بھاری مینڈیٹ اور ہلکے لوگ


عطا محمد تبسم
 میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد دوسری بار کراچی آئے ہیں۔ کراچی اب پہلے والا کراچی نہیں رہا، پلوں کے نیچے سے ہی نہیں یہاں کے ندی نالوں سے بھی بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ کراچی ایک آتش فشاں بن چکا ہے۔ ایک ایسا آتش فشاں جو جب چاہے آگ اگلنے لگے۔آگ بھی ایسی جو ہر چیز بھسم کرکے رکھ دے۔ یہ آگ کراچی کے ہر شہری اور ہر گلی کوچے میں لگی ہے۔ اس کو بجھانے والا کوئی نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد نواز شریف پہلی بار کراچی آئے تو ہر شخص انتظار میں تھا کہ وہ کوئی جادو کا چراغ لے کر آئیں گے۔ اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ رک جائےگی۔ بھتہ خور بھاگ جائیں گے۔ روشنیوں کا شہر جگمگا اٹھے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، نواز شریف تو اپنے ہی زخم سہلاتے رہے۔ مشرف دور میں اے ٹی سی کورٹ میں بکتر بند گاڑی میں پہلی بار معزولی کے بعد آنا۔ انھیں اب بھی وہی یا د تھا۔ وہ اسی یاد کا ذکر کرکے چلے گئے۔ سب کو مایوسی ہوئی۔کراچی پھر سے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ نواز شریف ایک بار پہلے بھی کراچی آئے تھے۔ تیرانوے میں غیر معمولی مینڈیٹ کے بعد جب ان کی حکومت ختم کردی گئی تھی۔ کراچی کے عوام ان کے ساتھ تھے۔ آواری ٹاورز ہوٹل میں عوام کا جم غفیر تھا۔ وہ اپنے شیر سے کچھ سننا چاہتے تھے۔ لیکن اس وقت بھی نواز شریف نے کراچی والوں کو مایوس ہی کیا تھا۔ وہ ایک ایسی بے جان تقریر کرکے چلے گئے۔ جس نے مایوسی کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ کراچی اب دو کروڑ کا شہر ہے۔نواز شریف کو کراچی کیا پورے صوبے میں بس پاﺅں رکھنے ہی کی جگہ ملی ہے۔ بھائی نے انھیں جاگ پنجابی جاگ کا طعنہ دے کر مبارکباد دی تھی۔نواز شریف بھی دو کروڑ کراچی والوں کے مقابلے میں دس کروڑ پنجاب والوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ وہ ان کا بیس کیمپ ہے۔ اس کی مضبوطی اور طاقت ضروری ہے۔ کراچی تو ٹیکس حاصل کرنے کے لئے، کمائی کرنے کے لئے، اپنے پسندیدہ افسران کی پوسٹنگ کے لئے، اور کبھی کبھی سیر و تفریح کے لئے اچھا ہے۔ میاں صاحب کو ان دو دن میں جن اجلاسوں میں جانا پڑا۔ انھیں خوب سننے کو ملیں۔ بے بھاﺅ کی، یہاں تک کہ کچھ یار لوگ تو گورنر اور وزیر اعلی سندھ دونوں کو ہٹانے کا مطالبہ کر بیٹھے۔ اب آگے کیا ہو۔ یہاں بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ نے سارے شہر کو ویران کر دیا ہے۔ اس پر ایڈیشنل آئی جی کی دیدہ دلیری دیکھیئے کہ وزیر اعظم کی شہر مین موجودگی میں پریس کانفرینس میں ، اعلانیہ کہا کہ کراچی میں چند لوگوں کا مرنا بڑی بات نہیں ہے۔ دو کروڑ کے شہر میں ٹارگٹ کلنگ تو ہوتی رہتی ہے۔ جب سیاں بنے کوتوال تو پھر ڈر کس کا ، وزیراعظم کو بھی دکھا دیا کہ ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ان کی موجودگی میں چودہ ہلاکتیں ہوئیں،رینجرز اور نیوی اہلکار، انٹیلیجنس آفیسر سب مرنے والوں میں شامل ہیں۔ افسر شاہی بھاری مینڈیٹ والوں سے کھیل رہی ہے۔ افسر شاہی محض اس وقت ہی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جب اس پر حکم چلانے والے ،، کانے،، نہ ہوں۔ اس حکومت میں تو ،، کانے،، کیا اندھے لولے لنگڑے سب ہی موجود ہیں۔ جس ملک کے بائیس اہم اداروں،کارپوریشن، کے سربراہ نہ لگائے جاسکے ہوں، وہاں اندھیر نگری چوپٹ راج نہ ہوگا تو کیا ہوگا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی کچن کیبنٹ، تخت لاہور، تاجر اور صنعتکار برادری اگر اپنی منافع خوری، دولت کی ہوس کو حد میں رکھے، ملک میں امن وامان قائم کرنے، پیداوار بڑھانے، بے روزگاری کے خاتمے، اپنے ذمہ عائد ٹیکسوں کو ادا کرنے پر آمادہ ہوجائے تو یہ حکومت پانچ سال تو کیا آئیندہ پانچ سال بھی قائم رہ سکتی ہے۔ لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ ابھی تو حکومت کو اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ زرداری حکومت کا زوال،کرپشن، مہنگائی، بےروزگاری، لوٹ مار،حکمران ٹولے کی اقربا پروری اور ناقابل برداشت،غرور تھا۔ جسے عوام نے اپنے ووٹوں سے خاک میں ملا دیا۔ میاں صاحب کراچی والے، مشکل میں ہیں، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے۔ ہارون رشید کی طرح بھیس بدل کر نکلیں کراچی میں کیا ہورہا ہے۔ سب پتہ چل جائے گا۔ورنہ سرشام ویران سڑکوں اوربدحال لوگ کو دیکھ کر اندازہ کرلیجئے گا۔ جو بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ روز لٹ پٹ کر گھر جاتے ہیں۔ بھاری مینڈیٹ والوں نے بھاری آزمائش میں کراچی کا ساتھ نہ دیا تو پھر یہاں بھاری بوٹ کی چاپ نہیں گونج سنائی دے گی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

کراچی کا خدا حافظ