مصلحتوں اور مجرمانہ غفلتوں کا شکار کراچی
عطامحمدتبسم
ہم ابھی ایک خونی مہینے سے گزر کر آئے تھے۔مئی کو اگر ماضی میں دیکھا جائے تو یہ کراچی کے شہریوں کے لیے کئی برس سے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ مئی کے مہینے میں یہاں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو ماضی کو بھلا دیتا ہے۔ مئی 2010ءکو ہی لے لیں تو کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں 42 سے زائد بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دو کارکنوں کا قتل ہوا۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے، پارٹی کے ایم این اے عبدالقادر نے اپنے استعفی کا اعلان کردیا۔ جون کو شروع ہوئے ابھی ایک ہی دن خیریت سے گزرا ہے کہ لیاری میں ایک خونی لڑائی چھڑ گئی ہے۔ کراچی میں گروہی ، نسلی،سیاسی،بھتہ مافیا، منشیات فروش،زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی اجارہ داری ہے۔ جس میں عام شہری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ شہر کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت کوئی معمولی سا واقعہ ، یا جھگڑا ایک تصادم کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں حالات خراب ہوجاتے ہیں۔ مسلح افراد کراچی کی گلیوں اور محلوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔اور جب تک حالات پر قابو پایا جاتا ہے۔کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ آج ہی کے قومی اخبار میں ان جرائم پرقابو پانے والی اور امن امان بحال رکھنے والی پولیس کی ایک احتجاجی ریلی کے کارکنوں پر تشدد کی نمایاں تصویر شائع ہوئی ہے۔پولیس افسر انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نوجوان کو بھاری بوٹ سے لات مار رہا ہے۔یہ ہماری پولیس کی بہادری کی لازوال نشانی ہے ۔وہ نہتے سیاسی کارکنوں پر لاٹھیوں، بھاری بوٹوں،اور بندوقوں سے ٹوٹ پڑتی ہے۔ لیکن جہاں گولیاں چل رہی ہوں ، عوام مررہی ہو،اور مسلح جتھے حملہ آور ہوں وہاں یہ پولیس دور دور تک نظر نہیں آتی۔کراچی میں اسلحہ مافیا کی پشت پناہی کرنے والی طاقتوں کی مہربانی سے ہر قسم کا ملکی اور غیر ملکی اسلحہ اور گو لہ بارود کراچی میں عام دستیاب ہے۔ قریب دوکروڑ آبادی کے اس شہر میں اب تک محکمہ داخلہ اسلحہ لائسنسوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز نہیں کرسکا۔ تین اطراف سے کھلے کراچی میں ہر جانب سے اسلحہ آرہا ہے ۔ کراچی میں بڑے پیمانے پراسلحے کے کاروبار کو لسانی فسادات اور جرائم کی پرورش کا اہم ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ ۔ یہ اسلحہ زیادہ تر ٹرکوں اور بڑی گاڑیوں میں چھپا کر کراچی لایا جاتا ہے، کراچی کے تھانوں میں غیر قانونی ہتھیار برآمد کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ سیاسی اور لسانی جھگڑوں میں اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں میں غیر قانونی اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے ،تو کیا ہم نے ان کارروائیوں پر قابو پانے کے لیے غیر قانونی اسلحے کی ترسیل کو روکنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے ہیں۔دو دن پہلے مجھے سپر ہائی وے پر واقع ایک ہوٹل پر جانے کا موقع ملا۔ یہ ہمارے فاران کلب کے دوستوں کی محفل تھی۔جسکی میزبانی سلیم قریشی نے کی تھی اور اس کے روح رواں ندیم اقبال تھے۔واپسی میں رینجرز کے اہلکاروں نے ناکے لگائے ہوئے تھے۔اور انھوں نے ہماری گاڑیوں کی خوب اچھی طرح تلاشی لی۔لیکن پورے کراچی میں یہ ناممکن ہے۔گزشتہ مہینوں میں وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی کےدورہ کے موقع پر کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات روکنے کے لیے ایجنسیوں کے کردار میں اضافہ، رینجرز کو تلاشی کے اختیارات اور کراچی میں محکمہ داخلہ کے کرائسس مینجمنٹ سیل کا قیام شامل ہے۔ انھوں نے کراچی میں تشدد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کرنے اور تشددکے ذمہ داروں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ کے مطابق مجموعی ملکی محاصل میں کراچی کا حصہ53.38 فیصد کے قریب ہے اس میں سے 53.33 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور مختلف اشیا پر درآمدی ڈیوٹی کی مد میں حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی(مجموعی ملکی پیداوار) میں اکیلے کراچی کا حصہ20 فیصد سے زیادہ ہے۔دو سال پہلے کراچی دنیا کے امیر ترین شہروں کی فہرست میں81ویں نمبر پر تھا۔ اب بھی سالانہ 5.9 فیصد کی متوقع شرح نمو کے ساتھ 2020ء تک کراچی کی جی ڈی پی 127 ارب ڈالر متوقع ہے، اس طرح کراچی دنیا کا 66واں امیر ترین شہر بن سکتا ہے۔تاہم ملک میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا مرکز ہونے کے باوجود کراچی کا امن و امان ہمیشہ مصلحتوں اور مجرمانہ غفلتوں کا شکار رہا ہے۔ جو اس کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
ہم ابھی ایک خونی مہینے سے گزر کر آئے تھے۔مئی کو اگر ماضی میں دیکھا جائے تو یہ کراچی کے شہریوں کے لیے کئی برس سے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ مئی کے مہینے میں یہاں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو ماضی کو بھلا دیتا ہے۔ مئی 2010ءکو ہی لے لیں تو کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں 42 سے زائد بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دو کارکنوں کا قتل ہوا۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے، پارٹی کے ایم این اے عبدالقادر نے اپنے استعفی کا اعلان کردیا۔ جون کو شروع ہوئے ابھی ایک ہی دن خیریت سے گزرا ہے کہ لیاری میں ایک خونی لڑائی چھڑ گئی ہے۔ کراچی میں گروہی ، نسلی،سیاسی،بھتہ مافیا، منشیات فروش،زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی اجارہ داری ہے۔ جس میں عام شہری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ شہر کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت کوئی معمولی سا واقعہ ، یا جھگڑا ایک تصادم کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں حالات خراب ہوجاتے ہیں۔ مسلح افراد کراچی کی گلیوں اور محلوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔اور جب تک حالات پر قابو پایا جاتا ہے۔کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ آج ہی کے قومی اخبار میں ان جرائم پرقابو پانے والی اور امن امان بحال رکھنے والی پولیس کی ایک احتجاجی ریلی کے کارکنوں پر تشدد کی نمایاں تصویر شائع ہوئی ہے۔پولیس افسر انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نوجوان کو بھاری بوٹ سے لات مار رہا ہے۔یہ ہماری پولیس کی بہادری کی لازوال نشانی ہے ۔وہ نہتے سیاسی کارکنوں پر لاٹھیوں، بھاری بوٹوں،اور بندوقوں سے ٹوٹ پڑتی ہے۔ لیکن جہاں گولیاں چل رہی ہوں ، عوام مررہی ہو،اور مسلح جتھے حملہ آور ہوں وہاں یہ پولیس دور دور تک نظر نہیں آتی۔کراچی میں اسلحہ مافیا کی پشت پناہی کرنے والی طاقتوں کی مہربانی سے ہر قسم کا ملکی اور غیر ملکی اسلحہ اور گو لہ بارود کراچی میں عام دستیاب ہے۔ قریب دوکروڑ آبادی کے اس شہر میں اب تک محکمہ داخلہ اسلحہ لائسنسوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز نہیں کرسکا۔ تین اطراف سے کھلے کراچی میں ہر جانب سے اسلحہ آرہا ہے ۔ کراچی میں بڑے پیمانے پراسلحے کے کاروبار کو لسانی فسادات اور جرائم کی پرورش کا اہم ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ ۔ یہ اسلحہ زیادہ تر ٹرکوں اور بڑی گاڑیوں میں چھپا کر کراچی لایا جاتا ہے، کراچی کے تھانوں میں غیر قانونی ہتھیار برآمد کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ سیاسی اور لسانی جھگڑوں میں اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں میں غیر قانونی اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے ،تو کیا ہم نے ان کارروائیوں پر قابو پانے کے لیے غیر قانونی اسلحے کی ترسیل کو روکنے کے خاطر خواہ انتظامات کئے ہیں۔دو دن پہلے مجھے سپر ہائی وے پر واقع ایک ہوٹل پر جانے کا موقع ملا۔ یہ ہمارے فاران کلب کے دوستوں کی محفل تھی۔جسکی میزبانی سلیم قریشی نے کی تھی اور اس کے روح رواں ندیم اقبال تھے۔واپسی میں رینجرز کے اہلکاروں نے ناکے لگائے ہوئے تھے۔اور انھوں نے ہماری گاڑیوں کی خوب اچھی طرح تلاشی لی۔لیکن پورے کراچی میں یہ ناممکن ہے۔گزشتہ مہینوں میں وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی کےدورہ کے موقع پر کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات روکنے کے لیے ایجنسیوں کے کردار میں اضافہ، رینجرز کو تلاشی کے اختیارات اور کراچی میں محکمہ داخلہ کے کرائسس مینجمنٹ سیل کا قیام شامل ہے۔ انھوں نے کراچی میں تشدد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کرنے اور تشددکے ذمہ داروں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ کے مطابق مجموعی ملکی محاصل میں کراچی کا حصہ53.38 فیصد کے قریب ہے اس میں سے 53.33 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور مختلف اشیا پر درآمدی ڈیوٹی کی مد میں حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی(مجموعی ملکی پیداوار) میں اکیلے کراچی کا حصہ20 فیصد سے زیادہ ہے۔دو سال پہلے کراچی دنیا کے امیر ترین شہروں کی فہرست میں81ویں نمبر پر تھا۔ اب بھی سالانہ 5.9 فیصد کی متوقع شرح نمو کے ساتھ 2020ء تک کراچی کی جی ڈی پی 127 ارب ڈالر متوقع ہے، اس طرح کراچی دنیا کا 66واں امیر ترین شہر بن سکتا ہے۔تاہم ملک میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا مرکز ہونے کے باوجود کراچی کا امن و امان ہمیشہ مصلحتوں اور مجرمانہ غفلتوں کا شکار رہا ہے۔ جو اس کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں