جنرل موٹرز کا دیوالیہ

جنرل موٹرز کسی زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی موٹر ساز کمپنی تھی ۔لیکن زمانے نے اس کمپنی کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ امریکہ میں بے راوزگاری کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جنرل موٹرز کا شمار ٹیوٹا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی کمپنی کے طور پر ہو تا تھا۔ ۱۰۱ سال سے موٹر سازی کے کاروبار میں اس کی اجارہ داری تھی۔یہ کمپنی ۳۴ ملکوں میں ٹرک اور کاریں بناتی تھی۔پوری دنیا میں اس کے ملازمین کی تعداد۰۰۹۴ ۳ سے زائد تھی۔ دنیا کے ۰۴۱ ملکوں میں اس کے سیلز کے مراکز تھے۔شیورلیٹ، کیڈی لیک،بیوک،اپیل،واکس ہیل ہولڈمین، پونیٹیاک، سیب، سٹیم، والنگ سب اسی کمپنی کی گاڑیاں تھیں۔دنیا بھر کے حکمرانوں اور امیر آدمیوں کے لئے ایک صدی تک ساماں عیش و عشرت فراہم کر نے والی یہ کمپنی اب دیوالیہ ہوگئی ہے۔ جس کے اثرات سے بچنے کے لئے امریکہ ہاتھ پاوئں مار رہا ہے۔ ۷۲ ستمبر ۸۰۹۱ کو یہ ہولڈنگ کمپنی موشی گن میں قائم ہوئی تھی۔ ۰۸ا۹ تک یہ دنیا کی بہترین کمپنی تھی۔ دنا بھر میں اس کے ۰۵۱ اسمبلنگ پلانٹ تھے۔اس اس کے ۲۹ ہزار ملازمین اور ۵ لاکھ رٹائرڈ ملازمین کا مستقبل خطرے میں ہے۔حال ہی میں


جنرل موٹرز ا نے پنی مشہور گاڑی کے ماڈل ہمر کو ستمبر کے آخر تک فروخت کرنے کا معاہدہ ایک چینی ادارے سے کیا ہے۔دیوالیہ پن کا شکار ہونے والے امریکی کار ساز ادارے جنرل موٹرز نے اپنی Hummer برانڈ کار سازی کی ٹیکنالوجی کو چینی صنعتی ادارے Sichuan Tengzhong کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ اِس سلسلے میں طے پائے جانے والے سمجھوتے کی تصدیق کردی گئی ہے۔ چینی کمپنی کو انتظامیہ کے علاوہ کار کی ساخت کے حقوق حاصل ہو ں گے۔ معاہدے کے ساتھ ہی چینی ادارے کو اِس برانڈ کی کار کے موجودہ ڈیلرز کے ساتھ رابطوں کا اختیار مل گیا ہے۔ اس معاہدے سے تین ہزار امریکی بیروزگاری سے بچ جائیں گے۔ جنرل موٹرز کے دیوالیہ پن سے تحفظ کی درخواست دائر کر نے سے یہ امریکی تاریخ میں دیوالیہ ہونے والی سب سے بڑی کمپنی ہوگی۔ ابتدا میں اس بات کو چھپا یا گیا کہ ہمر سپورٹس گاڑی کو کون خرید رہا ہے، لیکن یہ کہا گیا کہ اس اقدام سے امریکا میں ہمر کی خرید وفروخت کے مراکز میں ملازمتوں کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں اس کے پرزوں کی تیاری اور انجنیئرنگ سے منسلک تین ہزار سے زیادہ افراد کے روزگار بچائے جاسکیں گے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ خریدار ادارہ ہمر برانڈ بنانے کے آئندہ کے پروگراموں پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے گا۔ہمر کی فروخت کا اعلان اس کے ایک ر وز بعد سامنے آیا ہے جب جنرل موٹرز نے کمپنی کی تنظیمِ نو سے متعلق حکومت کی قیادت کے منصوبے کے سلسلے میں اپنے دیوالیہ ہونے کی درخواست دائر کی تھی۔ امریکی حکومت نے جنرل موٹرز کو 30 ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے جب کہ وہ پہلے ہی امریکی خزانے سے 20 ارب ڈالر قرض لے چکی ہے۔ جنرل موٹرز نے اپنی 12سے زیادہ فیکٹریاں اور کچھ دوسری تنصیبات بند کر نے کا اعلان کردیا ہے۔جرمنی، کینیڈا کی حکومتیں اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو نے بھی جنرل موٹرز کی مدد کے لیے اربوں ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ جنرل موٹرز کا دیوالیہ ہونا ایک تکلیف دہ امر ہے لیکن یہ اس عظیم امریکی موٹر ساز کمپنی کی بحالی کی جانب ایک ضروری قدم ہے۔جنرل موٹرز کسی زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی موٹر ساز کمپنی تھی لیکن یہ اپنی مصنوعات کی فروخت میں نمایاں کمی اور بڑے بڑے خساروں کے باعث مسائل میں مبتلا ہوچکی ہے۔ گذشتہ سال اس کمپنی کی گاڑی ہمر ایس یو وی کی فروخت ایک سال پہلے کے مقابلے میں 51 فی صد تک کم ہوگئی تھی۔ اپریل کا مہینہ امریکہ کی بڑی کارساز کمپنیوں کے لیے بہت دشوار ثابت ہوا۔ اِس کا موازنہ پچھلے سال اِسی مہینے سے کیا جائے تو متعدد کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ا ±ن کے کاروبار میں 30فی صد یا اِس بھی زیادہ کی کمی واقع ہوئی۔فورڈموٹر گاڑیوں کی فروخت میں 32فی صد کی کمی، جنرل موٹرز میں تقریباٍ ً 34فی صد، نسِان میں 38 فی صد، ٹویوٹا میں 42فی صد ، جب کہ کرائسلر کی فروخت میں 48فی صد کی کمی دیکھنے میں آئی۔کاروں کی فروخت میں کمی کا باعث کساد بازاری اور ممکنہ خریداروں کو سرمائے کا انتظام کرنے میں درپیش مشکلات بتایا گیا ۔فروخت کی ابتر حالت کی خبریں ا ±س وقت سامنے آئیں تھیں۔جب امریکی کارساز کمپنی کرائسلر نے نیویاک میںکو عدالت میں سماعت کے پہلے ہی روز دیوالیہ پن کے شکار ہونے کا اعلان کیا۔کرائسلر نے عدالت میں درخواست دی تھی کہ دیوالیہ پن کے باعث ا ±سے قرض داروں سے تحفظ دیا جائے، کیوں کہ کچھ قرضہ داروں کے ساتھ معاملہ طے کرنے سے متعلق ا ±س کی کوششیں ناکام ہوگئی تھیں۔کمپنی پ ±ر ا ±مید تھی کہ اٹلی کی کارساز کمپنی، فیئٹ سے ٹیکنالوجی میں شراکت سے ا ±س کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ چھوٹی اورکم ایندھن استعمال کرنے والی گاڑیاں بنا ئی جائیں جن کی فروخت کے امکانات بہتر ہوں۔امریکی حکومت نے جنرل موٹرز کو بحران سے نکالنے کے لیے بیس ارب ڈالر کا سرمایہ لگایا لیکن کمپنی کے حالات دن بدن خراب ہو تے رہے۔ امریکی حکومت نے مزید تیس ارب ڈالر جنرل موٹرز میں لگانے کا فیصلہ کیا ہے اس طرح کمپنی کے ستر فیصد شیرز حکومت کی ملکیت میں ہوں گے۔توقع ۔ امریکی مالی بحران کے سبب جی ایم موٹرز کی فروخت میں زبردست کمی آئی ہے اور حکومت کی جانب سے کمپنی کو بیس بلین ڈالر کی امداد بھی حکومتی ساکھ بچانے کی ایک کوسش کہی جا سکتی ہے۔

جی ایم کا یورپی حصہ جو ’واکس ہال‘ اور ’اوپل‘ برانڈ کی کاریں بناتا ہے دیوالیہ ہونے سے بچ جائے گا کیونکہ ایک کنیڈین کمپنی نے جی ایم کے یورپی کاروبار کو خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔تاہم ٹریڈ یونینوں کا خدشہ ہے کہ برطانیہ میں واکس ہال پلانٹ میں لوگوں کی ملازمتوں کو خطرہ ہے۔اس کے علاوہ بیلجیم، پولینڈ اور سپین میں بھی ملازمتیں جانے کا خطرہ ہے۔

امریکی کار کمپنیوں کو مشکل حالات کا سامنا ہے کرائسلر، فورڈ اور جنرل موٹرز نے امریکی کانگرس کے سامنے اربوں ڈالر کے قرضوں کی تجاویز رکھی ہیں تاکہ یہ کمپنیاں بچائی جا سکیں۔ ’ڈیٹروئٹ تھری‘ کہلانے والی کاریں بنانے والی ان کمپنیوں نے کل 34 ارب روپے کے قرضوں کی درخواست کی ہے۔ان تجاویز میں خرچے اور قرضے کم کرنے اور ایسی ٹیکنالوجی پر جو ماحولیات کے لیے مضر نہ ہو سرمایہ کاری کرنا شامل ہے۔فورڈ اور جی ایم کے چیف ایگزیکیوٹیوز نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر کانگرس ہنگامی امداد منظور کر لیتی ہے تو وہ پورے ایک سال صرف ایک ڈالر پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ فورڈ کمپنی نے یہ بھی کہا کہ وہ خرچے کم کرنے کے لیے اپنے پانچ کارپوریٹ جہاز اور دیگر کاروبار بیچ دے گی جس میں ولوو جیسی کمپنی بھی شامل ہے۔ ان تینوں کار کمپنیوں کو اس وقت انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے، کیونکہ امریکیوں نے بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال کے پیشِ نظر خرچ کرنا کم کر دیا ہے۔ فورڈ نے اس سال نومبر میں گزشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہلکی گاڑیاں بیچی ہیں۔ جنرل موٹرز نے اس ماہ 41 فیصد کم گاڑیاں بیچی جبکہ کرائسلر کو سب سے زیادہ نقصان ہوا اور اس نے 47 فیصد کم گاڑیاں فروخت کی ہیں۔ امریکہ میں نو گیارہ کے بعد مالیاتی بحران ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی تباہی کے بعد

امریکی مالیاتی بحران سے حصص بازاروں میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ ٹھیک ایک سال پہلے ڈاو ¿ جونز چودہ ہزار پوائنٹ پر پہنچا تھا ۔ لیکن اب روز بروز اس میں کمی ہورہی ہے۔ڈاو ¿ جون انڈکس گزشتہ پانچ برس میں پہلی مرتبہ نو ہزار پوائنٹ سے نیچے چلی گئی۔مختلف حکومتوں کی طرف سے موجودہ عالمی مالیاتی بحران سے نکلنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے باوجود سرمایہ کار اس خوف میں مبتلا ہیں کہ یہ مالیاتی بحران پوری دنیا میں کساد بازاری کا باعث بن سکتا ہے۔ ٹھیک ایک سال پہلے ڈاو ¿ جونز اپنی بلند ترین سطح چودہ ہزار پوائنٹ پر بند ہوا تھا۔یورپ کے حصص بازاروں میں ابتداءمیں کاروبار میں بہتری دکھائی دی لیکن بعد میں لندن کی سٹاک مارکیٹ فٹسی ہنڈرڈ انڈکس ایک اعشاریہ دو فیصد کی کمی پر بند ہوا جبکہ فرانس کے حصص بازار میں ایک اعشاریہ پانچ پانچ فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ کاروبار کے آخری لمحات میں حصص کی فروخت زور پکڑ گئی۔ لاس انجلس میں حصص بازار میں کاروبار کرنے والی ایک کمپنی کے اہلکار کرس اونڈرف نے کہا کہ یہ صریحاً گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔ امریکہ کی گاڑیاں بنانے والے کمپنی جرنل موٹرز کے حصص کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اکتیس فیصد کی کمی ہوئی۔ اس کی وجہ سرمایہ کاروں میں پائے جانے والے یہ خدشات ہیں کہ عالمی سطح پر کساد بازاری کی صورت میں گاڑیوں کی فروخت میں شدید کمی واقع ہو سکتی ہے۔ توانائی کی کمپنیوں کے حصص میں بھی کمی واقع ہوئی اور تیل کی قیمت پچاسی ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ مالیاتی بحران کا اثر صرف مالیاتی اداروں اور بینکوں کے حصص تک محدود نہیں رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مالیا تی بحران جارج بش کے دور صدارت ہی میں چل نکلا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی نے اس بحران کو مزید بڑھا دیا تھا۔ جس کے بعد تنظیم اوپیک کے رکن ممالک کا ایک اہم اجلاس اٹھارہ نومبر کو ویانا میں ہو ا۔ جس میں مالیاتی بحران کے تیل کی مارکیٹ پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا اور اسی دوران عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف بھی امریکی معشیت کو بچانے کے لئے میدان میں آگیا۔عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے ایک ہنگامی طریقہ کار وضع کیا۔ جس سے ان ملکوں کی مدد کر نے کا فیصلہ کیا گیا جو مالیاتی بحران سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھی دنیا میںعالمی اقتصادی بحران بدستور جاری ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جنگ عظیم کے بعد سے موجود صورت حال زیادہ خراب ہے عالمی مالیاتی بینک نے کہا ہے کہ سن دو ہزار نو میں دنیا کی معیشت میں دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ ایک اعشاریہ تین فیصد کی شرح سے مزید کمی واقع ہو گی۔جنوری میں عالمی مالیاتی بینک نے پیشن گوئی کی تھی کہ سن دو ہزار نو میں دنیا کی معیشت صفر اعشاریہ پانچ فیصد سے بڑھے گی۔بینک نے برطانیہ کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں کہا ہے کہ برطانیہ کی معیشت سن دو ہزار نو میں چار اعشاریہ ایک فیصد کی شرح سے کم ہو گی جبکہ سن دو ہزار دس میں اس میں مزید اعشاریہ چار فیصد کی کمی ہو گی۔سن دو ہزار دس میں دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں سے بھی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا رہی ہیں اور اجتماعی طور پر معاشی ترقی کی رفتار صفر رہنے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال دوسری جنگ عظیم کے بعد سے زیادہ سنگین ہے۔دنیا کے امیر ملکوں میں پیداوار سات اعشاریہ پانچ فیصد کی غیر معمولی سالانہ شرح سے کم ہو رہی ہے اور آئی ایم ایف کو خدشہ ہے کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں بھی پیداوار میں اسی رفتار سے کمی ہو گی۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ ترقی پذیر معیشتوں میں اقتصادی بحالی سے دنیا کی اقتصادی صورت حال سن دو ہزار دس میں بہتر ہو سکتی ہے گو کہ ترقی کی رفتار صرف ایک اعشاریہ نو فیصد تک ہی رہے گی۔آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق سن دو ہزار نو میں عالمی تجارت میں بھی کوئی بہتری کی توقع نہیں ہے۔ بینک نے کہا ہے کہ عالمی تجارت اس سال گیارہ فیصد کی شرح سے کم ہو گی اور سن دو ہزار دس میں اس میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہو گا۔ساٹھ سال تک عالمی اقتصادی ترقی کا ایک بڑا ذریعہ رہنے کے بعد اب عالمی تجارت میں کمی سے برآمدات کرنے والے بڑے ملکوں کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ برطانیہ میں کساد بازاری سب سے زیادہ شدید ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ وہاں جائیدار کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں اور اس کے مالیاتی اداروں بحران کا شکار ہیں۔ آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق برطانیہ میں بے روز گاری سن دو ہزار دس کے آخر تک نو اعشاریہ دو فیصد سے بڑھے جائےگی جو کہ اس وقت چھ اعشاریہ سات فیصد پر ہے۔’امریکی معیشت کے بارے میں ببس کے نامہ نگارگریگ ووڈ نے اپنے ایک تجزئے میں کہا ہے کہ امریکی عوام اب نتائج چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اوباما کے معاشی منصوبے کو متفقہ منظوری نہ مل سکی جہاں تک معاشی پالیسی کی بات ہے آپ صدر اوباما پر اسے نظرانداز کرنے کا الزام تو نہیں لگا سکتے تاہم یہ ضرور ہے کہ ان کی معاشی پالیسی کی افادیت ضرور زیرِ بحث لائی جا سکتی ہے۔ان کے دورِ اقتدار کے ابتدائی سو دن میں کم از کم ایک قابلِ ذکر کارنامہ سات سو ستاسی ارب ڈالر کا معاشی منصوبہ ہے۔ براک اوباما نے ‘امریکن ریکوری اینڈ ری انویسٹمنٹ ایکٹ‘ کے نام سے پہچانے جانے والے اس بل پر صدارت کا حلف اٹھانے کے ایک ماہ کے اندر ہی دستخط کر دیے تھے۔یہ زما نہ امن میں امریکہ کا اب تک سب سے بڑا اخراجاتی منصوبہ ہے جسے ایک ریکارڈ مختصر وقت میں منظور کیا گیا۔ لیکن صدر اوباما کا یہ معاشی منصوبہ ان کی توقعات کے برعکس کانگریس میں دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا اور حزب مخالف کی رپبلکن جماعت کی مخالفت مہم کا ایک حصہ بن گیا۔اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اس کے تحت سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے متعدد منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ رقم سرکاری ملازمتوں خاص طور پر پولیس کے محکمے میں ملازمتیں بچانے کے لیے صرف کی گئی ہے۔ تاہم جس تبدیلی

کے دعوے کیے جا رہے ہیں اس کا ثبوت دیکھنے کو نہیں مل رہا۔اوباما انتظامیہ کو اپنے ابتدائی سو دنوں میں جس بڑے سیاسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ اے آئی جی انشورنس سمیت دیگر انشورنس اور مالیاتی اداروں کے اعلٰی افسران کو دیے جانے والے بونس تھے۔درحقیقت ایک مختصر مدت میں یہ بل کساد بازاری کو ختم نہیں کر سکتا۔ اس منصوبے سے صرف بڑھتی ہوئی بےروزگاری کو کچھ حد تک کم کیا جا سکتا ہے یا پھر مستقبل میں ہونے والی ترقی کے لیے بنیاد تیار کی جا سکتی ہے۔۔اس معاشی ایکٹ کا بہت بڑا منفی پہلو بھی سامنے آنے والا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ امریکہ کے اس بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے میں مزید اضافہ کرے گا جس کے بارے میں یہ پیشنگوئی کی جا رہی کہ اس مالی سال میں اس کا حجم پو نے دو کھرب ڈالر ہوگا۔ اگرچہ امریکی انتظامیہ نے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ موجودہ معاشی بحران کے خاتمے کے بعد بجٹ خسارے کا خاتمہ کر دے گی لیکن اس کے باوجود ریکارڈ خسارہ ایک ایسی چیز نہیں جسے صدر اوباما اپنے دورِ صدارت کے پہلے برس کے اہم نکات میں شامل کرنا چاہیں گے۔معاشی منصوبے سے کہیں زیادہ پیچیدہ چیز ’وال سٹریٹ بیل آو ¿ٹ پلان‘ یا ’ٹربلڈ ایسیٹ ریلیف پروگرام‘ کے تئیں اوباما انتظامیہ کا رویہ ہے۔ بش انتظامیہ کی جانب سے اس منصوبے کے لیے مختص رقم کے استعمال کے حوالے سے ہچکچاہٹ کے بعد مالیاتی ادارے اس ضمن میں فیصلہ کن رویہ چاہتے ہیں۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ کے وزیرِ خرانہ ٹموتھی گھتنر نے کانگریس کے سامنے جو ابتدائی منصوبہ پیش کیا تو اس سے بھی نہ صرف ہچکچاہٹ عیاں تھی بلکہ اس خاکے میں کوئی تفصیل بھی نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وزارت کے ابتدائی ایام میں ہی ان کی ساکھ اس حد تک بگڑی کہ ان سے استعفٰی لیے جانے کی باتیں ہونے لگیں۔اوباما انتظامیہ کو اپنے ابتدائی سو دنوں میں جس بڑے سیاسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ اے آئی جی انشورنس سمیت دیگر انشورنس اور مالیاتی اداروں کے اعلٰی افسران کو دیے جانے والے بونس تھے۔ انتظامیہ نے ان بونسوں کی ادائیگی رکوانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کا اعلان کیا لیکن اس معاملے پر وزارتِ خزانہ کا موقف مختلف نکلا اور اس وجہ سے ڈیموکریٹ جماعت کے ہی متعدد ارکان خفا ہوگئے۔

اقتصادی پالیسی کے حوالے سے براک اوباما کے ابتدائی سو دن ملے جلے رہے اور اس دوران ایک ہی قابلِ ذکر کام سامنے آیا جو’امریکن ریکوری اینڈ ری انویسٹمنٹ ایکٹ‘ کی منظوری تھا۔ لیکن صدر براک اوباما کے پہلے سو دن کے بعد ان کے لیے پیغام بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ عوام بہتر نتائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ان سب مسائل کے پس منظر میں اصل امریکی معیشت کی زوال پذیری بھی جاری رہی۔ اوباما انتظامیہ کے ابتدائی چند ماہ میں امریکہ میں بےزورگار افراد کی تعداد ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم اس کا ذمہ دار صدر اوباما کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ موجودہ معاشی بحران کی وجوہات کا تعلق گذشتہ دور حکومت سے ہے اور نئی حکومت نے بیروزگاری میں کمی لانے اور کم آمدن والے طبقے کی مدد کے لیے بیاسی ارب ڈالر مختص کیے ہیں۔اقتصادی پالیسی کے حوالے سے براک اوباما کے ابتدائی سو دن ملے جلے رہے اور اس دوران ایک ہی قابلِ ذکر کام سامنے آیا جو’امریکن ریکوری اینڈ ری انویسٹمنٹ ایکٹ‘ کی منظوری تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دس امریکی بینک اب بھی دباو ¿ میں ہیں۔امریکی سیکریٹری خزانہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کمزور بینک مطلوبہ کیش کا انتظام نہ کر سکے تو شاید ایک مرتبہ پھر انہیں ٹیکس گزاروں کا پیسہ دینا پڑے ۔امریکہ میں انیس بڑے بینکوں میں سے دس بینک ابھی تک خطرے کی حد سے باہر نہیں نکلے اور ان بینکوں کو مزید چوہتر اعشاریہ چھ بلین ڈالر کیش کی ضرورت ہے۔ ان بینکوں میں بینک آف امیریکہ اور ویلز فارگو بھی شامل ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ بینک بھی ’دباو ¿ کے ٹیسٹ‘ میں پورے نہیں اتر سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی کساد بازاری ابھی مزید بڑھے گی۔ یہ ٹیسٹ بینکوں کی ’صحت‘

دیکھنے کے لیے کیے گئے تھے تا کہ معلوم ہو سکے کہ آیا ان کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ عالمی کساد بازاری میں اضافے کی صورت میں حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ ٹیسٹ کے مطابق بینک آف امیریکہ سب سے زیادہ کمزر ہے اور اسے اضافی تینتیس اعشاریہ نو بلین ڈالر چاہیئں۔سٹی گروپ کو پانچ اعشاریہ پانچ جبکہ مورگن سٹینلے کو ایک اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔امریکہ میں سیکریٹری خزانہکا کہنا ہے کہ امریکہ کو امید ہے کہ آج کے اقدام سے بینک ایک مرتبہ پھراپنے اصل کام یعنی بینکنگ کی طرف واپس ہو جائیں گے۔کچھ بینکوں نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ مطلوبہ رقوم کس طرح حاصل کریں گے اور ان طریقوں میں حکومت سے مزید قرض حاصل کرنے کی بجائے اثاثوں کی فروخت پر زور دیا جائے گا۔ جن بینکوں کو اضافی رقم درکار ہے انہیں آٹھ جون تک کی مہلت دی گئی ہے تا کہ وہ اپنے منصوبوں کو حتمی شکل دی لیں اور ریگیولیٹرز سے انہیں منظور کرا لیں۔ سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بہت سے بینک اضافی رقم کا بندوبست کر لیں گے تاہم اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو شاید انہیں ٹیکس گزاروں کا پیسہ پھر سے دینا پڑ جائے۔ اس ا قتصادی بحران کے اثرات مغرب سے نکل کر مشرق کی طرف آرہے ہیں۔اور خطہ کی مظبوط معیشت چین بھی اس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ اب چینی فیکٹریوں کے ایکسپورٹ کے آرڈر بہت تیزی سے کم ہونا شروع ہوےءہیں۔چین کی اقتصادی ترقی کی شرح لگاتار تیسری سہمائی میں کم ہوئی ہے۔اور ایسے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ معاشی صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔اعدادو شمار کے قومی بیورو کا کہنا ہے کہ ستمبر تک تین ماہ میں معیشت نے نو فیصد کی شرح سے فروغ پایا تھا جبکہ پچھلے برس اس عشرے میں یہ شرح دس اعشاریہ ایک فیصد کی تھی۔ بیورو کے ترجمان لی زیاچاو ¿ کا کہنا ہے کہ چین پر عالمی مالی بحران کے اثرات حکومت کے اندازے سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہواہے۔مسٹر لی کا کہنا ہے عالمی اقتصادی ترقی کی شرح نمایاں طور پر سست ہوئی ہے ۔ عالمی اقتصادی ماحول میں کئی غیر یقینی پہلو ہیں اور تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں اور یہی پہلو چین کی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہے ہیںحکومت کے مطابق گزشتہ ہفتے ملک میں کھلونے بنانے والی آدھی کمپنیوں کا کاروبار ختم ہو گیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اقتصادی شرح میں کمی سے نمٹنے اور عالمی مالی بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت نے بر وقت اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ ان اقدامات میں میعشت اور افراطِ زر کو قابو میں رکھنے پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہے۔افسران کا کہنا ہے کہ اس اختتامِ ہفتہ کوحکومت ٹیکس میں کٹوتی اور بنیادی ڈھانچوں میں سرمایہ کاری کے اضافے کے اعلان کی تیاریاں کر رہی تھی۔





کامیابی کا جشن، ہوائی فائرنگ،

عطامحمد تبسم

سر شام سے ہی ہر طرف ایک جوش خروش کی کیفیت تھی۔ جگہ جگہ نوجوانوں نے بڑی اسکرین لگائی ہوئی تھی۔ کرکٹ کے متوالے ورلڈ کپ دیکھنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہر تقریب میں یہی موضوع بحث تھا۔پاکستان ورلڈ کپ جیت جائے، ہر دل میں یہ آرزو تھی۔اور ہر لب پہ یہ دعا تھی۔ فائنل میچ کو دیکھنے کا موقع کوئی بھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہتا تھا۔ تقریبات تاخیر کا شکار ہورہی تھیں کہ لوگ میچ دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ایک دن پہلے مختار عاقل کے صاحبزادے فرحان عاقل کے ولیمے میں ضیا زبیری نے پاکستان کے جیتنے کی پیشن گوئی کر تے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو جیتنا چاہئے کہ اس سے پوری قوم کو خوشی ملے گی۔ اتوار کو سڑکوں پر فائنل کے آغاز سے قبل سر شام ہی سناٹا چھا گیا اور ٹریفک کم ہوگیا تھا۔ شادی، سالگرہ اور ولیمہ وغیرہ کی تقریبات سے زیادہ لوگوں کی میچ میں دلچسپی تھی۔ مہمان کافی تاخیر سے پہنچ رہے تھے۔ رات کو جب یہ مرادیں پوری ہوئی تو پوری قوم کا جوش خروش یہ کہہ رہا تھا کہ ہم ایک قوم ہیں ۔ہمارا ایک ہی پرچم ہے، ایک ہی کلمہ،ایک قرآن،ہے۔گزشتہ رات جو جشن شروع ہو اتھا۔اس میں خوشیوں کے اظہار کے جدا جدا انداز تھے۔ کہیں خوشی کے اظہار میں ہوائی فائرنگ ہورہی تھی تو کوئی سجدہ شکر بجا لا رہا تھا۔کہیںمٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں تو کہیں بغلگیر ہوکر ایک دوسرے کو مبارکباد د ی جا رہی تھی۔فائنل میچ میںشاہد آفریدی کے وننگ شارٹ کھیلتے ہی کراچی ہوائی فائرنگ آواز سے گونج اٹھا۔ نوجوانوں کی ٹولیاں مختلف علاقوں میں قومی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکل آئیں۔ جنہوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے، مختلف مقامات پر آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا۔ نوجوانوں سڑکوں پر آکر موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ کا مظاہرے کرتے نظر آئے۔ جام ہوگیا۔ جبکہ بعض علاقوں میں مٹھایاں بھی تقسیم کی گئیں۔جس کے باعث تقریبات رات گئے تک جاری رہیں۔ حیدرآباد میں بھی خوشی و مسرت کااظہار کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ کی گئی‘ آتش بازی کامظاہرہ بھی کیاگیا اورمٹھائیاں تقسیم کی گئیں، لوگوں نے ایک دوسرے سے بغل گیرہوکر مبارکباد دی، موٹرسائیکل سوار نوجوان ٹولیوں کی شکل میں سڑک پر نکل آئے اور خوشی کا اظہار کیا۔ میچ ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کو ایس ایم ایس اور ٹیلی فون کے ذریعے مبارکباد دی جا رہی تھی۔مختلف مقامات پر آتش بازی اور ڈھول کی تھاپ پر فائرنگ بھی ک جاری تھی ۔لارڈز کے میدان پر ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان کی سری لنکا پر آٹھ وکٹوں سے شاندار فتح کے بعد کپتان یونس خان نے بین الاقوامی کرکٹ برادری پر زور دیا کہہ پاکستان کو اس کے سیاسی حالات کی وجہ سے تنہا نہ چھوڑا جائے۔”ہمارے تمام ہی مداحوں کی یہ خواہش تھی کہ ٹیم کو ایسی جیت نصیب ہو، ورلڈ کپ میں فتح، ٹونئٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یہ جیت ہماری پوری قوم کے لئے ایک بڑا شاندار تحفہ ہے۔“

یونس خان کے جذبات سے پر الفاظ میں دنیا میں کر کٹ کے متوالو سے کہا کہ ”اب ہم چیمپئنز ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ پاکستان کا دورہ کریں۔ ہمارے نوجوان کرکٹرز کے لئے ہمیں ’ہوم‘ سیریز کی اشد ضرورت ہے۔“لاہور میں مہمان کرکٹ ٹیم سری لنکا کے کھلاڑیوں کی بس پرحملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کونسل ICC نے سیکیورٹی وجوہات کے باعث پاکستان سے 2011ئ ورلڈ کپ کرکٹ کی شریک میزبانی بھی چھین لی ہے ۔ جو ایک بہت بڑی نا انصافی ہے۔اور اس طرح پاکستان کو دنیائے کرکٹ سے علیحدہ کیا جا رہا ہے۔لارڈز کے میدان پر ایک اہم ٹورنامنٹ کے فائنل میں جیت سے پاکستان نے دنیا پر ایک مرتبہ پھر یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور کرکٹ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یونس خان کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں عام پاکستانیوں کو کوئی قصور نہیں ہے۔”ملک میں جو حالات ہیں اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ کھیل کو سیاست سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ کھیل کو سیاست کی ضرورت نہیں۔ سری لنکا، بھارت اور بنگلہ دیش نے پاکستان کی ورلڈ کپ کی میزبانی کی مخالفت کی ہے۔ وہ ایک افسوس ناک امر ہے۔ اس بار دفاعی چیمپئن بھارت سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ سری لنکا کو سوچنا چاہئے کہ ہم نے جان پر کھیل کر ان کے کھلاڑیوں کی جانیں بچائی ہیں۔ اور بنگلہ دیش کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ وہ ہمارے وجود ہی سے تخلیق ہوا ہے۔جشن خوشیوں کا ضرور منانا چاہئے لیکن اس میں فائرینگ اور اندھی گولیوں سے چار افراد جن میںمعصوم بچے،شامل ہیں اور ۰۳،۵۳ افرد کے ذخمی ہونے کے واقعات تکلیف دہ ہیں۔ ان پر ہمیں سوچنا چاہئے۔ خوشیوں کا یہ اظہار کسی گھر میں تاریکی لے آئے یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے۔



Leave a Comment







June 25, 2009, 6:28 am

Filed under: Uncategorized



خواتین کے ساتھ بدسلوکی

(Ata Muhammed Tabussum, Karachi)

کورنگی کے صنعتی علاقے میں واقع مہران ٹاؤن میں گزشتہ دنوں نامعلوم مسلح افراد نے چالیس سالہ محمد امین بلیدی اور ان کی اہلیہ زرینہ بلیدی کو گولیاں مار کر قتل کردیا ۔ ان کا پانچ سالہ بیٹا اسد عباس محفوظ رہا۔ مقتولین کا تعلق بلوچستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع جیکب آباد سے ہے۔ قتل کا یہ واقعہ چھ سال پہلے پسند کی شادی کرنے کا شاخسانہ تھا۔ مقتولین کے ورثا کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ کاروکاری کی رسم کا نتیجہ ہے۔ ہمارے یہاں غیرت کے نام پر قتل روزمرہ ہونے والے جرائم میں شامل ہے۔ کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں پچھلے سال ایک ہزار دو سو دس خواتین کو قتل کیا گیا جن میں چھ سو بارہ خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کمیشن کے مطابق گزشتہ سال غیرت سمیت دوسری وجوہات کی بنا پرایک سو چودہ بچے بھی قتل ہوئے۔ پاکستان میں غربت، مہنگائی کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک عورت نے چار بچوں سمیت شوہر کے تشدد اور جان سے مار دینے کی دھمکی سے خوف زدہ ہو کر ایدھی ہوم میں پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کے شوہر نے منشیات کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ بعد میں اکثر ان پر تشدد کیا جانے لگا۔ انہوں نے بتایا کہ شوہر کے مظالم اس قدر بڑھ چکے تھے کہ ایک بار سر پر زخم آنے کی وجہ سے آٹھ ٹانکے لگوانے پڑے تھے۔ اس کے علاوہ منشیات خریدنے کے لیے گھر کا سارا سامان فروخت ہو گیا تھا۔ ’نوبت یہاں تک آ گئی تھی میرے شوہر نے بچوں کو بیچنے کی بات شروع کی دی تھی۔‘ ایدھی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں گھریلو تشدد سے تنگ آ کر پناہ لینے والی خواتین میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ پہلے ایسی خواتین کو ان کے والدین یا کوئی قریبی رشتہ دار اپنے ہاں پناہ دے دیتا تھا لیکن اب معاشی پریشانیوں کی وجہ سے ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظم عورت فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ اس سال پاکستان میں خواتین پر تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کے مطابق رواں سال کے پہلے نو ماہ میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف تشدد کے پانچ ہزار چھ سو سے زائد واقعات کی رپورٹ موصول ہوئی ہیں۔ صوبہ سندھ میں حالیہ دنوں عورتوں کے خلاف مختلف نوعیت کے تشدد میں اضافہ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔



گزشتہ دنوں میں عورتوں کے خلاف مختلف مقامات پر تشدد کے چار واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے دو عورتیں کارو کاری رسم کے تحت قتل کر دی گئیں۔ ایک عورت کے شوہر نے چاقو سے بیوی کا ناک کاٹ دیا اور ایک عورت نے اپنے والدین کے گھر سے پولیس کی مدد سے پناہ حاصل کی ہے۔ اس طرح تیزاب کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد زخموں سے جانبر نہ ہو سکنے والی پچیس سالہ ماریہ شاہ کا معاملہ بھی خواتین کے ساتھ تشدد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ماریہ شاہ پر تیزاب حملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ سندھ میں جنوری2005 سے لے کر اپریل 2008 تک تین سال کے عرصہ میں خواتین کے ساتھ گھریلو بد سلوکی اور خوفزدہ کرنے کے۵۷۷ واقعات پیش آئے۔ اس قسم کے سب سے زیادہ واقعات کراچی اور دادو میں رونما ہوئے جن کی تعداد فی شہر۶۴۱ کے لگ بھگ ہے۔ سندھ اسمبلی میں گزشتہ دنوں حمیرہ علوانی کے ایک سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا گیا کہ خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے معاملہ میں ضلع میر پورخاص دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں گھریلو خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں دہشت زدہ کرنے کے۳ ۹ واقعات پیش آئے تھے۔ سنہ 2005 سے لے کر سنہ 2008 کے عرصہ میں صوبہ سندھ میں اجتماعی زیادتیوں اور قتل کے ۴۰۱ واقعات ہوئے، جن میں سے۴۵ واقعات کراچی میں، حیدرآباد میں، اور ۱۴ سکھر میں ہوئے۔ خواتین پر تشدد کے ان واقعات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے تاکہ ایسے واقعات میں کمی آسکے۔ ساتھ ہی پولیس کو ان واقعات کی بھرپور طور پر تفتیش کرنی چاہئے اور عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کا فیصلہ ہونا چاہئے تاکہ معاشرہ میں عدل کا نظام قائم ہوسکےسوات کے بے گھر افراد اور انسانی حقوق کی صورتحال

(Ata Muhammed Tabussum, Karachi)

میر ا ای میل باکس سوات وادی اور بے گھر افراد کی امداد کی اپیلوں اور وہاں پیش آنے والے واقعات اور تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستان کی وادی سوات فوج اور طالبان کے درمیان جاری شدہ جنگ نے علاقے کے لاکھوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے۔ ان بے گھر افراد کی حالت بہت ابتر ہے۔ کھانے پینے اور دواؤں کی قلت ہے۔ سوات کے مہاجرین کی افسوس ناک حالت کا سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔ بعض اوقات آدھی رات کو میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ میں ان مصیبت زدہ انسانوں کی کس طرح مدد کرسکتا ہوں۔“خوراک ختم ہو چکی ہے۔ انہیں بیماریوں نے گھیر رکھا ہے، لوگ پریشان ہیں اور اب ان کی اس مصیبت پر سیاست ہورہی ہے۔ متاثرہ علاقے کے لوگ چاہتے ہیں کہ کرفیو میں اتنی نرمی کی جائے کہ وہ وہاں سے نکل سکیں۔ مردان، کشمیر اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والی طالبات بھی محصور ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق دیر سے گیارہ روزہ آپریشن کے دوران ایک لاکھ تیس ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان تنظیموں کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے مردان، چارسدہ، درگئی، چکدرہ میں ریلیف کیمپ قائم کئے گئے ہیں جب کہ ہزاروں لوگ رشتہ داروں کے ہاں ٹھیرے ہیں۔ اسی طرح بونیر سے نقل مکانی کر نے والوں کی تعداد بھی لاکھوں سے سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان لوگوں کے لیے مردان اور صوابی میں کیمپ قائم کئے گئے ہیں تاہم کئی خاندان آسمان تلے رات گزارتے ہیں۔ پاکستان کے داخلی مہاجر پچھلے سال اگست سے، بعد تک ۰۱ لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں اور اب یہ تعداد ۳۳ لاکھ ہوچکی ہے۔ اس قدر بڑی تعداد کے بے گھر ہونے کا مشاہدہ ایک ہولناک تجربہ ہے۔ صرف دس فیصد بے گھر افراد کو خیمے دستیاب ہیں، جبکہ کھلے آسمان تلے، سورج کی تپش میں لاکھوں افرادپناہ لئے ہوئے ہیں۔ متاثرین کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں پینے کے صاف پانی کی کم دستیابی سرفہرست ہے۔ پاکستان میں ہونے والی لڑائی کا اثر براہ راست افغانستان پر پڑ رہا ہے۔ مشترکہ سرحد کے دونوں اطراف پشتون آباد ہیں اور انہی سے طالبان نے جنم لیا تھا۔ امریکہ خوش ہے کہ افغانستان کی لڑائی اب پاکستان کی سرحدوں کے اندر در آئی ہے۔ دوسری جانب مرکزی حکومت نے متاثرین کے لیے پچاس کروڑ اسی لاکھ روپے کی گرانٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ صوبہ سرحد میں قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ متاثرین کے لیے گیارہ ریلیف کیمپ بنائے گئے ہیں۔ ادھر ریڈ کراس تنظیم کے مطابق مالاکنڈ میں شدید انسانی بحران پیدا ہو رہا ہے۔ ریلیف کمشنر جاوید امجد کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں مزید متاثرین رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بونیر اور دیر کے آپریشن کی وجہ مردان اور صوابی کیمپوں میں چار ہزار سے زیادہ خاندان رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔ مردان، صوابی میں کیمپوں سے باہر بھی تین ہزار سے زیادہ خاندان آئے ہیں۔ پہلے گیارہ کیمپوں میں جگہ نہیں ہے صرف جلوزئی میں ایک ہزار خاندانوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔



امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے فروری میں ہونے والے حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر شدید تنقید کی تھی اور ان کا مؤقف ہے کہ اس سے طالبان کو منظّم اور مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی صدر آصف زرداری اور افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات میں القاعدہ اور طالبان کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ طالبان کو شکست دی جائے گی چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ادھر انٹرنیشنل ریڈ کراس نے مالاکنڈ آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگی قوانین کی پاسداری کریں۔ طالبان کے ظلم اور ان کی کاروائیوں کے ویڈیو کلپ جو ای میل کئے جا رہے ہیں وہ ہولناک ہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ افسوس ناک اور شرمناک ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں لاکھوں افراد مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ان بچوں اور عورتوں کا کیا قصور ہے جو اپنے ہی وطن میں بے گھر اور بے در ہوگئے ہیں۔ دیگر شہروں میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ مخیر حضرات نے مہاجرت کا شکار ہونے والے لاکھوں افراد کی مالی امداد، اشیائے خوردو نوش اور اور دوسرے سامان کی فراہمی کے لئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں مالاکنڈ آپریشن، پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آپریشن کے بارے میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اخبارات کے اداریوں سے لے کر ٹی وی چینلوں کے اشتہارات تک جگہ جگہ ملٹری آپریشن کی حمایت جاری ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کےلئے لڑی جانے والی “میڈیا وار” میں کامیاب کون ہوگا۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس کا نقصان اس ملک اور اسی قوم کو اٹھانا ہوگا۔

۔



تیس مار خان

(Ata Muhammed Tabussum, Karachi)

ہم نے اپنے بچپن میں تیس مار خاں کی کہانی پڑھی تھی۔ جس میں لوگ تیس مار خاں کے نام سے تھرتھراتے تھے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ تیس مار خاں نے تیس بندوں کو کھڑ کھڑا دیا ہے۔ یوں لوگ اس کی ہیبت سے کانپتے تھے۔ پھر یوں ہو ا کہ ایک دن تیس مار خاں کو سیر کا سوا سیر مل گیا۔ انہوں نے تیس مار خاں سے کہا کہ اب بتا تو کہاں کا تیس مار خاں ہے۔ اور تونے کتنے بندے پھڑکھائے ہیں۔ یہ سن کر تیس مار خاں رونے لگا اور کہنے لگا کہ میں نے تو آج تک ایک بندہ نہیں مارا۔ تیس آدمی کہاں اور ان کو مارنا کہاں۔ اصل کہانی یہ ہے کہ میں گھر بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا۔ جب تیس مکھیاں مار لی تو میں نے اپنے آپ کو تیس مار خاں کا خطاب دے لیا۔ اپنے اس خود ساختہ خطاب کے نتیجے میں لوگ مجھے تیس مار خاں سمجھنے لگے۔ اب جہاں لوگوں کو ضرورت پڑتی وہ مجھے تیس مار خاں کہہ کر لے جاتے۔ لوگوں کا کام نکل جاتا اور میری روزی روٹی چل نکلی۔ یہ ہے میری کہانی۔ مجھے تیس مار خاں کی کہانی اس لئے یاد آئی کہ امریکی صدر کو بھی تیس مار خاں بنے کا شوق چرایا ہے۔ بش نے تو عراق افغانستان پاکستان کو مقتل گاہ بنا کر چل دئے ہیں۔ اب بارک اوباما کی باری ہے۔ جو ایران پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایران میں جلاﺅ گھیراﺅ تو شروع کرا دیا ہے اور وہ ایران کے اندرونی معاملات میں مسلسل بیان بازی کر رہے ہیں۔ اگر امریکی صدر یہ نہ کرے تو کیا مکھیاں مارے گا۔



اس کی ابتد ا انہوں نے گزشتہ دنوں کر دی ہے۔ جب دنیا کا طاقتور ترین شخص قرار دیئے جانے والے صدر امریکہ نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ایک مکھی کو مار کر اپنی مہارت کو ثبوت دیا۔ صدر باراک اوباما کو ایک مکھی نے پریشان کر رکھا تھا۔ وہ وائٹ ہاؤس میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔اس دوران جب صدر اوباما انتہائی سنجیدگی اوراخلاص کے ساتھ اپنے میزبان کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے کہ نہ جانے کہاں سے ایک مکھی انکے درمیان مخل ہوگئی۔ صدر نے مکھی کو ہاتھ سے اڑانے کی بہت کوشش کی گویا خبردار کررہے ہوں کہ بھاگ جا، ورنہ جان سے جائے گی۔ تاہم مکھی ان کے گرد چکر لگاتے ہوئے انکے اختیار کو مسلسل چیلنج کرتی رہی۔ صدر اوباما مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور جوں ہی مکھی نے انکے بائیں ہاتھ پر بیٹھنے کی کوشس کی انھہں نے کسی کراٹے چمپئن کر طرح چاروں طرف منڈلاتی ہوئی مکھی کو ڈھیر کر کے اپنی طاقت اور پھرتی کا عملی ثبوت پیش کر ڈالا۔ دربار فرعون میں ایک مچھر نمرود کی تباہی کا باعث بن گیا تھا۔ کیا عجب کہ کوئی ایسی ہی معمولی مخلوق امریکہ کی تباہی کو باعث بن جائے۔ ایڈز، اور دوسری بیماریاں ننھے ننھے جراثیم ہی سے پھیلتی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل