میں ان غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں

عطامحمد تبسم


،میں ان غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں،کل صبح تک 1500 لوگ اندر کردیئے جائیںِ، کمرے میں ایک آواز گونجی اور اس کے ساتھ ہی سرخ گاﺅن والی شخصیت پردے کے پیچھے غائب ہوگئی۔انوار الحق نے فوری طور پر 1500کے ہندسے کو 17 پر تقسیم کرنا شروع کردیا، کیونکہ صوبے (مشرقی پاکستان)میںضعلوں کی تعداد سترہ تھی۔ وہ پریشان تھے کہ تقسیم میں باقی بچنے والے چار کے ہندسے کا کیا کریں۔ این ایم خان عقدے وا کرنے کے ماہر تھے۔ بولے میمن سنگھ بڑا ضلع ہے، وہاں سے چار لوگ اور پکڑ لو۔ اگلی صبح تک 1500 سو لوگ گرفتار کئے جاچکے تھے۔ان قسمت کے ماروں میں رکشا کھینچنے والے، محنت کش،بے گناہ مسافر، غریب خوانچے والے اور بے یارومددگار راہ گیر سب شامل تھے۔ تین ماہ سے کم عرصے میں مشرقی بنگال کو تسخیر کرنے کے بعد اسکندر مرزا کراچی واپس چلے گئے۔ مئی 1954 کا یہ واقعہ الطاف گوہر نے ،،ایوب خان فوجی راج کے پہلے دس سال ،، نامی کتاب میں اسکندر مرزا کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ سرخ گاﺅن والے اسکندر مرزا تھے۔ جنہوں ۶۵ سال پہلے کسی بھی واقعے کے نتیجے میں پولیس کی کاروائی کے لئے جو رہنمائی کا اصول طے کیا تھا۔ اس پر آج بھی اسی طرح عمل ہورہاہے۔پاکستان میں کیسے کیسے خونی واقعات ہوئے ہیں۔ خود کش دھماکے، دہشت گردی کے واقعات،کئی کئی گھنٹوں تک پولیس سے دہشت گردوں کی آنکھ مچولی، ٹیلیویژن چینلوں پر براہ راست ان مقابلوں کو دنیا بھر میں دیکھا گیا۔اس پر ہمارے وزیر داخلہ کی براہ راست کامنٹری،اور پولیس اہلکاروں کے دعوی، اور پھر پویس والوں یا قانون نافد کرنے والوں کے ہاتھوں میں دبوچے ہوئے دہشت گرد جن کی شناخت چھپانے کے لئے ان کے منہ پر فورا کپڑا ڈال دیا جاتا ہے۔پولیس والے اپنی زبان میں ایسے مجرموں کو دلہن کہتے ہیں۔حکومت کی جانب سے اعلان کہ ہم نے دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ ہوم منسٹر کے دعوی کے ہم دہشت گردوں کے نیٹ ورک نزدیک جا پہنچے ہیں۔لیکن بعد میں نہ جانے یہ دہشت گرد کہاں چلے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں اخبارات میں تفصیل کیوں نہیں آتی۔ یہ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آئے تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پکڑے جانے والے بہت سے افراد کا ان دہشت گردی کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کئی دہشت گرد تو بیچارے کچرا چننے والے نکلے۔ کئی کا قصور یہ تھا کہ ان کے چہرے پر داڑھی تھی، جو آج کے دور میں دہشت گردوں کا ٹریڈ مارکہ بنادیا گیا ہے۔ کئی ایسے بھی تھے جن کی شکل صورت ہی ایسی تھی کہ وہ دہشت گرد نظر آتے تھے۔ مشرف دور میں بھی بہت سے ایسے افراد کو خطرناک اور منظم گروہ کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ جو بعد میں عدالتوں سے بری ہوگئے۔ ایسے مجرموں کو پکڑ کر سب سے پہلے ہم انہیں ہائی پرفائیل کیس بناتے رہے۔ تاکہ امریکہ سے آشیر باد اور ڈالر مل سکیں۔ ملک میں ہونے والے ان خونی واقعات پر ایک جوڈیشل کمیشن قائم ہونا چاہیے۔ان تمام کیسوں کی چھان بین ہونی چاہیئے کہ اس کے نتیجے میں کس کس نے تمغے ، ترقیاں،انعامی رقوم وصول کیں۔ جن بے گناہ اور معصوم لوگوں کو پکڑا گیا۔اور بے گناہ ثابت ہوئے، ان کو دی جانے والی رسوائی ، ایذیت اور ان کے چھینے گئے ماہ سال کا مالی مداوا ہونا چاہئے۔ ان افسران اور اہلکاروں کو سزائیں ملنی چاہیئے۔ جنہوں نے جھوٹے مقدمات بنائے۔ ایسے تمام کیسوں کے بارے میں ایک قرطاس ابیض کی ضرورت ہے۔ جو ہمارے منہ پر ملی ہوئی سیاہی کو دھو سکے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل