عافیہ کی رہائی حکومت پوائینٹ اسکور کرسکتی ہے۔
عطا محمد تبسم
اس دن بھی سارے دوست ڈاکٹر عافیہ کے گھر جمع ہوئے تھے۔ جو عافیہ کی رہائی کے لئے طویل جدوجہد کے بعد اس مرحلے پر پہنچے ہیں۔برطانیہ سے ایون رڈلی مریم اور گونتابے کے قیدی معظم بیگ آئے تھے۔ کراچی کے دوستوں میں سلیم مغل، انتخاب سوری ، شہزاد مظہر،پاسبان کے الطاف شکور ، صحافتی برادری، این جو اوز اور دانشور سب یہ سوچ رہے تھے کہ اب عافیہ کی رہائی کیسے ہو۔عصمت آپا ، عافیہ کی والدہ کے آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ احمد جو اپنی ماں سے بچھڑ کو ادھورا سا سہما ہوا بچہ ہے۔ مریم تو اب تک شاک کی کیفیت میں ہے۔ فوزیہ کہہ رہی تھی کہ عافیہ تو اسی دن مر گئی تھی۔ جب اس کے بچے اس سے چھین لئے گئے تھے۔ امریکی عدالت ایک ایسے قیدی پر مقدمہ چلا رہی ہیں جو ظلم وستم سے ذہنی طور پر معذور ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کے مقدمے کے دوران اس کی بیٹی مریم کو بار بار اس کے سامنے لاکر دھمکی دی جاتی رہی کہ اگر اس نے لب کشائی کی تو اس کی بیٹی عمر بھر اسے نہ مل سکے گی۔ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بردہ فروش حکمرانوں نے اسے اپنے اقتدار پر قربان کر دیا ہے۔ چند روز جاتے ہیں کہ امریکی عدالت اسے سزا سنا دیں۔ اس سزا پر پاکستان ہی میں نہیں دنیا اسلام میں شدید ردعمل ہوسکتا ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے امریکہ کے اٹارنی جنرل کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے ایک خط لکھا ہے۔ ایک طویل خاموشی کے بعد، کیا ایسی اپیل پہلے نہیں کی جاسکتی تھی۔ آخر پاکستان امریکہ کا کیسا اتحادی ہے جو اپنے شہریوں کو نہ انصاف دلا سکتا ہے ۔ نہ انھیں امریکہ سے واپس مانگ سکتا ہے۔ وزیر داخلہ نے امریکی اٹارنی جنرل کو باور کرایا ہے کہ یہ پاکستانی عوام کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے پاکستان میں امریکہ کیلئے اچھے جذبات پیدا ہونگے۔انہوں نے کہا ہے کہ امریکی حکومت اس معاملہ کے انسانی پہلو کو بھی مدنظر رکھے کیونکہ ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں جس سے ان کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی ضعیف والدہ بھی انتہائی پریشان کن صورت حال سے دوچار ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لئے ذاتی اثر ورسوخ استعمال کریں۔ رحمان ملک نے یاد دلایا ہے کہ امریکہ کی قانونی تاریخ میں ایسی 90مثالیں موجود ہیں کہ جن میں مقدمات انسانی بنیادوں پر واپس لیئے گئے۔ ، ایک افغان جیل میں قیدی اور تشدد کا سامنا کرنے اور اپنے بچوں سے علیحدگی کا درد ہی عافیہ کے لئے کافی ہے ، امریکہ پاکستان کی عوام سے یکجہتی پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے عوامی امنگوں کا خیال رکھنا چاہیئے۔ صدر امریکہ چاہیں تو وہ رہائی کے اقدام کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی وطن واپسی پاکستان میں امریکہ کے لئے خیر سگالی پیدا ہوں گے۔حکومت اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھ سکتی ہے۔ حکومت جس کی ناکامی کے چرچے اور چل چلاﺅ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ وہ عافیہ کے مقدمے میں مداخلت کرکے اپنی پوائینٹ اسکور کرسکتی ہے۔ اسے گیلانی اور زرداری حکومت کو کارنامہ ہی سمجھا جائے گا۔اگر ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں امریکی حکومت نے کوئی عاجلانہ فیصلہ کیا تو دہشت گردی کی جنگ میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی ناٹو افواج کی سپلائی لائین بھی متاثر ہونے کا خظرہ ہے۔ اور ششدد پسندوں کو بھی اس کے خلاف نفرت ابھارنے کا موقع مل جائے گا۔ پورے ملک میں عافیہ کو سزا ہونے کی صورت میں احتجاج کی جو لہر ابھرے گی۔ اس پر پل باندھنا حکومت کے لئے مشکل ہوگا۔ا
عطا محمد تبسم
اس دن بھی سارے دوست ڈاکٹر عافیہ کے گھر جمع ہوئے تھے۔ جو عافیہ کی رہائی کے لئے طویل جدوجہد کے بعد اس مرحلے پر پہنچے ہیں۔برطانیہ سے ایون رڈلی مریم اور گونتابے کے قیدی معظم بیگ آئے تھے۔ کراچی کے دوستوں میں سلیم مغل، انتخاب سوری ، شہزاد مظہر،پاسبان کے الطاف شکور ، صحافتی برادری، این جو اوز اور دانشور سب یہ سوچ رہے تھے کہ اب عافیہ کی رہائی کیسے ہو۔عصمت آپا ، عافیہ کی والدہ کے آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ احمد جو اپنی ماں سے بچھڑ کو ادھورا سا سہما ہوا بچہ ہے۔ مریم تو اب تک شاک کی کیفیت میں ہے۔ فوزیہ کہہ رہی تھی کہ عافیہ تو اسی دن مر گئی تھی۔ جب اس کے بچے اس سے چھین لئے گئے تھے۔ امریکی عدالت ایک ایسے قیدی پر مقدمہ چلا رہی ہیں جو ظلم وستم سے ذہنی طور پر معذور ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کے مقدمے کے دوران اس کی بیٹی مریم کو بار بار اس کے سامنے لاکر دھمکی دی جاتی رہی کہ اگر اس نے لب کشائی کی تو اس کی بیٹی عمر بھر اسے نہ مل سکے گی۔ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بردہ فروش حکمرانوں نے اسے اپنے اقتدار پر قربان کر دیا ہے۔ چند روز جاتے ہیں کہ امریکی عدالت اسے سزا سنا دیں۔ اس سزا پر پاکستان ہی میں نہیں دنیا اسلام میں شدید ردعمل ہوسکتا ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے امریکہ کے اٹارنی جنرل کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے ایک خط لکھا ہے۔ ایک طویل خاموشی کے بعد، کیا ایسی اپیل پہلے نہیں کی جاسکتی تھی۔ آخر پاکستان امریکہ کا کیسا اتحادی ہے جو اپنے شہریوں کو نہ انصاف دلا سکتا ہے ۔ نہ انھیں امریکہ سے واپس مانگ سکتا ہے۔ وزیر داخلہ نے امریکی اٹارنی جنرل کو باور کرایا ہے کہ یہ پاکستانی عوام کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی سے پاکستان میں امریکہ کیلئے اچھے جذبات پیدا ہونگے۔انہوں نے کہا ہے کہ امریکی حکومت اس معاملہ کے انسانی پہلو کو بھی مدنظر رکھے کیونکہ ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں جس سے ان کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی ضعیف والدہ بھی انتہائی پریشان کن صورت حال سے دوچار ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لئے ذاتی اثر ورسوخ استعمال کریں۔ رحمان ملک نے یاد دلایا ہے کہ امریکہ کی قانونی تاریخ میں ایسی 90مثالیں موجود ہیں کہ جن میں مقدمات انسانی بنیادوں پر واپس لیئے گئے۔ ، ایک افغان جیل میں قیدی اور تشدد کا سامنا کرنے اور اپنے بچوں سے علیحدگی کا درد ہی عافیہ کے لئے کافی ہے ، امریکہ پاکستان کی عوام سے یکجہتی پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے عوامی امنگوں کا خیال رکھنا چاہیئے۔ صدر امریکہ چاہیں تو وہ رہائی کے اقدام کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی وطن واپسی پاکستان میں امریکہ کے لئے خیر سگالی پیدا ہوں گے۔حکومت اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھ سکتی ہے۔ حکومت جس کی ناکامی کے چرچے اور چل چلاﺅ کی باتیں کی جارہی ہیں۔ وہ عافیہ کے مقدمے میں مداخلت کرکے اپنی پوائینٹ اسکور کرسکتی ہے۔ اسے گیلانی اور زرداری حکومت کو کارنامہ ہی سمجھا جائے گا۔اگر ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں امریکی حکومت نے کوئی عاجلانہ فیصلہ کیا تو دہشت گردی کی جنگ میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی ناٹو افواج کی سپلائی لائین بھی متاثر ہونے کا خظرہ ہے۔ اور ششدد پسندوں کو بھی اس کے خلاف نفرت ابھارنے کا موقع مل جائے گا۔ پورے ملک میں عافیہ کو سزا ہونے کی صورت میں احتجاج کی جو لہر ابھرے گی۔ اس پر پل باندھنا حکومت کے لئے مشکل ہوگا۔ا
اگر آپ اپنا فونٹ اسٹائل نوری نستعلیق کرلیں تو آپکی تحاریر پڑھنے میں بہت آسانی پیدا ہوجائے گی۔
جواب دیںحذف کریں