میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے،
عطا محمد تبسم محبت تمھیں بلائے اس کے پیچھے پیچھے چلے جاﺅ۔ گو اس کی راہیں سخت اور دشوار ہوں اور جب اس کے بازو تمھیں سمیٹیں تب ایسا ہونے دو گو اس کے پنکھوں میں پوشیدہ تلوار تمیں زخمی کردے۔ اور جب وہ تم سے کچھ کہے تو اس کا یقین کرلو۔گو اس کی آواز تمارے خوابوں کو منتشر کردے، جس طرح باد شمال باغ کو برباد کردیتی ہے۔ اس لئے کہ جس طرح محبت تمارے سر پر تاج رکھتی ہے۔اسی طرح وہ تمھیں مصلوب بھی کرتی ہے۔محبت اگر تمارے بڑھنے میں مددگار ہوتی ہے تو وہ تماری کانٹ چھانٹ بھی کرتی ہے۔ جس طرح وہ تماری بلندیوں پر چڑھ کر تماری سب سے نازک شاخوں کو پیار کرتی ہے۔ جو دھوپ میں تھرتھراتی ہیں۔ اس طرح وہ تماری جڑوں تک بھی اتر جاتی ہیں، اور اس سے لگی ہوئی جڑوں کو ہلا دیتی ہیں۔کنک کی بالیوں کی طرح وہ تمھیں اپنے میں اکھٹا کر لیتی ہیں۔ محبت قبضہ نہیں کرتی نہ اس پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے محبت کے لئے محبت ہی کافی ہوتی ہے۔،، خلیل جبران کا فلسفہ محبت ایک بہتے دریا کی طرح ہے۔ مدھر جھرنے کی طرح جس کے بہاﺅ میں ایک کاٹ بھی ہے اور تیزی بھی۔ اس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے۔ درد کی دوا پائی ۔ درد لا دوا پایا۔۔دل کے بارے میں کہ