا ہے۔ بھائی کے آنسو کارکنوں سے نہیں دیکھےجاتے۔ زندگی کا سب سے بڑا صدمہ قرار دیتے ہوئے الطاف حسین نے عمران فاروق کوشہید انقلاب قرار دیا ہے۔ عمران فاروق کی شہادت کے بعد کراچی کے علاقے شریف آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ پر تعزیت کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد آ جا رہی ہے۔ غم سے نڈھال ڈاکٹر عمران فاروق کے والد محمد فاروق اپنی رہائش گاہ پر پر سہ دینے والوں ملتے ہیں۔ تو ایک بوڑھے باپ کی بے بسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ کراچی میں بہت سے ایسے خاندان ہیں جنہوں نے اپنے بڑھاپے کا سہارا کھو دیا ہے۔ پاکستان بنانے والوں کی نئی نسل کو سیاست راس نہیں آئی، مڈل کلاس سیاست دانوں کی فصل کو بام پر آنے سے پہلے ہی کاٹ ڈالا گیا۔ عمران فاروق بھی اسی مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے باپ کے یہ الفاظ اس مڈل کلاس سیاست کا نوحہ ہیں۔ ،، عمران فاروق کی زندگی ایک درویش کی زندگی تھی،وہ بہت سادہ زندگی گزارتے تھے اور کم پیسوں میں گزارا کرتے تھے۔ مہاجر سیاست کا دو بار رکن اسمبلی منتخب ہونے والا پارٹی کا کنوینر یوں دنیا سے چلا گیا۔ اس اسمبلی کا تو غریب سے غریب رکن بھی تین کروڑ کا مالک ہے۔ الطاف حسین نے سچ کہا کہ یہ غم ان کی دل پر نقش رہے گا جوکبھی دھل نہیں سکے گا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل