میوزیکل چیئر کا گیم

عطا محمد تبسم
حیدرآباد سے کراچی کا سفر آرام سے دو گھنٹے میں طے ہوگیا۔ گھر سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر راشد منہاس روڈ پر کراچی کا ٹریفک اپنے پورے جوبن پر تھا۔ دور دور تک کاروں ،بسوں،رکشائ، موٹر سائیکلوں ،ٹرک، مزدا ٹرک،ویگن کی ایک نا ختم ہونے والی بھیڑ تھی۔کراچی کے باشعور شہریوں میں قائد اعظم کے فرمودات اتحاد، تنظیم ، نظم وضبط کے کوئی آثار نہیں تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ حیدرآباد سے کراچی کو سفر دو گھنٹے، اور کراچی میں آدھ کلو میٹر کا فاصلہ بھی دو گھنٹے میں طے ہوا۔ کراچی کا ٹریفک اب ایک ڈراﺅنے خواب کی صورت ہے۔ جس میں پھنس جانے کا تصور ہر گاڑی چلانے والے کو ایک جنونی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ کسی طرح میں نکل کر اپنی منزل پر پہنچ جاﺅں۔گھر آنے پر ٹی وی سے پتہ چلا کہ پورے کراچی میں ہر جگہ ٹریفک جام ہے جو بعض مقامات پر رات ایک دو بجے تک رہا۔ کراچی کے شہری جس طرح اب ٹارگٹ کلنگ کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرچکے ہیں۔ ایسے ہی ٹریفک جام کو بھی اس شہر میں رہنے کا ایک ٹیکس سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے۔ سپر ہائی وے پر دور دور تک سیلاب متاثرین کی جھونپڑ پٹیاں ہیں۔ عورتیں بچے صبح شام سڑک پر ہاتھ پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہماری حکومت کے دعوے اپنی جگہ ، لیکن زمینی حقائق کچھ اور جانب اشارہ کررہے ہیں۔ حد سے زیادہ بد انتظامی اور نااہلی نے ان کو بھی زبان دے دی۔ جو اپنے جرائم کے سبب منہ چھپائے پھر رہے تھے۔ سیلاب انسانوں ہی کو بے گھر نہیں کرتا، زہریلے سانپ اور مگر مچھ بھی بے گھر ہوجاتے ہیں۔ ان دنوں پانی کے جانوروں نے ایک نیا تماشا شروع کر رکھا ہے۔ ان جانوروں کو بھی میڈیا کی حمایت حاصل ہے۔ اب نجومی تو حکومت کے جانے کی صبح شام کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ جرمنی میں آکٹوپس پال نے فٹ بال ورلڈ کپ میں کام یاب پیش گوئیاں کر کے عالم گیر شہرت حاصل کی تھی۔ اب ان کی دیکھا دیکھی آسٹریلیا میں ایک مگر مچھ نے بھی پیش گوئیوں کے میدان میں قدم رکھ دیا ہے۔ڈارون کے ایک وائلڈ لائف پارک میں ہیری نامی مگر مچھ نے آسٹریلیا کے عام انتخابات میں وزارت عظمی کے لیےجولیا گیلارڈ کے منتخب کی پیش گوئی کی ہے۔سیلاب کی امداد کو ڈکارنے والے مگرمچھوں کے کارناموں سے متاثر ہوکر سابق صدر مشرف نے بھی شائد کسی مگر مچھ سے فال نکلوائی ہے۔ اور اب انھوں نے دو ہزار تیرہ میں ہونے والے عام انتخابات میں صدر یا وزیر اعظم بننے کے لئے حصہ لینے کا ارادہ کرلیا ہے۔ سابق صدر کا کہنا ہے کہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ پاکستانی قوم کو اندھیروں اور مایوسی سے نکالنا چاہتے ہیں۔عجیب بات ہے جن لوگوں نے اس قوم کو اندھیروں میں ڈوبویا وہی اسے روشنی بخشنے کا دعوی کر رہے ہیں۔ ملک میں اقتدار کے لئے برسوں سے میوزیکل چئیر کا کھیل جارہی ہے۔ جس میں آج ہم ہیں ۔ کل تماری باری ہے۔پر جاری اس گیم میں ہر جانے والا ایک نئی مصیبت اس قوم کے سر پر منڈھ جاتا ہے۔ اسکندرمرزا گئے تو ایوب خان کا تحفہ دے گئے۔وہ جاتے جاتے یحی خان کو کرسی پر بیٹھا گئے۔ بھٹو ذرا سا چوک گئے تو ضیاالحق آبیٹھے،ان کے جانے کے بعد بےنظیر اور میاں نواز شریف کی میوزیکل چئیر جاری تھی کہ اچانک مشرف نے کرسی اچک لی۔انکو قوم نے بڑی مشکل سے رخصت کیا تھا کہ جموریت آگئی اور اب جموریت ہے لیکن جمہور غائب ہے۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس لئے ایک بار پھر میوزیکل چئیر گیم شروع ہورہا ہے۔ جس میں سارے کھلاڑی پھر صدر صدر یا وزیر اعظم وزیر اعظم کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک اور چراغ گل ہوا

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔