دہشت گردی کا عالمی منظر نامہ


نائین الیون کو ا مریکی شہر نیو یارک کا ورلڈ ٹریڈ مرکز دہشت گردی کا نشانہ کیا بنا اس کے بعد سے ساری دنیا ہی تبدیل ہو گئی ۔ دنیا کی اس کا یا پلٹ میں امریکہ، برطانیہ ، اور اس کے اتحادی ملک شامل ہیں ۔ باوجود اس کے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے اب تک دہشت گردی کی کسی متفقہ تعریف پر متفق نہیں ہوئے ۔ اس کے با وجود ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف مہم جاری ہے۔عالمی سطح پر دہشت گردی کے انسداد کے سلسلے میں مختلف حکومتیں اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یورپ امریکہ برطانیہ جرمنی اسرائیل، بھارت بھی اپنے شہروں اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے حوالے سے سخت سے سخت قوانین متعارف کروانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی اب ایک علاقے تک محدود نہیں رہی۔ ستمبر گیارہ کے بعد یہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ اِس حوالے سے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی جس انداز میں مختلف جہتوں میں افزائش پا رہی ہے وہ حیران کن ہونے کے ساتھ انتہائی پریشان ک ±ن بھی ہے۔ اس کے سدِ باب کے لئے دنیا بھر کے مختلف حصوں میں قائم حکومتیں مزید سخت سے سخت قوانین کو متعارف کروانے میں مصروف ہیں۔ اِس مناسبت سے یورپی ملک اٹلی کے دارالحکومت روم میں گروپ ایٹ کے وزرائے داخلہ کی دو روزہ کانفرنس بھی اہمیت کی حامل ہے جہاں شرکاءاپنے ملکوں کے اہم شہروں کو مزید محفوظ بنانے کے امکانات پر غور و خوص کے لئے مل بیٹھے۔ ان کی تجاویز کو جولائی میں جی ایٹ کے سربراہ اجلاس میں عملی شکل دینے پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں مزہب کے نام پر مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امریکہ سمیت یورپی ملکوں کی جانب سے مسلسل مشرقی وسطیٰ بشمول سعودی عرب اور یمن ، عراق،پاکستان افغانستان کے مسلمانوں کو انتہاپسند قرار دیا جارہا ہے۔ افعانستان میں سابقہ سوویت یونین کی فوج کشی کے بعد امر یکہ نے مسلمانوں کو انتہاپسندی کا نشانہ نبایا ہے۔ اس انتہاپسندی کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان اور دنیا کے مسلمان ملکوں کے مذہبی مدرسوں مسلح شدت پسندوں کی نرسریوں کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے علاوہ افریقی ملکوں صومالیہ اور الجزائر میں بھی انتہاپسندوں کی کارروائیوں پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس بات کا بھی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ صومالیہ میں الشباب اور حزب الاسلامی کی حکومت کے خلاف مسلح تحریک کے حوالے سے بین الاقوامی طور پر ایسے اندیشے سامنے آئے ہیں کہ پاکستان، افغانستان اور عراق سے مسلمان شدت پسند صومالیہ کو نیا گڑھ بنا سکتے ہیں۔مریکہ پر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی ابتداءکے بعد سے اب تک واشنگٹن کے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات بداعتمادی سے عبارت رہے ہیں۔ صدر اوباما ان تعلقات میں ایک نئے آغاز کے خواہش ک ا اظہا کیا تھا۔باراک اوباما اپنے دور صدارت کے پہلے دن سے یہ چاہتے ہیں کہ مغربی دنیا، خاص کر امریکہ کے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسا دو طرفہ اعتماد دیکھنے میں آئے اور مشرق وسطیٰ کا عشروں سے حل طلب مسئلہ بھی اب حل ہوجانا چاہئے۔واشنگٹن کے دنیا بھر کے ایک بلین سے زائد مسلمانوں کے ساتھ عمومی تعلقات میں بہتری کی یہ شعوری کوشش صدر اوباما کی طرف سے اس وعدے کی تکمیل ہو سکتی تھی ۔ جس میں اس سال کے شروع میں اپنی صدارتی حلف برداری کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسلم دنیا کے ساتھ مل کر باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر آگے کی طرف بڑھنے کے لئے ایک نئے مشترکہ راستے کے متلاشی ہیں۔واشنگٹن کے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لئے امریکی صدر اوباما کی کوششوں سے متعلق اپنے تجزیاتی جائزوں میں میڈیا نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ باراک اوباما نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں یہ امید پیدا کی ہے کہ امریکہ ان کی رنجشوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔لیکن اس پر پیش رفت نہ ہو سکی اور امریکی ان تک صدر بش کی مرتب کردہ انتہا پسند پالیسوں پر گامزن ہے ۔

اامریکی ایوانِ نمائندگان نے صدر اوباما کے جنگی مد کے لئے مختص خصوصی ایکسٹرا فنڈکے لئے تقریباً ستانوے ارب ڈالرکی کی منظوری دی ہے ۔ اس بل کے حق میں تین سو اڑسٹھ ووٹ ڈالے گئے جب کہ مخالفت میں صرف ساٹھ ووٹ ڈالے گئے۔ایوانِ نمائندگان میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایک جنگ مخالف ر ±کن Dennis Kucinich نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا ب ±ش دور میں بھی غلط تھا اور اوبامہ کا ایسا کرنا بھی غلط ہے۔ ایوانِ نمائندگان سے منظور ہونے والے بل میں عراق سے اگلے سال کے وسط تک امریکی فوجوں کے انخلاء کے لئے بھی رقم شامل ہے۔ اِس کے علاوہ افغانستان کے لئے اوباما کی نئی حکمتِ عملی کے تحت اکیس ہزار فوجیوں کی تعیناتی اور افغان فوجیوں کی تربیت کے لئے بھی خصوصی فنڈ رکھا گیا ہے جب کہ پاکستان میں عسکریت پسندی کو ک ±چلنے کی خاطر مقامی سیکیورٹی اہلکاروں کی خصوصی تربیت کے لئے چار سو ملین ڈالر تجویز کئے گئے ہیںحال ہی میں جرمنی کی وفاقی پارلیمنٹ نے اپوزیشن کی لبرل اور بائیں بازو کی جماعتوں اور گری پارٹی کی مخالفت کے باوجود دہشت گردی میں ملوث ہونے والوں کے خلاف ایک سخت تر قانون منظور کرلیا ہے۔اس کے مطابق اب دہشت گردی کے کسی کیمپ میں قیام ہی طویل قید کی سزا کے لئے کافی ہوگا۔جرمنی میں حکام کا خیال ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے نئے قوانین سے منظم دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ اِس نئے قانون کے تحت جرمنی میں مشتبہ دہشت گردوں کی نگرانی کو مزید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جا نا بھی مقصود ہے۔۔ پشاور، لاہور، میں ہونے والے خودکش حملوں اور ملک میں مخدوش حالات بھی دہشت گر دی کے خلاف مہم کا حصہ ہیں۔اکتوبر2001 میں دہشت گردی کے خلاف متنازعہ جنگ کے آغاز نے پاکستان کو رفتہ رفتہ جن حالات سے دوچار کیا وہ اب ملک کی سلامتی اور اقتصادی بقاء کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ ان برسوں کے دوران نہ تو جنرل پرویز مشرف اور نہ ہی نئی حکومت ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کوئی مربوط پالیسی اختیار کرسکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں نہ تو قومی دفاعی پالیسی اور نہ ہی کوئی قومی سلامتی پالیسی کا وجود ہے۔مشیر داخلہ رحمان ملک کا البتہ دعویٰ ہے کہ جلد ہی اہم اداروں کے تعاون سے ایسی قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی جائے گی جس کی مدد سے ملک میں بتدریج پھیلتی انتہاءپسندی اور قبائلی علاقوں میں موجود 10,000 ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ تربیت یافتہ اور منظم دہشت گردوں کے حملوں کی وجہ سے پولیس کی تربیتی سہولتوں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جبکہ سیکیورٹی خطرات میں کئی گنا اضافے کے باوجود ملک بھر میں پولیس کی تعداد میں ایک گنا اضافہ بھی نہیں ہوا اور آج بھی سترہ کروڑ سے زائد کی آبادی کے ملک میں پولیس فورس کی تعداد چار لاکھ سے بھی کم ہے۔ موجودہ صورتحال میں واحد خوش کن امر صوبہ سندھ کے بعد صوبہ سرحد میں اور پنجاب میں پولیس کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کا تازہ ترین اعلان ہے علاوہ ازیں امریکی امداد سے نیم فوجی فرنٹیئرکور جوکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہے، کے تقریباً 57 ونگز کی تنخواہوں میں بھی اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیتی سہولتوں کو بھی بہتر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ خیال رہے کہ نیم فوجی اور پولیس فورس کی تنخواہوں اور ان کی شرائط کار کو بہتر بنانے کے حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور بعض دوسرے مغربی ممالک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ بہتر حالات کار کے بعد سیکورٹی فورسز کو مربوط اور مو ¿ثر انداز میں استعمال کرنے کے لئے قومی سلامتی پالیسی کے ساتھ ساتھ قومی دفاعی پالیسی کب تک تشکیل پاتی ہے۔بھارت میں بھی وزرات داخلہ نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے 100 دنوں کاایک ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر تیار کئے گئے ا س ایکشن پلان پر یکم جون سے عمل درآمد شروع ہو گا۔اس ایکشن پلان کے تحت بائیں بازو کے انتہاپسند نکسلیوں اور فرقہ وارانہ تشددجیسی لعنت سے سختی کے ساتھ نمٹنے اور ممبئی، کولکتہ، حیدرآباد اور چینئی میں نیشنل سیکورٹی گارڈ کے مراکز کھولنے کے فیصلے پرعملدرآمد شروع کردیا جائے گاتاکہ ان چار بڑے شہروں میں خصوصی کمانڈوز کو تعینات کیا جاسکے۔اس کے علاوہ اگلے 100 دنوں میں قومی تفتیشی ایجنسی یعنی این آئی اے کے لئے افسران اور دیگر اہلکاروں کی تقرری کا کام بھی شروع کردیا جائے گا۔ تاہم مشہور سیکیورٹی ایکسپرٹ کیپٹن سی ادے بھاسکر کہتے ہیں کہ حکومت کو نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے بجائے نیشنل پریویشن ایجنسی بنانی چاہئے۔ ایسی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ممبئی جیسے واقعات نہ ہوں ۔ نئی حکومت سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لئے انتہائی جدید ترین سسٹم، اعلیٰ تربیت یافتہ افراد اور جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کر ے گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایشیا بحر الکاہل کے خطے کے لئے ڈائریکٹر سیم ظریفی نے اپنے ایک انٹرویو میں انتہا پسندی کے بارے میں پاکستان اور بھارت کی حکومتوں پر تنقید کر تے ہوئے کہا ہے کہ ”پاکستان نے انسانی حقوق کے معاملے میں خود کو بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز بننے سے بچانے کے لئے اب تک کافی جارحانہ نوعیت کی پالیسی اپنائی ہے۔‘بھارت کے بارے میں ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ میانمار میں انسانی حقوق کی پامالی کے سلسلے میں نئی دہلی کا رویہ ویسا نہیں رہا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا۔ ”بھارت کی طرف سے اب تک غلط سمت میں علاقائیت پسندی کی سوچ کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت نئی دہلی کی سوچ یہ ہے کہ شاید ایسے معاملات میں بھی ترقی پذیر دنیا کے چند ملکوں کے بظاہر متنازعہ اقدامات کی حمایت کرنا بہتر ہو گا، جن کے بارے میں داخلی طور پر خود بھارت کی اپنی سوچ قدرے مختلف ہے۔ یہ پالیسی بہت ناامید کردینے والی ہے۔“ایمنسٹی کی اسی رپورٹ میں بھارت میں انسداد دہشت گردی کے نئے لیکن متنازعہ قوانین پر بھی زبردست تنقید کی گئی ہے۔ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے اس تنظیم نے کہا ہے کہ گذشتہ برس نومبر میں ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے 70 کے قریب ایسے مشتبہ افراد ابھی تک زیر حراست ہیں جن کے خلاف تاحال کوئی باقاعدہ الزامات عائد نہیں کئے گئے

برطانیہ میں بارہ مشتبہ شدت پسند گرفتار طانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ امریکہ کے صدر جارج واکر بش کا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ یا وارآن ٹیرر کا نقطہ نظرگمراہ کن تھا اور غلط حکمت عملی نے دنیا بھرمیں انتہا پسندوں کو مغرب کے خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے بھارت کے دورے کے آخری دن اور پاکستان روانہ ہونے سے قبل ممبئی میں یہ بیان دے کر ہلچل مچا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا جواب انسانی حقوق کی بالادستی سے دیا جانا چاہئے۔ دوسری طرف جموںو کشمیر کے حوالے سے ان کے بیان پر بھی بھارت نے شدید اعتراض کیا ہے۔ڈیوڈ ملی بینڈ نے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے ٹرائیڈنٹ ہوٹل میں دہشت گردی کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کا صحیح اور مناسب طریقہ قانونی اورانسانی حقوق کی بالادستی میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد وار آن ٹیرریا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے اصول تو طے کردیئے لیکن صحیح مقصد ہونے کے باوجود یہ خیال غلط فہمی پیدا کرنے والا ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے مورخین ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کہیں اس اصطلاح سے فائدہ سے زیادہ نقصان تو نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس اصطلاح نے اس تصور کو جنم دیا کہ دہشت گردی کا جواب فوجی طاقت کا استعمال ہے یعنی دہشت گردوں کا پتہ لگا کر انہیں ہلاک کرنا لیکن اس سے مسئلے کو حل کرنے میں کوئی خاص مدد نہیں ملی اس لئے فوجی کارروائی کے بجائے کثیر جہتی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تجربات نے ثابت کردیا کہ دہشت گردی کو فوجی کارروائی کے ذریعہ نہیں روکا جاسکتا اور اب وقت آگیا ہے کہ حقوق انسانی اور شہری آزادی کا بول بالا ہو۔

ڈیوڈ ملی بینڈ نے یہ باتیں ایسے وقت میں کہی ہیں جب پہلی مرتبہ وار آن ٹیرر کی اصطلاح دینے والے امریکی صدرجارج واکر بش پانچ دن بعد عہدہ صدارت سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کوئی ادارہ ہا نقطہ نظر نہہں ہے۔ ہہ اہک مہلک طرہقہ اور منصوبہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف دہشت گرد گروپوں کو مختلف مقاصد کے لئے کام کرنے والے الگ الگ گروپ سمجھا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ یہ جنگ اعتدال پسند اور انتہاپسندی یا اچھائی اور برائی جیسی دو طاقتوں کے درمیان نہیں ہے کیوں کہ ایسا سمجھنا ایک غلطی ہے۔ ملی بینڈ نے بھارت پاکستان تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنا چاہئے اور کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے تاکہ اس خطے کے لوگوں کو اسلحہ اٹھانے کا موقع نہیں مل سکے اور پاکستان بھی اپنی مغربی سرحدوں کی حفاظت بہتر ڈھنگ سے کرسکے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ڈیوڈ ملی بینڈ کے بیان پرشدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو بن مانگے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملی بینڈ کا ذاتی بیان ہے اور ایک آزاد معاشرے میں لوگو ں کو اپنے رائے کے اظہار کا حق ہے تاہم بھارت کے اندرونی معاملات بالخصوص جموں و کشمیر کے سلسلے میں اسے کسی دوسرے کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔بھارت میں سب سے بڑی اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی ڈیوڈ ملی بینڈ کے بیان پر نکتہ چینی کی ہے اور کہا کہ ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان پر دباو بنانے کی بھارت کی حکومت کی کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں کیوں کہ کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت برطانیہ اور امریکہ کے آگے جھک گئی ہے۔اس دوران سول سوسائٹی کی تنظیموں نے ممبئی حملوں کے پس منظر میں آرمی چیف جنرل دیپک کپور کی طرف سے دیئے گئے بیان پر نکتہ چینی کی ہے۔ جنرل کپور نے کہا کہ ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ بھارت کے صبر و تحمل کا امتحان تھا اور بھارتی فوج دہشت گردی سے پیدا شدہ ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ وہ اپنی سرزمین اورعوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے تمام ممکنہ راستےاب متبادل کا استعمال کرسکتی ہے۔ سول لبرٹیز کے مشہور کارکن جسٹس راجند سچر نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ” کوئی سیاسی لیڈر تواس طرح کا بیان دے سکتا ہے لیکن آرمی چیف کو اس طرح کے بیان دینے کا حق نہیں ہے اور موجودہ ماحول میں تواسے کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہا جاسکتا “۔جسٹس راجندر سچر نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے متعلق

بھارت کی طرف سے پیش کردہ ثبوتوں کو نظر اندازکررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نے بہر حال کسی نہ کسی طرح اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ان حملوں میں زندہ گرفتار ہونے والا واحد دہشت گرد عامر اجمل قصاب پاکستانی شہری ہے اس کے علاوہ اس نے کئی لوگوں کو گرفتارکیا ہے اس لئے ایک دوست اور پڑوسی ہونے کے ناطے ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہئے



Leave a Comment







برطانوی پولیس کی پاکستانی طلبہ پر چڑھائی

July 8, 2009, 5:30 am

Filed under: Uncategorized

برطانوی پولیس کی پاکستانی طلبہ پر چڑھائی

عطا محمد تبسم

گزشتہ دنوں برطانوی پولیس نے انسداد دہشت گردی کی کی ایک نام نہاد کاروائی میں دس پاکستانی طلبہ کو گرفتار کرکے ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ انھوں نے بڑے دہشت گرد پکڑے ہیں۔ طویل تفتیش کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ لیکن اب برطاوی پولیس اپنی خفت مٹانے کے لئے ان طلبہ کو رہا کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ان طلبہ کے والدین نے پاکستان آکر اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ ان طلبہ کو رہا کیا جائے۔ اور اس سلسلے مینں حکومت پاکستان سخت اودام کرے۔ ان طلبہ کا اس کے علاوہ کو ئی جرم نہیں تھا کہ وہ با جماعت مسجد میں نماز کے لئے جاتے تھے۔ اور ہوٹلوں میں تفریح کے لئے جاتے تھے۔ برطانوی پولیس نے انسداد دہشت گردی کی اس کارروائی کی بڑے پیمانے پر تہشیر کی اور پاکستانیوں کو بدنام کیا۔ شمال مغربی انگلینڈ سے گرفتار کئے جانے والے دس پاکستانی طالب علم کے بارے میں کیا جا تا ہے کہ وہ سٹوڈنٹ ویزاز پر برطانیہ میں رہ رہے تھے۔ پولیس نے لیورپول اور مانچیسٹر میں مختلف چھاپوں کے دوران یہ گرفتاریاں کی تھیں۔برطانوی ہوم سیکرٹری Jacqui Smith نے پولیس کو اس ”کامیاب“ آپریشن کے لئے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ تھا کہ برطانیہ کو شدت پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔یہ گرفتاریاں ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہیں جب برطانوی پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبے کے سربراہ کو سکیورٹی کے معاملے میں غفلت برتنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایک اعلی برطانوی پولیس افسر کی غلطی آپریشن کی وجہ بن گئی ۔ا سکاٹ لینڈ یارڈ کے اسسٹنٹ کمشنر بوب کوئیکسکاٹ لینڈ یارڈ کے اسسٹنٹ کمشنر بوب کوئیک کی غلطی کے باعث حساس دستاویز کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کیاجب کہ کوئیک نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا استعفیٰ منظور بھی کر لیا گیا ۔ برطانوی میڈیا کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت چھاپوں کا منصوبہ بہت پہلے بنایاگیاتھا مگر اعلیٰ برطانوی پولیس افسر Bob Quick کی غلطی کی وجہ سے آپریشن سے متعلق حساس دستاویزات کی تصویر منظر عام پر آنے کے بعد گریٹر مانچسٹر اورلنکاشائر پولیس کوفوری کارروائی کرنا پڑی۔برطانیہ میں لگاتار چھاپوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ان کی تصاویر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک حساس دستاویز کے ساتھ شائع ہو گئیں۔اس تصویر میں واضح طور پر درج تھا ” آپریشن پاتھ وے“ جس کے نیچے لکھا تھا ” برطانیہ میں القاعدہ کے ممکنہ حملوں کی منصوبہ بندی کے خلاف سیکیورٹی سروس کی قیادت میں آپریشن“اس دستاویز پر یہ بھی درج تھا ”خفیہ“۔ باب کوئیک کی یہ تصویر وزیر اعظم گورڈ ن براو ¿ن کے دفتر کے قریب لی گئی تھی۔ تصویر چھپنے کے فورا بعد پولیس نے چھاپوں کا سلسلہ شروع کر دیادریں اثناءاسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان اس غلطی کا اعتراف کر تے ہوئے کہا گیا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر کوئیک اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں نے ایک خفیہ اور حساس دستاویز کو اس طرح ہاتھ میں اٹھا کر باہر نکلنا نہیں چاہئے تھا کہ اس پر درج کوائف پڑھے جا سکتے۔ برطانوی وزیر داخلہ جیکی اسمتھ نے حساس دستاویزات کے حوالے سے پولیس افسر کی غلطی پر کوئی بیان دینے سے گر یز کیا ۔شمال مغربی برطانیہ میں انسداد دہشت گردی یونٹ کے سربراہ ٹونی پورٹر نے بتایا کہ پولیس نے خفیہ اداروں کی جانب سے دے گئی معلومات پر چھاپے مارے۔ ان کا کہنا تھا مانچسٹر، لیور پول اور لنکا شائر میں آٹھ

جگہوں پر چھاپے مار کر بارہ افراد گرفتار کئے گئے تھے۔ بعد میں یہ سب جھوٹ ثابت ہو ا۔ اب اس جھوٹ کو چھپانے کے لئے ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔ برطانیہ میں پاکستانوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ جو اس جھوٹ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ دوسرے یہ بھہ حقیقت ہے کہ ہر سال ہزاروں طلبہ برطاینہ پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔ اگر بر طانیہ میں پاکستنی مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا امتیازی سلوک کیا گیا تو یہ برطانیہ کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوگا اور پاکستا نی طلبہ کو تعلیم کے لئے دوسرے ملکوں کی جانب دیکھنا ہوگا۔



Leave a Comment







مجرموں کو پھانسی دی جائے۔

July 7, 2009, 10:26 am

Filed under: Uncategorized

مجرموں کو پھانسی دی جائے۔

عطا محمد تبسم



کراچی میں اغوا،قتل،اور تاوان کی وصولی کے واقعات اس تیزی سے ہورہے ہیں کہ اخبارات میں ابھی ایک واقعہ کی بازگشت ختم نہیں ہوتی ہے کہ شہ سرخیوں میں ایک نیا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ زمان ٹاو ¿ن کے علاقے میں تین سالہ بچی کو اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کرکے لاش گٹر میں پھینکنے کا واقعہ شقی القلبی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔اس بارے میں شک اور شبہے کی گنجائش اس لئے باقی نہیں رہ جاتی کہ مجرموں نے خود اس گٹر کی نشاندہی کی جس سے اس بچی کی لاش ملی ہے۔یہ اتنا بڑا ثبوت ہے کہ اس کے بعد کسی مقدمے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔میرے نزدیک ان ظالم اور سفاک مجرموں کو فوری پھانسی پر لٹکا دینا چاہیئے۔چند ہفتوں قبل بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں طارق روڈ سے ایک تاجر طارق عادل کے جواں سال بچے کو تاواں کے لئے اغوا کیا گیا تھا۔ پھر تاوان لے کربھی ظالموں نہ صرف اس کو قتل کرکے گندے نالے میں اس کی لاش ڈال دی تھی۔ بلکہ مزید رقم کے لالچ میں مجرم بعد میں بھی والدین سے اس کی بازیابی کے لئے سودے بازی میں مصروف رہے اور بالاآخر پکڑے گئے۔ پولیس اور سی پی ایل سی نے ان مجرموں کو گرفتار کراکے قانون کے حوالے کر دیا ہے اور اب مقدمہ چل رہا ہے۔جانے یہ مقدمہ کب تک چلے گا۔ اور مجرموں کو سزا بھی ہوسکے گی یا نہیں۔کراچی میں۰۹۹۱ سے ۹۰۰۲ تک اغوا اور اغوا برئے تاوان کے ۱۱۶ کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جن میں سے صرف ۳۵۳ یعنی ۳۵ فیصد کے لگ بھگ کیسسز حل ہوسکے ۔ اور ۸۵۲ کیسسز کا پتہ نہ چل سکا۔ کراچی میں ۶۰۰۲ سے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ۶۰۰۲ میں ایسی وارداتوں کی تعداد ۲۹۶ تھی جو ۷۰۰۲ میں ۸۲۱ فیصد بڑھ گئی اور ایسے واقعات کی تعداد ۰۲۸ ہوگئی۔۸۰۰۲ میںیہ تعداد ۱۰۴ ہوگئی ہے۔ لیکن اس تعداد میں کمی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپنے عزیز و اقارب کی جان کے خطرے کے پیش نظر اب ایسے کیسسز کے بارے میں پولیس کو رپورٹ ہی نہیں کی جاتی ہے۔ زماں ٹاﺅن والے کیس میں گرفتار ٹریفک پولیس اہلکاروں ہیڈکانسٹیبل بشیر احمد اور پولیس کانسٹیبل نور محمد جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔ سماعت کے دوران مقتولہ کے عزیز و اقارب کی بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیاہے۔ معاشرہ کو جرائم سے پاک کرنے کے لئے مظاہرین کا یہ مطالبہ برحق ہے۔ ۰۸ کی دہائی میں فیڈرل بی ایریا میں ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ جس میں بے بی ترنم ناز کو قتل کردیا گیا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے مجرموں کو پھانسی دے دی اور کراچی کیا پورا ملک ایک عرصے تک جرئم سے پاک ہوگیا،گزشتہ عرصے میں عدالتوں سے بہت سے ملزماں جو اغوا اور تاوان کے مقدمات میں ملوث تھے۔ عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردئیے گئے ہیں۔ جس سے ان مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی شہر میں ۸۸ا سے زائد گینگ اغوا کے دھندے میں لگے ہوئے ہیں۔لیکن ہماری پولیس اور قانون کے رکھوالوں کی ساری توجہ کا مرکز موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی ہے ۔اور ہم نے اسی کو جرائم کے سدباب کی قلید سمجھا ہوا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس مشیر عالم اور مسٹر جسٹس کے کے آغا پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے حکومت سندھ کو جوہدایت کی ہے کہ وہ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی سے قبل اور بعد میں ہونے والے جرائم کا تقابلی ریکارڈ پیش کرے وہ بالکل صحیح اقدام ہے۔ ۔ ڈبل سواری پر پابندی کے خلاف ہیومن رائٹس کے انتخاب عالم سوری نے درخواست دی ہے۔شہر میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے، جرائم پیشہ افراد متحرک ا ور فعال ہیں، اس لئے وزیر داخلہ کو بھی بیوکریسی کے چنگل سے نکلنا چاہئے۔اور اغوا کی وارداتوں کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی ایسے مقدمات کا ملک بھر سے ریکارڈ طلب کر کے تحقیقات کرنا چائہے کہ کیا عدالتیں ان مقدمات میں واقعی انصاف کررہی ہیں یا یہ اغوا کی وارداتیں بااثر افراد کی کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں



Leave a Comment







بجلی کے مارے عوام پر فتوے کی مار

July 6, 2009, 7:40 am

Filed under: Uncategorized

بجلی کے مارے عوام پر فتوے کی مار

عطامحمد تبسم



بجلی کے مارے عوام کو کے ایس سی نے بھی مذہب اور اسلامی شریعت کی مار مارنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے پہلے مرحلے پر کے ای ایس سی نے ۲۱ علماءاکرام سے فتوی حاصل کیا ہے کہ بجلی کی چوری حرام ہے۔پہلے مرحلے پر اس بارے میں خبر شائع کی گئی ہے جبکہ آئندہ چند دنوں میں اخبارات اور میڈیا پر اشتہارات بھی شائع ہوں گے۔امید کی جاسکتی ہے کہ کے ای ایس سی کی اس بجلی بچاﺅ نفاد شریعت مہم سے کراچی والوں کی ایک بڑی تعداد بجلی چوری سے بعض آجائے گی۔اور جہنم میں جانے سے بچنے کے لئے اپنی موجودہ زندگی کو جہنم بنانے پر شاکر رہے گی۔فتوی لینے کا یہ ناد ر خیال نہ جانے کے ای ایس سی والوں کیوں آیا ہے۔ جب کہ لوڈ شیڈنگ کے سبب نہ تو کراچی میں نائٹ میچ ہورہے ہیں ۔ اور نہ ہی چراغاں۔ ہاں البتہ سڑکوں بجلی کے فراق لوگ ٹائر جلا کر دل جلانے جتنی روشنی کرلیتے ہیں۔اس بار لوڈ شیڈنگ کے مارے لوگوں پر جو بجلی نہ آنے کا بل آیا ہے اس سے بھی لوگ بلبلائے ہوئے ہیں۔اخبارات نے کے ای ایس سی کے فتوے کا توڑ کرنے کے لئے علماءکرام سے کے ای ایس سی کی زائد بلنگ کے بارے میں بھی فتوی لیا ہے۔ جس میں ایسی ناجائز بلنگ کو جو عوام سے زبردستی وصول کی جائے اسے حرام قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے فتوی کا جواب فتوی ہی سے دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دوست جمیل علوی گو مفتی نہیں ہیں اور ان سے کسی نے فتوی بھی نہیں مانگا تھا لیکن انہوں نے زبردستی فتوی دیا ہے۔ اور اس بارے میں ان کی دللیل لاجواب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص ان کے گھر میں گھس جائے یا راہ میں پکڑکر ان سے زبردستی رقم چھین لے۔اور پھر اس رقم سے گلچھرے اڑائے اور نشے میں بدمست کہیں راہ میں پڑا ہوا مل جائے ۔اس کے جیب میں اس رقم کو کچھ بچا کھچا حصہ بھی ہو تو کیا مجھے اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ میں وہ رقم اس کی جیب سے نکال لوں۔سب نے اس بات سے اتفاق کیا اور علوی صاحب نے اسے ہی جواز بنایا ۔ان کا کہنا ہے کہ کے ای ایس سی والوں نے ۰۴ فیصد لائین لاسسز،بجلی کی چوری ، کنڈا مافیا،کے ای ایس سی کی نااہلی اورناجائز ٹیکسوںکی مد میں،غلط بلنگ کی صورت میں اہل کراچی کو نچوڑ لیا ہے۔عوام بجلی کے ناجائز بل بھرتے بھرتے تنگ آچکے ہیں ۔لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی نہ استعمال کرنے کا بھی بل ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ایسی صورت میں عوام کیا کریں۔ہمیں کے ای ایس سی کے حکام سے یہ گلہ ہے کہ انھوں نے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے کراچی میں طالبان کی آمد سے پہلے شریعت اور فتوے کا سہارا نہیں لینا چاہئے تھا۔ اب انھوں نے مقطع میں سخن گستران بات ڈال دی ہے تو ان فتووں پر عمل درآمد کے لئے انھیں طالبان کی آمد کا انتظار کرنا چاہئے



Leave a Comment







ڈالروں کی آس میں

July 6, 2009, 6:09 am

Filed under: Uncategorized

ڈالروں کی آس میں

عطامحمد تبسم



نہ جانے ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے۔ امریکہ ہم سے جتنا زیادہ مطالبہ کرتا ہے۔ ہم اسقدر اس سے ڈالروں کی فرمائش کرتے جاتے ہیں۔ ڈالروں کی اس جنگ میں ہم نے اسقدر لوگوںکو آگ اور خون کے سمندر میں دکھیل دیا ہے کہ اب روزانہ گنتی ہورہی ہے۔جن لوگوں کو راہ نجات اور راہ راست پر لانے کے لئے یہ ہورہا ہے۔ان میں سے ۰۴ لاکھ سے زیادہ گھروں سے بے گھر کیمپوں میں پڑے ہیں۔اور جو راہ راست پر آنے کو تیار نہیں ہیں وہ پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ہماری اس کامیابی کی سند بھی ہمیں امریکہ ہی سے مل رہی ہے۔وہ بھی امریکی انٹیلی جنس سے۔گزشتہ دنوں امریکہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس ڈینس بلیئر اورپاکستان و افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے رچرڈہالبروک یہ سند دیتے ہوئے ہماری پیٹھ تھپکی دی ہے اور کہاہے کہ پاکستانی عوام میں سوات آپریشن کی حمایت مستحکم ہورہی ہے ۔ ڈینس بلیئرنے واشنگٹن میں انٹیلی جنس ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پہلی مرتبہ دنیا کے اس حصے (سوات )میں پاک فوج کے آپریشن کو حکومت اورعوام کی حمایت حاصل ہے۔ یہ ماضی کے مقابلے میں ایک مختلف صورتحال ہے جب فوجی آپریشنوں کو بہت کم حمایت حاصل ہوتی تھی۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نواز شریف بھی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں جو آگے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ امریکہ نے ہمیں اس کام کے لئے 30کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیاجبکہ باقی دنیاسے صرف 20کروڑ ڈالر مل سکے ہیں۔اقبال یہ کہ کر غیرت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے ، تیموری شہزادیوں کی غیرت اور حمیت کا ماتم کیا تھا۔ لیکن دنیا میں ایسی قومیں بھی ابھی زندہ ہیں جنہوں نے اس دور میں قومی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایران اب بھی ایک غیرت مند قوم کی طرح امریکہ کے مقابل ہے۔ ویت نام نے بھی امریکہ کی بالاستی کو قبول نہیں کیا۔اور برسہا برس ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ویت نام میںہوچی منہ کی جنگجو یا نہ کارروائیوں نے فرانس کو 1954ءوہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس عرصہ میں جنوبی ویت نام امریکہ اور اتحادیوں کے قبضہ میں جا چکا تھا ہوچی منہ کی زیرقیادت شمالی ویت نام سے جنوبی ویت نام پر حملے شروع ہوئے اس کے جواب میں1964ء میں امریکی فضائیہ نے شمالی ویت نام پر بمباری شروع کردی اور جنوبی ویت نام میں پانچ لاکھ 43 ہزار فوجی داخل کردیئے۔ امریکی فضائیہ نے مسلسل 14 برس1976ءتک شمالی ویت نام پر اتنی بمباری کی کہ ایک ویت نامی لیڈر کے بقول شمالی ویت نام کے کھیتوں میں اناج کی بجائے ہر طرف لوہے کی فصل آگ آئی تھی۔ خود امریکی ترجمانوں کے مطابق ویت نام کی پوری سرزمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں بچی تھی جس پر کارپٹ بمباری نہ کی گئی ہو۔ کارپٹ بمباری یعنی بموں کے قالین بچھا دینے کی اصطلاح انہی دنوں ایجاد ہوئی تھی۔ بالآخر شمالی ویت نام نے کامیابی حاصل کی اور جنوبی ویت نام پر قبضہ کرلیا اور دوجولائی1976ئکو دونوں حصے مل کر ویت نام پھر ایک ملک بن گیا مگر اس کامیابی کے پس منظر میں ہولناک خون فشانی کی تاریخ رقم ہو ئی ہے۔1945ء سے 1976ء تک کے32طویل برسوں میں ویت نام کے مجموعی طورپر12 لاکھ شہری ہلاک ’65لاکھ گھر بدر ہوگئے جب کہ امریکہ کے58ہزار سے زائد اور اس کی اتحادی فوجوں کے پانچ ہزار225 فوجی ہلاک ہوئے۔ لیکن یہ ایک آزاد اور خود مختا ر قوم کی جنگ تھی۔جس نے لڑنے کا تہیہ کیا۔ڈالر نہیں مانگے۔ ویت نام نے لاکھوں افراد کے ہلاک اور65لاکھ کے گھر بدر ہونے کے باوجود امریکہ اور فرانس جیسی سپر طاقتوں کی بالادستی قبول نہیں کی۔ اس قوم کی سر زمین کا چپہ چپہ لاکھوں امریکی بموں کے لوہے سے ڈھک گیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے ویت نام میں فولاد کی صنعت کے لیے لاکھوں بموں کا اتنا لوہادے دیا کہ آئندہ کئی برسوں تک فولاد سازی کے لیے باہر سے لوہا منگوانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس ہولناک تباہی کے باوجود ویت نام نے امریکہ کی غلامی قبول نہیں کی۔ لیکن ہم ہیں کہ ڈالروں کی آس میں بھیک مانگ رہے ہیں۔ اگر یہ ہماری جنگ ہے تو ڈالروں کی دھائی کس لئے ۔



Leave a Comment







برقعہ پوش خواتین

July 3, 2009, 6:10 am

Filed under: Uncategorized

تحریر: عطا محمد تبسم



فرانسیسی صدر سرکوزی نے قومی اسمبلی میں یہ اعلان کرکے مسلم دنیا کے جذبات میں ایک بار پھر طلا طم پیدا کردیا ہے کہ برقعہ فرانس میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ خواتین کوقیدی بنا دیتا ہے۔ فرانسیسی صدر نکولا سرکوزی نے برقعے کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برقعہ کوئی مذہبی علامت نہیں ہے بلکہ یہ خدمت گزاری کی ایک علامت ہے جو فرانس کی اقدار کے خلاف ہے۔یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد فرانس میں آباد ہے۔ فرانس میں مسلمان خواتین کی بہت ہی معمولی تعداد برقعہ اوڑھتی ہے۔جس کے بعد فرانسیسی پارلیمنٹ نے ایک کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو برقعہ اوڑھنے والی مسلمان خواتین کے بارے ایک مطالعاتی جائزے کا اہتمام کرے گا۔ مسٹر سرکوزی کی تقریر 136 سال میں کسی فرانسیسی صدر کی ورسائلس پیلس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پہلا خطاب تھا۔ فرانسیسی قانون میں اس سے قبل اختیارات کی تقسیم کے تحفظ کے پیش نظر صدر پرپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب پرپابندی تھی۔صدرکا خطاب اس آئینی ترمیم کے باعث ممکن ہوا جسے مسٹر سرکوزی کے گذشتہ سال متعارف کرایا تھا۔مغرب خصوصا یورپی ممالک میں گزشتہ کئی برسوں سے حجاب،برقعہ،پردہ جو مسلمانوں کی مذہبی اقدار کا ایک حصہ تصور کئے جاتے ہیں۔ایک منظم فکر کے ساتھ استہزا،پابندی، کا سامنا ہے۔مغربی ممالک میں نقاب کا معاملہ بار بار اٹھایا جارہا ہے ۔ گذشتہ عرصے میں کینیڈا کی ایک سو پچاس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمان خواتین کے برقعہ یا نقاب پہن کر ووٹ ڈالنے کے مسئلہ پر بحث کی گئی۔صوبہ انٹاریو میں صوبائی انتخابات سے قبل نقاب کے مسئلے کو چھیڑا گیا ۔ کینیڈا میں مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ کثرت میں ہیں ۔کینڈا کے وزیر اعظم نے اس موقع پر کہا تھا کہ یہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ الیکشن کمیشن کو برقعہ پوش خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کی کیا ضرورت تھی۔اس کے جواب میں الیکشن کمیشن کے سربراہ مارک میرانڈ نے کہا کہ اس معاملے میں حکومت کوئی پابندی حائل نہیں کرسکتی کیونکہ جب پارلیمنٹ سے الیکشن کمیشن آف کینیڈا نے کچھ عرصہ قبل سفارشات طلب کی تھی تو اس وقت پارلیمنٹ نے کوئی واضح ہدایات جاری نہیں کی۔ کینیڈا سے مسلم کینیڈین کانگریس کی رہنما فرزانہ حسن نے کہا ہے کہ برقعہ اور نقاب کو اسلامی ملبوس کے طور پر پیش کرنا ایک ’بےہودہ مذاق‘ ہے۔ اس دوران الیکشن کمیشن کمشنر مارک میرانڈ نے باپردہ مسلم خواتین کی شناخت کے مسئلے پر کسی قسم کے حکومتی دباو ¿ اور پارلیمنٹ کمیٹی کا مشورہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کی مسلمان شہری خواتین پردے میں رہتے ہوئے ووٹ ڈال سکتی ہیں کیونکہ کینیڈا میں انتخابی قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں۔ان قوانین کے مطابق ووٹر اپنی شناخت باتصویر سرکاری دستاویزات پیش کر کے کر سکتا ہے اور اگر اس کے پاس تصویری شناخت نہیں ہے تو پھر بھی وہ اپنے پتہ کی تصدیق کرتے ہوئے بیان حلفی اور ایک ضامن کے حلفی بیان دینے پر ووٹ ڈالنے کا مجاز ہے۔ الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ قانون میں یہ گنجائش اس لئے رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی شہری ووٹ کے حق سے محروم نہ رہے۔ اس کے علاوہ پریمئیر نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اونٹاریو کے انتخابات میں انکے لئے نقاب یا پردہ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور انہیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی وہ یہ شرط رکھیں گے کہ خواتین اپنے نقاب الٹ کر چہرہ دکھائیں۔ نقاب کا م مسئلہ انتخابات ہی میں نہیں بلکہ بچوں کے کھلونوں میں بھی زیر بحث رہا ۔ باپردہ گڑیا ’باربی‘ کے متعارف کرانے سے ایک اور بحث چل نکلی۔بہت سے تاجروں کا کہنا تھا کہ با پردہ باربی گڑیا کوعرب ممالک میں بہترین رسپانس ملا۔ مصر کے کھلونوں کے بازار میں ’باربی‘ کے انداز سے ہٹ کرپردے والی گڑیا نے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔اس کے خالق نے اس گڑیا کو ’اسلامی اقدار‘ کی حامل قرار دیا ہے۔اس گڑیا کا نام ’فلا‘ رکھا گیا تھا۔یہ گڑیا ایک روایتی اسلامی سکارف اور برقعے میں ملبوس ہے۔ اس کے پاس اس کا اپنا گلابی رنگ کا جائے نماز بھی ہے۔جو والدین اپنے بچوں کو باربی لے کر دینا نہیں چاہتے انھوں نے بھی ’فلا‘ کو ترجیح دینا شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تما م مسلم دنیا میں مقبول ہوگئی ۔ اسے اسلامی اقدار کے مطابق بنایا گیا تھا۔قاہرہ کے ایک بڑے سٹور کے چیف سیلزمین طارق محمود کا کہنا تھا کہ ’فلا کی مانگ زیادہ ہے کیونکہ یہ ہماری عرب ثقافت کے قریب ہے، یہ کبھی اپنا بازو یا ٹانگ ننگی نہیں کرتی‘۔مسلمان خواتین میں سکارف پہننے کے نئے جذبے کے ابھرنے کے ساتھ ہی مسلمان پچیوں کے لیے مخصوص کھلونے بنانے کا رواج کو بھی فروغ ملا ۔برطانیہ میںایک مسلمان طالبہ کے نقاب کے مقدمے نے بھی بڑی شہرت پائی۔ ۔ بارہ سالہ طالبہ نے بکنگھم شائر سکول میں نقاب سے پورے چہرے کو ڈھانپنے پر عائد پابندی کو کورٹ میں چیلنج کیا تھا تاہم جج نے سماعت کے بعد مقدمے کو خارج کر دیا۔لڑکی کے وکیل اور والد کا کہنا ہے کہ نقاب پر پابندی ہر اسلامی اور انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے لڑکی اور ان کے خاندان والوں کو ’شدید مایوسی‘ ہوئی ہے۔ کینیڈا میں مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ کثرت میں ہیں کینیڈا میں مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ کثرت میں ہیں اب لڑکی کو گھر پر ہی تعلیم حاصل کرنا ہو گی۔کیونکہ سکول کی یونیفارم پر اس تنازعے کے بعد اس کے لیے سکول میں تعلیم حاصل کرنا دشوار ہو گا۔اسکول میں تیرہ سو طالب ِعلموں میں ایک سو بیس م ±سلمان طالبات ہیں اور ان میں سے آدھی حجاب لیتی ہیں ۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ اور دارالعوام کے قائد جیک سٹرا نے اپنے ایک مضمون میں مسلم خواتین کی طرف سے چہرے کو نقاب سے مکمل طور پر چھپانے کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مختلف ’برطانوی کیمیونٹیز‘ کے درمیان بہتر اور مثبت تعلقات میں مشکل پیش آرہی ہے۔اخبار ’لنکا شائر ایوننگ ٹیلی گراف ‘ میں جیک سٹرا لکھتے ہیں کہ چہرہ چھپانا ’خود کو علیحدہ اور مختلف دکھانے کا ایک نمایاں عمل ہے‘۔وہ کہتے ہیں کہ خواتین جب انہیں دفتر میں ملنے آتی ہیں تو وہ انہیں نقاب اتارنے کا کہتے ہیں تاکہ ’واقعی منہ در منہ بات ہو سکے۔ میرے خدشات بے جا بھی ہوسکتے ہیں لیکن بہر حال یہ ایک مسئلہ ہے‘۔جیک سٹرا بلیک برن کے علاقے سے منتخب ہوتے ہیں جہاں ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’ فون کال اور خط کے مقابلے میں ایک ملاقات کی اہمیت یہ ہے کہ آپ مخاطب کو صرف سن نہیں رہے ہوتے بلکہ اسے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں کہ حقیقت میں وہ کہنا کیا چاہ رہا ہے برطانیہ کے مسلمانوں میںان بیانات کے بارے میںشدید رد عمل ہوا تھا۔ جیک سٹرا کے بیانات ان کے حلقے بلیک برن کے ایک دکاندار نسیم صدیقی کے لیے خوش خبری ثابت ہوئے ۔ان کا کہناتھا کہ ان بیانات کے وجہ سے ان کی دکان پر نقابوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے اس سے پہلے اِتنی تعداد میں نقاب کبھی فروخت نہیں کیے۔مسٹر صدیقی کی دکان علاقے میں سب سے زیادہ نقاب فروخت کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’پہلے میں ہفتے میں صرف دو یا تین نقاب بیچتا تھا لیکن اب میں ہفتے میں پانچ یا چھ فروخت کرتا ہوں۔ میری زیادہ تر خریدار نوجوان برطانوی مسلمان لڑکیاں ہیں۔ یہ لڑکیاں نقاب پہننے کا تجربہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ا ±ن کی مائیں پردہ نہیں کرتی ہیں لیکن وہ پردہ کرنا چاہتی ہیں۔‘ یقیناً جیک سٹرا اپنے بیان کے اس ردِ عمل کی تو قع نہیں رکھتے۔ انہوں نے ایک مقامی اخبارمیں مضمون لکھا تھا کہ ان کو مسلمان خواتین سے بات کرتے ہوئے دشواری ہوتی ہے جو میں نقاب پہن کر ان کے دفتر آتی ہیں۔ برطانیہ کی مسلم کمیونٹی نے جیک سٹرا کے بیانات کی مذمت کی تھی ۔ زیادہ تر برطانوی مسلمان اس نظریے کو قبول نہیں کرتے ہیں کہ نقاب سے برطانیہ میں بسنے والی مختلف برادریوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں اور اِس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں۔بلکہ مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں جان ب ±وجھ کر خطرے کے نظر سے دیکھا جارہا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ایک برطانوی ناول نگار نائما بی رابرٹس نقاب کے بارے میں تجربات پر مبنی اپنی کتاب ’میری بہن کے ہونٹوں سے‘ میں کہتی ہیں کہ ’مجھے ڈر ہے کے نقاب کی بحث برطانیہ کوتبدیل کر دے گی اور برطانیہ فرانس کے طرح بن جائے گا جس نے حجاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وہ عورت جو پردہ کرتی ہے معاشرے کی سب سے بے ضرر فرد ہے۔ وہ شراب نہیں پیتی، سگریٹ نہیں پیتی اور معاشرے میں کسی دشواری کا باعث نہیں بنتی۔ندیم صدیقی بتاتے ہیں کہ ان کی دکان پر کچھ دن پہلے ایک آٹھ سالہ لڑکی آئی تھی۔ وہ ایک نقاب خریدنا چاہتی تھی۔ وہ مجھ سے پندرہ منٹ تک بحث کرتی رہی۔ میں نے ا ±سے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔ آخر کار ہم نے ا ±سے حجاب پر راضی کر لیا۔ لڑکی کی والدہ حجاب بھی نہیں پہنتیں اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ تین دن سے اپنی بیٹی کو سمجھا رہی تھیں کے ا ±سے نقاب کی ضرورت نہیں ہے۔جیک سٹرا کے بیانات کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ حوصلہ شکنی ہونے کی بجا ئے نقاب پہننے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے اور ممکن ہے کہ مستقبل میں نقاب پہننے والی عورتوں کی تعداد برطانیہ میں کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو جائے گی۔امریکہ میں ایک مسلم خاتون سلطانہ فری مین کا ڈرائیونگ لائیسنس اس بنا پر منسوخ کر دیا گیا کہ انہوں نے لائیسنس پر لگی تصویر میں نقاب اوڑھ رکھا ہے۔مسز فری مین نے امریکی حکام کے اسی نقطہِ نظر کو بنیاد بنا کر کہ ڈرائیونگ لائیسنس پر لگی تصویر نقاب کے بغیر ہونی چاہیے، مقدمہ دائر کر دیا۔انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ کارروائی ان کے مذہبی حقوق کی آئینی آزادی کی سراسر خلاف ورزی ہے۔امریکی حکام نے عدالت سے سلطانہ فری مین کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کو مسترد کرنے کی درخواست کی۔ریاست فلوریڈا کے حکام کا موقف تھا کہ تصویر میں چہرے پر نقاب پہننے کے باعث عوامی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔لیکن عدالت نے حکام کی اس اپیل کو خارج کر دیا اور مسزفری مین کو عدالتی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی۔مسز فری مین امریکی شہری ہیں اور انہوں نے پانچ برس قبل اسلام قبول کیا تھا۔ان کے وکیل ہاورڈ مارکس نے بتایا کہ گزشتہ برس اِلی نائے سے فلوریڈا منتقل ہونے کے بعد جب مسز فری مین نے نقاب والی تصویر کے ساتھ لائیسنس کی درخواست جمع کرائی تو انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔مسٹر ہاورڈ نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد فلوریڈا میں موٹر گاڑیوں کے ادارے نے لائسنس پر لگی تصویر تبدیل کرنے کو کہا تھا۔وکیل کا کہنا ہے کہ مسز فری مین کے آزادیِ اظہار کے حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔گذشتہ دنوںلندن میں ایک مباحثہ ہوا جس میں یہی موضوع تھا۔ یعنی نقاب لیا جائے یا نہ لیا جائے۔ اس بحث میںلندن میں مقیم ایک استانی عمرانہ نے کہا ہے کہ ان کے علم کے مطابق اسلام میں نقاب لینا لازمی نہیں لیکن پھر بھی وہ ایسا نقاب لیتی ہیں جس سے ان کی آنکھیں تک چھ ±پ جاتی ہیں؟ ان کے محلے لیٹن میں ستّر سال سے مقیم جِین کہتی ہیں کہ جب ’میں نے کافی سال قبل جب یہاں پہلی بار نقاب والی لڑکی دیکھی تو دنگ رہ گئی تھی۔ میں نے سوچا میرے ملک میں یہ کیسے لوگ آ گئے ہیں؟‘ انہوں نے سوال اٹھایا کہ لڑکیاں رنگ برنگے نقاب کیوں نہیں لیتی، کالا رنگ تو افسردگی کی علامت ہے؟ اسی علاقے کے ایک گرجا گھر میں تعینات ایک پادری کا کہنا ہے کہ ’میں نے نقاب پہننے کے جواز سن کر بحیثیت مرد بے عزتی محسوس کی، کیا مجھے یہ بتایا جا رہا ہے کہ میں عورت کی شکل دیکھ کر اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا؟‘ عمرانہ نے اپنا مو ¿قف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھ سال پہلے حج پر گئی تھیں جہاں انہوں نے نقاب پہننے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نمازیں اور روضے فرض سے زیادہ رکھے جا سکتے ہیں تومیں نے پردے کا اہتمام جتنا کرنے کا حکم ہے اس سے بڑھ کر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سےمکمل تحفظ رہتا ہے اور کسی مرد کی طرف سے تعلقات بنانے کے لیے بات کرنے کا امکان ک ±لی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف یہ جاننا چاہتی ہیں کہ ان کے کپڑے کا ایک ٹکڑا منہ پر لینے سے کیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی کسی نے عریاں پھرنے والوں پر سوال کیوں نہیں اٹھایا؟ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ نقاب میں پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ نقاب پہنے ہوئے ایک لڑکی فاطمہ نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ کسی واقف کار کو نقاب میں پہچانا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے محلے داروں سے گھر میں یا باہر بات کرتی ہیں۔ بچوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ معصوم ہوتےہیں اور ان کے تعصبات بھی نہیں ہوتے انہیں کسی کے نقاب پہننے یا نہ پہننے سے فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اکثر پارک جاتی ہیں جہاں بچوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں۔ انہوں نے کہ سائنسی طور پر ثابت ہو چکا ہے کسی کو پہچاننے میں آواز کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی برقعہ اور حجاب کے مسئلہ پر اکثر بحث ہوتی ہے۔ اکثر ترقی پسند اور مغرب کی دلدادہ خواتین پردے نقاب اور حجاب کے بڑھتے ہوئے رجحان پر پریشان ہیں۔ گذشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر نے اپنا رونا روتے ہوئے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کی پچاس فیصد سے زیادہ طالبات خوفناک قسم کے برقعے اور حجاب پہن کر کلاسوں میں آرہی ہیں۔ خودکش حملوں کے خطرے کے پیش نظر حکومت ان برقعہ پوش خواتین سے خوفزادہ رہتی تھی۔ قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں تینتیس فیصد اضافے کو پاکستان کے مردانہ برتری کے دعویدار معاشرے میں خوش آئندہ اقدام قرار دیا گیا تھا لیکن حجاب پہنے والی ارکان قومی اسمبلی کی وجہ سے پارلیمان کی حفاظت کے سلسلے میں مشکلات کا رونا رویا جاتا تھا۔ سیکورٹی والوں کو خطرہ تھا کہ کوئی اجنبی خاتون کسی بھی وقت کسی خاتون قومی اسمبلی کی جگہ ایوان میں داخل ہو سکتی ہے۔ قومی اسمبلی اور پارلیمان کی حفاظت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ اس خدشہ کے پیش نظر کہ حجاب پارلیمان کی حفاظت پر اثر انداز نہ ہو، ضروری اقدامات کر لئے گئے ہیں۔ حکام قومی اسمبلی میں برقعہ اوڑھنے والی خواتین کو آواز سے پہچاننے کے ماہرین موجود ہیں۔ جبکہ داخلے کے تمام دروازوں پر خواتین عملہ بھی متعین کیا گیا ہے۔ جو بوقت ضرورت کسی بھی خاتون کو روک کر شناخت کر سکتا ہے۔ ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والی ایک رکن قومی اسمبلی نے نام یہ ظاہر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ انتظامیہ سے بات چیت کے بعد خواتین اراکین نے نقاب کے بغیر تصاویر بنوا کر اسمبلی کے حکام کے حوالے کی ہیں تاکہ حفاظتی اقدامات سے متعلق مشکلات دور ہو سکیں۔ حجاب اور پردہ کا یہ معاملہ آج بھی پوری دنیا زیر بحث ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مغرب اور مشرق تہذیبوں کی یہ جنگ کہاں جا کر ختم ہو تی ہیں۔







Leave a Comment







بغیر جیب کی پتلونیں

July 1, 2009, 8:13 am

Filed under: Uncategorized

بغیر جیب کی پتلونیں

عطامحمد تبسم

مغرب والوں کو جہاں اور بہت سے شوق ہیں ۔وہاں یہ بھی ہے کہ وہ ہر بات کی گریڈنگ کرتے ہیں۔ دنیا میںکون سب سے زیادہ امیر ہے۔ کون سب سے زیادہ غریب ہے۔کون سب سے زیادہ خوش لباس ہے۔کون سب سے زیادہ بےہودہ لباس پہنتاہے۔کون سب سے زیادہ کرپٹ ہے،کون سب سے زیادہ بااثر ہے،یہ گریڈنگ افراد،ملکوں،کے بارے میں کی جاتی ہیں ۔ خیر سے پاکستان اور پاکستان والوں کو کہیں نہ کہیں ذکر آہی جاتا ہے۔ ورلڈ کپ میں نمبر ون پوزیشن والے پاکستان کے خلاف امریکی میڈیا کے ذریعے زہر آلود مہم چلائی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں دنیا بھر کے ملکوں میں کرپشن پر نظر رکھنے والے ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ایک سروے جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں گذشتہ تین سالوں میں کرپشن میں سوا چار سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان دنیا کے ایک سو اسّی ممالک میں پینتالیسواں کرپٹ ملک ہے ۔ اس سروے میں بتایا گیا کہ مشرف دور میں 2006 کرائے گئے نیشنل کرپشن سروے میں پینتالیس ارب روپے رشوت کی نذر ہوئے تھے جو 2009 میں بڑھ کر ایک سو پچانوے ارب روپے تک جا پہنچے ہیں جو تین سالوں میں چار سو تیس فیصد زیادہ ہے۔ کرپشن میں پولیس اور توانائی کے اداروں نے سب سے زیادہ کرپٹ ہونے کی پہلی اور دوسری پوزیشن برقرار رکھی ہے ۔ اب امریکی جریدے فارن پالیسی کی جانب سے دنیا کی ساٹھ ناکام ریاستوں کی فہرست جاری کی گئی ہے۔فہرست کی تیاری میں معاشی بحران، انسانی حقوق، بیرونی مداخلت، نقل مکانی اور مہاجرین، حکومت کی کمزور عملداری، داخلی سلامتی، قدرتی آفات اور عوامی خدمات کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ۔ دنیا کی ناکام ریاستوں میں پاکستان کو دس نمبری بتایا گیاہے۔پہلی پوزیشن پر صومالیہ ہے جبکہ ساٹھ مالک کی اس فہرست میں زیمبیا آخری پوزیشن پر ہے۔ رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی بحران نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جو اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے سہارے زندہ ہے۔ناکام ریاستوں کی فہرست میں افغانستان ساتویں نمبر پر، سری لنکا بائیسویں اور بنگلہ دیش انیسویں نمبر پر ہے۔کرپشن اور رشوت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ خود امریکہ امداد،فوجی معاہدوں میں جو کرپشن کرتا ہے ۔اس کا جائزہ کہاں لیا جاتا ہے۔کرپشن کے مسلئے سے دوچار نیپالی حکومت نے ایک نئی راہ نکالی ہے ۔ جس کی ہمیں بھی تقلید کرنی چاہئے۔.نیپال کی سول ایوی ایشن کی وزارت نے رشوت روکنے کی کوشش کے سلسلے میں نیپال کے بڑے ایئرپورٹ پر فرائض ادا کرنے والے عملے کو ایسی پتلونیں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔جن کی جیبیں نہیں ہوں گی۔نیپال میں انسدادِ رشوت ستانی کے محکمے کا کہنا ہے کہ کھٹمنڈو کے ہوائی اڈے پر رشوت کی شکایات بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں ۔یہ اقدام نیپال کے وزیرِ اعظم کے اس بیان کے بعد اٹھایا گیا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے ہوائی اڈے کو نقصان پہنچ رہاہے۔ اب ایئرپورٹ پر عملے کو پہننے کے لیے ایسی پتلونیں دی جائیں جن کی جیبیں نہ ہوں۔ہمیں معلوم نہیں ہے کہ نیپال کے ایرپورٹ کے عملے کی وردی میں ٹوپی،جوتے،اور انڈر گارمنٹ کا رواج ہے یا نہیں۔ ہمارے یہاں تو ان کا ایسے کاموں کے لئے استعمال زمانہ قدیم سے ہے۔اگر پھر بھی انھیں مشکلات کا سامنا ہے تو انھیں اپنے فرنٹ مین سے مدد لینی چاہئے۔ہم نے تو اس کاروبار کو بام عروج تک پہنچا دیا ہے۔دس پرسنٹ سے سو پرسنٹ اور اس سے بھی اوپر ریٹ جارہے ہیں۔نیپال والوں کو ہم پر اعتماد کرنا چاہئے۔آخر مصیبت میں دوست ہی دوست کے کام آتا ہے۔



Leave a Comment







June 30, 2009, 9:23 am

Filed under: Uncategorized

وزیر تعلیم کی کھر ی کھری باتیں

عطامحمد تبسم

سینئر صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق ایک اچھے اسپورٹس مین ہیں۔ حیدرآباد کے گورنمنٹ ہائی اسکول(پیلے اسکول کے پڑھے ہوئے وزیر تعلیم اس اسکول پر آج بھی فخر کرتے ہیں۔ وہ بے تکلفی سے حقیقتوں کا اعتراف کر تے ہیں۔ کراچی میٹرک بورڈ کے امتحان میں اس بار ساری پوزیشن ماما پارسی اسکول کے طلبہ وطالبات نے حاصل کی ہیں۔ پرائیوٹ اسکول کے خالد شاہ اس کو پرائیوٹ اسکولوں کے لئے وجہ افتخار سمجھتے ہیں۔ لیکن پیر مظہر کا کہنا ہے کہ اب بھی سرکاری اسکولوں میں اچھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اصل امتحان ماں باپ کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کتنی توجہ دیتے ہیں۔پوزیشن ہو لڈر طلبہ کے اعزاز میں تقریب کراچی پریس کلب والوںکی تھی۔علاوالدین خانزادہ اور امتیاز فاران کی جوڑی نے کراچی پریس کلب کو کئی خوبصورت پروگرام دئے ہیں۔ یہ پروگرام بھی ان میں سے ایک تھا ۔ پیر مظہر الحق ذرا لیٹ پہنچے تھے۔ لیکن اس کا بھی سبب تھا۔ وہ گورنر ہاوئس کے اجلاس سے آرہے تھے۔ جہاں سندھ اسمبلی کی پرانی عمارت کے عقب میں ایک نئی سندھ اسمبلی کی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میٹرک میں اول آنے والی طالبہ نے بتایا کہ اس نے کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی۔اسکول میں اساتذہ نے اتنی اچھی طرح پڑھایا کہ رٹا لگانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔پیر صاحب نے بتایا کہ انھوں نے ورلڈ بنک والوں سے پوچھا کہ وہ سندھ میں اساتذہ کی بھرتی کے وقت ان کا ٹیسٹ لینے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں ۔ جس پر ان کو بتایا گیا کہ سندھ کا امتحانی نظام پر کسی کو اعتماد نہیں رہا اوریہ انتہائی ناقص ہو چکا ہے۔ عالمی بینک کو بھی سندھ کے امتحانی نظام پر اعتماد نہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اساتذہ بغیر ٹیسٹ کے بھرتی ہو رہے ہیں جبکہ سندھ کے اساتذہ کیلئے ٹیسٹ لازمی ہے۔ سندھ وزیر تعلیم نے ابھی چند دن پہلے فلور پر یہ بیان دیا تھا کہ سندھ میں ایک ہزار سے 1500 تک اسکول اوطاق بنے ہوئے ہیں اور انھیں خالی کرانے کی کوشس کی جارہی ہے۔پیپلز پارٹی جیسی حکومت اب تک ان اسکولوں کو خالی نہ کراسکی توآنے والے دور میں سندھ میں تعلیم کا کیا معیارکیا ہوگا۔ پریس کلب کے سینئر صحافی عبدالحمیدچھاپرا نے پیرمظہرالحق سے کہا کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کوئی انعام دیں۔ پیر صاحب گویا ہوئے کہ سب لوگ وزیر کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس بہت رقم ہوتی ہے۔ مجھے جب ڈاکو اغوا کرکے لے گئے تو انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ روپیہ منگا کر دو۔ میں نے کہا کہاں سے ایک کروڑ دوں۔ میرے پاس کو ئی سونے کی کان نہیں ہے۔ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم وزیر ہو۔ بے شک میں وزیر ہوں۔ لیکن بھائی ہم وزیر پیپلز پارٹی کے ہیں۔ پیر مظہرالحق نے اس موقع پر بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ،۰۳ہزار، ۰۲ ہزار، ۰۱ہزار،بالترتیب اول، دوئم، سوئم روپے کے انعام کا اعلان بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ صدر زرداری نے کہا تھا کہ پریس کلب والوں نے میری اسیری کے ایام میں میرا ساتھ دیا۔ اس لئے ان کے لئے کچھ کرنا ہے۔ انھوں نے حکم دیا کہ پریس کلب کی عمارت پریس کلب والوں کو دلوانا ہے۔ہم نے اس پر کام کیا ہے۔ اب کلب والوں کو چاہئے کہ وہ خاموش نہ بیٹھ جائیں ۔ جب تک پٹواری سے اپنے نام نہ کرالیں۔ اس وقت تک خاموش نہ بٹھیں۔میں آپ کا وکیل بنے کو تیار ہوں۔میٹرک بورڈ پر ریٹائر لوگوں کی حکمرانی پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ تو ہماری بھی نہیں سنتا۔ ریٹائر آدمی کو تبادلے کا خوف نہیں ہوتا وہ کنٹریکٹ پر آتا ہے جبکہ حاضر سروس افسر کو تبادلے کا ڈر ہوتا ہے۔ گورنر سندھ سے اس کی شکایات بھی کی ہے جس پر گورنر نے سندھ کے تعلیمی بورڈز میں حاضر سروس افسران لگانے کیلئے نام مانگے اور محکمہ تعلیم نے وہ نام بھیج بھی دیے۔



Leave a Comment







June 30, 2009, 9:11 am

Filed under: Uncategorized

بچے دو ہی اچھے



عطا محمد تبسم

عجیب بات ہے جوں جوں میڈیا پر بہبود آبادی کے اشتہار بڑھ رہے ہیں ۔ ملک کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پہلے محکمے کانام خاندانی منصوبہ بندی تھا۔ منصوبہ بندی ہماری کمزوری ہے۔ چاہے پانچ سالہ منصوبہ بندی ہو، یا دس سالہ منصوبہ بندی ہو۔ یا محبوب الحق کا منصوبہ بندی کمیشن یا کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ہم نے کسی منصوبہ بندی کو قبول نہیں کیا۔سو ہم نے محکمے کا نام بدل دیا۔بہبود آبادی کا نام شوگر کوٹیڈ ہے۔ اس سے کام کا پتہ نہیں چلتا۔ پھر ہم نے کم آبادی خوش حال گھرانہ کو شلوگن اپنایا۔۱۷ میں مشرقی پاکستان جدا ہوا تو ملک کی آبادی کا اندازہ ۶ کروڑ تھا۔ کم آبادی خوش حال گھرانے کی جستجو میں ہم نے اپنی آبادی میں دن دگنا ہی اضافہ کیا۔اسو قت خیال تھا کہ شاید لوگوں کو کم آبادی کی تعریف میں دھوکہ ہوا ہے۔ پہلے گھروں پوری کرکٹ ٹیم ہوا کرتی تھی۔میچ کھیلنے کے لئے لوگ گھروں میں خود کفیل تھے۔ جب چاہا میچ رکھ لیا۔ اماں ابا ریفری کے فرائض انجام دے لیا کرتے تھے۔اب سوچا گیا کہ کیوں نا بچوں کی تعداد مقرر کردی جائے۔ اس لئے بچے دوہی اچھے۔کاشلوگن وجود میں لایا گیا۔ دو اچھے بچوں کی جستجو اور محنت میں آبادی اتنی بڑھی کہ اب ہم اس پیداوار میں خود کفالت سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب ہم بچے اسمگل بھی کرتے ہیں۔ بچے فروخت بھی کرتے ہیں۔بچوں سے مزدوری بھی کراتے ہیں۔ بچوں کو اونٹ کی دوڑ میںحصہ لینے کے لئے اسے پاس پڑوس کے ملکوں کو بھی بھیج دیتے ہیں۔اور جو بچے فالتو بچ جاتے ہیں ان کو آبادی کم کرنے کے جدید طریقوں میں یعنی خودکش بمبارمیں استعمال کرتے ہیں۔امریکی تھنک ٹینک نے یہ جدید ٹیکنالوجی مسلمان ملکوں کے لئے ایجاد کی ہے۔وہ خود تو شادی کے بندھن سے آزاد ہوگئے ہیں۔ ہم جنسیت کہاں سے آبادی پیداکرے گی۔حرامی بچوں کی جو فوج تیار ہوئی ہے۔ وہ دنیا بھر میں جنگ و جدل میں مصروف ہے۔اب امریکہ کو خیال آیا ہے کہ کیوں نہ پاکستان میں بچوں کی پیدائس پر ہی پابندی لگادی جائے ۔ اس لئے قومی اسمبلی میں زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے وفاقی وزیر بہبود آبادی فردوس عاشق اعوان بہت دور کی کوڈی لائی ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا عنصر دہشت گردی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لہذا پارلیمنٹ زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے پالیسی بنائے حکومت اسے نافذ کرنے کو تیار ہے۔ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ غربت اور ناخواندگی کی وجہ سے لوگ ایسے عناصر کے ساتھ مل جاتے ہیں جو انہیں منفی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ بچے پیدا کرنے پر ٹیکس عائد کرنا ہے تو اس کا آغاز ارکان پارلیمنٹ سے کیا جائے انہوں نے کہا کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اس حوالے سے وہ اپنی کوتاہی کو قبول کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ بحیثیت قوم ہم سب کو اپنی اپنی کوہتاہی کو قبول کرنا چاہئے۔یہ وہ کوہتایاں ہیں ،جو آپ کے گھروں کی رونق،خوشیوں کا منبع،گلشن کے پھول،اور مستقبل کا عکس ہیں۔ان پھولوں کو انگاروں میں تبدیل کیا ہے ۔تو اس میں قصور کس کا ہے۔ ان پھولوںکو کیا ہم نے مفت تعلیم،روٹی،سر چھپانے کی جگہ دی ہے۔پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ تو اس دنیا میں آکر خوب مزے لوٹیں۔اور آنے والے بچوں پر پابندی لگادیں کہ وہ اس دنیا میں نہ آئیں۔ یہ نظام قدرت ہے۔ اس میں فرعون نے بھی مداخلت کرنے کی کوسش کی تھی۔ لیکن وہ موسی کی آمد کو نا روک سکا۔پارلیمنٹ بھی یہ کوسش کرکے دیکھ لے۔



Leave a Comment







June 26, 2009, 5:01 am

Filed under: Uncategorized

پیدل جام ان حیدرآباد

عطا محمد تبسم

اس با ر عید کی چھٹیاں کچھ اس ترتیب سے آئیں کہ پورے ہفتے کی چھٹیا ں مل گئیں۔سو عید کی گہماگہمی سے پہلے ہی اپنے آبائی شہر کا رخ کیا ۔حیدرآباد کا شمار گو اس طرح آبائی شہر میں نہیں ہوتا لیکن جس شہر میں آپ کے والدین ہوں،بھائی بہن ہوں،عزیز دوست ہوں،اس شہر میں عید منانے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔گزشتہ ۲۳ برسوں سے یہی معمول رہا ہے۔ہر عید اور بقر عید کو ہم حیددآباد ہوتے ہیں۔اس لئے کراچی کے دوستوں اور احباب سے فون پر رابطہ ہوتا ہے۔اس بار عید کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ۶۲ اگست کو والد محترم کے انتقال کے بعد پہلی عید تھی۔اس لئے گھر پر آنے والے دوستوں،احباب، رشتہ داروں کا تانتا بندھا رہا۔رمضان المبارک کے آخری عشرے کی تراویح،اور طاق راتوں کی سعادت بھی اپنے شہر میں ملیں۔ کرچی کی برق رفتار مصروفیت کے بعد حیدرآباد شہر میں پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کے سایہ عافیت میں آکر پرسکون ہوجائے۔ہر چیز میں شانتی ،امن،اورسکون محسوس ہوتا ہے۔

ختم القران کی تقریب مسجد عبداللہ نزد ٹیچرز ٹرینگ کالج میں شرکت کا موقع ملا۔ یہاں حافظ عبداللہ تراویح پڑھاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کو وہ لحن ا ور سوز دیا ہے کہ قران سننے کے لئے دور دور سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ختم القران کی تقریب میں بھی شمع رسالت کے پروانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی کے انتظامات بھی قابل رشک تھے۔اس روح پرور اجتماع، میں حافظ تنویر کی شرکت اور تقریر نے بھی ایک سماں باندھ دیا۔حافظ تنویر صاحب ایک حادثے میں زخمی ہونے کے باوجود ختم شریف میں شریک ہوئے۔اور روح پرور خطاب بھی کیا۔لوگوں کو نیکی کی چھوٹی ، چھوٹی باتیں بتاتے ہیں۔ با عمل آدمی ہیں۔ہر سال تراویح پڑھاتے ہیں۔اسی سال سے زائد عمر ہے۔ لیکن آواز میں وہی بانکپن ہے،۔اللہ ،اللہ، جو اللہ کی کتاب سے حکمت کے موتی چن چن کر لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہیں۔اللہ ان کی حفاظت بھی خوب کرتا ہے۔لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔جو ان نیکیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔گزشتہ ۰۵ برس سے مسجد عبداللہ کا رستہ ٹیچرز ٹرینگ کالج کی راہداری سے گزرتا ہے۔ لیکن رمضان میں نہ جانے کالج کے پرنسپل کے دل میں کیا بات آئی کہ انھوں نے گیٹ پر تالے ڈلوادئے۔نمازیوں نے کئی نماز سڑک پر ادا کی۔ختم شریف کی تقریب سے متعلق بھی انھوں نے ایک انہتائی نامناسب بیان اخبار میں شائع کرایا ہے۔محکمہ تعلیم کو اس کا نوٹس لینا چاہئے ۔حیدرآباد میں ٹریفک کی مارا ماری اس قدر ہوگئی ہے کہ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر پر بھی کراچی کے اثرات آتے جا رہے ہیں۔چاند رات کو شاہی بازار،چاندنی چوک،سرے گھاٹ،قلعہ چوک،پریٹ آباد، سٹی کالج کے اطراف میں جو افراتفری مچی ہے۔اس کا کیا ذکر، قبرستان جانے اور آنے میں لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔عید کے موقع پر بھی شہر میںموٹر سائیکلوں نے گلیوں میں لوگوں کا چلنا دوبھر کردیا ہے۔ اب حیدرآباد کے سرے گھاٹ،چھوٹکی گٹی،فقیر کا پڑ، حیدرچوک اور دیگر جگہوں پر کراچی جیسا ٹریفک جام ہوتا ہے۔فرق اتنا ہے کہ کراچی میں یہ ٹریفک جام گاڑیوں کے لئے ہوتا ہے۔ حیدرآباد میں اس میں موٹر سائیکل اور پیدل چلنے والے جام ہوجاتے ہیں۔ اس لئ پاسبان مل گئے ۔۔۔۔۔

عطا محمدتبسم



یہ صدی واقعی انہونے واقعات کی صدی ہے۔ آگ اور پانی کا ملاپ ہو رہا ہے اور کل کے دشمن آج پھر دوستی کے ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ کعبہ کو صنم خانے سے پاسبان مل رہے ہیں۔ سب سے پہلی انہونی تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومت نے مالاکنڈ ڈویژن میں نظام شریعت کے نفاذ کا مطالبہ مان لیا ہے اور صوفی محمد اور انکے ساتھیوں سے معاہدہ کر لیا ہے ۔گو حکومت کی جانب سے اس معاہدے کو 1994کے نظام عدل کی تجدید قرار دیا جا رہا ہے۔ پشاور میں امن جرگہ ختم ہوگیا ہے اور سرحد کی اے این پی کی حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے درمیان ملاکنڈ میں نظام عدل کا معاہدہ طے پاگیا ہے تاہم وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے پہلے امن قائم کرو کی شرط عائد کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ صدرآصف علی زرداری نے کسی نظام عدل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ ہم بھی حیران تھے کہ صدر زرداری کیسے کسی نظام عدل کے معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔ وہ تو سرے سے معاہدوں کی پاسداری ہی کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا تو کہنا ہے کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔یہ بھی انہونی ہے کہ اے این پی جو اپنے اشتراکی نظریات کا پرچار کرتی تھی۔ اور اسکے رہنما سرخ سویرا کی بات کرتے تھے۔ اور سرخ پوش کہلاتے تھے۔ انکے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے اعلان کیا ہے کہ ملاکنڈ ڈویڑن اور کوہستان میں قرآن و حدیث کے منافی قوانین ختم کر دیے گئے ،نظر ثانی کی اپیلوں پر شرعی بینچ قائم کیا جائے گا۔ دوسری حیران کن خبر یہ ہے کہ چینی حکمران پارٹی اور جماعت اسلامی نے باہم مفاہمت کی دستاویزپر دستخط کےے ہیں۔ جماعت اسلامی کو چین کی حکومت میں سرکاری طور پر دعوت دی تھی جس کے بعد جماعت اسلامی کا وفدامیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کی قیادت میں ، نائب امراءلیاقت بلوچ،پروفیسر محمد ابراہیم،امیر جماعت اسلامی صوبہ سرحد سراج الحق، ڈائریکٹر امور خارجہ جماعت اسلامی پاکستان عبدالغفار عزیز،آصف لقمان قاضی کے ہمراہ چین گیا تھا۔ چین کے ایک ہفتے کے دورے کے اختتام پر جماعت اسلامی پاکستان نے چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ(CPC)کے ساتھ ہمہ پہلو تعاون کی جامع مفاہمتی دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔ مفاہمتی دستاویز میں برابری‘ آزادی،باہم احترام اور ایک دوسرے کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے 4 اصولوں پر اتفاق کیاہے۔ مفاہمتی دستاویز پر حکمران پارٹی سی پی سی کے سیکرٹری امور خارجہ لیوہونگ سائی (Lio Hong Sai)اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید منورحسن نے دستخط کےے ہیں۔تیسری انہونی یہ ہے کہ دس برس کے بعد میاں صاحبان نے ایک بار پھرقبلہ بدل لیا ہے اور انہوں نے ایم کیو ایم سے دوستی کی جانب ہاتھ بڑھائے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف خود بنفس نفیس الطاف حسین کو سلام کرنے کیلئے کراچی آئے ہیں۔ دس برس کے بعد مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کی جانب دست تعاون دراز کیا ہے۔ اور پنجاب کے عوام کی جانب سے سندھ کے عوام کو 50 ہزار ٹن گندم کا تحفہ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ میاں صاحب کے تعاون کی کراچی نے ماضی میں بڑی بھاری قیمت چکائی ہے۔ وکلاءبھی حیران ہیں کہ میاں صاحب کے کس وعدے اور کس یقین دہانی پر اعتبار کریں۔ وکلاءجومیاں نواز شریف کے ایماءپر لانگ مارچ میں دھرنا دےنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ وہ اب سوچ رہے ہیں کہ میں ہائے دل پکاریں کہ چلائیں ہائے جان۔۔۔ واقعی صدر زرداری حیران کر دینے کی صلاحتیں رکھتے ہیں۔ ان ہونے واقعات سے ہی ان کی صدارت نے جنم لیاہے۔ اور ابھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔E-mail: tahakn@gmail.com¥ اسے آپ پیدل جام کہ سکتے ہیں۔



صد افتخار قوم کو افتخار مل گیا

عطا محمد تبسم



کیوبا کے فٹبالر ایرک ہرنانڈیز نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک فٹبال کو اپنے گھٹنوں پر نچا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ جبکہ ایون صدر کی مقتدر قوتوں نے پوری پاکستانی قوم کو ۶۹ گھنٹوں تک انگلیوں پر نچانے کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے وہ بھی اس قابل ہے کہ اسے ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جائے۔۲۱ مارچ کو کراچی میں مزار قائد کے اطراف جب پولیس ،خفیہ پولیس ، اور میڈیا کے کیمرا مینوں کی بڑی تعداد دیکھی تھی تو میرے دل میں بہت سے خدشات تھے ۔لیکن وکلاءاور سیاسی کارکنوں نے جس حوصلے اور ذمہ داری کا ثبوت دیا تھا۔ وہ اس قابل ہے کہ اس پر جماعت اسلامی، تحریک انصاف، اور وکلاءبرادری کو شاندار خراج تحسین پیش کیا جائے۔اتوار کو لاہور میں وکلاءبرادری سول سوسائٹی ، سیاسی کارکنوں نے جس حوصلے سے جبر اور تشدد کا مقابلہ کیا وہ بھی حیران کن ہے۔ ۹ اپریل ۷۷۹۱ کو بھی پنجاب میں ایسی ہی صورتحال تھی۔ جب فوج نے عوام گولی چلانے سے انکار کردیا تھا۔ جوں عوامی جذبات میں شدت بڑھ رہی تھی۔ پولیس پسپا ہورہی تھی۔ پھر لیاقت بلوچ اپنے کارواں کو لے کر نکلے تو جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ سب سے بڑھ کر میاں نواز شریف کی جی داری تھی۔ مسلم لیگ نون کی جارحانہ ریلی نے خود لاہور والوں کو حیران کرکے رکھ دیا ۔پندرہ برس پہلے تحریک نجات کے دوران بھی نواز شریف نے لاہور میں ایک بڑا جلوس نکالا تھا لیکن اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ریاستی تشدد کے ایسے ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے تھے جن کا مسلم لیگ نون آج کل سامنا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں لاہور بھٹو کے پرستار دیوانوں کا شہر بھی ہے لیکن صرف ایک برس پہلے جب مرحومہ بے نظیر بھٹو کو لانگ مارچ سے روکنے کے لیے مشرف حکومت نے ڈیفنس میں نظر بند کیا تھا تو ان کے جیالے اپنے بل بوتے پر انہیں ایک چوراہا بھی پار نہیں کرواسکے تھے۔اس اتوار کو نواز شریف کے حامیوں نے وہ کام کردکھایا ہے جس کی ان سے کبھی توقع نہیں کی گ گئی نواز شریف جب پہلی رکاوٹ توڑ کرنکلے تو لوگوں کو دیوانہ وار ان کی جانب بھاگتے دیکھا۔ ماڈل ٹاو ¿ن کی گلیاں نعرے مارتے کارکنوں کو ایسے اگلنے لگیں جیسے کلاشنکوف کی نالی سے گولیاں نکلتی ہیں۔ صرف دس منٹ کے اندر تعداد تین سو سے بڑھ کر ہزاروں ہوچکی تھی اور اگلے ایک گھنٹے کے اندر یہ لاکھوں کا ایک سیل روں تھا۔شام کو اہلیان لاہور نے نواز شریف کو وہ قوت دے دی تھی جو چاہتی تو پورے پنجاب میں آگ لگا سکتی تھی۔لاہور کے شہریوں نے گزشتہ بارہ چودہ برس کے دوران ایسی پرتصادم اتنی بڑی ریلی نہیں دیکھی تھی اور اس بار لانگ مارچ کچلنے کے لیے جتنے سخت اقدامات کیے گئے تھے اس کی مشرف کے فوجی دور میں بھی نظیر نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں اتنی بڑی ریلی کو خود مسلم لیگی حلقے معجزہ قرار دے رہے ہیں۔’میں نے قدم بڑھا دیا ہے اپنا وعدہ پورا کرو میرے ساتھ آو ¿ ہم اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ نواز شریف کی تقریر کے الفاظ میڈیا براہ راست دکھائی اور سنائی دے رہے تھے۔ مسلح پولیس میں محصور نواز شریف کی آٹھ منٹ کی جذباتی تقریر نے لاہور میں آگ سی لگا دی تھی۔ کارکن انتہائی جذباتی ہوگئے۔ ۔نظربندی کے ریاستی پروانے ردی کے ٹکڑوں سے حقیر ہوگئے تھے ، پابندیوں کی خاردار تاریں موم بن کر پگھل گئیں اور رکاوٹوں کے کنٹینر آبی بخارات بن ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ پولیس اہلکارعوام میں شامل وردیوں میں ناچ رہے تھے۔لاہور کی سڑکیں پنجاب پولیس زندہ باد کے عجیب نعروں سے گونجنے لگیں۔پولیس پسپا ہونے کے مناظر کے ساتھ یہ حیرت انگیزمنظر دیکھنے میں آیا کہ عورتیں اپنے بچے اٹھائے جلوس میں شامل تھیں۔۔ مال روڈ پر جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ کارکنوں نے پولیس فورس کو نا کوں چنے چبوادئے۔ نواز شریف کا قافلہ اسلام آباد کی طرف روں تھا۔ اور اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ رات کے پچھلے پہر بلا آخر ا عصاب شکن اس جنگ کے خاتمے کے آثار نظر اآئے۔ اور صبح سویرے میرے عزیز ہم وطنوں کے بجائے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے علی الصبح قوم سے خطاب کرتے ہوئے معزول چیف جسٹس ،جسٹس افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے عہدے پر بحال کرنے کا اعلان کیاتو پورے ملک میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی انھوں نے یہ کہ کر کہ میری قائد شہید بی بی نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ افتخار محمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس اپنے عہدے پر بحال کریں گی ۔ پیپلز پارٹی اس جیلے کارکن کو بھی خوشیوں سے ہمکنار کرادیا جو شہید بی بی کے وعدے کے ایفا نہ ہونے پر شرمندہ تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین فیصلے کے بعد جہاں ملک بھرمیں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں خوشگواری کا پہلو اجاگر ہوگیا ہے وہیں ملک کی اسٹاک مارکیٹوں میں بھی آج ابتداء سے ہی تیزی کا رجحان غالب ہے۔ امریکا نے جسٹس افتخار کی بحالی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔۔پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہال بروک نے پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے اس ڈیڈ لاک کے ختم ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد نے جس پامردی سے اور صبر و تحمل سے اس تحریک کی قیادت کی ہے وہ بھی مثالی ہے۔۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف نے قوم کو خوش خبری دی ہے۔کہ اب ملک کی تقدیر بدلے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ترجمان اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر چیف جسٹس کے عہدے کے میعاد کم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے جمہوریت کو نقصان ہوگا۔ بلا شبہ وکلا تحریک میں میڈیا کا رول ناقابل فراموش ہے۔ ریاست کے چوتھے ستون نے اپنی قوت کا ادراک کرتے ہوئے جو لازوال کر دار ادا کیا ہے۔وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔شیری رحمان نے اصولوں کے خاطر استعفی دے کر پیپلز پارٹی کے اس اصول پرست گروپ کی قدرومنزلت میں اضافہ کردیا ہے۔ جس میں اعتزاز احسن، صفدر عباسی،ناہید خان، رضا ربانی،عبدالحئی گیلانی ڈپٹی اٹارنی جنرل جسے رہنما ہیں۔یہ بھی پہلی بار ہوا کہ پیپلز پارٹی کے بہترین اور تجربہ کار رہنما اور وزیر پارٹی موقف کا دفاع کر نے میں ناکام رہے۔پورے دن کے دوران نہ تو کسی ٹی وی چینل نے ان کی پراعتماد مسکراہٹ کی جھلک دکھائی اور نہ ہی منظور وٹو سمیت ان پانچ وفاقی وزیروں کی کوئی آواز سنائی دی جنہیں آصف زرداری نے لانگ مارچ کنٹرول کرنے کے لیے پنجاب بھیجا تھا۔۔ بڑھ سکی اور سندھ کی سرحد اس کے لیے سات سمندر بن چکی تھی۔ملتان سے چھ سو کارکنوں کا جو جلوس نکلا تھا وہ چھ کلومیٹر بعد ہی کہیں گم ہوگیا۔ریاستی تشدد نے تحریک کےحامیوں کے چہروں میں مایوسی کے بادل لہرا دیئے تھے لیکن اہل لاہور نے امیدوں کے ایسے دیے روشن کردیئے ہیں جن میں سورج کی سی تپش دینے کے صلاحیت موجودہے۔تقریر سے پہلے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان طویل ملاقات ہوئی۔پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت اعلی عدالتوں کے دیگر معزول ججوں کو بحال کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں وہ 22 مارچ کو اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیں گے۔ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر 21 مارچ کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اعلی عدالتوں کے معزول ججوں کو بھی ا ±ن کے عہدے پر بحال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی نااہلی کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔پیر کی صبح قوم سے خطاب کے دوران وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے تمام افراد کی رہائی کے احکامات بھی جاری کیے جنہیں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو نے افتخار محمد چودھری کو بطور چیف جسٹس بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو ا ±س وقت عبدالحمید ڈوگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اس لیے ا ±نہیں عہدے سے نہیں ہٹایا جاسکتا تھا۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ چیف جسٹس اور دیگر وکلائ کی بحالی کے بارے میں نوٹیفکیشن جلد جاری کیا جائے گا۔ اس تقریر سے پہلے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان تین گھنٹے تک طویل ملاقات ہوئی جس میں ملک میں موجودہ ملکی سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا گیا۔ صدر اور وزیر اعظم نے ان فیصلوں کے متعلق حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کی اور ا ±نہیں ان اقدامات کے بارے میں ا ±نہیں اعتماد میں لیا۔ ان قائدین میں عوامی نیشل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی جمعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین شامل ہیں۔وزیر اعظم یوسف گیلانی کی طر ف سے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے بعد وکلائ کی ایک بڑی تعداد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے گھرپر پہنچ گئی اس کے علاوہ اسلام آباد کے مختلف علاقوں بالخصوص ججز کالونی کے باہر تمام رکاوٹیں ہٹا دی گئیں ہیں۔ججز کالونی میں ایک جشن کا سا سماں ہے اور وکلائ اور سول سوسائٹی کے ارکان ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے رہے اور اس موقع پر مھٹائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔وزیر اعظم کی تقریر کے بعد معزول ججوں کی بحالی کے اعلان کے بعد راولپنڈی میں بھی متعدد مقامات پر رکاوٹیں ہٹا دی گئیں اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور ازاد عدلیہ اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے حق میں نعرے لگائے۔واضح رہے کہ گذشتہ برس سید یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم بنے تھے تو انہوں نے پہلے ہی خطاب کے ا ±ن تمام معزول ججوں کو رہا کرنے کے احکامات دیئے تھے جنہیں سابق ملڑی ڈکٹیٹر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے تین نومبر سنہ دوہزار سات کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ججز کالونی میں نظر بند کردیا تھا۔وکلائ کی تحریک دو سال تک جاری رہی اور اسی تحریک کی ہی بدولت جمہوریت پسند قوتیں اقتدار میں آئیں اور سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔

حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی اسی تحریک میں شامل رہی ہے اور اس تحریک کے دوران جتنے خودکش اور بم دھماکے ہوئے ا ±س میں سب سے ذیادہ جانی تقصان پاکستان پیپلز پارٹی کا ہوا بعدازاں حکومت میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اس تحریک سے نہ صرف علیحدہ ہوگئی بلکہ حکومت میں شامل وزرائ کی طرف سے یہ بیان بھی آتے رہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سیاسی ہوگئے ہیں اس لیے ا ±نہیں اب خود ہی اس عہدے سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔صدر آصف علی زرداری نے معزول ججوں کی بحالی کے لیے پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ تحریری معاہدے بھی کیے تھے بعدازاں ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا جس پر پاکستان مسلم لیگ نون حکومت سے علیحدہ ہوگئی تھی۔حکمراں جماعت کا کہنا تھا کہ ملک میں تین نومبر ملک میں ایمرجنسی کے بعد جن ججوں کو معزول کیا گیا تھا ا ±ن میں سے 95 فیصد ججوں نے حلف ا ±ٹھالیا ہے اور اگر افتخار محمد چودھری بحال ہونا چاہتے ہیں تو ا ±نہیں دوبارہ حلف لینا ہوگا تاہم ا ±نہیں چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کرنے کے بارے میں فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔

سابق وزیر قانون اور سیینٹ کے نومنتخب چیئرمین فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آئین میں ججوں کی دوبارہ تعیناتی کا قانون تو موجود ہے بحالی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔اس وقت افتخار محمد چودھری کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار ججوں کو بحال کیا گیا ہے ان میں جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس راجہ محمد فیاض، جسٹس محمد اعجاز چودھری اور جسٹس فلک شیر شامل ہیں۔جسٹس جاوید اقبال نے تین نومبر کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد پاکستان پریس کونسل کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا تھا تاہم جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے جن معزول ججوں کی نظر بندی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تو انہوں نے اپنےعہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ وہ افتخار محمد چودھری اور جسٹس رانا بھگوان داس کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے سنئیر جج تھے۔سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اس ماہ کی اکیس تاریخ کو ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنرجسٹس ریٹائرڈ قاضی محمد فاروق پیر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔واضح رہے کہ افتخار محمد چودھری کو نیویارک بار ایسوسی ایشن کی تاحیات اعزازی رکنیت دینے کے علاوہ ا ±نہیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا۔حکوحکومت نے شریف برادران کو تحریری طور پر بتایا کہ انکی جان خطرے میں ہے۔ وکیلوں کو خبردار کیا کہ لانگ مارچ کے دوران خودکش حملے اور ممبئی سٹائل کی وارداتیں ہوسکتی ہیں۔اچنانچہ بڑے خطرے سے بچانے کے لیے آنسو گیس، لاٹھی اور پٹائی وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔حکومت نے کراچی سے اسلام آباد تک پانچ ہزار کنٹینر تمام اہم سڑکوں پر کچھ اس طرح رکھ دیے کہ عام آدمی تو رہا ایک طرف دھشت گرد بھی ان کنٹینروں کے آرپار نہیں جا سکتے۔ انسانی حقوق کی ایک کارکن مسرت ہلالی کی ٹانگ، طاہرہ عبداللہ کا چشمہ اور بہت سے سیاسی کارکنوں اور وکیلوں کے دروازے اور سر ٹوٹ گئے ۔نوجوان ملک اور قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور حکومت دھشت گردوں کے ہاتھوں یہ مستقبل تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔چنانچہ اس مستقبل کو آدھی رات گئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے یونیورسٹی ہاسٹلوں سے نکال کر سڑک پر کھڑا کردیا گیا۔ تاکہ یہ نوجوان طلبا و طالبات اپنی مرضی سے جہاں بھی خود کو محفوظ سمجھیں پیدل چلے جائیں۔



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل