اشاعتیں

2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے،

عطا محمد تبسم محبت تمھیں بلائے اس کے پیچھے پیچھے چلے جاﺅ۔ گو اس کی راہیں سخت اور دشوار ہوں اور جب اس کے بازو تمھیں سمیٹیں تب ایسا ہونے دو گو اس کے پنکھوں میں پوشیدہ تلوار تمیں زخمی کردے۔ اور جب وہ تم سے کچھ کہے تو اس کا یقین کرلو۔گو اس کی آواز تمارے خوابوں کو منتشر کردے، جس طرح باد شمال باغ کو برباد کردیتی ہے۔ اس لئے کہ جس طرح محبت تمارے سر پر تاج رکھتی ہے۔اسی طرح وہ تمھیں مصلوب بھی کرتی ہے۔محبت اگر تمارے بڑھنے میں مددگار ہوتی ہے تو وہ تماری کانٹ چھانٹ بھی کرتی ہے۔ جس طرح وہ تماری بلندیوں پر چڑھ کر تماری سب سے نازک شاخوں کو پیار کرتی ہے۔ جو دھوپ میں تھرتھراتی ہیں۔ اس طرح وہ تماری جڑوں تک بھی اتر جاتی ہیں، اور اس سے لگی ہوئی جڑوں کو ہلا دیتی ہیں۔کنک کی بالیوں کی طرح وہ تمھیں اپنے میں اکھٹا کر لیتی ہیں۔ محبت قبضہ نہیں کرتی نہ اس پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے محبت کے لئے محبت ہی کافی ہوتی ہے۔،، خلیل جبران کا فلسفہ محبت ایک بہتے دریا کی طرح ہے۔ مدھر جھرنے کی طرح جس کے بہاﺅ میں ایک کاٹ بھی ہے اور تیزی بھی۔ اس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے۔ درد کی دوا پائی ۔ درد لا دوا پایا۔۔دل کے بارے میں کہ

دراز رسی آہستہ آہستہ کھینچی جا رہی ہے۔

عطا محمد تبسم این آر او ایک برا قانون ہے، این آر او کالعدم قانون ہے جس کا کوئی وجود نہیں عدالت عالیہ نے گزشتہ سال دسمبر میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ لیکن سننے والوں نے اسے اس طرح سنا جیسے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جیسے بہرے کان سننے سے معذور ہوتے ہیں۔ انھیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیا کہا گیا ہے اور کس سے کہا گیا ہے، اس کا مطلب کیا ہے۔ دس ماہ بعد عدالت نے دوبار اس کیس کو کھولا تو چاروں طرف ایک سراسیمگی پھیل گئی۔ کسی کو یقین نہ آرہا تھا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔یہ 17 رکنی بنچ کا فیصلہ تھا۔ جس کے لئے 14 درخواستیں دائر کی گئیں جن میں سے 12 درخواستیں سماعت کے لئے منظور کی گئیں تھیں۔ ان درخواست دہندگان میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد‘ سابق بیوروکریٹ روئےداد خان‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ شاہد اورکزئی اور 5 قیدیوں کی درخواستیں بھی شامل تھیں جبکہ اسفندیار ولی‘ انور سیف اللہ اور پنجاب کے و زیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی درخواستوں کو بھی سماعت کے لئے منظور کیا گیا تھا۔ مقدمہ کے دوران عدالت نے نیب‘ اٹارنی جنرل وفاق‘ چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری صاحبان اور وزارت قانون کے سیکرٹری سمیت متعدد حکام کو نوٹس جاری
قیوم جتوئی کس کی زبان بول رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے دور میں جس دن چن زیب نے وزیر اعظم کی رہائش گا ہ کے باہر خودکشی کے لئے اپنے آپ کو آگ لاگا لی تھی۔ اسی دن سے میاں صاحب کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ اب جب سے ایک اور مفلوک الحال بے روز گار شخص نے سید زادے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر خود سوزی کی ہے۔ میں ڈر رہا ہوں کہ موجودہ حکومت کے دن بھی پورے ہوگئے ہیں۔ جانے والے اپنی حماقتوں سے جاتے ہیں، اور ان کے کرتوت ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں رات دن بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی ہے۔ محاذ آرائی کون کررہا ہے اور نئے محاذ کون کھول رہا ہے۔ سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ہوش و حواس سے بیگانے ہوکر ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں ۔ جو بدنامی ہی کا سبب نہیں بنتی بلکہ منڈیٹ کا بھی جنازہ نکال دیتی ہیں، پیپلزپارٹی کی قیادت میں وفاقی حکومت کی عدلیہ سے محاذ آرائی کے بعد سیاسی تبدیلی کی باتیں زوروں پر ہیں،حکومت کا کیا بنتا ہے، یہ سب کو سامنے نظر آ رہا ہے۔ سابق وفاقی وزیر مملکت برائے دفاعی پیدوار عبدالقیوم جتوئی سے پاک فوج اور عدلیہ کے خلاف اور کرپشن کے حق میں جن ارشادات عالیہ کا اظہار کیا ہے، وہ ایک فرد

کیسا مقدمہ ۔۔۔۔۔کیسی سزا

تصویر
ا بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی اندھیر نگری چوپٹ راجہ ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنانے کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ ترقی کے اس دور میں بھی وہی اندھیر نگری ہے۔ عافیہ کو امریکہ کی عدالت سے دی جانے والی ۶۸ سال قید کی سزا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ میں پانچ سال میں پہلی بار کسی عورت کو انتہائی سزا دی گئی ہے۔ یہ سزا مسلمان نوجوانوں کو امریکہ کی جانب سے ایک تنبیہ ہے کہ وہ اگر حریت فکر ، آزادی اظہار اور امریکہ کے دہرے معیار کے خلاف کوئی بات کریں گے تو انھیں درس عبرت بنادیا جائے گا۔ عافیہ ایک ایسی مظلوم عورت ہے۔ جس کی پکار پر کوئی ابن قاسم مدد کو نہ آیا۔ اس پر ظلم کرنے والے خود اس کی اپنی قوم کے حکمران افراد ہیں۔ جو کبھی غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوجاتے تھے۔ آج ڈالروں کی جھنکار نے انھیں اپنی قوم کی اس بیٹی کی چیخوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ایک مظلوم نہتی عورت سے خوفزدہ ہے۔ اس مظلوم عورت کے شیر خوار بچے کو اس سے چھین کرمار ڈالا گیا۔ اس کے دو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک ڈھکوسلا ثابت ہوا۔ جس میں انصاف کا قتل کیا گیا ہے۔اس مقدمے پر ساری دنیا کی نظریں ت
چھٹتی نہیں ہے کا فر منہ سے لگی ہوئی عطا محمد تبسم مولانا فضل الرحمان ، مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ حکومت ان کو ایسی راس آئی ہے کہ چھٹتی نہیں ہے کا فر منہ سے لگی ہوئی۔ بے نظیر ہوں، یا نواز شریف، مشرف ہوں یا زرداری ان کی پانچوں انگلیاں ہی کیا، سب کچھ گھی میں ہے۔ ملک میں آگ لگے یا سیلاب آئے ان کی قدم پاکستان کی سرزمین پر ٹکتے ہی نہیں۔ ملک میں سیلاب آیا تو مولانا عمرے پر چلے گئے، لال مسجد کا سانحہ ہوا تو مولانا لندن جا بیٹھے۔ ان کے بھائی مولانا عطا الرحمن بھی وزارت ، گاڑیوں، اور بیرونی دوروں کے شوقین ہیں۔ حکومت میں رہنے سے سارے شوق پورے ہوجاتے ہیں۔ ابھی مولانا دوبئی سے آئے ہیں۔ قصد امریکہ جانے کا تھا۔ پر امید بر نہ آئی۔امریکیوں نے انھیں اپنے ملک آنے سے روک دیا گیا ہے۔ ادھر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم خان سواتی کو امریکا جانے کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ مولانا فضل الرحمن نیویارک میں ہونے والی او آئی سی کی سالانہ رابطہ کانفرنس میں شرکت کیلئے دوحہ سے روانہ ہورہے تھے۔ تاہم انہیں دوحہ ایئرپورٹ پر امریکی حکام
عافیہ کی رہائی حکومت پوائینٹ اسکور کرسکتی ہے۔ عطا محمد تبسم اس دن بھی سارے دوست ڈاکٹر عافیہ کے گھر جمع ہوئے تھے۔ جو عافیہ کی رہائی کے لئے طویل جدوجہد کے بعد اس مرحلے پر پہنچے ہیں۔برطانیہ سے ایون رڈلی مریم اور گونتابے کے قیدی معظم بیگ آئے تھے۔ کراچی کے دوستوں میں سلیم مغل، انتخاب سوری ، شہزاد مظہر،پاسبان کے الطاف شکور ، صحافتی برادری، این جو اوز اور دانشور سب یہ سوچ رہے تھے کہ اب عافیہ کی رہائی کیسے ہو۔عصمت آپا ، عافیہ کی والدہ کے آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔ احمد جو اپنی ماں سے بچھڑ کو ادھورا سا سہما ہوا بچہ ہے۔ مریم تو اب تک شاک کی کیفیت میں ہے۔ فوزیہ کہہ رہی تھی کہ عافیہ تو اسی دن مر گئی تھی۔ جب اس کے بچے اس سے چھین لئے گئے تھے۔ امریکی عدالت ایک ایسے قیدی پر مقدمہ چلا رہی ہیں جو ظلم وستم سے ذہنی طور پر معذور ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ اس کے مقدمے کے دوران اس کی بیٹی مریم کو بار بار اس کے سامنے لاکر دھمکی دی جاتی رہی کہ اگر اس نے لب کشائی کی تو اس کی بیٹی عمر بھر اسے نہ مل سکے گی۔ ڈاکٹر عافیہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بردہ فروش حکمرانوں نے اسے اپنے اقتدار پر قربان ک
ایک تعارف۔۔۔ عطا محمد تبسم اسکول میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اردو کے استاد نے تعریف کی،یوں لکھنے سے دلچسپی بڑھی،پڑھنے کا شوق آنہ لائیبریری لے گیا۔ ان دنوں بچوں کی دنیا، تعلیم وتربیت جیسے رسالے تھے،کتابوں کے شوق کی آبیاری کرنے کے لئے کوئی رہنما نہیں تھا۔ اس لئے جو ملا پڑھ لیا، قاسم محمود کے شاہکار نے ادب کی راہ دکھائی،مفتی کی علی پور کا ایلی نیشنل سنٹر میں روزانہ جاکر پڑھتا، لائیبریری کے اوقات ختم ہونے پر گھر چلا جاتا، کئی دنوں میں یہ کتاب ختم کی،کالج میں ایک محسن دوست مل گیا، اس نے ادب کے ستھرے ذوق کو مہمیز کیا،تعلیم ، معاش اور طلبہ سیاست نے صحافت کی راہ دکھائی۔کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے اساتذہ اور دوست احباب نے اردو اور انگریزی پر توجہ دلائی، لیکن بچپن میں پیلے اسکول کی تعلیم انگریزی والوں کا کیا مقابلہ۔ سو زندگی بھر ایک طالب کی طرح حرف حرف سیکھنے کا عمل جاری ہے۔حیدرآباد شہر میں پیدائش،جامعہ سندھ سے ایم اے معاشیات،اور جامعہ کراچی سے ایم اے صحافت کے بعد اخبارات ، اور تعلقات عامہ سے رشتہ نان جو جڑا ہے۔بلاگ کے دوستوں سے سیکھنے کا عمل جاری ہے۔ ابھی تک درست طریقے پر نہ تو بلاگ بنا پای

شہید انقلاب ڈاکٹر عمران فاروق

عطا محمد تبسم عید کے بعد کراچی میں کیا ہوگا۔ یہ ایک عمومی سا سوال تھا۔ جو عید پر ملنے جلنے والے ایک دوسرے سے پوچھا کرتے تھے۔ اس سوال کی وجہ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت اور مخلوط حکومت میں نمایاں کردار ادا کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے وہ بیانات اور خطاب تھے۔ جن میں انقلاب اور جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔ قائد تحریک کی سالگرہ ۷۱ ستمبر کو منائی جاتی ہے اور ایم کیو ایم کے کارکن اس دن کا خصوصیت سے انتظار کرتے ہیں کہ اس دن انھیں اپنے رہنما کے جنم دن پر خوشیا ں منانے کا موقع ملتا ہے تو دوسری جانب نائین زیرو کے نزدیکی میدان میں موسیقی اور گانوں کا منفرد شو ہوتا ہے جس میں ملک کے بڑے فنکار شرکت کرتے ہیں۔ٹھیک بارہ بجے الطاف حسین اپنے ساتھیوں سے یک جہتی کے لئے خطاب کرتے ہیں۔ ملک میں سیلاب کی صورت حال کے سبب اس بار سالگرہ کی تقریبات سادگی سے منائی جانے والی تھی کہ اچانک ایک ناگہانی افسوس ناک خبر نے ماحول کو سوگوار کر دیا۔لندن میں ایم کیو ایم کے مرکز کے قریب ایم کیو ایم کے کنوینر عمران فاروق کو نامعلوم قاتل نے چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا۔عمرا

میوزیکل چیئر کا گیم

عطا محمد تبسم حیدرآباد سے کراچی کا سفر آرام سے دو گھنٹے میں طے ہوگیا۔ گھر سے آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر راشد منہاس روڈ پر کراچی کا ٹریفک اپنے پورے جوبن پر تھا۔ دور دور تک کاروں ،بسوں،رکشائ، موٹر سائیکلوں ،ٹرک، مزدا ٹرک،ویگن کی ایک نا ختم ہونے والی بھیڑ تھی۔کراچی کے باشعور شہریوں میں قائد اعظم کے فرمودات اتحاد، تنظیم ، نظم وضبط کے کوئی آثار نہیں تھے۔ نتیجہ یہ تھا کہ حیدرآباد سے کراچی کو سفر دو گھنٹے، اور کراچی میں آدھ کلو میٹر کا فاصلہ بھی دو گھنٹے میں طے ہوا۔ کراچی کا ٹریفک اب ایک ڈراﺅنے خواب کی صورت ہے۔ جس میں پھنس جانے کا تصور ہر گاڑی چلانے والے کو ایک جنونی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ کسی طرح میں نکل کر اپنی منزل پر پہنچ جاﺅں۔گھر آنے پر ٹی وی سے پتہ چلا کہ پورے کراچی میں ہر جگہ ٹریفک جام ہے جو بعض مقامات پر رات ایک دو بجے تک رہا۔ کراچی کے شہری جس طرح اب ٹارگٹ کلنگ کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرچکے ہیں۔ ایسے ہی ٹریفک جام کو بھی اس شہر میں رہنے کا ایک ٹیکس سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے۔ سپر ہائی وے پر دور دور تک سیلاب متاثرین کی جھونپڑ پٹیاں ہیں۔ عورتیں بچے صبح شام سڑک پر ہاتھ پھیلائے

کراچی کا خدا حافظ

کراچی کا خدا حافظ عطامحمد تبسم کراچی ایک بار پھر جل اٹھا ہے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں پچاس سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ سنکڑوں زخمی ہیں۔ اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جگہ جگہ تشدد کے واقعات جنم لے رہے ہیں۔تیس کے لگ بھگ گاڑیاں، جن میں رکشہ،موٹر سائیکل، منی بسیں، ٹرک ٹینکر شامل ہیں،جل کر خاکستر ہوچکی ہیں۔ اور یہ گراف لمحہ بہ لمحہ اوپر ہی جارہا ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہے۔سینکڑوں کی تعداد میں دکانیں، ٹھیلے، پتھارے نذر آتش کیے جاچکے ہیں۔ بہت سی نواحی بستیوں میں شدید کشید گی ہے۔ بنارس ، اورنگی ٹاو ¿ن ، قصبہ کالونی ، سہراب گوٹھ ، سائٹ اور ایف بی ایریا، لانڈھی ، ملیر،گلشن اقبال، گلستان جوہر، سمیت شہر کے مختلف حصوں میں توڑ پھوڑ، مار دھاڑ کے واقعات ہورے ہیں۔ سرکاری اور نجی املاک جلائی جار ہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہی ہیں۔صدر بیرون ملک دورے پر ہیں، وزیر داخلہ اس لڑائی کے سرے وانا، طالبان، لشکر جھنگوی، جنداللہ اور دیگرکالعد م مذہبی جماعتوں سے ملا رہے ہیں۔کراچی میں یہ واقعات اچانک وقوع پزیر نہیں ہوئے،ایم کیو ایم کے صوبائی رکن اسمبلی رضا حیدر کے بہیمانہ
قوت ارادی قائد اعظم بے پناہ قوت ارادی کے مالک تھے۔ وہ مجمع کو دیکھ بھی اپنے اصولی موقف سے دستبردار نہیں ہوتے تھے۔ کانپور کے اجلاس میں مسلم لیگ اور گانگریس کے راستے جدا جدا ہوگئے۔ اس اجلاس میں جس میں کانگریس کے حامیوں کو خاص طور پر جمع کیا گیا تھا۔ اجلاس میں گاندھی جی کی ایک قرار داد منظور کی گئی۔محمد علی جناح نے اس قرار داد پر زبردست نکتہ چینی کی۔پچاس ہزار کے مجمع میں قائد اعظم نے اپنی تقریر اس الفاظ سے شروع کی،، میں اس قرار داد کی مخالفت کرتا ہوں،،ان کی آواز شور وغل اور ہنگامے میں ڈوب گئی۔انھیں یقین تھا کہ حاضرین ان کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن انھوں نے لوگوں کے شور غل پر اسٹیج نہیں چھوڑا۔ ڈائس پر خاموش کھڑے رہے۔جب شور کم ہوا تو انھوں نے پھر سے کہا،، میں اس قرار داد کی مخالفت کرتا ہوں۔ ،، مجمع نے پھر شور کرنا شروع کیا۔لیکن انھوں نے اپنی تقریر گھن گرج کے ساتھ جاری رکھی۔آہستہ آہستہ ان کے جوش ، حوصلے، تحمل کے سامنے مجمع خاموش ہوگیا۔انھوں نے مجمع کو اپنے ساتھ کرلیا، لیکن مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرسکے۔لیکن انھوں نے ثابت کردیا کہ ان پر حکم نہیں چلایا جاسکتا۔وہ گاندھی کو مسٹر گاندھی کہہ کر مخاطب ک
ساری امیدیں ختم ہوئیں۔۔۔۔۔۔ عطا محمد تبسم زندگی کے راستے کتنے کھٹن اور جاں لیوا ہیں۔دشت کی آبلہ پائی میں زخم روح کے ناسور بن جاتے ہیں۔ ایک امید کا سہارا تھا کہ کچھ جانیں بچ جائیں گی۔ لیکن رات گئے کائرہ صاحب کی پریس کانفرینس نے یہ امید بھی ختم کردی۔ جائے حادثہ کے مناظر ہولناک تھے۔ حادثے کے بعد سوائے آگ راکھ ، جسموں کے ٹکڑے، کے کچھ بھی نہ بچا۔انسان فانی ہے۔ موت کے سو بہانے ہوتے ہیں۔مر نے والے مر جاتے ہیں۔ اور جانے والوں کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ نہ جانے آج کیوں مجھے جولائی ۴۷۹۱ یاد آ رہا ہے۔ سٹی کالج حیدرآباد اسلام آباد میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافروں میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔آج جانے کیوں مجھے چھ جولائی ۴۷۹۱ یاد آرہی ہے۔ وہ بھی ایک ایسا ہی اجتماعی سانحہ تھا۔ سٹی کالج حیدرآباد کے طلبہ سالانہ ٹور پر مری گئے تھے۔ جہاں ان کی بس نتھیا گلی سے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں گر گئی تھی۔ ۴۵ نوجواں طالب علم اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔تین دن تک ہم حیدرآباد کی سڑکوںاور گلیوں میں گھومتے رہے، رات کو نیند ن
افغانستان میں ایک کھرب ڈالر کی معدنیات کا انکشاف عطا محمد تبسم امریکہ اب افغانستان سے نہیں جائے گا۔کیونکہ اب تک اس نے افغانستان میں جو سرمایہ کاری کی تھی اس کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں ایسے معدنی ذخائر کا سراغ لگایا گیا ہے۔ جو امریکہ کے اب تک ہونے والے سارے نقصانات کا ازالہ کردے گا۔ یہ ذخائر اب سے پہلے معلوم نہیں ہوئے تھے۔ خیال یہ ہے کہ ان ذخائرسے افغان معیشت کو تبدیل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ان ذخائر کی مالیت کا اندازہ 1 ٹریلین امریکی ڈالر کا ہے۔ افغانستان میں معدنی ذخیرے کی تلاش کا کام خاصے عرصے سے جاری تھا۔امریکی حکام کے مطابق اس ذخیرے میں لوہا ، تانبا ، کوبالٹ ، سونے اور لتیم جیسے اہم صنعتی دھاتیں بہت بڑی مقدار میں ہیں اور بہت سی ایسی معدنیات بھی ہیں جو جدید صنعت کے لئے ضروری ہیں۔خیال کیا جارہا ہے کہ بالآخر افغانستان کان کنی میں سب سے زیادہ اہم ملکوں میں سے ایک میں ہو سکتا ہے۔پینٹا گون کی ایک خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں پتہ چلنے والے ذخائر میں لتیم جیسی قیمتی دھات ہے جو ،" لیپ ٹاپ اور BlackBerrys کے لئے بیٹری کی تعمیر میں اہم خام مال. کے طور
تصویر
پاکستان کرونیکل نوجوان نسل کے لئے ایک تحفہ عطا محمد تبسم عقیل عباس جعفری چپکے چپکے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ اور پھر جب اس کی کوئی نئی کاوش سامنے آتی ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ عقیل عباس جعفری کس پرجیکٹ پر کام کررہا تھا۔عقیل عباس کی نئی تحقیقی کتاب ’پاکستان کرونیکل‘ ایک ایسی تحقیقی کاوش ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انھوں نے اپنے محدود وسائل میں ایک بڑا تحقیقی کام کیا ہے۔وہ مستقل مزاجی اور لگن سے کام کرتے ہیں۔ اوراپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ تحقیق و تحریر میں مبتلا رہنے والوں کو بھی یہ بات ایک مرتبہ چونکا دے گی کہ کسی نے تن تنہا پاکستان کی 70 برسوں کی سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معاشی تاریخ کو ایک دستاویزی صورت دی ہے۔ تقریباً گیارہ سو صفحات پر مشتمل بڑے سائز کی اس کتاب کو اس قدر دقتِ نظری کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ شاید کسی بڑے حکومتی ادارے نے، بڑی ٹیم کے ساتھ، ایک معرکہ سرانجام دیا ہے۔اس کتاب کے شروع میں پیرس کی مشہور شاہراہ شانزے لیزے کا 1901ء کا ایک منظر ہے۔ بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی کی اس شاہکار تصویر میں پورے یورپی معاشرے کو اپنی تمام تر تفاصیل کے ساتھ محف
تصویر
موزے،برساتی کوٹ، سیل فون کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ عطا محمد تبسم دو دن پہلے پریس کلب میں میرے ایک دوست کے پاس امریکہ سے فہد ہاشمی کے والد کا فون آیا۔ طویل گفتگو کے بعد میرے دوست نے بتایا کہ ہاشمی صاحب کراچی میں رہتے تھے ۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ جنہں1980میں دو ڈھائی سال کی عمر میں پاکستان سے امریکہ لے گئے تھے۔ ان بچوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ، ان کی اردو بھی واجبی سے ہے۔ ان میں چھوٹا بیٹا فہد ہاشمی ہے۔فہد ہاشمی نیویارک کے علاقے کوئینز میں پلے بڑھے۔ انہوںنے بروکلین کالج سے 2003 میں پولیٹیکل سائنس کی ڈگری لی۔اور پھر انٹرنیشنل ریلیشنز میں لندن کی میٹرو پولیٹن یونیورسٹی سے 2006 میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ نائین ایلیون کے بعد امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف جو ظالمانہ پالیسی اختیار کی۔ اس پر امریکیوں نے بھی احتجاج کیا۔ فہد ہاشمی بھی امریکی پالیسوں اور مسلمانوں کے خلاف امریکی امتیازی رویہ پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتا تھا۔ امریکی معاشرہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ لیکن فہد کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ فہد ہاشمی ایک ذہین اور پڑھنے لکھنے والا طالب علم تھا۔دوران طالب عالمی اس کا تعارف ’ال
ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک تازہ لہر عطا محمد تبسم کراچی میں ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ کی ایک تازہ لہر آئی ہے۔گزشتہ ایک ہفتے میں شہر میں چار ڈاکٹر ہلاک کردئیے گئے ہیں۔ اس ایک ماہ میں تقریبا آٹھ ڈاکٹر ہلاک کئے جاچکے ہیں۔حیدرآباد میں گزشتہ ہفتے پروفیسر ڈاکٹر اسلم میمن کو دن دھاڑے اغوا کیا گیا۔ جو تا حال لاپتہ ہیں۔انھیں تاوان کے لئے اغوا کیا گیا ہے۔پشاور میں ڈاکٹرز کا اغوا اب باقاعدہ کاروبار ہے۔ اور بڑی تعداد ایسے ڈاکٹروں کی ہے جو اس ہولناک تجربے سے گزر چکے ہیں۔ پاکستان میں آبادی کے تناسب سے دو ہزار تین سو افراد پر ایک ڈاکٹر کی سہولت ہے۔ ایک ڈاکٹر کی تعلیم پر حکومت کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔حالات میں جب بھی ایسی بے یقینی کی فضا ہوتی ہے۔ ملک سے برین ڈرین ( ذہین افراد کا ملک سے چلے جانے )کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس ایک ماہ میں سندھ سے تین سو ڈاکٹر اور پنجاب سے بارہ سو ڈاکٹر ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔کوئٹہ کے حالات بھی خراب ہیں ۔ جہاں ایک ماہ میں سات ڈاکٹر قتل کردئیے گئے۔اندرون سندھ کی صورت حال بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔جمعہ کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے کراچی میں ڈاکٹروں کے قتل کی مذ

آٹے دال کا بھاﺅ

عطا محمد تبسم بجٹ اجلاس میں شرکت کرنے والے عوامی نمائندوں سے ایک ٹی وی اینکر پرشن نے یہ سوال کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آٹے کی فی کلو قیمت کیا ہے۔ یا دال کی قیمت فی کلو کیا ہے،یا گوشت کس بھاﺅ بک رہا ہے تو کسی عوام نمائندے کو آٹے ، دال، گوشت کو بھاﺅ نہیں معلوم تھا۔یہ ہمارے منتخب نمائندے ہیں۔ جو پاکستان کے عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچے ہیں، جو ہمارے لئے بجٹ کی منظوری دیتے ہیں۔جو عوام کا غم کھاتے ہیں۔ ایرکنڈیشن گاڑیوں،دفاتر،گھروں میں رہتے ہیں۔عوام کے ٹیکس سے اپنی مراعات اور الاونس لیتے ہیں۔جہازوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں وقت گزارتے ہیں۔ اس دو سالہ عوامی جمہوری دور میں عوام پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کسی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ حکومت کے دو سال میں مارچ 2008تامارچ 2010،آٹا13 روپے سے بڑھ کر 34 روپے اورچینی21 روپے سے بڑھ کر 67 روپے ،پیٹرول46 روپے71 روپے،موٹرسائیکل32000 روپے سے بڑھ کر62000 روپے،یو ایس ڈالر 60 سے بڑھ کر 83 روپے،کال اور ایس ایم ایس ٹیکس%15 سے بڑھ کر %21 اور لوڈشیڈنگ%30 سے بڑھ کر %150 ہوگئی ہے۔چائے کی پتی (250 گرام کا پیکٹ) 65 روپے سے بڑھ کر 124 روپے کا ہوگیا ہے، مرغی کا گ

آئی ایم ایف کا بجٹ قوم کو مبارک ہو

                              عطا محمد تبسم  عالمی مالیاتی ادارے یا آئی ایم ایف کے ساتھ پچھلے سال جو معاہدہ طے ہوا۔اس معاہدے کے کے مطابق حکومت بجلی، تیل، گندم، گنے اور بعض دیگر اشیا پر دی جانے والی مالی امداد ختم کرنے کی پابند ہے۔ جبکہ سٹاک مارکیٹ پر کیپیٹل گینز ٹیکس سمیت جائیداد کی خرید وفروخت اور مختلف سروسز پر نئے ٹیکس بھی لاگو کرنے ضروری ہیں۔اس صورت حال میں بجٹ پیش کرنا حکومت کے لئے اور بھی مشکل تھا کہ کسی کو پاکستان پر اعتماد نہیں ہے۔ ہمارے اعداد شمار بھی اپنی وقعت کھو چکے ہیں۔ حکومتی افراد پر بھی کسی کو کوئی اعتماد سرے سے نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ قومی بجٹ اور حفیظ شیخ دونوں اسمبلی میں ایک ساتھ آئے۔ٹیکسوں کے نفاذ پر ابھی تک چاروں صوبوں کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے اس لئے ویٹ کا مسئلہ فی الحال اکتوبر تک لٹکا دیا گیا ہے۔اس نئے ٹیکس کے لگنے کے بعد یہ توقع کرنا کہ اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑے گا محض طفل تسلی ہے۔ اس ٹیکس کا اثر کم و بیش ہر چیز پر پڑے گا اور اسی نسبت سے مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر الیکٹرانکس اور عام گھریلو استعمال کی چیزوں کی ق

میں ان غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں

عطامحمد تبسم ،میں ان غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں،کل صبح تک 1500 لوگ اندر کردیئے جائیںِ، کمرے میں ایک آواز گونجی اور اس کے ساتھ ہی سرخ گاﺅن والی شخصیت پردے کے پیچھے غائب ہوگئی۔انوار الحق نے فوری طور پر 1500کے ہندسے کو 17 پر تقسیم کرنا شروع کردیا، کیونکہ صوبے (مشرقی پاکستان)میںضعلوں کی تعداد سترہ تھی۔ وہ پریشان تھے کہ تقسیم میں باقی بچنے والے چار کے ہندسے کا کیا کریں۔ این ایم خان عقدے وا کرنے کے ماہر تھے۔ بولے میمن سنگھ بڑا ضلع ہے، وہاں سے چار لوگ اور پکڑ لو۔ اگلی صبح تک 1500 سو لوگ گرفتار کئے جاچکے تھے۔ان قسمت کے ماروں میں رکشا کھینچنے والے، محنت کش،بے گناہ مسافر، غریب خوانچے والے اور بے یارومددگار راہ گیر سب شامل تھے۔ تین ماہ سے کم عرصے میں مشرقی بنگال کو تسخیر کرنے کے بعد اسکندر مرزا کراچی واپس چلے گئے۔ مئی 1954 کا یہ واقعہ الطاف گوہر نے ،،ایوب خان فوجی راج کے پہلے دس سال ،، نامی کتاب میں اسکندر مرزا کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ سرخ گاﺅن والے اسکندر مرزا تھے۔ جنہوں ۶۵ سال پہلے کسی بھی واقعے کے نتیجے میں پولیس کی کاروائی کے لئے جو رہنمائی کا اصول طے کیا تھا۔ اس پر آج بھی اسی طرح عم

مصلحتوں اور مجرمانہ غفلتوں کا شکار کراچی

عطامحمدتبسم ہم ابھی ایک خونی مہینے سے گزر کر آئے تھے۔مئی کو اگر ماضی میں دیکھا جائے تو یہ کراچی کے شہریوں کے لیے کئی برس سے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ مئی کے مہینے میں یہاں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو ماضی کو بھلا دیتا ہے۔ مئی 2010ءکو ہی لے لیں تو کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں 42 سے زائد بے گناہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دو کارکنوں کا قتل ہوا۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے، پارٹی کے ایم این اے عبدالقادر نے اپنے استعفی کا اعلان کردیا۔ جون کو شروع ہوئے ابھی ایک ہی دن خیریت سے گزرا ہے کہ لیاری میں ایک خونی لڑائی چھڑ گئی ہے۔ کراچی میں گروہی ، نسلی،سیاسی،بھتہ مافیا، منشیات فروش،زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی اجارہ داری ہے۔ جس میں عام شہری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ شہر کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت کوئی معمولی سا واقعہ ، یا جھگڑا ایک تصادم کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر میں حالات خراب ہوجاتے ہیں۔ مسلح افراد کراچی کی گلیوں اور محلوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔اور جب تک حالات پر قابو پایا جاتا ہے۔کئی قیم

پاکستانی صحافیوں کی بے مثال بہادری

عطامحمد تبسم میری طلعت حسین سے ملاقات کلفٹن کے ساحل پر واقع ایک ہوٹل میں اس وقت ہوئی تھی۔ جب وہ ایک صحافتی ورکشاپ میں شریک تھے۔اس ورکشاپ میں بھارت سے آنے والے کئی صحافی موجود تھے۔ خوبصورت، وجہیہ اور انگریزی اردو میں یکساں مہارت رکھنے والے طلعت حسین ان دنوں اسلام آباد میں دی نیوز کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ٹیلی ویژن پر ان کا مقبول پروگرام سویرے سویرے جاری تھا۔ بعد میں پی ٹی وی ورلڈ پر ان کا پروگرام نیوز نائٹ بھی مقبول ہوا۔بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ طلعت حسین نے ہیڈ اینڈ شولڈر کے ایک اشتہار میں ماڈلنگ بھی کی ہے۔وہ پاکستان کے معدوے ان چند صحافیوں میں سے ہیں۔جو نیشنل ڈیفینس کالج، ایر وار کالج، نیول وار کالج، پاکستان فارن سروس ٹرینگ اکیڈمی اور قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے بلائے جاتے ہیں۔ وہ سی این این، لاس اینجلس ٹائمز، گارجین، نیویارک ٹائمز جسے اخبارات میں لکھتے ہیں۔ یوں انھیں عالمی شہرت حاصل ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ان کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔ جن میں لائیو وتھ طلعت ان کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ پیر کے دن جب اسرائیل نے غزہ کے محصور اور مظلوم باشندوں کو امدادی سامان لے جانے والے قافلے پ

ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریاں اور تعلیمی بورڈ کی حالت زار

عطا محمد تبسم آج  سے کراچی میں ہزاروں طلبہ و طالبات میٹرک کے امتحانات میں شرکت کررہے ہیں۔دو دن پہلے ان میں سے بیشترطلبہ اس بات سے پریشان تھے کہ انھیں ان کے ایڈمٹ کارڈ نہیں ملے تھے۔پھر یہ طلبہ پریشان ہوکر بورڈ آفس پہنچ گئے۔جوں جوں طلبہ کا ہجوم بڑھا،معاملات بھی الجھ گئے۔ ایڈمٹ کارڈ اور امتحانی فارم کے معاملے پر ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے باہر احتجاجی مظاہروں کی بازگشت گورنر ہاﺅس کا سلسلہ بدھ کو دوسرے روز بھی جاری رہا۔ سیکڑوں پرائیویٹ امیدوار سخت گرمی اور دھوپ میں اپنے امتحانی فارم جمع کرانے کیلئے احتجاج کرتے رہے لیکن بورڈ نے ان کے امتحانی فارم وصول نہیں کئے۔ البتہ بورڈ نے نجی اور سرکاری اسکولوں کے امتحانی فارم 12 سو روپے لیٹ فیس کے ساتھ وصول کئے۔ 24 اسکولوں کے ایک ہزار سے زائد فارم بدھ کو جمع کئے گئے جن میں 3 سرکاری ہائر سیکنڈری اسکول بھی شامل تھے۔ جن کے ایڈمٹ کارڈ جمعرات کو جاری ہوئے ۔ میٹرک کے طلبہ کو ہزاروں روپے فیس کی ادائیگی کے بعد جو ایڈمٹ کارڈ مظاہروں کے بعد ملے وہ انھیں گھروں پر ملنا چاہئے تھے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارا سارا تعلیمی نظام تباہ ہوتا جارہا ہے۔ تعلیمی بورڈ کی کارکردگی ہم

سو جو تے سو پیاز

عطا محمد تبسم آپ نے سو پیاز اور سو جوتے والا لطیفہ سنا ہے۔اگر یاد نہیں آ رہا تو ایک بار پھر سن لیں۔ ایک جاٹ کسی مقدمے میں پھنس گیا۔عدالت نے سزا سنا دی۔سزا سو پیاز کھانے یا سو جوتے کھانے کی تھی۔سزا کے انتخاب کا حق ملزم کو دیا گیا۔ جاٹ نے سزا سن کر ہنس کر کہا یہ تو کوئی سزا نہیں ہے۔لو جی میں سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ میں سو پیاز کھاﺅں گا۔ سو اس کے آگے پیاز کا ٹوکرا رکھ دیا گیا۔ اب جناب جاٹ نے پیاز کھانا شروع کیا۔ ایک دو تین۔۔۔۔ دس بارہ پیاز کھائی ہوں گی۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔اب پیاز نہیں کھائی جارہی تھی۔ کہنے لگا کہ میں سو جوتے کھانے کو تیار ہوں۔ پھر جاٹ کو جوتے لگنا شروع ہوئے۔ابھی گنتی بیس تک پہنچی تھی کہ جاٹ چلانے لگا ہائے مرگیا۔ ہائے مر گیا۔ روکو روکو ۔۔۔ میں پیاز کھانے کو تیار ہوں۔ دوبار سے پیاز کا ٹوکرا اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے پیاز کھانا شروع کی اور۔۔ کچھ دیر بعد کہنے لگا بس جی بس ۔۔ میں جوتے کھانے کو تیار ہوں۔ سارا گاﺅں یہ تماشا دیکھتا رہا۔ جاٹ کبھی پیاز اور کبھی جوتے کھاتا رہا۔ اور یوں اس نے سزا بھگتی کہ سو پیاز بھی کھائی اور سو جوتے بھی کھائے۔ آپ نے کیلے کے چھلکے پر پھسل

ویلنٹائن ڈے پر آگ کے تحفے

  ویلنٹائن ڈے پرمحبت کے اظہارکے لیے گلاب کے پھو ل سے بہتر تحفہ کوئی نہیں سمجھا جاتا۔لیکن اس بار اس دن محبت اور پھول پھولوار کے بجائے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے ایک دوسرے کو گرما گرم تحفے ارسال کئے ہیں ۔ اس نے ماحول میں آگ سی بھر دی ہے۔ میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں انتہائی دل گرفتہ انداز میں بیتے ہوئے ماہ و سال کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ جمہوریت صدر زرداری کے ہاتھوں میں غیر محفوظ ہے اور یہ کہ انہیں صدر زرداری کے اقدامات سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف دو سال سے جس مخمصے میں گرفتار تھے۔بالاآخر وہ اس سے باہر آگئے اور انھو ں نے واضح انداز میں کہ دیا کہ زرداری کی جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہیں اور صدر زرداری جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہباز شریف میری اجازت سے آرمی چیف سے ملے تھے۔ میاں نواز شریف نے حالیہ عدالتی بحران میں ایک بار پھر عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ججوں کی تقرری کے معاملے پر آئین کے مطابق عمل نہ کیا گیا تو مسلم لیگ ن اعلیٰ عدلیہ کا اسی طرح ساتھ دے گی جیسے عدلیہ بحالی تحریک میں دیا