ایک تعارف۔۔۔ عطا محمد تبسم

اسکول میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اردو کے استاد نے تعریف کی،یوں لکھنے سے دلچسپی بڑھی،پڑھنے کا شوق آنہ لائیبریری لے گیا۔ ان دنوں بچوں کی دنیا، تعلیم وتربیت جیسے رسالے تھے،کتابوں کے شوق کی آبیاری کرنے کے لئے کوئی رہنما نہیں تھا۔ اس لئے جو ملا پڑھ لیا، قاسم محمود کے شاہکار نے ادب کی راہ دکھائی،مفتی کی علی پور کا ایلی نیشنل سنٹر میں روزانہ جاکر پڑھتا، لائیبریری کے اوقات ختم ہونے پر گھر چلا جاتا، کئی دنوں میں یہ کتاب ختم کی،کالج میں ایک محسن دوست مل گیا، اس نے ادب کے ستھرے ذوق کو مہمیز کیا،تعلیم ، معاش اور طلبہ سیاست نے صحافت کی راہ دکھائی۔کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے اساتذہ اور دوست احباب نے اردو اور انگریزی پر توجہ دلائی، لیکن بچپن میں پیلے اسکول کی تعلیم انگریزی والوں کا کیا مقابلہ۔ سو زندگی بھر ایک طالب کی طرح حرف حرف سیکھنے کا عمل جاری ہے۔حیدرآباد شہر میں پیدائش،جامعہ سندھ سے ایم اے معاشیات،اور جامعہ کراچی سے ایم اے صحافت کے بعد اخبارات ، اور تعلقات عامہ سے رشتہ نان جو جڑا ہے۔بلاگ کے دوستوں سے سیکھنے کا عمل جاری ہے۔ ابھی تک درست طریقے پر نہ تو بلاگ بنا پایا۔نہ ہی تبصروں کو دیکھ پایا۔ آج کمنیٹس میں جاکر دیکھا تو پتہ چلا ۔ دوستوں نے ہمت افزائی کی ہے۔ لیکن ابھی تک سمجھ نہ پایا کہ کیا کرنا ہے۔

تبصرے

  1. السلام علیکم ورحمۃو برکاتہ،
    بھائی عطاء، لکھیں اسلئیے نہیں کہ کوئی آپ کی ستائش کرےبلکہ اس لئےکہ آپ اپنامقصدحیات لوگوں پرواضح کرسکیں ۔ حق کولکھیں چاہیے کمنٹ ہوں یاناں ہو۔ اللہ تعالی آپ کاحامی وناصرہوگا۔ انشاء اللہ
    والسلام
    جاویداقبال

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل