آئی ایم ایف کا بجٹ قوم کو مبارک ہو
عطا محمد تبسم
عالمی مالیاتی ادارے یا آئی ایم ایف کے ساتھ پچھلے سال جو معاہدہ طے ہوا۔اس معاہدے کے کے مطابق حکومت بجلی، تیل، گندم، گنے اور بعض دیگر اشیا پر دی جانے والی مالی امداد ختم کرنے کی پابند ہے۔ جبکہ سٹاک مارکیٹ پر کیپیٹل گینز ٹیکس سمیت جائیداد کی خرید وفروخت اور مختلف سروسز پر نئے ٹیکس بھی لاگو کرنے ضروری ہیں۔اس صورت حال میں بجٹ پیش کرنا حکومت کے لئے اور بھی مشکل تھا کہ کسی کو پاکستان پر اعتماد نہیں ہے۔ ہمارے اعداد شمار بھی اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ حکومتی افراد پر بھی کسی کو کوئی اعتماد سرے سے نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ قومی بجٹ اور حفیظ شیخ دونوں اسمبلی میں ایک ساتھ آئے۔ٹیکسوں کے نفاذ پر ابھی تک چاروں صوبوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے اس لئے ویٹ کا مسئلہ فی الحال اکتوبر تک لٹکا دیا گیا ہے۔اس نئے ٹیکس کے لگنے کے بعد یہ توقع کرنا کہ اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑے گا محض طفل تسلی ہے۔ اس ٹیکس کا اثر کم و بیش ہر چیز پر پڑے گا اور اسی نسبت سے مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر الیکٹرانکس اور عام گھریلو استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں کم از کم بیس سے پچیس فیصد اضافہ لازمی ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ اور حکومت میں شامل وڈیرے اور چوہدری اوربڑے زمینداروں نے ایک بار پھر زرعی آمدنی کو ٹیکس سے بچانے میں کامیاب اور سارا بوجھ غربت میں پسے ہوئے عوام پر ڈالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔یہ لابی اس قدر طاقتور ہے کہ انھوں نے شوکت ترین کو اس لئے رخصت کردیا کہ وہ کہتے تھے کہ نئے مالی سال میں زرعی ٹیکس ضرور لاگو کیا جائے گا۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ان نئے ٹیکسوں کے نفاد اور سبسڈیز کے خاتمے سے عام آدمی کے لیے مہنگائی میں اضافہ تو یقینی ہو گا ´
پاکستان کی موجودہ حکومت بھی ماضی حکومتوں کی طرح پاکستان کے عوامی اثاثوں کو فروخت کرنے کے درپے ہے تاکہ انکو بیچ کر جتنا پیسہ اکٹھا ہوسکے کیا جائے اور خوب لوٹ مچائی جائے اس کے علاوہ ان کی سیل میں بداعنوانیوں سے بھی خوب کمایا جائے اور پھر ان قومی ملکیتی ادروں کو اپنے رشتہ داروں یا پیاروں کو اونے پونے داموں دے کر انہیں خوش کیا جائے۔ جیسے پاکستان ان کی ذاتی جاگیر یا ملکیت ہے۔ ضیا الحق آمریت ہو یا پھر اس کے سپولے نواز لیگ ہو یا پھر انہی کی ترقی یافتہ شکل مشرف لیگ آمریت ہو اور اس کا وزیر اعظیم جو آئی ایم ایف کا سرکاری گماشتہ تھا اسی روش پر قائم رہے لیکن اب بد قسمتی سے پیپلز پارٹی جو عوام اور مزدورں کی نارملی پارٹی ہے جس کی قیادت پر عوام اور مزدور دشمن جاگیردار ، ساہوکار، سرمایہ دار، اور ریاستی ایجنٹ ،قابض ہو چکے ہیں انکی موجودہ حکومت بھی انہی عوام دشمن پالیسیوں پر گامزن ہے۔ اور اکیس نیشنلائز اداروں کو ڈی نیشنلائز کر رہی ہے جس کے خلاف مزدور سراپا احتجاج ہیں اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین نے اس کے خلاف پورے پاکستان میں ایک منظم تحریک کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔ اور اب جب پاکستان کے قومی تحویل میں ادارے ختم ہونے والے ہیں یا فروخت کے لیے مزید نہیں رہے۔ تو اب حکومت پاکستان کی زمیں کو بھی عالمی منڈی میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔کیا تنخواہ میں اضافے سے مہنگائی اور افراط زر میں کمی ہوگی۔ جی نہیں بائیس گریڈ والوں کی تنخواہ میں پچاس فیصد اضافہ منگائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ اس بجٹ کا آٹھواں حصہ دفاعی اخراجات میں چلا جائے گا۔ جبکہ فوج کے پینشن اور دوسرے اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے، نچلی سطح کے ملازمین کی تنخواہوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس کا بڑا حصہ گیس بجلی پیڑول اور آٹے دال گوشت اور دودھ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی نظر ہوجائے گا،جماعتِ اسلامی کے رہنماءپروفیسر خورشید احمد کے اس سوال کا جواب بھی اس بجٹ دستاویز میں نہیں ہے کہ وہ وفاق کے ان پچیس محکموں کا مستقبل کیا ہوگا۔ جنہیں ختم کرنے کا فیصلہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی لاکھ سرکاری ملازمین بے روزگار ہوںگے۔ لیکن بجٹ ان کے بارے میں بالکل خاموش ہے ۔
بوجھل دل اس بارے میںقدموں سے اپنے گھر کی طرف چل دیا اور سوچتا رہا کہ پچھلے سال 4کھرب 84ارب روپےکے بجٹ میں غریبوں کو دی جانے والی 189 ارب روپے کی مراعات واپس لی گئی تھیں، اس سال چھ سو پچاسی روپے کا خسارے کا بجٹ ہے۔ جس میں سے گندم کپاس ،بجلی کھانے پینے کی اشیاد ءسمیت ایک سو چار ارب کی مراعات جو غریبوں کے لئے تھیں ان کو ختم کردیا گیا ہے، ہیں۔یہ سب بوجھ غریب اور متوسط طبقہ پر پڑے گا۔ دوسری طرف بجٹ کا خسارہ چھ سو پچاسی ارب روپے سے زائد ہونے کی وجہ سے غیرملکی قرضوں کا بھاری بوجھ مزید بھاری ہوجائے گا۔ جس سے 17کروڑ کی آبادی میں سے ہر شخص پر قرضہ کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہماری قوم کا بچہ بچہ اور ہر مرد اور خاتونساٹھ ہزار روپے فی کس مقروض ہے۔ بجٹ میںکوئی ایسااقدام نظر نہیںآ یا جس سے عوام کو براہ راست کوئی ریلیف ملتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر9 کا انحصار غیر ملکی امداد اور قرضوں پر ہے۔ ملک میں 30 سے 35 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ اور ان کی مجبوری میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔کہا جاتاہے کہ حد سے بڑھی ہوئی بھوک انسان کی حب الوطنی کو ہی نہیں اس کاایمان بھی کھاجاتی ہے۔ ایسے میں عوام کو کیا اور کس لئے قربانی کا درس دیا جائے۔بجٹ پر کوئی مطمئن نہیں۔ کار‘فریج اور ائیر کنڈیشنرکے بغیر تو زندگی گزاری جا سکتی ہے مگر آٹا‘گھی اور چینی پیٹرول کے بغیر تو زندگی نہیں گزر سکتی۔‘پتا نہیں وطن کی کتنی مائیں غربت کے لبادے میں اپنی عصمت چھپائے اپنے دست دعا کو کشکول بنائے پھرتی ہیں۔صحت ، تعلیم ، امن و امان، بجلی، روزگار کی فراہمی پر بجٹ خاموش ہے اور پارلیمنٹ میں بیٹھا طبقہ اشرافیہ تالیاں پیٹ رہا ہے۔ یہ ہے عوامی جمہوریت ۔ کیا س جمہوریت سے عوام کا پیٹ بھر سکے گا۔ کیسے کیسے لطیفے ہیں ´ تین کروڑ انرجی سیور بلب مفت تقسیم کئے جائیں گے۔ جنکو جلانے کے لئے ہمارے پاس بجلی نہیں ہے۔وفاقی وزیر مالیات عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ بہت ساری خرابیوں کی وجہ مالی بد انتظامی ہے۔ ان کے مطابق پورے ملک کی حکومت کا سالانہ خرچ ایک سو پینسٹھ ارب روپے ہے لیکن صرف بجلی پیدا کرنے والی کمپنی پیپکو کو سالانہ ایک سو اسی ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے۔قوم کو لوٹنے والے یہ معاہدے کس نے کیئے اور کون اب تک انھیں چلا رہا ہے ۔اس کا جواب شائد وزیر خزانہ کے پاس بھی نہیں ہے، کیونکہ کل ملک دیوالیہ ہوجانے پر یہ سارے پنچھی تو دوسرے ملکوں میں اڑ جائیں گے، عوام یونہی پستی رہے گی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں