پولیس کے ہاتھوں موٹر سائیکل سواروں کی تذلیل


پولیس کے ہاتھوں موٹر سائیکل سواروں کی تذلیل


February 18, 2010, 4:27 am


عطامحمد تبسم



کراچی کے شہریوں کو ان دنوں ٹریفک پولیس کے ہاتھوں جو تذلیل برداشت کرنی پرتی ہے۔ ان میں موٹر سائیکل سوار سر فہرست ہیں۔آپ کسی سڑک سے گزر جائیں، پولیس والوں نے کئی موٹر سائیکل والون کو روک رکھا ہوگا۔کاغذات کی چیکنگ اور اس کے ساتھ ہی جوڑ توڑ کا کاروبار آپ کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوگا۔اس چیکنگ کے دوران یہ واقعہ بھی اسی شہر مین پیش آیاکہ باپ بیٹے ک روک لیا گیا۔بیٹے نے لاکھ کہا کہ میرا باپ بیمار ہے۔ اسے ہسپتال لے جارہا ہوں۔ لیکن بیٹے پر تشدد کیا گیا۔اور باپ کو موبائیل میں ٹھونس دیا گیا۔جہاں اس پر دک کا دورہ پڑا۔اور وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا۔اکثر تھانوں کی حدود میں پولیس والے نوجوانوں کو اپنے ساتھ تھانے لے جاتے ہیں اور تھانے سے فون کیا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ تھانے میں ہے۔اب آپ بھاگتے دوڑتے جائیں گے۔کاغذات دکھانے کے باوجود پولیس والوں کی دال روٹی کا جرمانہ بھی آپ کو ادا کرنا ہوگا۔ ڈبل سواری انگریزی زبان کے الفاظ ہیں جن کااستعمال عام طور پر کراچی میں موٹر سائیکل پر دو افراد کی بیک وقت سواری کے موقع پر کیا جاتا ہے۔موٹر سائیکل کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریب اور متوسط طبقے کی سواری ہے لیکن آئے دن ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے عروس البلادکراچی کے شہریوں کے لئے اس کی افادیت کو شجر ممنوعہ بنادیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کی نااہلی کی سزا کراچی کے مظلوم غریب و متوسط طبقے کو دی جاتی ہے۔حکومتی حلقوں کی طرف سے اس پر پابندی کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ڈبل سواری سے دہشت گردوں اور شرپسندوں کو اپنی مذموم کاروائیوں میں مدد ملتی ہے اس لئے اس پر پابندی عائد رہنی چاہیے۔عوام الناس کے نزدیک حکومت کا یہ مو قف ” عذر گناہ بدتر از گناہ” کے مترادف ہے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے ڈبل سواری پر پابندی لگادینا حکومت کی ذہنی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے ۔حکومتی اہلکاروں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ ڈبل سواری پر پابندی صرف کراچی اور حیدرآباد میں کیوں ہے۔ اندرون سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں حالات زیادہ خراب ہیں وہاں بھی تو پابندی لگا ئی جائے۔پاسبان کے رہنما الطاف شکور اور ان کے ساتھی اس سلسلے میں ایک عرصے سے احتجاج کررہے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ میں بھی اس سلسلے میں ایک درخوست زیر سماعت ہے۔سندھ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس مشیرعالم اورمسٹرجسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے ڈبل سواری پر پابندی کے خلاف دیدارعلی چانڈیو کی درخواست پرسیکرٹری داخلہ سے 10 دن میں رپورٹ طلب کی ہے درخواست گزارکی جانب سے جاوید چھتاری ایڈووکیٹ نے یہ موقف اختیارکیا کہ وکیلوں،ڈاکٹروں اور لیکچرروں کوبھی ڈبل سواری پر پابندی سے مستثنیٰ قراردیا جائے۔عصر حاضر میں سب سے سستا اور مطلوبہ مقام تک فوری رسائی کا واحد ذریعہ موٹر سائیکل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ایسے میں جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں یہ سواری کم آمدنی اور متوسط گھرانے کے دو افراد کے لئے انتہائی موزوں اور باکفایت ذریعہ آمد و رفت ثابت ہوا ہے۔تاہم گزشتہ کئی ماہ سے ڈبل سواری پر پابندی نے ایسے قلیل آمدنی والے متعدد گھرانوں کو اس سہولت سے محروم کردیا ہے۔ڈبل سواری پر اس قدر طویل اور سخت پابندی کے باوجود ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں گزشتہ چند ماہ کے دوران بجائے کمی واقع ہونے کے افسوس ناک حد تک اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر ایک یہ کہنے پر مجبور ہے کہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی پر حقیقتاً معصوم شہری ہی پوری طرح عمل پیرا ہیں جوکہ اس لامتناہی پابندی کے باعث ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں جبکہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی سے ٹرانسپورٹ حضرات تو یقیناً ایک کثیر رقم کی اضافی آمدنی یومیہ وصول کررہے ہیں،جبکہ کم آمدنی والے،ملازم پیشہ افراد اور چھوٹے کاروباری حضرات اس پابندی کی وجہ سے نہ صرف مالی مشکلات کا سامنا کررہے ہبں بلکہ کوئی ایمرجنسی پیش آنے کی صورت میں انہیں انتہائی دشواری اٹھانا پڑتی ہے۔ مندرجہ بالا دشواریوں اور پریشانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہئے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈبل سواری پر عائد پابندی کو فی الفور ختم کیا جائے اور ٹارگٹ کلنگ و اسٹریٹ کرائمز کی لعنت پر قابو پانے اور اس کے مستقل حل کے لئے ایسے ذرائع بروئے کار لائے جائیں جو عام شہری کے روزمرہ معمولات میں دشواری کا باعث نہ بنیں۔



Leave a Comment







ویل ڈن ۔۔۔نسیم حمید

February 12, 2010, 4:36 am

Filed under: Uncategorized

Leave a Comment







ویل ڈن ۔۔۔نسیم حمید

February 12, 2010, 4:20 am

Filed under: Uncategorized





ویل ڈن ۔۔۔نسیم حمید

عطا محمد تبسم



ہمارے ملک میں کتنا ٹیلنٹ ہے۔جو ،سخت کوشی، محنت ،اور لگن کے ساتھ نا مساعد حالات،نا انصافی،اقربا پروری، میرٹ کے قتل عام کے باوجود آگے بڑھنے کی جہدوجہد میں مصروف ہے۔اس ملک کے اصل رکھوالے، اور اس کے ساتھ محبت رکھنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔جو اپنے کچے مکانوں، بغیر کسی کوچنگ، ٹرینگ کے کھیلوں کی دنیا میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں۔ہم اپنی نوجون نسل کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں ناکام رہے ہیں،کراچی کی کچی اور غریب بستیوں میں نسیم حمید جیسی کتنی بچیاں ہیں۔ جوپڑھائی، کھیل، مصوری، آرٹ،فنون کی دنیا میں اپنا اور ملک اور قوم کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ لیکن ان بچوں پر نہ حکومت اور نہ کھیلوں کے فروغ کے نام پر کروڑوں روپے کا ہر سال بجٹ رکھنے والے ادارے کوئی توجہ دیتے ہیں۔ نہ ان کی تعلیم اور صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ لیاری جو فٹبال کے لئے زر خیز علاقہ تھا۔ اسے ہم نے باکسنگ، فٹبال کے بجائے منشیات سے شہرت دی۔ ساوتھ ایشیئن گیمز میں خطے کی ”اسپرنٹ کوئن“ کا اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی نسیم حمید کا گھر پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا۔ اس گھر کے باہر برائے فروخت کا بورڈ لگا ہے ۔ نسیم حمید کے میڈلز اور ٹرافیاں صندوق میں رکھی ہوئی ہیں۔ جن کو سجانے کے لئے کوئی شو کیس نہیں ہے۔وہ مزدورکی بیٹی ہے۔ جس نے ملک کا نام روشن کردیا ہے۔ کورنگی کی نسیم حمید نے 100 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغہ حاصل کرکے جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ جس کے بعد نسیم حمید کو خطے کے میڈیا میں زبردست پذیرائی ملی۔ ایک عرصے کے بعد پاکستان کی اس کامیابی نے دلوں میں جوش اور ولولہ بھر دیا ہے۔ نسیم حمید کی کامیابی کو بھارت اور بنگلہ دیش کے میڈیا میں نمایاں جگہ دی گئی۔ بنگلہ دیش کے مختلف چینلز نے ان کے قدموں کے نشان دکھائے۔ سری لنکن اخبار نے انہیں ”وومن آف دی ریجن“ کا خطاب دیا۔یہ کراچی کی بیٹی ہے۔جس نے ملت اسکول کورنگی اور کورنگی کالج سے میٹرک اور انٹر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ نسیم حمید 40 گز کے گھر میں رہتی ہے۔ اس کی غربت کا یہ عالم تھا کہ اس کے گھر والے اس سے بھی چھوٹے گھر کی تلاش میں تھے۔ تاکہ اس گھر سے فروخت ہونے والی رقم سے گھر کے لیے کچھ ضروری اشیاء خرید لی جائیں ۔ اور جسم اور جاں کا رشتہ قائم رکھا جائے۔ اللہ نے اس بچی کو کامیابی دلائی اور اب طلائی تمغہ جیتنے پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن نے ایک، ایک لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال نے 2 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔۔ ایک بہن، ایک بھائی اور ماں باپ کے ساتھ رہنے والی نسیم حمید کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والے خاندان کی کفیل ہیں۔ مہنگائی کے دور میں اعلان کردہ رقم زیادہ حیثیت نہیں رکھتی لیکن40 گز کے مکان میں رہنے والے ایک غریب خاندان کے لیے یہ رقم ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ایک کمرے کا یہ مکان جس میں وہ مقیم ہیں اس خاندان کی بے بسی کی تصویر ہے۔ نسیم کے والد راج مستری کا کام کرتے ہیں اگر مزدوری مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ کھانے کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔ نسیم حمید آرمی کی ایتھلیٹکس ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان کو ملنے والے9 ہزار روپے ماہانہ ہی اس خاندان کے گزر بسر کا سبب بنتے ہیں۔ کسمپرسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نسیم حمید کو ملنے والے میڈلز اور ٹرافیاں ایک اٹیچی کیس میں رکھے ہوئے ہیں۔ نسیم حمید کی چھوٹی بہن قرة العین بھی کھلاڑی ہے اور سندھ کی فٹ بال ٹیم کی رکن ہیں۔ نسیم کے والد حمید اور والدہ نسرین کو ہی نہیں آج ہرپاکستانی کو اپنی بیٹی پرفخر ہے۔ پاکستان نے ایتھلیٹکس میں چار گولڈ، دو سلور اور چار برانز میڈلز حاصل کئے۔ ۔ بھارت نے ڈھاکا گیمز میں مجموعی طور پر87 گولڈ میڈل اور پاکستان نے انیس گولڈ میڈل جیتے ہیں۔ بنگلہ دیش نے فٹبال اور کر کٹ میں باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ کراچی کی گلیوں اور سڑکوں پر آج کل بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس شہر میں قائد اعظم نے کرکٹ کھیلی ہے۔لیکن اس وقت کھیلنے کے میدان تھے۔اب ہم نے پلازے بنادئے ہیں۔ قائد تحریک کہتے ہیں کہ کچے گھروں میں موجود ٹیلینٹ ملک کو وکٹری اسٹینڈ پر لا سکتا ہے۔ لیکن کراچی والو۔ یہ بھی تو سوچو کہ یہ ٹیلنٹ جھگیوں،میں کیوں ہے۔ ان کی تعلیم وتربیت ، بنیادی سہولتیں فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک نسیم حمید کا مسئلہ نہیں بلکہ اس ملک کے ۰۹ فیصد عوام کا مسئلہ ہے۔



1 Comment







کمر میں چھرا

February 11, 2010, 5:11 am

Filed under: Uncategorized



عطا محمدتبسم



زندگی کی قدریں اور روایات کس طرح تبدیل ہورہی ہیں ۔ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ٹیلی ویژن کے رنگین اسکرین پر زندہ انسان کو پھٹتے ہوئے دیکھنا،انسانوں کے بکھرتے ہوئے اجسام اور بھڑکتے ہوئے آگ کے شعلے ہماری نوجوان نسل پر کیا اثرات مرتب کررہی ہے۔ ہمیں اس بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ کراچی پر پے در پے قیامتیں گزر رہی ہیں۔ اور ہم اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔دھماکوں کے بعد پہلا اعلان تو یہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کو ۲ لاکھ اور زخمیوں کو ۰۵ ہزار معاوضہ دیا جائے گا۔ ہم انسانی جانوں کو روپوں اور پیشوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس آگے ہماری نظر ہی نہیں جاتی۔ ٹیلی ویژن کا اسکرین چند لمحے ماحول کو اداس رکھتا ہے اور پھر آپ کو گانے ، ناچ، اور دوسری رنگ رلیوں میں مصروف کردیتا ہے۔ طرح طرح کی معرکہ آراء باتیں قصے کہانیوں میں ڈھل کر آپ کو کوئی فیصلہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔سنتے آئے ہیں، مگر یہ ہوشربا مناظر اب آپ کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کا ایک طلسم کدہ ہے۔ ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ خاص طور پر مختلف چینلز کے کبھی نہ ختم ہونے والے طلسمی جال نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو جکڑ رکھا ہے۔ گھریلو خواتین کیلئے ان کی اہمیت ایک وقت کا کھانا تیار کرنے کے مترادف ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات زیادہ تر گھریلو مسائل، رشتوں کے اقدار، محبت و نفرت کی جنگ اور خواہشوں کے نت نئے انداز کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان کہانیوں میں روایتی ہیرو، ہیروئن کے انجام سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کر گئی ہے کہ ڈرامہ کی کہانی تمام کرداروں کا باری باری طواف کرتی ہیں اور اس طرح سے ایک لامتناہی سلسلہ سالہا سال سے چلتا آ رہا ہے۔ روز مرہ کے عام موضوعات سے لے کر کٹھن مراحل زندگی کو سلجھانے کی کوشش اور نت نئے موضوعات کی دلفریبی نے ناظرین کو ا ±لجھا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح اس طلسم ہوش ربا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پروگرام بچوں کے ہوں یا بڑوں کے زمانے کی رنگینی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آزادی و لذت کے وہ سارے سامان میسر ہیں جو ہر آج کو رنگین بنا رہے ہیں اور ہر کل سے بے خوف کر رہے ہیں۔ اگر اس سراب نظر سے توجہ ہٹائی جائے تو کچھ اہم باتیں توجہ طلب ہیں جہاں یہ ڈرامے اعلیٰ تفریح اور سبق آموز کہانیوں کا مسکن سمجھے جاتے ہیں وہیں نئی تہذیب اور کلچر کو بھی جنم دے رہے ہیں۔ ہم جس بھی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس کا تو اب احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے روزمرہ معاملات اب اس تربیت کے باعث ہمیں مختلف دکھائی دیتے ہیں ہمارے رسم و رواج کے اندر جو کچھ ملاوٹ ہو چکی ہے شاید اس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے دور کی نئی تہذیب کے جو ثمرات ہمیں مل رہے ہیں اس کا کریڈ ٹ اس ذہن کو دینا چاہیے جس نے کامیابی کے ساتھ اپنا رنگ ہمارے اوپر رنگ دیا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلنے دیا۔ ا ±مید یہ ہے کہ ہم ، جو کہ اس دلدل میں ب ±ری طرح پھنس چکے ہیں اور بچنے کیلئے ہاتھ پاو ¿ں مار رہے ہیں، اگلے مرحلے پہ اپنا وجود کھو چکے ہوں گے۔ جہاں ہمارے پاس دوسروں کی برائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو احساس دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی ا ±تار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپرواہ ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔آج ہماری قوم کے نوجوان بچے جس رنگ کو اپنا رہے ہیں کیا وہ ہمارا اپنا رنگ ہے؟ کیا ہمارا یہی ورثہ ہے کہ اگر ایک طرف ہم امپورٹڈ اشیائے صرف پسند کرتے ہیں تو کیا دوسری طرف امپورٹڈ لائف اسٹائل کو بھی اپنا لیں جو چاہے ہماری تہذیب کی کمر میں چھرا ہی گھونپ رہا ہو؟



Leave a Comment







January 31, 2010, 3:27 pm

Filed under: Uncategorized

یہ کیسا مقدمہ ہے

عطا محمد تبسم

یہ ایک ایسی مظلوم عورت ہے۔ جس کی پکار پر کوئی ابن قاسم مدد کو نہ آیا ۔ اس پر ظلم کرنے والے خود اس کی اپنی قوم کے افراد ہیں۔ جو کبھی غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوجاتے تھے۔ آج ڈالروں کی جھنکار نے انھیں اپنی قوم کی اس بیٹی کی چیخوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ایک مظلوم نہتی عورت ، جس کے بچوں کو اس سے چھین کرمار ڈالا کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہے۔اس مقدمے پر ساری دنیا کی نظریں ہیں،یہ امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ہے۔اس مقدمہ دیکھنے کےلئے عدالت کی عمارت کی اندر اور باہر فٹ پاتھ پر پاکستانی اور مقامی امریکی مرد و عورتوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ یہ لوگ علی الصبح عدالت کی عمارت کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں برقعہ پوش اور حجاب پہنے عورتیں بھی تھیں، باریش نوجوان بھی، بچے بھی تو لبرل قطع وضع اور خیالات رکھنے والے مرد اور عورتیں بھی۔ ’ کچھ ایسے بھی ہیں جو صرف ایک مسلمان اور انسان ہونے کے ناطے ڈاکٹر عافیہ کے پیشی پر آئے ہیں۔ یہ حجاب پہنے خاتون اپنی دو جواں سال بیٹیوں اور چھوٹے بچے لے کر آئی ہیں۔ عدالت کو بتایا جارہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے پیٹ میں زخم ہے اور آنتوں سے خون جاری ہے اور اب تک انہیں حکومت کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھا رہی‘۔ جج ۔۔۔لیکن اب تک انہیں کسی ڈاکٹر یا لائسنس یافتہ فزیشن کو کیوں نہیں دکھایا گیا؟‘ امریکی وکیل استغاثہ ۔۔۔ مدعاعلیہ اپنا طبی معائنہ کسی خاتون ڈاکٹر سے کروانا چاہتی ہے اور خاتون ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوسکیں‘۔ یہ ہے امریکہ کا انصاف ۔ ایک اور جھلک ملاحظہ ہو ۔۔۔۔ استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے گواہ احمد گل نے، جو افغانستان میں امریکی افواج کے لیے مترجم تھے، عدالت کو اٹھارہ جولائی سن 2008 کے واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی کمر اس پردے کی طرف تھی جس کے پیچھے ڈاکٹر صدیقی موجود تھیں۔ جب امریکی فوجی کیپٹن سنائیڈر نے چینخ کر کہا کہ ”اس کے پاس رائفل ہے” تو انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ ڈاکٹر صدیقی بندوق اٹھائے پلنگ کے پاس کھڑی تھیں۔ مسٹر گل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو رائفل سمیت دھکا دیا

اور جب امریکی چیف وارنٹ افسر نے ان کے پیٹ میں گولی ماری تب وہ بمشکل ان سے رائفل چھین پائے۔ اس دوران ان کے مطابق رائفل سے دو گولیاں چلیں۔ گزشتہ روز کیپٹین سنائیڈر نے بیان دیا تھا کہ ڈاکٹر صدیقی رائفل تانے پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھیں۔ وکیل صفائی لنڈا مورینو کے پوچھنے پر مسٹر گل نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھے نہیں دیکھا۔ وکلاءصفائی کی جرح پر مسٹر گل نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ امریکی حکومت کے تعاون سے امریکہ منتقل ہو چکے ہیں اور امریکی شہریت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ہیں خریدے ہوئے گواہ ۔۔ لیجئے ایک اور گواہ ملاحظہ کیجئے۔یہ گیری وڈ ورتھ ہیں، جو کہ رہی ہیں کہ میں نے بیس برس پہلے اس لڑکی کو بارہ گھنٹے کے نشنل رائفل کے بنیادی کورس میں پسٹل شوٹنگ کارتے ہوئے دیکھا تھا،جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہزاروں طلبہ میں سے اس طالبہ کو بیس برس بعد کیسے شناخت کرسکتی ہیں تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔اس لڑکی نے چار سو سے بارہ سو راونڈ چلائے تھے۔لیکن یہ پشٹل سے چلائے تھے۔ کسی رائفل سے نہیں چلائے تھے۔اس جواب سے ساری عدالت کو ششدر کردیا ´ ایک اور گواہ ایف بی آئی کے ایجنٹ بروس کیمرمین کا کہنا تھا کہ جولائی ۸۰۰۲ میں عافیہ نے انھیں بتایا تھا کہ میں نے یہ رائفل ڈرانے کے لئے اٹھائی تھی ۔ تاکہ میں فرار ہوسکوں ۔ میں نے اس بیان کے بارے میں اپنے اعلی حکام کو آگاہ کردیا تھا،لیکن جب دفاع کے وکیل ایلن شارپ نے اس ایف بی آئی کے ایجنٹ کو اس کے تحریر کردہ نوٹس دکھائے جس میں ایسی کسی رائیفل کا کوئی ذکر نہ تھا تو اس کی زبان گنگ رہ گئی۔ یہ ہیں عافیہ کے مقدمے کے گواہ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی جن کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا جا تا رہا۔ لیکن ان کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان کے صوبے غزنی کے ایک پولیس ہیڈ کوارٹر میں ان سے تفتیش کے لیے آنے والی امریکی ٹیم پر ایم فور رائفل سے حملہ کیا۔استغاثہ کے پیش کردہ ایف بی آئی کے ماہرین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر صدیقی کی انگلیوں کے نشان ان کاغذات پر سے تو ملے ہیں جو مبینہ طور پر حراست کے وقت ان کے پاس سے دستیاب ہوئے تھے لیکن اس رائفل پر نہیں ملے جس سے انہوں نے مبینہ طور پر گولیاں چلائی تھیں۔ مقدمے کی ابتدائی سماعت نے اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کرلی جب عدالت کو بتایاگیاکہ ملزمہ نے مبینہ طور پر جس گن سے امریکی فوجیوں پر گولیاں چلائی تھیں اس بندوق پر عافیہ صدیقی کی انگلیوں کے نشان یا کوئی اور ثبوت موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس بندوق سے فائر کی گئی گولیوں کے خول موجود ہیں جبکہ دوران سماعت عافیہ صدیقی نے ایک بار پھر امریکہ کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ انہیں امریکہ کی عدالت سے انہیں انصاف کی توقع نہیں اور مجھ پر لگائے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیںیہ ہیں اس مقدمے کے ثبوت جن کا کوئی سر ہے نہ پیر۔ پراسیکیوٹر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ عافیہ صدیقی کا القاعدہ یا طالبان سے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی اس تعلق کے شبہ میں ان کے خلاف کوئی الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میںاس مظلوم عورت کا مقدمہ ہے ۔ مستقبل میں سپر پاور کے خلاف ایسی ایف آئی آر ہوگی۔ جس سے مشرف اور بش کبھی نہ بچ سکیں گے۔



Leave a Comment







January 29, 2010, 4:36 am

Filed under: Uncategorized

فیس بک بھی جاسوسی کا ہتھیار ہے



عطا محمدتبسم



گذشتہ سال جب میں نے اپنے دوست کو جب فیس بک پر آنے کی دعوت دی تو مجھے اس کی ای میل موصول ہوئی کہ مجھے اپنے بارے میں امریکن سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد کو ساری تفصیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کا خیال تھا کہ اس ویب سائٹ کی تمام معلومات سے امریکہ اور اسرائیل فائدہ اٹھائے گا۔ اس وقت میں نے اس خیال کو رد کردیا تھا۔ لیکن اب یہ بات حقیقت کو روپ دھار چکی ہے کہ اسرائیل یہ ویب سائٹ مخالفین کے بارے میں مفید معلومات کے حصول اور لوگوں کے ذہنوں تک رسائی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران سماجی روابط کے فروغ کے لئے انٹرنیٹ ویب سائٹ فیس بک کے صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے.اس سائٹ کے استعمال کنندگان اپنے مخصوص دوستوں کے لئے خاندان کے افراد کی تصاویر پوسٹ کرتے یا اپنے بارے میں نئی معلومات فراہم کرتے ہیں اور ایسا وہ یہ سمجھ کر کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ ان کے نجی استعمال میں ہے لیکن حال ہی میں فرانس سے شائع ہونے والے ”اسرائیل میگزین” نامی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس زیادہ ترعرب اور مسلمان صارفین پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے اور وہ ان کے فیس بک کے صفحات کو ان کی سرگرمیوں اور سوچ وفکر کے تجزیے کے لئے استعمال کر رہی ہے. میگزین کی اس رپورٹ پر اسرائیلی حکومت اور سفارتی حلقوں نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور پیرس میں متعین اسرائیلی سفیر نے میگزین پر دشمن کو کلاسفائیڈ معلومات فراہم کرنے کاالزام عاید کیا ہے. فرانس کی ایک یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جیرارڈ نیروکس نے بتایا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے اسرائیل کی خفیہ سرگرمیوں کا انکشاف مئی 2001ءمیں ہوا تھا.نیروکس ”انٹرنیٹ کے خطرات” نامی کتاب کے مصنف ہیں.ان کا کہنا ہے کہ ”یہ اسرائیلی نفسیات دانوں پر مشتمل ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے جو عرب دنیا اور خاص طور پر فلسطینی اسرائیلی تنازعے سے متعلق ممالک اور لاطینی امریکا کے ممالک پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں”. پروفیسر نیروکس نے میگزین کو بتایا کہ”مردوں کی ایک بہت بڑی تعداد خواتین سے ملنے کے لئے اس ویب سائٹ کو استعمال کرتی ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے کیونکہ یہ مردوں کو دھوکا دینے کا ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے ان کی خامیوں کا بھی پتا چلایا جا سکتا ہے”.ان کا کہنا تھا کہ کسی مرد کی جاسوسی کے لئے کسی خاتون کو استعمال کرنا تو بہت ہی آسان کام ہے. یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل پرعام لوگوں کی جاسوسی کے لئے فیس بک کو استعمال کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے. اپریل 2008ء میں اردن کے ایک روزنامے الحقیقہ الدولیہ میں ”پوشیدہ دشمن” کے عنوان سے شائع شدہ ایک مضمون میں بھی اس سے ملتے جلتے دعوے کئے گئے تھے. اخبار نے لکھا تھا کہ یہ بہت ہی خطرناک رجحان ہے کہ لوگ خاص طور پر نوجوان کسی دوسرے کی باتوں پراعتماد کرتے ہوئے فیس بک یا اسی طرح کی سماجی روابط کی ویب سائٹس پر اپنی جملہ ذاتی تفصیلات کا اظہار کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان عناصر کا بآسانی ہدف بن جاتے ہیں جو اس طرح کے لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں”. فیس بک کا نام عالمی سیاست میں بھی کوئی اجنبی نہیں ہے اور اسے مختلف ممالک کے اپوزیشن گروپ اپنی مہم کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں.ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد بدامنی کے دوران بھی اپوزیشن گروپوں نے اس سائٹ کو مظاہروں کو منظم کرنے کے لئے استعمال کیا تھا. ”اسرائیل میگزین” کی رپورٹ کے مطابق فیس بک سے صہیونی ریاست کے دشمن ممالک میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کے بارے میں صہیونی انٹیلی جنس کو مفید معلومات فراہم ہوتی ہیں جنہیں وہ اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس کی روشنی ہی میں صہیونی دوسروں کے بارے میں اپنے فیصلے کرتے ہیں.موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔اس سائنسی دور میں دشمن دور بیٹھ کر ڈرون حملے کرتا ہے۔ وہ موبائیل فون کی چپسس کے ڈریعے اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ آج کل جو خودکش حملے کئے جارہے ہیں ۔ ان میں بھی موبائیل چپس کا استمال بعیداز قیاس نہیں ہے۔ہمیں دشمن کے ان ہتھکنڈوں کا مقابلہ بھی انہی ہھتیاروں سے کرنا ہوگا۔ اور اس کے لئے ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔



Leave a Comment







January 24, 2010, 2:47 pm

Filed under: Uncategorized



بلیک واٹر ایک حقیقت ہے

عطامحمد تبسم

گورنر پنجاب کے بیٹے کی شادی کے موقع پر وزیر داخلہ رحمن ملک نے لیاقت بلوچ سے گلہ کیاہے کہ ان سے بغیر کسی تحقیق کے وزارت داخلہ سے استعفیٰ طلب کیا جارہاہے ۔ لیاقت بلوچ نے ان سے کہاکہ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی کی خود تصدیق کر دی ہے تو مزید کس تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ نے بھی بیان دیا ہے کہ حکومت کا یہ موقف کبھی نہیں رہا کہ بلیک واٹر پاکستان میں موجود نہیں ہے تو حقیقت بالکل عیاں ہو گئی ہے ۔اس موقع پروزیر داخلہ رحمن ملک نے وہاں موجود سینئر ایڈیٹرز اور سیاستدانوں کی موجودگی میں کہاکہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں پاکستان میں بلیک واٹر تنظیم کا کوئی آپریشن یا سرگرمی نہیں ہے ۔میڈیا کے ایک خاص حصہ نے امریکہ کے وزیر دفاع سے مہارت اور چالاکی سے سوال کیا اور اپنے مطلب کا جواب نشر کر دیا ۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے اصرار کر کے کہاکہ میرا واضح اور دوٹوک موقف ہے کہ پاکستان میں بلیک واٹر تنظیم کی کوئی سرگرمی نہیں ہے اگر یہ ثابت ہو جائے تو وہ اپنے اعلان کے مطابق وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے ۔ امریکی وزیر دفاع اور ہمارے وزیر داخلہ دونوں بڑے بھولے ہیں۔جو اخبار والوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ حالانکہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز تو چیخ چیخ کر کہہ رہا کہ امریکہ کے سابق فوجیوں پر مشتمل نجی کمپنی کو، جس کا پہلا نام ’بلیک واٹر‘ تھا سی آئی اے دہشت گردی کے خلاف مہم میں القاعدہ کے خلاف ڈرون حملوں میں استعمال کرتی رہی ہے۔نیویارک ٹائمز نے سرکاری حکام اور سکیورٹی کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازموں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس کمپنی کے اہلکار پاکستان اور افغانستان میں موجودہ خفیہ اڈوں پر ڈرون طیاروں پر ’ہیل فائر‘ میزائل اور پانچ سو پونڈ وزنی لیز گائیڈڈ میزائل لگانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ یہ کام ماضی میں سی آئی اے کے اپنے ماہر انجام دیتے تھے۔اخبار کے مطابق کمپنی سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو ان خفیہ اڈوں کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔برطانوی اخبار گارڈین نے بھی نیو یارک ٹائمز کی اس خبر کو شائع کیا ہے اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ بلیک واٹر کی خفیہ کارروائیوں میں شمولیت کی خبروںنے صدر بش کے دور میں سی آئی اے کی کارروائیوں پر نئے قانونی سوالات کو جنم دیا ہے۔اخبار مزید کہتا ہے کہ ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ القاعدہ کے سرکردہ اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا پروگرام کیا دانستہ طور پر کانگریس سے مخفی رکھا گیا۔کانگریس نے انیس سو چھہتر میں ویتنام اور لاطینی امریکہ میں سی آئی اے کی ’ٹارگٹ کلنگ ‘ کی کارروائیوں پر سماعت کے بعد اس طرح کی کارروائیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ لاطینی امریکہ میں مخالفین کو ہلاک کرنے کی کارروائیوں میں فیدل کاسترو پر چھبیس ناکام قاتلانہ حملے بھی شامل تھے۔ بلیک واٹر کمپنی جس کا نیا ’ایکس ای‘ ہے اور جسے ’زی‘ پکارا جاتا ہے کس قدر مہارت اور استعداد کی حامل ہے۔کمپنی کی کارروائیوں اور خاص طور پر عراق میں اس کے اہلکاروں کے رویئے کی بنا پر اس کو شدید تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اسے مستقل طور پر سی آئی اے کی طرف سے کروڑوں ڈالر کے ٹھیکے دیئے جاتے رہے اور یہ پھلتی پھولتی رہی۔اخبار کے مطابق بلیک واٹر کے موجودہ اور سابق اہلکاروں سے کیئے جانے والے انٹرویوز سے سی آئی اے کے القاعدہ کے کارکنوں کو ہلاک کرنے کی کارروائیوں میں بلیک واٹر کی شمولیت کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ بلیک واٹر کو ان کارروائیوں میں سن دو ہزار چار میں پورٹر جے گاس کے سی آئی اے کے سربراہ بننے کے بعد شامل کیا گیا۔حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے نے بلیک واٹر کے ایگزیکٹیویز کو ’لائسنس ٹو کل‘ یا قتل کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دی تھی۔ تاہم ان کرائے کے فوجیوں کو القاعدہ کے سرکردہ ارکان اور سرگرم کارکنوں کو پتا لگانے اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔سی آئی اے کے اس پرگروام سے آگاہی رکھنے والے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ لبلبی دبا کر کسی کو ہلاک کرنا سب سے آسان کام ہوتا ہے اور اس میں زیادہ مہارت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا اصل میں لبلبی دبانے تک کا جو کام ہوتا ہے وہ اصل اہمیت رکھتا ہے۔سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ کسی دہشت گردی کو پکڑنے اور پھر اس کو ہلاک کرنے کی سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے پیشگی اجازت ضروری ہوتی ہے اور اسے وائٹ ہاو ¿س کے سامنے بھی پیش کیا جاتا ہے۔بلیک واٹر کے سی آئی اے کے ساتھ بزنس معاملات زیادہ تر خفیہ رہے لیکن اس کے امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ معالات منظر عام پر آ گئے۔ امریکہ وزارت خارجہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عراق میں اپنے سفارت کاروں کی سکیورٹی کے لیے بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرتا رہا ہے جس سے کئی تنازعات بھی کھڑے ہو گئے تھے۔عراق میں سترہ شہریوں کی ہلاکتوں پر بلیک واٹرز کے پانچ ارکان پر امریکہ میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔کمپنی کے خفیہ آپریشن کے لیے امریکی ریاست نارتھ کیرولائنہ میں ’بلیک واٹر سلیکٹ‘ سے ایک بہت بڑا دفتر موجود ہے۔ اس کمپنی کا سی آئی اے کی طرف سے پہلا ٹھیکہ سن دوہزاردو میں کابل میں نئے اڈے کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کا تھا۔نیویارک ٹائمز کمپنی کے موجودہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے لکھتا ہے کہ کمپنی کے ملازمین کو ڈرون طیاروں پر ہیلر فائر اور لیزر گائڈڈ میزائل نصب کرنے کی تربیت نویڈا میں قائم نیلس ایئر بیس پر دی جاتی ہے۔اخبار نے کئی اور سرکاری اور کمپنی کے ملازمین کے حوالے سے لکھا ہے کہ سی آئی اے ایک عرصے تک پاکستان کے صوبے بلوچستان میں قائم فضائی اڈے شمسی سے ڈرون طیاروں کی پروازیں کرتی رہی ہے لیکن حال ہی میں جلال آباد میں ایک نیا اڈہ بنا لیا گیا ہے۔سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اب جلال آباد سے زیادہ تر ڈرون طیاروں کی پروازیں ہوتی ہیں جہاں ہر گھنٹے میں ڈرون طیارہ اڑتے یا اترتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں شمسی بیس اب بھی استعمال ہو رہا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ نے جلال آباد میں اڈہ قائم کرنے کا فیصلہ اس بنا پر کیا کہ کہیں پاکستانی حکومت عوام میں پائے جانے والے امریکہ مخالف دباو ¿ کا شکار ہو کر ملک میں موجود اڈے بند کرنے کا مطالبہ نہ کر دیں۔بلیک واٹر کے ملازمین ڈرون حملوں کے اہداف کی نشاندھی میں شامل نہیں ہوتے اور ان پر نصب میزائیلوں کو چلانے کا بٹن لینگے ورجینیا میں بیٹھے سی آئی اے کے اہلکاروں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ایجنسی کے بہت کم ملازمین افغانستان اور پاکستان میں موجود ہوتے ہیں۔بلیک واٹر کے کرائے کے لوگوں کا ڈرون حملوں میں شامل ہونا بعض اوقات تنازعات کا بھی باعث بنتا ہے۔ جب کبھی بھی ڈرون سے داغے میزائل اپنے ہدف سے چوک جاتے ہیں سی آئی اے والے بلیک واٹر کے ملازمین کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔بلیک واٹر ایک حقیقت ہے۔ ہم نے شترمرغ کی طرح اپنی گردن ریت میں چھپا لی ہے،ڈالرزکی چمک نے ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے۔ ہم امریکیوں کے جدید غلام ہیں جو ان کی سچائی پر بھی پردہ ڈالتے رہتے ہیں۔کاش ہم میں تھوڑی سی بھی قومی غیرت ہوتی۔



1 Comment







January 23, 2010, 3:44 pm

Filed under: Uncategorized

قائد اعظم کا خواب

عطامحمد تبسم

نوید آصف الحمرا ہال لاہور کے اس جلسے میں کوئی سیٹ نہ ملنے پر سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔جس میں اسے گولڈ میڈل ملنا تھا۔ اس نے لاہور بورڈ کے امتحان میں پورے نو سو انیس نمبر حاصل کرکے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔دوسری پوزیشن حاصل کرنے والا طالب علم اوکاڑہ کے گاﺅں ناریوال سے تھا۔اس کا اسکول اس کے گھر سے سات کلو میٹر دور تھا۔ جہاں وہ روزانہ پیدل جاتا تھا۔اس جلسے میں آنے سے پہلے وہ شام کو اپنی ماں کے پاس بیٹھا تھا۔ کہ لاہور میٹرک بورڈ کے اہلکاروں کی ایک ٹیم اسے دھونڈتی ہوئی اس کے گاﺅں پہنچی۔ نوید اقبال اور اس کی ماں ان کی آمد کی خبر پا کر ڈر سے گئے۔ چند دن پہلے ان کی بھینس چوری ہوگئی تھی۔چوری کے اس واقعے سے وہ دلبرداشتہ تھے۔پھر انھیں خوشخبری سنائی گئی کہ نوید اقبال لاہور میٹرک بورڈ کے امتحان میں دوسرے نمبر پر آیا ہے۔ اور کل وزیر اعلی پنجاب اسے ایک تقریب میں گولڈ میڈل دیں گے۔نوید اقبال لاہور الحمرا پہنچ گیا۔ لیکن اس جلسہ گاہ میں جہاں اس کی اعلی کارکردگی کو سراہا جانا تھا، اس کے لئے کوئی نششت خالی نہ تھی۔وہ جلسہ گاہ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔پھر جب اس کا نام پکارا گیا تو پتہ چلا کہ یہ تو وہ طالب علم ہے جس نے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔اسپنچ کی چپل پہن کر اس نے گولڈ میڈل حاصل کیا اور اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ جب وزیر اعلی پنجاب کی اس پر نظر پڑی تو انھوں نے اسے بیٹھے کے لئے اپنی سیٹ آفر کی۔نوید آصف کے لئے قائد اعظم ایک رول ماڈل ہیں ۔ وہ ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے۔ یہ ملک پاکستان کو بناتے ہوئے اس کے خالق کو خیال تھا کہ یہ ملک ایسا رول ماڈل ہوگا جہاں حق داروں کو ان کا حق ملے گا۔ میرٹ اور قابلیت پر لوگوں کی قدر کی جائے گی۔لیکن یہاں محنت اور قابلیت والوںکی کیسی ناقدری ہے۔ ڈگریاں والے کیسی ذلت سے دوچار ہیں۔نوکریاں آج بھی پارٹی والوں کو سفارش والوں کے لئے ہیں۔ باقی کے لئے خجل خواری کے سوا کچھ نہیں ہے۔”جناح آف پا کستان”کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔”بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔شیکسپئر کہتا ہے کہ کچھ لوگ پیداہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہداور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کر لیتے ہیں گو کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح میںعظمت و قابلیت اور نیک نامی کی ساری خوبیاں پیدائشی تھیں اقبال نے کہا تھا کہ دو سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند۔ لیکن جناح آئے توبرصغیر میںایک آزادمسلم مملکت کے قیام کاوہ دیرینہ خواب پورا ہو اجو مسلمانان ہند گزشتہ دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔آج بھی پاکستان میں نوجوان نسل ہی سے اس ملک کی تعمیراور ترقی کی امیدیں ہیں، لیکن یہ امیدیں اس وقت پوری ہوں گی جب ہم نوید اقبال جسے ہونہار بچوں کو ان کا حق دیں گے۔ ان کو عزت اور احترام سے وہ سیٹ دیں گے۔ جس کے وہ حقدار ہیں۔اگر ہم اسی طرح حق تلفیاں کرتے رہے۔ بلوچستان،سندھ، اور پسماندہ طبقوں کو یونہی روندتے رہے۔ تو قائد اعظم کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا



Leave a Comment







دنیا کی اہم ترین اور انتہائی طاقتور شخصیات

December 14, 2009, 7:39 am

Filed under: Uncategorized

دنیا کی اہم ترین اور انتہائی طاقتور شخصیات

عطا محمد تبسم

مجھے طاقت اور اقتدار سے محبت ہے لیکن یہ محبت ایک آرٹسٹ جیسی محبت ہے ۔جیسی ایک فنکار اپنے وائیلن سے کرتا ہے۔ نیپولین بونا پارٹ کا یہ قول آج کی دنیا میں پوری طرح صادق نہیں آتا۔دنیا میں ہر شخص کو اپنے اقتدار سے محبت ہے۔ چاہے یہ اقتدار اور طاقت کسی عورت کو اپنے گھر پر ہو چاہے کسی دفتر میں کسی باس کوحاصل ہو۔لیکن اصل مزا تو طاقت کے نشے میں ہے۔ جو بادشاہوں کو بادشاہ بناتا ہے۔ایک سربرہ مملکت کی طاقت کا نشہ کچھ دیگر چیز ہے۔یہ قوت اور اقتدار ایک مزہبی پیشوا کے اقتدار سے مختلف ہوتا ہے۔قوت اور حکمرانی کے دائرے مختلف ہوتے ہیں۔کسی صحافی کے قلم کی طاقت کا کسی دہشت گرد کی طاقت سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا،لیکن جب تک قوت اور طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ کسی کی طاقت کا صحیح اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔کیا کوئی شخص دنیا کے بہت سے لوگوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ پوپ بینڈیٹ ایک ارب سے زیادہ افراد کے مذہبی پیشوا ہیں۔یعنی دنیا کے چھٹے حصے پر ان کا اثر نفوز ہے۔ دنیا کو چلانے والی اہم ترین اور انتہائی طاقتور شخصیات کی ایک فہرست امریکی بزنس میگزین ”فوربز“ نے شائع کی ہے اس فہرست میں سربراہان مملکت بڑے سرمایہ دار سوشل ورکرز، مذہبی پیشوا حتیٰ کہ مجرموں کو بھی شامل کیا گیا ہے مذکورہ جریدہ کے مطابق یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی اثرو رسوخ اور اختیارات کی حامل ہیں۔ 2009ءکی طاقتور شخصیات کی فہرست مرتب کرنے والے صحافیوں نے کہا کہ فہرست مرتب کرنے سے قبل ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ”اختیار یا طاقت کی حقیقت کیا ہے؟“ اور کسی شخص کے با اثر ہونے کی کسوٹی کیا ہونی چاہیے؟ اس کے نتیجے میں اثرو اختیار کی چار اقسام سامنے آئیں“ مائیکل نور اور نکول پرل روتھ نے کہا کہ ”کسی ایک کسوٹی یا رویہ پرپورا اترنے والا شخص با اثر اور با اختیار نہیں، ضروری ہے کہ ایسی شخصیت چاروں جہات کی کسوٹی پر پورا اترتی ہو۔ پہلی کسوٹی: کیا ایسا شخص دیگر بہت سے لوگوں پر اثر اور اختیار رکھتا ہے؟دوسری کسوٹی: کیا یہ شخص اپنے معاصرین کے مقابلے میں زیادہ مالی وسائل رکھتا ہے؟تیسری کسوٹی: کیا یہ شخص دیگر بہت سے حلقوں اور شعبوں میں اثرو نفوذررکھتا ہے؟ چوتھی کسوٹی: کیا یہ شخص اپنے اثرو رسوخ اور اختیار کا باقاعدہ استعمال کرتا ہے؟

اس طے کردہ اصول کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کواس وقت دنیا کی انتہائی با اختیار اورطاقتور شخصیت قرار دیا گیاہے،۔ چین کے صدر ہو جن تادوسری اہم، طاقتور اور اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیت ہیں جبکہ روس کے صدر ولادی میرپوٹن کو اس فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ۵۸ سالہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز طاقتور شخصیات کی فہرست میں نویں نمبر پر ہیں ۔ اس فہرست میں وہ سب سے زیادہ معمر فرد ہیں۔ جب کہ فہرست کے سب سے کم عمر بااثر افرد میں ۶۳ سالہ گوگل کے بانی سرگے برین اور لیری پیج بھی شامل ہیں جن کا نمبر پانچواں ہے۔ ، پاپائے روم بینی ڈکٹ 11 ویں پوزیشن پر، اٹلی کے وزیر اعظم برلسکونی 12 ویں، جرمن چانسلر انجیلا مرکل 15 ویں، بھارتی وزیر ا عظم من موہن سنگھ 36 ویں، القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن، 37 ویں، ایران کے رہبر اعلیٰ آئت اللہ خامنہ ای 40 ویں اسرئیلی وزیر اعظم بینجمن ناتین یاہو ۵۴ ویں نمبر پر ہیں۔ اس فہرست میں منشیات کے بے تاج بادشاہ جوکین گزمین کو ۱۴ واں نمبر دیا گیا ۔ اس فہرست میں بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل مارک جان تھاپشن بھی شامل ہیں جن کا نمبر ۵۶ واں ہے۔جبکہ ونیز ویلا کے صدر ہوگوشاویز کو آخری پوزیشن 67 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ فوربز کی اس فہرست میںپاکستانی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان اسامہ بن لادن نام ڈال کر خطے کی سیاسی صورتحال پر خاموش تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں ایک نام ایسا بھی ہے۔جو کسی بھی طرح با اثر اور با اختیار نہیں کہے جاسکتے ہیں ۔اور اس حوالے سے طے کردہ اصول و ضوابط کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتا ہے یہ شخصیت وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی کی ہے جریدے کے مطابق گیلانی ان افراد میں شامل ہیں جو مجموعی طور پر 10 کروڑ انسانوں میں اپنا اثر و نفوذ رکھتے ہیں یوسف رضاگیلانی کو اس فہرست میں 38 ویں پوزیشن دی گئی ہیں ۔ وزیراعظم 17 ویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات کے بغیر بے اثر تصور کئے جاتے ہیں،ان کے مقابلے میں صدر آصف زرداری کے پاس مالی و سائل بھی بہت زیادہ ہیں اور ایک اندازے کے مطابق انکی مالیت 40 ارب ڈالر سے زائد ہے اور گیلانی نے اپنے انتخابی گوشوارے میں اپنے اثاثوں کی مالیت صرف دو لاکھ بتائی ہے۔ اس فہرست میں مائیک ڈیوک کا نمبر ۸ واں ہے۔ جو امریکہ میں پرائیوٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ ملازمین رکھتے ہیں،وہ وال مارٹ کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔نیویارک ٹایمز کے ایگزیکیٹیو ایڈیٹر بل کیلر بھی اس دوڑ میں ۷۵ واں نمبر پر ہیں۔جن کے اثر رسوخ اور وسائل انڈسٹری کے دیگر افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کسی شخص کت عہدے سے اس کی قوت اور اثر کا اندازہ لگانا مناسب نہیں ہے۔ اس کے لئے کسی فرد کی سوچ،دانش مندی،مثبت انداز فکر،کردار،اخلاقیات اور اس کے کام کو بھی سامنے رکھا جانا چاہئے۔یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا اس نے قوت اثر رسوخ کا صحیح سمت میں استعمال کیا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کامیاب لوگوں کے پیچھے کچھ اور شخصیات ہوتی ہیں۔وہی قوت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں میںروتھ چائلڈ اور راک فیلر کے نام لئے جاتے ہیں، جن کے سامنے اوباہامہ اور ہیلری کیلنٹن کٹھ پتلی شمار کئے جاتے ہیں۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ دنیا میں غربت، مسائل،مشکلات تباہی کا سبب یہی لوگ ہیں،جو دنیا کو جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنارہے ہیں۔دنیا انھیں سچائی، انصاف کا علمبراد سمجھتی ہے۔لیکن یہ اخلاقیات کے ادنی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔



Leave a Comment







نجیب پیجی تو ہمیں بہت یا آئے گا۔

December 13, 2009, 7:51 pm

Filed under: Uncategorized

نجیب پیجی تو ہمیں بہت یا آئے گا۔

عطا محمد تبسم



بدھ کی شام کراچی پریس کلب میں بہت گہماگہمی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں ہیومین نیٹ ورک کا سیمینار تھا۔پریس کلب کے سابق صدر نجیب احمد کی تقریر بہت جذباتی تھی۔ ظلم اور زیادتی کے واقعات اسے ہمیشہ جذباتی کردیتے تھے۔ وہ ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کر تا تھا۔ چاہے اس حمایت کے نتیجے میں اسے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔کسی کا کوئی کام ہو وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ کسی کا ساتھ دینا ہو۔ کوئی وعدہ نبھانا ہو،کسی کے ساتھ جانا ہو۔ وہ ہمیشہ وقت پر پہنچ جاتا تھا۔شاید یہی اس کی مقبولیت کا سبب تھا۔ اس نے دل کا روگ پال رکھاتھا۔ لیکن وہ بہت سے صحتمند افراد سے زیادہ کا م کرتا تھا، سیاست میں بہت سے نازک مقام آتے ہیں ۔ لیکن اس کی مسکراہٹ جو اب خواب اور خیال ہوگئی ہے۔بہت سے شکوﺅں کا بہت پیارا سا جواب ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس سے پہلی ملاقات کب کہاں ہوئی تھی۔ لیکن اس پہلی ملاقات کے بعد وہ دل میں رہتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد اس کی یاد دل کو کچھ اس طرح گرفت میں لئے ہوئے ہے کہ کسی پل چین نہیں پڑتا۔بار بار اس کی صورت سامنے آتی ہے۔ اور ایک تیر سا دل میں لگتا ہے۔طارق اسلم نے جمعرات کو فون پر یہ اطلاع دی۔تو ذہن پر سناٹا چھا گیا۔پیجی اب اس دنیا سے چلا گیا۔ کتنے سارے لوگوں کو سوگوار کرکے۔ صحافت میں اس نے اپنا مقام خود بنایا تھا۔وہ ان تھک کام کرنے والا کارکن تھا۔کام کو منظم کرنے کی اس کی صلاحیتیں بے پناہ تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوست دلدار تھا۔ دوستوں کی دلداری کرتا تھا۔ دائیں بائیں بازو کے سب لوگ اسے پسند کرتے تھے۔ کراچی پریس کلب کے انتخابات اس کی مقبولت کا پیمانہ تھے۔ کئی سال سے وہ مختلف عہدوں پر کامیاب ہوتا رہا۔ ۸۰۰۲ کے سالانہ انتخابات میں نجیب نے 440 ووٹ لیکر سب سے زیادہ ووٹ لینے کا اعزاز حاصل کیا۔اس کے مدمقابل صدر کے عہدے کے امیدوار صبیح الدین غوثی نے 264 لے سکے تھے۔گذشتہ سال وہ پہلی بار الیکشن ہار گیا۔لیکن اس نے اس ہار کو اپنی جیت بنا لیا تھا۔کیونکہ اس کی ہار میں اس کے دوستوں کا ہاتھ تھا۔اور وہ دوستوں کی کامیابی پر نازاں تھا۔اس نے اپنے دوستوں کے دئیے ہوئے اس تمغہ شکست کو اپنے سینے پا سجائے رکھا ۔اور اسی میدان میں اس شان سے کھڑا رہا۔ کہ دھوکہ دینے والا رو دے۔ ایسی شان سے دھوکہ کھاﺅ۔ کرائم رپورٹر ،بااثرصحافی، جنگ اور جیو کے سینئر رپورٹر اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر کی حیثت سے وہ بہت اختیار رکھتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے اثر رسوخ سے ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کے کام کئے۔ صحافتی حلقوں اور اپنے دوست احباب میں اسے پیار سے ”پیجی“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔یہ نام اس کی شخصیت سے مناسبت رکھتا تھا۔وہ اپنے گلی محلے علاقے میں بھی اسی طرح مقبول تھا۔جامعہ ملیہ میں اسلامی جمعیت طلبہ وابستگی کے بعد اس نے اپنے اس تعلق کو ہمیشہ نبھایا۔ وہ جمعیت کا رکن بنا۔اور اس نے رضائے الہی کے حصول کو اولیت دی۔ اکتوبر 1961ء کو پیدا ہونے والے نجیب احمد کی یہ عمر جانے کی نہ تھی۔ لیکن اسے جلدی تھی اس لئے اس بہت سے بڑے بڑے کام بہت تھوڑے عرصے میں کر لئے۔جمعیت کے ہفتہ کتب کے موقع پر اس نے کہا تھا٬ کہ لوگ مختصر سی زندگی مےں ڈاکے ڈالتے ہےں اور لوگوں کی جانےں لےتے ہےں مگر جمعےت کے کارکنان نوجوانی کی عمر مےں طلبہ کی امداد اور انکا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کےلئے ہفتہ کتب منعقد کر کے فنڈز جمع کر رہے تاکہ کوئی طالبعلم تعلیم سے محروم نہ رہ جائے اس کام کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔نجےب احمد نے کہا تھاکہ آپ جو کام کر رہے ہےں اسے بھرپور طرےقے سے جاری رکھےں اس راہ مےں رکاوٹےں بھی آئےں گی اور مخالفےن آپ پر تنقےد بھی کرنگے مگر طلبہ کی بھلائی اور انکی خدمت کا کام جاری رکھےں۔یہی اس کا مشن تھا۔ اس نے مخالفین اور تنقید کی کبھی پروا نہیں کی۔ وہ آزادی صحافت کا جرنیل تھا۔ پرویز مشرف کے پورے دور میں اس نے جرات کے ساتھ آمریت سے لڑائی لڑی۔کراچی میں صحافیوں اور آزادی صحافت کی حامی دوسری تنظیموں نے مزارِ قائد پر دھرنا دیا تو پریس کلب سے ریلی نکالی گئی جس کی قیادت پاکستان میں صحافیوں کی تنظیم کے رہنما مظہر عباس۔ کراچی پریس کلب کی صدر صبیح الدین غوثی اور نجیب احمد نے کی۔کراچی میں صحافی رشید چنا، عبدالطیف ابو شامل، محمد طاہر، علی الطاف اور زاہد خٹک کی گرفتاری اور پولیس چھاپوں کے خلاف یہ ریلی نکالی گئی تھی۔شہر میں ایک بڑے عرصے کے بعد صحافیوں نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔اس موقع پر جلوس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے صد کی حییثیت سے نجیب احمد نے کہا تھاکہ اس ملک میں ڈکٹیٹروں نے حکومت زیادہ عرصے کی ہے اور اس دور میں بھی صحافیوں نے اپنے فرائض کوڑے کھاکر اور جیلوں میں جاکر بھی ادا کیے ہیں۔ کراچی پریس کلب نے پہلے ضیاالحق کو للکارہ تھا۔جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ اب صدرمشرف کے خلاف جدوجہد کی جائیگی۔ چینلز کی بندش اور پیمرا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کے دوران ایک سو اکیاسی صحافیوں کی پریس کلب سے گرفتاری کے موقع پر اس کی جرات اور بہادری یاد رہے گی۔ کئی مواقع پر نجیب کی گرفتاری کے لئے پریس کلب کا گھیراﺅ کیا گیا۔ لیکن اس کے ماتھے پر کبی شکن نہ آئی اور اس نے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کی۔روز نامہ ”اسلام ”کراچی کی بندش کے خلاف احتجاج میں سوائے چند چینلز کے تمام نشریاتی اداروں کی جانب سے شدیدمایوسی کا سامنا رہاتھا۔تاہم اس موقع پر صحافی حلقوںکی جن چند شخصیات ”پی ایف یو جے ”کے سیکریٹری مظہر عباس،روالپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے صدر مشتاق منہاس، بزرگ صحافی عبدالحمید چھاپرا، کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری خورشید عباسی ، یوسف خان،مقصود یوسفی کے ساتھ کراچی پریس کلب کے صدر نجیب احمد، سیکریٹری امتیازخان فاران کی آواز سب سے توانا تھی۔نجیب کی موت نے کراچی پریس کلب کو سوگواری کی چادر اوڑھا دی ہے۔اگلے ہفتے کراچی پریس کلب کے الیکشن ہیں، لیکن اس بار ایک مہربان چہرہ نظر نہیں آئے گا۔نجیب پیجی تو


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل