دراز رسی آہستہ آہستہ کھینچی جا رہی ہے۔
عطا محمد تبسم این آر او ایک برا قانون ہے، این آر او کالعدم قانون ہے جس کا کوئی وجود نہیں عدالت عالیہ نے گزشتہ سال دسمبر میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ لیکن سننے والوں نے اسے اس طرح سنا جیسے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جیسے بہرے کان سننے سے معذور ہوتے ہیں۔ انھیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہا گیا ہے اور کس سے کہا گیا ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔ دس ماہ بعد عدالت نے دوبار اس کیس کو کھولا تو چاروں طرف ایک سراسیمگی پھیل گئی۔ کسی کو یقین نہ آرہا تھا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔یہ 17 رکنی بنچ کا فیصلہ تھا۔ جس کے لئے 14 درخواستیں دائر کی گئیں جن میں سے 12 درخواستیں سماعت کے لئے منظور کی گئیں تھیں۔ ان درخواست دہندگان میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد‘ سابق بیوروکریٹ روئےداد خان‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ شاہد اورکزئی اور 5 قیدیوں کی درخواستیں بھی شامل تھیں جبکہ اسفندیار ولی‘ انور سیف اللہ اور پنجاب کے و زیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی درخواستوں کو بھی سماعت کے لئے منظور کیا گیا تھا۔ مقدمہ کے دوران عدالت نے نیب‘ اٹارنی جنرل وفاق‘ چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری صاحبان اور وزارت قانون کے سیکرٹری سمیت متعدد حکام کو نوٹس جاری ...