القاعدہ ہو یا الشباب بین الاقوامی ڈراموں کی تخلیق

 القاعدہ ہو یا الشباب بین الاقوامی ڈراموں کی تخلیق عموما سی آئی اے کی زیر نگرانی ہوتی ہے۔
عطا محمد تبسم

دنیا میں ابھی القاعدہ کی بازگشت ختم نہیں ہوئی ہے کہ اب الشباب کے چرچے ہونے لگے ہیں۔ الشباب ہے کیا؟ ہے بھی یا نہیں ، یا یہ بھی کیسی تخلیق کار کا تیار کیا ہوا ڈرامہ ہے۔ ایسے بین الاقوامی ڈراموں کی تخلیق عموما سی آئی اے کی زیر نگرانی ہوتی ہے۔کینیا کے ویسٹ گیٹ شاپنگ سینٹر اور پشاور میں چرچ میں ہونیوالی دہشت گردی ایک ہی ڈرامے کی کڑی ہو بھی سکتی ہیں۔کینیا کی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ شاپنگ سینٹر پر حملہ کرنے والوں میں ’ایک برطانوی اور دو سے تین امریکی‘ بھی تھے۔ویسٹ گیٹ شاپنگ سینٹر میں دہشت گردی سے باسٹھ افراد ہلاک اور 170 زخمی ہوئے ہیں۔پشاور میں اکیاسی جنازے اٹھے، زخمیوں کا شمار ابھی نہیں کیا جاسکتا، جانے کتنے زخموں کی تاب نہ لاکر اس جہاں سے گذر جائیں۔ کینیا ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ اس محاصرے کے نتیجے میں تریسٹھ افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔پی بی ایس نیوز آور کو انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی حملہ آوروں کی عمریں 18 یا 19 سال تھی اور وہ مینیوسوٹا اور ایک اور جگہ کے رہائشی تھے۔ برطانوی حملہ آور کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک خاتون تھی اور وہ پہلے بھی اس قسم کی کارروائیوں میں حصہ لے چکی تھی۔صومالیہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کم و بیش ایک ناکام ریاست ہے۔ یہاں بیس برس سے کوئی حکومت مستحکم نہیں اور اس دوران ملک مسلسل لڑائی کی زد پر رہا ہے۔ ایسے حالات الشباب ، طالبان، یا ایسی ہی مسلح دہشت گرد تنظیموں کے لئے موزوں ہوتے ہیں۔ جب پہلی بار یہ تنظیم سامنے آئی تو اس نے عوام کو تحفظ دینے کی بات کی تو ان کہ خوب واہ واہ ہوئی۔لیکن جب 2011 میں قحط کے دوران اس نے مغربی امداد قبول کرنے سے انکار کیا تو اس کی عوامی مقبولیت دھری رہ گئی۔ عربی زبان میں ’الشباب‘ کا مطلب جوان افراد ہے۔ یہ گروپ 2006 میں اب غیر فعال تنظیم یونین آف اسلامک کورٹس کے سخت گیر یوتھ ونگ کے طور پر سامنے آیا تھا اور اس نے صومالیہ کی کمزور عبوری حکومت کی مدد کے لیے ملک میں آنے والی ایتھوپیائی افواج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ غیر ملکی جنگجو الشباب کا ساتھ دینے کے لیے صومالیہ گئے ہیں۔الشباب اب بھی اکثر موغادیشو اور دیگر علاقوں میں خودکش حملے کرتی رہتی ہے۔الشباب نے اپنے زیرِ اثر علاقے میں سخت گیر شرعی قوانین نافذ کیے ہیں جن میں خواتین کو بدکاری پر سنگسار کرنا اور چوروں کے ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں شامل ہیں۔الشباب کے رہنمااحمد عبدی غودان اس گروپ کے قائد ہیں۔ انہیں مختار ابوزبیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کا تعلق شمالی علاقے صومالی لینڈ سے ہے۔الشباب میں جنوبی صومالیہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوو ¿ں کی اکثریت ہے اور ان کی تعداد اندازاً سات سے نو ہزار کے درمیان ہے۔مختار ابو زبیر 2008 میں اپنے پیشرو معلم عدن حاشی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اب شاذونادر ہی منظرِ عام پر آتے ہیں۔الشباب میں جنوبی صومالیہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوو ¿ں کی اکثریت ہے۔ مغربی ذرائع کہتے ہیں کہ الشباب نے فروری 2012 میں القاعدہ کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا۔ ایک مشترکہ ویڈیو میں مختار ابو زبیر نے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ’فرمانبرداری‘ کرنے کا عہد کیا تھا۔اس کے بعد سے یہ دونوں تنظیمیں مل کر کام کر رہی ہیں اور القاعدہ کے غیرملکی جنگجو صومالی شدت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔گزشتہ برس الشباب نے ارکان نے القاعدہ سے تعلق رکھنے کے دعویدار امریکی شہر ابو عبداللہ المہاجر کے ہمراہ اپنے زیرِ اثر قحط سے متاثرہ علاقوں میں امداد بھی تقسیم کی تھی۔ الشباب والے بھی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر اکاونٹ بند ہوتا ہے تو وہ پھر کسی اور نام سے آجاتے ہیں۔ جیسے ہمارے طالبان کسی بھی واقعے کی ذمہ داری کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہفتے کو اکاو ¿نٹ کی منسوخی کے بعد، شدت پسند گروپ ’الشباب‘ پھر سے سماجی رابطے کی سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر نمودار ہوا۔ٹوئٹر نے ان کا اکاو ¿نٹ ا ±س وقت بند کیا جب الشباب نے نیروبی کےشاپنگ مال پر ہونے والے مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔لیکن یہ شدت پسند گروپ کچھ ہی دیر میں سائٹ پر واپس آگیا۔ اِس بار، ا ±س نے کچھ مختلف نام درج کیا ۔الشباب کو تیسری بار ٹوئٹر سے خارج کیا گیا ہے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد افغانستان اور پاکستان سے بھاگنے والے القاعدہ کے جنگجو صومالیہ میں پناہ لے رہے ہیں۔الشباب نے یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں 2010 کے فٹبال ورلڈ کپ کا میچ دیکھنے والے شائقین کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا تھا اور ان حملوں میں 76 افراد مارے گئے تھے۔اس حملے کی وجہ یوگنڈا کی جانب سے افریقی یونین کی فوج میں شمولیت کے لیے اپنی افواج بھیجنا بتائی گئی تھی۔کہا جاتا ہے کہ الشباب وہابی اسلام کا پرچار کرتی ہے۔ صومالیہ میں صوفی عقائد والے زیادہ ہیں۔ عراق میں سنی شیعہ کو لڑایا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی مختیلف عقیدے اور فرقوں کو صف آرا کیا جاتا ہے۔ جیسے پاکستان میں مسجد، مدرسہ،مزار،گرجا، محفوظ نہیں ایسے ہی الشباب کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ اس نے بہت سے صوفیاء کے مزارات تباہ کیے ہیں ۔ کچھ عرصے سے حالات تبدیل ہوئے تھے۔ ملک میں امید کی نئی کرن چمکی تھی، بہت سے صومالی جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آئے ہیں اور امکان پیدا ہوا ہے کہ دو دہائیوں کے بعد صومالیہ ایک بار پھر ابھرے گا۔ لیکن پاکستان کی طرح یہ خواب ٹوٹ گیا، طالبان یا لڑائی کرنے والوں سے مزاکرات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان میں دہشت گردی کہ نئی لہر آئی ہے۔ جس پر ہر ایک کو ایسا ہی غم و غصہ ہے، جیسے سوات کی ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو دیکھ ہوا تھا۔ پھر کیا ہوا تھا، وہ ایک جعلی ویڈیو فلم نکلی۔ کس کس واقعے کا ذکر کیا جائے، کس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ کون جانے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا