امریکی سفیر کی تردید یا تصدیق




امریکی سفیر کی تردید یا تصدیق

عطا محمد تبسم

یہ پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی سفیرکو پاکستان میں امریکی عزائم کے بارے میں وضاحت کرنی پڑی ہو۔امریکہ نے اس سرزمین کو اپنی جاگیر سمجھا ہے، اور شائد اسی لئے امریکی سفیر یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ ہم پاکستان کو بھاری امداد دے رہے ہیں۔ اس لئے سفارتخانے کی توسیع کی جارہی ہے، امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کی تردید تو کی لیکن انھوں یہ اعتراف بھی کیا کہ امریکی سفارت خانے نے اسلام آباد میں ۸ا ایکڑ اراضی خریدی ہے، یوں پاکستان میں امریکی سفارت خانہ وہ پہلا سفارت خانہ ہے جس کے پاس پاکستان میں سب سے زیادہ اراضی ہے۔ امرکی سفیر نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے پاس دو سو مکانات ہیں۔ ظاہر ہے یہ ۰۲۱ گز والے مکانات نہیں ہیں۔ ۰۰۰۱ گز کے مکانات بھی ہوں گے تو اس کامطلب ۰۰۲ ہزرار گز زمین ہوا۔امریکی سفیر کا ارشاد ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کیلئے امداد میں اضافہ کے باعث سفارتخانہ کے انفراسٹرکچر میں توسیع کی ضرورت ہے اور توسیع کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی امریکی میرینز کی تعداد 20 سے کم رہے گی۔ انہوں نے سفارتخانہ میں امریکی میرینز کی تعداد میں خطرناک اضافہ کی رپورٹوں کی تردید کی اور کہا کہ اس وقت 9 میرینز سفارتخانہ میں کام کر رہے ہیں جن کی ذمہ داری سفارتخانہ کے اندر سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں امریکہ کے 150 سفارتخانوں کی اندرونی سیکورٹی کیلئے ایک ہزار میرینز تعینات ہیں۔ اس لئے یہ ناممکن ہے کہ صرف پاکستان میں ہزاروں میرینز تعینات کر دیئے جائیں اور ان میرینز کی ذمہ داری صرف سفارتخانہ کے اندر کی سیکورٹی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت سفارتخانہ میں 250 مستقل امریکی عملہ ہے جبکہ ایک ہزار سے زائد پاکستانی عملہ مختلف سیکشنز میں کام کر رہا ہے اور 200 عارضی عملہ ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان میں جاسوسی کرنے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اس مقصد کیلئے سفارتخانہ میں توسیع کی ضرورت ہے۔ امریکی سفیر نے سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کی تردید کی۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ۸۱ ایکڑ اراضی کی خریداری کا یہ معاہدہ کس دور میں اور کن شرائط و ضوابط کے تحت ہوا۔ اور کیا کل بھارت بھی پاکستان سے ایسی ہی سہولیات مانگے۔ تو پاکستان کی حکومت بھارت کو یہ سہولتیں دے گی۔

امریکی سفیر نے بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرنے کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سفارتخانہ اور بلیک واٹر کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں، نہ ہی بلیک واٹر امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ کام کر رہی ہے۔لیکن اس بارے میں اب بھی اطلاعات ہیں کہ بلیک واٹر پاکستان میں کام کررہی ہے۔ اور ہوٹل میرٹ اسلام آباد میں جو حملہ ہو تھا وہ انھی میرین کے شبہے میں کیا گیا تھا۔ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ امریکہ پاکستان اور افغانستان کے معروضی حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے فوجی افسران کی خصوصی تربیت کیلئے انٹیلی جنس کا دائرہ بڑھا رہا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی فوج کے سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پٹراس ہفتے میں انٹیلی جنس ٹریننگ سنٹر کا افتتاح کرنے والے ہیں۔ اس سنٹر کو ”سنٹر فار افغانستان پاکستان ایکسی لینس“ کا نام دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق امریکی دفاعی انٹلی جنس ایجنسی کے ریٹائرڈ کرنل دیرک ہاروے اس سنٹر کے سربراہ ہوں گے۔ انٹیلی جنس سنٹر میں مستقبل کے تجزیہ نگاروں اور افسران کو تربیت دینے کے علاوہ انہیں پشتو اور دیگر علاقائی زبانیں سکھائی جائیں گی۔ یہ تمام تر تیاریاں خطے میں امریکہ کی طویل المدتی موجودگی کا اظہار ہیں۔ جس پر اس ملک کے عوام اور سیاسی قائدین کی تشویش کا بے وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔

حال ہی میں امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیکل مولن نے پھر کہا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کرنیوالے منصوبہ ساز تاحال زندہ ہیں اور وہ امریکا پر مزید حملوں کی سازش کررہے ہیں۔ امریکن لیجن کے اکانوے سالانہ کنونشن کے موقعے پر خطاب کرتے ہوئے ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ گیارہ ستمبر کو امریکا پر حملے کرنے والے نہ صرف زندہ ہیں بلکہ وہ حملوں کی سازش پاک افغان سرحدی علاقے سے کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں سے کوئی ایک یا دونوں ممالک انتہاپسند نظریئے کے شکنجے میں آجائیں۔ مولن کا کہنا تھا کہ امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے ان کو یہی مشن سونپا گیاہے کہ وہ اس سازش کو ناکام بنادیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی انتہاپسندوں سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ ایساف کے زیر اہتمام افغانستان میں القاعدہ اور اسکے اتحادیوں کیخلاف جنگ جاری ہے ،اسلئے انہوں نے پاکستان افغانستان کورڈی نیشن سیل کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ خطے کے مسائل پرخصوصی طور پر کام کرے کیونکہ ہمیں ان ممالک کی اس حوالے سے مدد کرنے کی ہے۔

پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے۔نائیں الیون کے قضیے میں اس کی کوئی براہ راست ملوث ہونے کی بات نہ تھی۔ یہ مشرف ہی کی مہربانی ہے کہ انھوں نے نیند سے اٹھ کر بش کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا، جس کے نتیجے میں انہیں ڈالرز تو مل گئے۔ لیکن پاکستان میں امریکی عمل دخل اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب امریکی نے اسے اپنی زرخرید لونڈی سمجھ لیا ہے۔ مشرف دور کا خاتمہ ہوچکا۔ ان کے دور کے سیاہ کاریوں کا اب حساب ہورہا ہے۔ اور امریکہ سے ہونے والے خفیہ معاہدے بھی ابھی بے نقاب ہونے ہیں۔ایسے میں حکومت پاکستان کو سفارتی آداب اور قوانین کے مطابق امریکہ کو ملک میں وہی سہولیات دینی چاہیئے جو امریکہ میں پاکستان کو حاصل ہیں۔ اور جو سفارتی درجہ رکھتی ہیں۔



Leave a Comment







آٹے چینی پر عوام کی ذلت

August 31, 2009, 7:11 am

Filed under: Uncategorized

آٹے چینی پر عوام کی ذلت

عطا محمد تبسم

سٹی ناظم سید مصطفے کمال کے کارناموں میںسب سے بڑھ کر پریڈی اسٹریٹ کی تعمیر ہے۔جس کے ذریعہ کراچی کے عوام کو بندر روڈ کے متبادل ایک نیا راستہ ملا ہے۔ ابھی اس سڑک پر کئی مسائل ہیں۔سب سے بڑھ کر تو یہ کہ اس سڑک کی تعمیر سے لائینز ایریا کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔دونوں طرف کی آبادی کو ایک دوسری طرف جانے کے لئے سڑک پر نہ تودرمیان میں کوئی کٹ دئے گئے ہیں،اور نہ ہی بچوں، خواتین کو آنے جانے کے لئے کوئی محفوظ راستہ جس کی وجہ سے آئے دن حادثات کا دھڑکہ لگا رہتا ہے۔ صدر میں ایمپریس میں ٹریفک آکر پھنس سا جاتا ہے۔ بس والے بسوں کا آڑھا تیڑھا کرکے راستہ بند کردیتے ہیں ۔جس کے لئے ٹریفک پولیس بھی بے بس نظر آتی ہے۔ نوتعمیر شدہ پریڈی اسٹریٹ صدر میں قائم پتھارے، ٹھیلے اور دیگر تجاوزات قائم ہیں۔ جن سے سٹی حکومت کے اہلکار گزشتہ چار دن سے نبرد آزما ہیں۔ اور اب یہ جگہ میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔دو دن پہلے تجاوزات کرنے والوں نے فائرنگ کرکے ٹریفک مینجمنٹ پر مامور سٹی وارڈنز کے 6اہلکاروں کو شدید زخمی کردیا تھا۔جس کے باعث پریڈی اسٹریٹ صدرمیں ٹریفک معطل ہوگیا۔ اب بھی یہاں پولیس مامور ہے۔ اور کسی بھی ناخوشگوار حادثہ کا امکان ہے۔ سٹی حکومت، اور ڈی سی او شہر سے گرانی ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری کے خاتمے کے لئے سرگرداں ہیں۔ لیکن پھل فروش، سبزی فروش، دودھ ،چینی،گوشت بیچنے والے اب کسی کی نہیں سنتے،قانون ان کے لئے موم کی ناک ہے، جسے جب چاہے رشوت اور بھتہ دے کر جیسے چاہے موڑا جا سکتا ہے۔ رمضان المبارک میں افطار اور سحر کے موقع پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی عذاب کردی ہے۔ اس مستداد یہ کہ حکومت نے رواں سال اکتوبر سے بجلی کے نرخ میں بتدریج مزید 24 فیصد اضافے کا فیصلہ کرلیاہے جس سے مجموعی طور پر بجلی کا ہر یونٹ 24فیصد مہنگا ہوجائے گا۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ان چند شرائط کا حصہ ہے جو عالمی مالیاتی فنڈ نے حکومت پاکستان کو اضافی قرض فراہم کرنے کے لیے مقرر کی تھیں۔اس طرح حکومت کی جانب سے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی جائے گی۔

آٹے کے لئے پریشان اور غریب لوگوں کو ایک وزیر کی جانب سے تھپڑ مارنا باعث افسوس ہے۔ چینل پر عوام کی بے توقیری کے مناظر عام ہیں۔عوام کو آٹا بھیک کی صورت میں دیا جا رہا ہے۔ حکومت گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے خاتمے میں ناکامی کا غصہ عوام پر ننکالا جارہا ہے۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے موثر اقدامات کرنے چاہیئے تھے۔ شہریوں کو رعایتی قیمت 10روپے فی کلو کے حساب سے آٹے کی فروخت ایسے بے ہنگم طریقے پر کی جارہی ہے،جس سے حکومت کا امیج متاثر ہورہا ہے۔ اس پر عوام کے غم وغصے کا اندازہ اس سے کیا جاستا ہے کہ اب تک سستے آٹے کے پانچ ٹرک عوام کی جانب سے لوٹے جاچکے ہیں۔پھر اس آٹے کی چور بازاری بھی ہورہی ہے۔



منگائی کے خلاف سٹی حکومت کے مجسٹریٹس نے گرانفروشوں کے خلاف کریک ڈاو ¿ن جاری کر رکھا ہے۔ علاقوں میں اچانک چھاپے مار کر دکانداروں کو گرفتار کر کے جیل کی سزا سنائی جارہی ہے۔ گرانفروشوں کے چالان کر کے لاکھوں روپے جرمانہ کیا جارہا ہے۔ لیکن شہریوں کو مقررہ قیمتوں پر آٹا، چینی، فروٹ، سبزی اور کریانہ آئٹمز کی دستیابی نہیں ہورہی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر کراچی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزرائ ، مشیروں اور اراکین سندھ اسمبلی پر مشتمل 4ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو رمضان المبارک کے دوران قیمتوں کی نگرانی کریں گی اور مختلف مارکیٹوں میں چھاپے ماریں گی ۔لیکن حکومت نے اس کوڑے کو بہت تاخیر سے حرکت دی ہے۔ اب جبکہ پورا نظام خراب ہوچکا ہے۔ اور ہر گروہ من مانی کر رہا ہے تو معاشرہ میں تبدیلی کیسے آئے گی۔ اس پر حکومت کو سوچنا چاہیئے اور طویل المدت منصوبہ بنانا چاہیئے۔ رمضان یکایک تو نہیں آئے نہ ہی چینی اور آٹا اچانک مہنگا ہوا ہے۔ اس میں ہمارے پالیسی سازوں کا عمل دخل ہے۔



Leave a Comment







محسن قوم

August 21, 2009, 5:39 am

Filed under: Uncategorized

محسن قوم

عطا محمد تبسم



اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے پاکستان کا کوئی قانون نہیں توڑاتھا۔ وہ اس قوم کے محسن اور ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ غلط تھے پاکستان نے این پی ٹی معاہدہ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کوئی ملکی قانون نہیں توڑا تھا۔یہ صرف ایک آمر کی کاروائی تھی جو اپنے اقتدار کو بچانے اور امریکی حمایت کے حصول کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوٹی وی پر لے کر آئے اور ان سے زبرستی بیان دلوایا۔ مشرف نے امریکہ کو یقین دلایا کہ میں آپ کا بہترین خادم ہوں۔۔ دنیا کے نقشہ پر پاکستان پہلا مسلمان ملک ہے۔ جس نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ۔بھارت ، اسرائیل، ساو ¿تھ افریقہ، ایران ، شمالی کوریا جیسے ملکوں نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لئے دنیا کے کسی نہ کسی ملک سے توتعاون حاصل کیا ہی ہوگا۔ یہ قانونی طور پر ہوا یا غیر قانونی طور پر یہ ایک جدا بحث ہے۔ اسرائیل کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے سلسلے میں برطانیہ نے مدد کی امریکہ آج بھی اس کی پشت پناہی پر کھڑا ہے۔دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے۔ جس نے اپنے سائنسدانوں کے ساتھ یہ حشر کیا ہو۔ پرویز مشرف نے جو جرائم کئے ہیں۔ان میں ڈاکٹر قدیر کی توہین کا سنگین جرم بھی شامل ہے۔ جو پوری قوم کی توہین کے مترادف ہے۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا نا ضروری ہے۔۔جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کئی ممالک کو غیر قانونی طور پر فراہم کرنے کے الزام میں چار برس سے زیادہ کا عرصہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے گھر پر نظر بندی میں گزارا۔ سنہ دو ہزار چار میں ڈاکٹر قدیر سے سرکاری ٹیلی ویژن پرزبردستی نشرکروائے جانے والے بیان میں کہلوایا گیا تھاکہ ایٹمی راز منتقل کرنا ان کا ذاتی فعل تھا اور اس میں حکومت یا اس کا کوئی ادارہ ملوث نہیں تھا۔جس کے بعد سے اسیر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آز ادانہ نقل وحمل اور میل جول پر پابندیا ںعائد کردی گئی۔جو بعد میں نئی حکومت کے آنے اور عدالت سے ملنے والے ریلیف کے نتیجے میں ان کی رہائی پرختم ہوئی۔

یورپی اور امریکی دنیا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ایک عرصے سے سازش کے انداز میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔اور اکثر یہ خبریں گردش میں رہتی ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور جوہری ہتھیار غیر محفوظ ہیں، اور یہ کسی بھی وقت شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں،جسے ایک خام خیالی، یا چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاسکتی۔پاکستان کا پروگرام محفوظ اور ذمہ دارہاتھوں میں ہے۔ اوراب تک ہمارے سائینسدانوں نے اس بارے میں انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔

امریکی سفارت خانے نے حال ہی میں اسلام آباد میں سفارت خانے کے لئے حکومت سے ۸ا ایکٹر زمین اور ۵ا سو سے زیادہ میرین رکھنے کی درخواست کی ہے۔جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہونی چاہیئے۔ کیوں کہ اس طرح پاکستان کا ایٹمی منصوبہ براہ راست خطرے کا شکار ہوجائے گا۔پاکستان میں توانائی کے حالیہ بحران میں بھی یہ بات پوشیدہ ہے کہ پاکستان کو کبھی بھی پرامن مقاصد اور توانائی کے حصول کے لئے ایٹمی بجلی گھربنانے اور چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔اور کراچی میں قائم ایٹمی بجلی گھر پر ہمیشہ شک و شبے کا اظہار کیا گیا۔

اس کے برعکس سابق سودیت یونین کے ایک شہر چر نوبل کے ایٹمی مرکز میں فنی خرابی پیدا ہونے سے ۶۸۹۱ءمیں دھماکہ ہوا تھا جس کے بعد وہاں سے ایٹمی تابکاری پھیلنے کا عمل شروع ہوا۔ اس کے تباہ کن اثرات اب تک رونما ہورہے ہے۔ چرنوبل کے ایٹمی ری ایکٹر کے چاروں طرف ایک وسیع علاقہ (جو انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے مشترکہ رقبہ کے برابر ہے) ایسی تباہی سے دو چار ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چرنوبل کا نام اس سزا کی علامت بن چکا ہے جو ترقی (پروگریس) کی بے قید خواہش کا لازمی نتیجہ ہے۔ اندازہ ہے کہ ۶۸۹۱ء کے اس حادثہ سے اب تک ۰۹لاکھ انسان متاثر ہو چکے ہیں۔ تابکاری سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں پر ابھی تک تباہ کن اثرات کا عمل جاری ہے۔ چرنوبل کے قریب کے علاقے سے چار لاکھ افراد کو ان کے گھروں سے نکلا گیا اور اگلے۰۳ برس تک یہ لوگ واپس اپنے گھروں کو نہیں گئے۔ اس امر کی واضح شہادتیں موجود ہیں کہ بیلور شیاراور یوکرائن کے لوگوں کو ایٹمی بابکاری کے نتیجہ میں خطر ناک بیماریاںلاحق ہوگئی جن میںمختلف اقسام کے کینسر بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنس کی دنیا میں اس صورت حال کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی (جاپان کے وہ شہر جن پر امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹم بم پھینکے تھے) کے سلسلہ میں جو تجربات حاصل ہوئے تھے وہ اس تابکاری کے معاملہ میں کسی کام کے نہیں ہے۔ ناگا ساکی اور ہیرو شیما میں ہونے والے دھماکوں کے دوران ایک مختصر گھڑی میں تابکاری کی بہت بڑی مقدار خارج ہوئی تھی، جبکہ چرنوبل کے حادثہ میں خارج ہونے والی تابکاری کی کل مقدار ان دو ایٹم بموں کی تابکاری کی مقدار سے بہت زیادہ ہے۔ اور اس کا اخراج آہستہ آہستہ اور بتدریج ہوا بچوں پر اس تابکاری کے اثرات بہت زیادہ نمایاں ہوئے ہیں۔ ان میں Thyroidکینسر کی بیماری میں ڈرامائی اضافہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگوں کا کوئی سراخ نہ مل سکا۔ بہر حال جو اعداد و شمار معلوم ہوسکے ہیں۔ ان کے مطابق صرف رشیا (سودیت یونین کی ایک ریاست میں جن لوگوں کی موجودگی کا پتہ چل سکا ہے۔ ان میں سے حادثہ کے بعد ۰۰۰۷مر چکے ہیں اور ۸۳فی صد اسیے لوگ ہیں جو کسی نہ کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ سوویت یونین کے سابق اکائیاں ، بیلور شیا، رشیا اور یوکرائین اس حادثہ کے سبب پیدا ہونے والے مسائل اپنے محدود وسائل کی وجہ سے حل نہیں کر سکتے۔ بیلور شیامیں چرنوبل کے اس حادثہ کے سبب جو اقتصادی اور صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں ان پر اس ریاست کے سالانہ بجٹ کا پانچواں حصہ خرچ ہورہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کا بہت بڑا رقبہ کسی کام کا نہیں رہا۔ وہاں کھیتی باڑی ہو سکتی ہے۔ اور نہ ہی مکانات تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔

یہود ونصاری کی روائتی اسلام دشمنی کے پس منظر میں پاکستان کے بارے میں اسرائیل کے عزائم بالکل واضح رہے ہیں۔ اسرائیل کے بانی وزیراعظم ڈیوڈبن گوریاں نے 1967ءمیں سوربون یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کے نزدیک پاکستان عربوں سے بھی خطرناک ہے اور ہم اس صرف نظر نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ہمیں پاکستان کابھی خیال رکھنا پڑے گا۔ یہ تقریر 9اگست 1967ءکے جیوش کرانیکل ، لندن میں شائع ہونے والے یہود کے باقاعدہ ترجمان میں شائع ہوئی تھی۔ بن گوریان نے مزید کہا کہ اسرائیل نے دفاعی حیثیت سے ایک بڑی طاقت عمل تشکیل دی ہے۔(جس کا باقاعدہ مظاہر ہ سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر مغربی ذرائع ابلاغ اور بنگلا دیش کے قیام کے لیے انکی تنظیموں وغیرہ کی کارکردگی سے ہوچکا ہے)۔ یہاں تک جیوش کرانیکل نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے والے جنرل جیکب کے یہودی ہونے کی اطلاع اپنے پرچے کے ذریعے دنیا کو دی اور اس کے اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں آگاہ کیا۔ 73ءمیں پاکستان نے عرب اسرائیل جنگ میں جس طرح عربوں کی اور خصوصیت سے شام کی فضائیہ کی انتہائی نازک موقع پر عملی طورپر مدد کی تھی ۔ اسکی یاد شام کے ایئر پورٹوں پر لگی ہمارے شہید پائلٹوں کی تصاویر سے اب تک تازہ کی جا سکتی ہے۔ اسرائیل کو اپنے خدشے کی مزید تائید اس صورت میں حاصل ہو گئی تھی۔ پھر شام کے علاوہ اردن اور سعودی عرب میں ہمارے فوجی مشن کی موجودگی فلسطینوں کی حمایت سے ہمارا تعلق بہت واضح ہوگیا تھا۔۔۔ یہ بھی یقینا اسرائیل بہت اچھی طرح جانتا ہے چنانچہ اس نے بعض جملوں کے ذریعے پاکستان کے بارے میں محض اظہار پر اکتفا نہیں کی بلکہ عملا اپنی حکمت عملی کا ہد ف ہمیں بنایا۔ اس نے ہمارے دشمن انڈیا سے خصوسی تعلقات قائم کیے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان تعلقات اور معاہدوں کو حال ہی میں بہت وسعت دی گئی ہے۔ یہود وہنود کی مشترکہ حکمت عملی کے لیے بے حدکام کیا گیا ہے۔۔ ان تعلقات پر جو اہر لال نرویونیورسٹی (دہلی) میں ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھا گیا ہے۔



پاکستان نقطہ نظر سے ایک کتاب THE UNHOLY ALLIANCE (عالم اسلام کیخلاف ہنداسرائیلی تعاون پر ) محمد حامد صاحب کی لکھی ہوئی جون 1978ءمیں شائع ہوئی۔ اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی کے ریسر چ مصباح الاسلام فاروقی مرحوم نے صہونیت کے عالم اسلام کے خلاف اس کے عزائم کو واضح کرنے کیلئے عالم اسلام میں پہلی مرتبہ کام کیا اور اسے ایک کتاب کی شکل دی۔ jewish conspiracyاس کا اردو میں ترجمہ بھی شائع ہوا تھا۔ بدقسمتی سے ایوب خان کے دور میںاس پر پابندی عائد کردی گئی۔ بعد میں شدید دباﺅ کے تحت ہی یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی۔ فری میسن لاج پر جو عالمی جہموریت کا ایک حصہ ہے۔ پر پاکستان میں پابندی لگا دی گئی۔ 1974ءکی تحریک ختم نبوت کے دوران جب قادیانی خلیفہ مرزاناصرقومی اسمبلی کی کمیٹی میںپیش ہوا تو اس الزام سے انکار کیا کہ قادیانیوں کا کوئی مشن اسرائیل میںہے۔ لیکن 1971ءمیں اسرائیلی مذاہب کے بارے میں ایک کتاب اسرائیل سے شائع ہوئی۔ جس میں بتایا گیا کہ اسرائیل میں اسوقت 600پاکستانی قادیا نی موجود ہیں۔ اور انہیں مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ بھی واضح طور پر تحریر تھا کہ قادیانی اسرائیلی افواج میں شامل ہو سکتے ہیں۔ (جبکہ اسرائیل میں موجود عرب مسلمانوں کو اسرائیلی فوج میں داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔ )ڈان کراچی (17اگست 1970ئ) میں تحریر کیاگیا۔پچھلے چند برسوں سے امریکہ ، یورپ اوربین الاقوامی ادارے پاکستان کے ایٹمی تحقیق کے پروگرام کو شک اورتشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے اسرائیلی لابی کے لوگوں نے مغربی ڈپلومیٹس کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کہ مسلم ممالک میں پاکستان ہی ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے۔ اس امر کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ امریکی حکومت نے پاکستان کے ایٹمی ترقی کے پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم رکھی ہے۔

امریکی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل نوا ز حلقوں نے پاکستان کے خلاف تیزی سے مہم شروع کر رکھی ہے۔۔ امریکہ نے ۶۷۹۱ ہی میں فرانس پر دباﺅ ڈالا کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی مد دنہ کر ے۔ کارٹر انتظامیہ نے کسنجر کی لائن پر چلتے ہوئے پاکستان کی اقتصادی امداد بند کردی صرف اس بات کی سز ا دینے کیلئے کہ پاکستان کیوں فرانس سے ری پرسسنگ پلانٹ لے رہا ہے۔

پاکستا ن کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جاری مہم کو جو کئی برسوں سے جاری ہے۔ اب ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان نے توانائی کے شعبے میں پیش رفت کے لئے کرا چی کا ایٹمی بجلی گھر شروع کیا تھا۔ لیکن پاکستان کے دشمنوں نے اسے اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا۔ جس کے نتیجے میں یہ ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جو درمیا نے درجے کی ایٹمی بنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس کا یہ سلسلہ کامیابی سے جاری ہے ۔ اس نے اب ذمہ دارجوہری سائنسدانوں کی باقاعدہ ٹیم تیار ہے۔ جو اپنے ایٹمی پروگرام کو چلانے اور محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک افواج بھی اپنے اس صلاحیت اور ذمہ داری سے واقف ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کو اس مرحلے پر یہ سوچنا چاہئے کہ اگر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کو پر امن اور توانائی کی سہولتوں کے لئے مواقع فراہم کئے گئے تو یہ ملک نہ صرف امن عالم کی بقا، کے لئے مفید کردار ادا کرسکتا ہے۔ بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی فرنٹ لائن پر اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔



Leave a Comment







August 20, 2009, 12:13 pm

Filed under: Uncategorized

لوٹ سیل جاری ہے

عطا محمد تبسم

دو ماہ قبل کراچی کی مقامی تھوک مارکیٹ میں 100 کلو چینی کی بوری کی قیمت 4350 روپے سے کم ہو کر 4340 روپے اور ‘ درجہ اول گھی کے کنستر کی قیمت 1790 روپے سے کم ہو کر 1780 روپے ہو گئی تھی۔ لیکن دو ماہ کے دوران ہی ایسی لوٹ مار مچی کہ یہ قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ کراچی سٹے بازوں اور منافع خور وں کی جنت ہے۔ یہاں آپ کو سٹے باز بندر روڈ پر کھڑے دور سے آنے والی گاڑیوں کے نمبر پر سٹہ کھیلتے نظر آئیں گے۔ اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیلنے والے ذرا اونچے قسم کے کھلاڑی ہیں ۔ سٹے نے آج ایشاءکی اس بڑی مارکیٹ کو تباہ کردیا۔ اربوں روپے کی سٹے بازی ہوئی۔ لیکن کمانے والے کما کر عیش کررہے ہیں ،اور تباہ ہونے والے اپنی قسمتوں کو کوس رہے ہیں۔پاکستان میں افوہ سازی کی فیکٹریاں لگی ہیں۔ آپ کوئی بھی جھوٹی سچی خبر ایس ایم ایس پر بھیج دیں۔شام تک یہ خبر چینلوں سے نشر ہونے لگے گی۔ بریکنگ نیوز میں نمبر ون ہونے کی دوڑ میں سب کچھ جائز ہے۔ بعد میں وضاحت، تردید، ہوتی رہے گی۔رمضان سے تین ہفتے قبل جب قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا تھا۔ تو ہم نے اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا تھا۔ لیکن یہاں ایسا کون سا ادارہ یا اتھارٹی ہے جو قیمتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ مارکیٹ میں مختلف افواہیں پھیلا کر چینی کی قیمتیں بڑھا نے والے کامیاب ہیں ۔اور بڑے پیمانے پر منافع کمارہے ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میں چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب تو ۰۵ روپے کلو کی سرکاری قیمت کا ت نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیاہے ۔ چینی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ حیر ت انگیز ہے۔ لیکن ان قیمتوں پر حکومت کی جانب سے مہر تصدیق ثبت کرنا۔اس حیرت کا دوچند کردیتا ہے۔ تین ماہ قبل ریٹیل میں چینی کی قیمت 28 روپے کلو تھی۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر جا پہنچی ہے۔

نومبر سے مارچ کاعرصہ چینی کی پیداوار کا عرصہ ہوتا ہے اور اس عرصے میں چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا۔ اس وقت سارے ادارے سو رہے تھے۔ اور متعلقہ وزارتیں اور حکام انتظار کررہے تھے۔ کہ عوام چیخیں چلائیں ۔تو بڑھی ہوئی قیمتوں میں کچھ کمی کر کے اشک سوئی کردیں گے۔ جیسے بجلی کی قیمتوں، یا ٹرانسپورٹ کرائے، یا تیل کی قیمتوں میں کیا گیا، تو کیا مطمعین ہیں کہ اب ایسی کوئی چیٹینگ نہیں ہوگی۔ جی نہیں یہ مافیا پھر کسی اور سیکٹر میں سر اٹھائے گی۔ اور آپ کو حیران کردے گی۔ خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میںنی جانے کن کن چیزوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومتیں کس لئے ہوتی ہیں۔ کیا انھیں مارکیٹ کے ایسے منافع خوروں اور سٹے بازوں کے خلاف فوری ایکشن لینا نہیں چاہئے تھا۔ اگر اسکے ذمہ دار شوگرمل تھے۔ توچینی بڑھتی ہوئی قیمت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کرتے ہوئے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے پاس موجود چینی کے اسٹاک کو کیوں ریلیز نہیں کیا گیا۔ چینی کی قیمت میں اضافے کے باعث شوگرملوں نے تقریباً ۰۵ارب روپے کا منافع کمایاہے۔ چینی کے عوض بینکوں کے قرضوں کی فوری واپسی سے قیمتوں میں فوری کمی ہوسکتی تھی۔ لیکن اس آپشن کو بھی استمعال نہیں کیا گیا۔ بینکاری زرائع کہنا ہے کہ کہ شوگر ملوں نے گنے کی کریشنگ کے وقت بینکوں سے52ارب روپے قرض لیاتھا اور جولائی کے اختتام تک انہوں نے23 ارب روپے کی رقم واپس کردی تھی۔دوسری جانب شوگر ملوں کے پاس تقریباً12 لاکھ ٹن چینی موجود تھی۔ جس کی کرشنگ سیزن میں قیمت33 ارب40کروڑ روپے تھی مگر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اب اس چینی کی قیمت60 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس طرح ملوں کو بغیر کسی محنت کے26 ارب40کروڑ روپے کا فائدہ ہوا ہے۔ دوسری جانب پاکستان شوگر ملرز کا کہنا ہے کہ ملوں کے پاس7 لاکھ ٹن چینی موجود ہے ،اگر ان اعداد وشمار کو درست مان لیا جائے تو بھی19 ارب60کروڑ روپے مالیت کی چینی کی قیمت35 ارب روپے سے زائد ہوگئی ہے اور اس طرح شوگر ملوں کو ان کے اسٹاک پر15 ارب40 کروڑ روپے کا منافع ہوا ہے۔ بینکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک نے شوگر ملوں کوہدایت کی تھی کہ وہ چینی کے اسٹاکس کے عوض لئے گئے قرضوں کو واپس کردیں مگر بعدمیں اس فیصلے کو تبدیل کردیا گیا اور شوگر ملوں کو آئندہ تین ماہ تک قرضے واپس کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں قیمتوں کو کم کرنے کے لئے شوگر ملوں کے چینی کے عوض لئے گئے قرضوں کی فوری واپسی ضروری تھی۔شوگر ملیں پنجاب کی ہوں یا سندھ۔ ان کے مالکان بہت طاقت ور ہیں۔ وہ بنکوں سے قرضہ لے کر، ٹی سی پی سے ایڈوانس لے کر بھی مارکیٹ میں سپلائی نہ دیں تو آپ ان کا کیا بگاڑ لیں گے۔کہا گیا کہ سندھ شوگر ملز کی جانب سے طلب کے مقابلے میں مقررہ سپلائی میں کمی کے باعث چینی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شوگر ملوں کے پاس چینی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن ڈلیوری آرڈرز جاری ہونے کے باوجود شوگر ملوں کی جانب سے چینی فراہم نہیں کی جارہی ہے۔یہ ایک مافیا ہے۔ جس میں سب شریک ہیں۔اور عوام بے حس ہیں۔ جو اپنے حق کے لئے لڑنے سے محروم ہے۔



Leave a Comment







ایک گلوگارہ کے اشارہ ابرو پر

August 17, 2009, 9:27 am

Filed under: Uncategorized

ایک گلوگارہ کے اشارہ ابرو پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عطا ا محمد تبسم



میں اپنی کہانی بعد میں سناﺅں گا۔پہلے یہ خبر پڑھ لیجئے۔انگریزی معاصر اخبار کے مطابق ۴۱ اگست کو پی آئی اے کی ایک پرواز کو جو لاہور جارہی تھی، ایک گلوگارہ شبنم مجید کے پرس کو ڈھونڈنے کے لئے راستے سے واپس اسلام آباد آنا پڑا۔ایر پورٹ پر آکر اس جگہ پرس تلاش کیا گیا ۔ پرس میں ۸۱ ہزر روپے کیش اور سونے کے زیورات تھے۔ جو ظاہر ہے نہیں ملے۔گلوگارہ ایوان صدر میں جشن آزادی کی تقریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد اسلام آباد سے پی کے ۳۵۶ میں واپس لاہور جارہی تھیں۔

میری کہانی یہ ہے کہ ۳۱ اگست کی شام پانچ بج کر ۰۲ منٹ والی پی کے ۱۳۹ کی پی آئی اے کی پرواز سے سکھر سے کراچی آنے کے لئے جب میں سکھر ایر پورٹ پہنچا تو وہاں ایرپورٹ لاونج پر تالے پڑے تھے۔سول ایوی ایشن کا عملہ غائب تھا۔پرواز کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ساڑھے پانچ گھنٹے لیٹ ہے۔ مسافروں کے بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔لاونج بند تھا۔اور متبادل جنریٹر چلانے سے سول ایوی ایشن کے عملے نے انکار کردیا۔اس بدتمیزی اورنالائیقی، بد انتطامی کے لئے پی آئی اے کا ہر مسافر اپنے ٹکٹ میں سے ۰۴۱ روپے سول ایوی ایشن کو ادا کرتا ہے۔اس تاخیر پر پی آئی اے کو نہ کوئی حرف ندامت تھا، نہ مسافروں کی دلجوئی، اور نہ سکھر کی تڑپاتی گرمی میں ٹھنڈے میں بٹھانے،مشروب تو درکنار پانی تک پلانے کو کوئی موجود نہ تھا۔یہ یوم آزادی کی شب تھی۔ پورا پاکستان یوم آزادی کی خوشیان منارہاتھا۔لیکن سکھر ایرپورٹ پر مسافر ۴ گھنٹے شدید گرمی میں بلبلاتے رہے۔مسافروں میں ، عورتیں، بچے، بوڑھے سب شامل تھے۔ لیکن یوم آزادی پرپانچ گھنٹے سے محبوس مسافروں کو پرواز میں کھانا،معمول کےا ،اسنیک،مشروبات سے بھی محروم رکھا گیا۔چھوٹے بچوں کو ٹافیاں یا سوئٹ جس کا جشن آزادی کی مناسبت سے ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ وہ ناپید تھے۔

قومی جھنڈے والی ایر لائین میں مسافروں کی یہ بے توقیری ہے جس کے سبب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پی آئی اے کی پروازوں میں تاخیر پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکام کو طلب کیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف کی جانب سے لئے جانے والے ازخود نوٹس میں کہا گیا کہ انہوں نے خود کئی مرتبہ پی آئی اے میں سفر کیا اور پرواز تاخیر کا شکار ہوئی۔اس کے علاوہ سندھ، پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی متاثر ہوئے اور جوڈیشل کونسل کی میٹنگ میں تاخیر سے پہنچے جس کی وجہ سے اجلاس بھی تاخیر سے شروع کیا گیا۔ عدالت نے اس سلسلے میں ایم ڈی پی آئی اے، ڈی جی سول ایوی ایشن اور لاہور کے ائیرپورٹ منیجر کو طلب کیا تھا۔

یہ بھی پی آئی اے کی بد انتظامی کا تسلسل ہے کہ جس کے سبب صد مملکت کو ایوان صدر میں پی آئی اے کے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے اعلی سطح کا اجلاس بلانا پڑا۔ صدرآصف علی زرداری نے پی آئی اے کے انتظامی امور بہتر بنا کر مسافروں کو آرام دہ سفری سہولیات فراہم کر نے کی تلقین کی ہے ۔ صدر نے اس اجلاس میںہدایت کی کہ پی آئی اے کے انتظامی امور کو بہتر بنا کر معاملات ٹھیک کیے جائیں اور مسافروں کی شکایات دور کر کے انہیں جدید سفری سہولیات فراہم کی جائیں ۔

پی آئی اے ملک کی پہچان ہے۔لیکن بدانتظامی، لوٹ مار،بدعنوانی،اقربا پروری، ناجائز بھرتی،اور اللے تللوں نے اس ادارے کو ایک ایسا مرد بیمار بنا دیا ہے۔ جو بستر مرگ پر سسک سسک کر دم تور رہا ہے۔ اور ہم اب بھی اس سے امیدٰ لگائے بیٹھے ہیں۔حال ہی میں پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا 315 واں اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ جنوری سے جون 2008ءکے دوران ادارے کو 18 ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔جبکہ بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک اجلاس کے بعدوز یر دفاع احمد مختار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اور تیل کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے پی آئی اے کو سال 2008ءکے دوران 39 ارب روپے کا خسارہ ہوا، انھوں نے مستقبل میں بہتری کی امید دلاتے ہوئے بتایا کہ پی آئی اے ملازمین کی اولاد کیلئے ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹا مختص کیا گیا ہے، گریڈ 4 تک کے تمام کنٹریکٹ ملازمین کو بھی مستقل کیا جا چکا ہے،ادھر: قومی ائر لائن کے پائلٹوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ائر لائن پائلٹ ایسوسی ایشن اور انتظامیہ کے درمیان بھی رسہ کسی جاری ہے۔پالپا کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ ایم ڈی پی آئی اے سے مذاکرات نہیں کرینگے بلکہ چیئرمین پی آئی اے سے مذاکرات کرینگے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ۰۸ ( اسی) سے زائد کنٹریکٹ پائلٹوں کو مستقل کیا جائے۔



پی آئی اے میں کیا ہورہا ہے اس پر پبلک اکاونٹس کمیٹی نے سیر حاصل بحث کی ہے ۔ انھوں نے واضح طور پر اس مرد بیمار کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے پی آئی اے میں ایک سال کے دوران 13 ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کو مالی انتظامات بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ کمیٹی نے ایک کھرب 34 ارب 7 کروڑ روپے مالیت کے 8 بوئنگ 777 کی خریداری میں ضابطے پورے نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور پی آئی اے سول ایوی ایشن کے درمیان مقدمہ بازی کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے باہمی تنازعات ثالثی کے ذریعے حل کریں‘ چیئرمین کمیٹی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے کراچی میں واقع ہوٹل مڈوے کی لیز میں ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے اضافہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

کسی دور میں پی آئی اے منافع بخش ادارہ تھا ۔جب عہدوں پر تعیناتی سیاست پر نہیں میرٹ پر ہوتی تھی۔ سیاسی تقرری کے بعد عہدیدار تو پھلنے پھولنے لگے ان کی کاروں کے بیڑے میں تو اضافہ ہونے لگا لیکن ادارے کا بیڑا غرق ہو گیا۔ مشرف دور میں اس ادارے کے ایم ڈی نے جہاز پر شلوگن اور تھیم بدلنے کا ٹھیکہ اپنی بیٹی کو دلوایا۔یوں ۷۹ جہازوں کی فی کس ۵ لاکھ روپے سے تزئین نو کی گئی ۔ ایک سال میں 3 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ایک طرف سالانہ خسارہ بھی اس کے برابر ہے۔دنیا بھر میںنجی ائر لائنز منافع میں جا رہی ہیں۔ لیکن پی آئی اے تباہی سے دوچار ہے۔ انتظامیہ کا اداروں کے ساتھ وفادار ہونا ہی اس کی کامیابی ہوتی ہے۔ جس کا پی آئی اے میں فقدان ہے۔ اس کا اظہار کمیٹی کی کارروائی اور ہدایات سے بھی ہوتا ہے۔ حکومت تیل کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے۔پی آئی اے اس قیمت پر تیل خریدنے سے قبل ہی کرایوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔ تیل کی قیمت کم ہونے پر اضافہ واپس نہیں لیا جاتا ۔یہ مسافروں کے ساتھ ظلم ہے۔ افسروں کی من مانی کا اندازہ مڈوے کی لیز میں اضافے اور پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کی آپس میں مقدمہ بازی سے لگایا جا سکتا ہے۔ پی آئی اے کی انتظامیہ کو اخراجات کے معاملے میں چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلانے چاہئیں۔ مالی بدعنوانیاں تو ناقابل برداشت ہیں۔ سابق افسران کو کٹہرا عدالت میں کھڑا کرکے پوچھنا چاہئے کہ ان کہ غلط فیصلوں نے اداروں کا کیا حشر کیا۔ یہ ادارے پارٹیوں کی جاگیر نہیں ہیں۔ جو جب چاہے یہاں اپنے من پسندیدہ افراد کو بھر دے۔۔ان افسران سے پوچھا جائے کہ ان کے غلط فیصلے کیسے ادارے کو تباہ کررہے ہیں۔اگر یہ اخراجات ذمہ دار افسروں کے ذمے ڈال دئیے جائیں تو چند منٹ میں مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ایک طرف کرائے بے تحاشا ہیں‘ دوسری طرف مسافر پی آئی اے کی سروس سے مطمئن بھی نہیں۔جب ادارے موم کی ناک بن جائیں۔ ایک گلوگارہ کے اشارے پر جہاز کا رخ موڑ دیا جائے۔مسافروں کو بے توقیر اور حقیر جانا جائے ۔تو مسافروں کے دم سے چلنے والی ایر لائین کیسے کامیاب ہوگی۔



Leave a Comment







کالے کوٹ میں کالی بھیڑیں

August 7, 2009, 9:43 am

Filed under: Uncategorized

کالے کوٹ میں کالی بھیڑیں

عطامحمدتبسم

کالے کوٹ والوں نے دو سال کے عرصے میں جو عزت، شہرت او رنیک نامی کمائی تھی۔وہ دو دن میں ہوا ہوگئی۔میڈیا نے اظہار آزادی کے لئے گزشتہ عرصے میں بے حد قربانی دی ہے۔ یہ کیمرے کی سرخ آنکھ ہی تھی۔ جس نے ایک آمر کے اقدامات کو پوری قوم کے سامنے بے نقاب کیا۔پھر کیمرہ مینوں کے کیمرے ٹوٹے، اخبار والوں کے سر پھٹے،خون بہا لیکن یہ قافلہ رکا نہیں۔ چینلوں پر حملے، تر غیب،لالچ،توڑ پھوڑ،پابندیاں صحافیوں سے یہ حق نہ چھین سکی۔جس کا مطالبہ کل لاہور میں وکلاءکے ایک گروپ نے کیا۔ میں اسے وکیلوں کا نمائندہ نہیں سمجھتا۔کیوں کہ اعتزاز احسن نے بھی ان چند خود سر لوگوں کی حرکتوں پر لاہور بار کی رکنیت سے استعفی دے دیا ہے۔ ایک پولیس اہلکار کو مارتے ہوئے وکلاء کی ویڈیو ٹی وی چینلز پر دکھانے کے بعد اور پھر وکلاءکی جانب سے ایک نجی ٹیلی ویڑن کے کیمرہ مین کا سر پھاڑنے اور کیمرہ توڑنے کے واقعات کا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف نے از خود نوٹس لیا تھا جس کی گزشتہ سماعت جاری تھی۔ ۔اس سماعت کے دوران کمرہء عدالت میں کافی بڑی تعداد میں وکلاءموجود تھے۔جونہی سماعت کے بعد صحافی اور وکلاء باہر نکلے تو وکلاء نے صحافیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی براہ راست نشریات کا نظام بند کریں جسے صحافیوں نے تسلیم نہیں کیا جس پر وکلاءنے صحافیوں کے خلاف نعرے لگائے، ان سے بدسلوکی اور گالیاں دیں۔ یہ میں بہت مہذب پیرائے میں لکھ رہا ہوں۔ ورنہ اخبارات میں جو تفصیلات ہیں۔وہ ہمیں عدالتوں پر اس حملے کی یاد دلاتی ہیں،جس نے اس ملک عدالتوں کے قدر ومنزلت کو مجروح کیا تھا۔ اس وقت بھی یہ میڈیا تھا جس نے عدالتی وقار کی بحالی کی جنگ لڑی۔پھر چیف جسٹس کی یہ لائیو کوریج تھی۔ جس نے اس ملک کے لوگوں کا جگایا۔اور سول سوسائیٹی نے ایک طویل اور کامیاب جنگ لڑی۔ صحافیوں نے مال روڈ پر جو احتجاجی مظاہرہ کیاہے۔ اب اس کی لہر پورے ملک میں پھیلے کی اور کالے کوٹ والوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنے گی۔ اب صحافی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ جب تک اس واقعے اور اس سے پہلے ہونے والے واقعات میں ملوث وکلاءکے خلاف قانونی کارروائی کر کے انہیں سزا نہیں دی جاتی تب تک صحافی برادری اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔یہ کیسی خود سری، اورغنڈہ گردی ہے ۔ پنجاب بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی جس نے صحافی کو مارنے والے چار وکلاء کے لائسنس معطل کیے تھے اس نے جمعرات کو ان کے لائسنس بحال کر دیے۔ تو کیا کالے کوٹ قانون سے بالا تر ہیں۔ چند لوگوں کے مسئلے کی وجہ سے پوری وکلاءبرادری کو بدنام کیا جارہا ہے۔کہا جارہا ہے کہ میڈیا اس واقعے کو غیر ضروری طول دے رہا ہے اور کسی حد تک ان کی رپورٹنگ بھی درست نہیں۔ صحافیوں پر کوئی تشدد نہیں کیا اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی فٹیج تھی جس میں وکلاءصحافیوں کو مار رہے تھے ۔ایک طرف وکلاءکہتے ہیں کہ صحافیوں کو ڈسٹرکٹ کورٹس اور سیشن کورٹس میں آنے نہیں دیں گے ۔لیکن کیا وکلاءاس بات میں حق بجانب ہیں۔ کیا عدالتیں ان کی من مانی کاروائیوں کے لئے ہیں۔ایک نجی ٹیلی ویڑن چینل کے کیمرہ مین پر وکلا ء کا تشدد بلا جواز تھا۔کیا اس تشدد کا یہ جواز کافی تھا کہ ٹیلی ویڑن چینل کے کیمرہ مین نے ایک ایسی فٹیج بنا لی تھی جس میں چند وکلا ایک پولیس اہلکار کو مارتے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور یہ فٹیج بعد ازاں تمام ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی۔کیمرہ وہی دکھاتا ہے جو اس کے سامنے ہو۔یہ تو آئینے کے مانند ہے۔ جو ہورہا تھا۔ وہی دکھا دیا گیا۔۔ جہاں انھوں نے اس واقعہ کی فلم بنائی۔ تو کیا کسی فلم کی شوٹنگ تھی۔ یا کوئی پرائیوٹ جگہ تھی۔یہ عدالت تھی۔ جہاں پولیس اور وکلاء دننگے فساد کے لئے نہیں۔ انصاف،اور قانوں کی بالا دستی کے لئے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس اسٹیشن ہو یا عدالت یا کوئی پبلک مقام قانون کی خلاف ورزی، مارنے پیٹنے،اور تشدد کے ایسے واقعات عام ہیں۔ یہ وکلا ءکی بدقسمتی ہے کہ عدالت میں پیش آنے والا یہ واقعہ میڈیا پر آگیا۔ ضلعی عدالتوں میں وکلا کی جانب سے ایسے واقعات کا ہو نا افسوس ناک ہے۔ وکلاء بردری کو اسے وقار کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے ۔ وکلا کی نمائندہ تنظیموں کو آگے بڑھ کر ان وکلاءکے خلاف کاروائی کرنی چاہئے ۔ صحافیوں کے خلاف غم و غصے کے اظہار سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔



Leave a Comment







قائد تحریک کی درخواست کا نمبر کب آئے گا

August 6, 2009, 11:08 am

Filed under: Uncategorized

قائد تحریک کی درخواست کا نمبر کب آئے گا

عطا محمد تبسم



گزشتہ سال کراچی میں بینک اہلکاروں کی طرف سے طفیل شاہ شخص کے گھر پر اس کی خواتین سے بدتمیزی کے واقعہ کے بعد طفیل شاہ نے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی تھی۔ طفیل شاہ نے بنک سے کاروبار کے لئے قرضہ لیا تھا۔ جس کی عدم ادائیگی پر بنک والے اسے ہراساں کر رہے تھے۔لیکن دوسری طرف اسی ملک میں گزشتہ چار سال میں ۹۱۱ ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔17 اکتوبر 1999 کوبینکاری کے شعبے میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بینکوں کے قرض نادہندگان سمیت ایسے افراد جنہوں نے اپنے قرضے معاف کرائے ہیں وہ 4 ہفتوں میں تمام واجبات ادا کریں وگرنہ ان کے خلاف قانون کا آہنی ہاتھ حرکت میں آجائے گا ۔لیکن یہ آہنی ہاتھ ان طاقتور سیاستدانوں،صنعت کاروں،جرنیلوں،جاگیرداروں کا تو کچھ نہ بگاڑ سکاجو اربوں روپے لوٹ کر کھا گئے ،بلکہ عوام کو مکے دکھا کر عوام کی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخصت ہوگیا۔مشرف دور میں ماضی میں معاف کرائے گئے قرضوں کی مد میں تو ایک پیسے کی بھی وصولی نہیں ہوئی ۔لیکن اس دور میں جس تیزی سے قرضے معاف کئے گئے اس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قرضے معاف کرنے والوں میں نہ صرف وہ ممتاز سیاستدان شامل ہیں جو قومی مفاہمتی آرڈیننس 2007ءسے مستفید ہوئے ہیں۔بلکہ وہ بڑے تاجر، صنعت کار اور وڈیرے بھی شامل جن کے پاس ملک کے اندر خطیر رقوم کے اثاثے موجود ہیں جن کو فروخت کر کے بینکوں کے قرضے وصول کئے جا سکتے تھے۔مشرف نے عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ 12 نومبر 1999 کے بعد بینکوں کے نادہندگان اور قرضے معاف کرانے والوں کے نام شائع کر دیئے جائیں گے لیکن ان کے عرصے اقتدار میں کبھی یہ فہرست شائع نہیں کی گئی۔ حالانکہ نواز شریف اور بینظیر کے دور میں یہ فہرست شائع ہوتی رہی تھی ۔

اپریل ۸۰۰۲ میں اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سینٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران سر کاری بنکوں اور مالیاتی اداروں سے 14 ارب 91 کروڑ 93 لاکھ 51 ہزار روپے مالیت کے قرضے معاف کروائے گئے ہیں جبکہ گزشتہ 8 سالوں کے دوران غیر ملکی قرضوں کا حجم 27 ارب سے بڑھ کر 53 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ایک سوال کے تحریری جواب میں سینیٹر اسحاق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ تین سالوں 2005-07 کے دوران صنعتی شعبے سے وابستہ 89 قرض دھندگان نے مجموعی طور پر 8 ارب 57 کروڑ 61 لاکھ 29 ہزار روپے کے قرضے معاف کروائے اس دوران تجارتی شعبے سے وابستہ 12 ہزار چار سو چار قرض دھندگان نے تین ارب30 کروڑ82 لاکھ 20 ہزار روپے کے قرضے معاف کر وائے جبکہ زرعی شعبے سے وابستہ 82442 قرض دھندگان نے تین ارب تین کروڑ پچاس لاکھ دو ہزار روپے کے قرضے معاف کروائے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان بالا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ 30دن کے اندر ملک کے بینکوں سے قرضے معاف کرانے والوں کی تفصیلات جاری کردی جائیں گی ۔لیکن حکومت میں وزارتوں سے علیحدگی کے بعد انھیں اپنا یہ وعدہ یاد ہی نہ رہا۔

سال ۶۰۰۲ میںمسلم کمرشل بنک نے خاموشی سے اپنی سالانہ رپورٹ میں سال2005ء میں مختلف کاروباری و صنعتی اداروں کے 1ارب 3کروڑ روپے سے زائد کے قرضے معاف کر دئیے۔ بینک کی طرف سے جاری کی گئیںتفصیلات کے مطابق سال 2005ءکے دوران 82کاروباری و صنعتی یونٹوں کے 5لاکھ یا اس سے زائد کے قرضے معاف کئے گئے ہیں۔ یہ وہ قرضے ہیں جو گزشتہ سال2005ءکے دوران 31دسمبر تک مختلف کاروباری و صنعتی اداروں کو فراہم کئے گئے تھے۔ مجموعی طور پر 82کاروباری و صنعتی اداروں کو ایک ارب 3کروڑ51لاکھ روپے کے قرضے معاف کئے گئے ہیں۔بینک نے ایڈ کو ٹیکسٹائلز لمیٹڈ اسلام آباد کو47لاکھ روپے ثاقب فیبرکس فیصل آباد کو 70لاکھ روپے، ہائی ٹیک انٹرنیشنل فیصل آباد کو 94لاکھ روپے،ایس ڈی اے کولڈ سٹوریج پشاور کو 2کروڑ،41لاکھ روپے سے زیادہ کا قرضہ معاف کیا گیا ہے۔ رحمن انڈسٹریز سوپ مینو فیکچررز لاہور کو 73لاکھ روپے نظام الدین علی اسبسٹو انڈسٹریز کراچی کو 80لاکھ روپے،علی پور چینوٹ ملز لمیٹڈلاہور کو 1کروڑ 44لاکھ روپے ،سٹار سلیکا انڈسٹریز لمیٹڈ کو 1کروڑ روپے ایس اینڈ کی انٹرپرائزز اسلام آباد کو4کروڑ41لاکھ روپے،جمال ٹیوب ملز لاہور کو20کروڑ،سن شائن جیوٹ ملز لاہور کو 1کروڑ 63لاکھ روپے سے زیادہ کا قرضہ مسلم کمرشل بینک نے معاف کر دیا ہے۔ یہ وہ قرضے ہیں جو مختلف صنعتی اداروں نے گزشتہ سال مسلم کمرشل بینک سے حاصل کئے تھے۔

قرضوں کی معافی کی دوڑ میں بی بی کے پہلے دور میں7.23 بلین اور دوسرے میں6.64 بلین روپے کی قومی رقم بنکوں کو کبھی نہ مل سکی۔۔1985 اور1999 کے دوران نواز شریف نے اپنے ادوار میں سیاسی حمایت کے لئے ارکان اسمبلیوں پر سرکاری خزانے کے تمام دوازے کھول دئیے۔نواز شریف نے سب سے زیادہ قرضے معاف کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا۔نواز شریف کے پہلے دور میں2.39 بلین روپے کے قرضے بیک جنبش قلم معاف ہوگئے۔شوکت عزیز کے زریں دور میں31.63 بلین کا قرض معاف کیا گیا۔نادہندگان کی فہرست میں چوہدری شجاعت چوہدری پرویز الہی،جام یوسف اور کالاباغ خاندان کے چشم و چراغ ملک اللہ یار جیسے نام نمایاں ہیں۔اسی

خانے میں جنرل امجد سمیت آٹھ جرنیل شامل ہی۔اسٹیٹ بنک اف پاکستان نے2002 میں اپنے شیڈول کی وہ تمام شقیں ہی ختم کردیں جو مگرمچھوں کے قرضے معاف کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتیںتھیں۔

سےنےٹر پروفےسر خورشےد احمد نے سینٹ میں سال اٹھا یا تھا جس پر مشےر خزانہ شوکت ترےن نے جواب میں کہا تھا کہ گزشتہ حکومت کے دوران 42 ارب روپے کے قرضے معاف کیے گئے اورےہ تمام قرضے اسٹےٹ بےنک کے قواعد کے مطابق معاف کیے گئے ہےں۔ ےہ تمام قرضے بےنکوں نے اپنے بورڈ آف ڈائرےکٹرز کی سفارش پر تمام دستےاب قوائد کو سامنے رکھ کر معاف کیے ہےں۔ شوکت ترےن نے اےک سوال کے جواب مےں کہاکہ قرضوں کو معاف کرنے کا فےصلہ مےرٹ پر کےا گےا ہے۔ سےنےٹر پروفےسر خورشےد احمد نے سوالات کے دوران نکتہ اٹھاےاکہ اےوان کو بتاےا جائے کہ 42 ارب کے علاوہ بھی قرض معاف کیے گئے ہےں ےا نہےں اور خےبر بےنک کو تو قرضے معاف کرنے کے لےے دباو ¿ مےں لاےاگےا تھا ‘مشےر خزانہ شوکت ترےن نے سوال کے جواب مےں کہا کہ ان کے پاس پوری معلومات نہےں ہےں فی الحال جو معاملہ اےوان مےں پےش کےاگےا ہے۔ وہ اسٹےٹ بےنک کے سرکلر 290 کے تحت معاف کیے جانے والے قرضوں کی تفصےل سے متعلق ہے۔اسی طرح سے پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کو وزارت خزانہ کی طرف سے جو اعداد و شمار مہیا کیے گئے کے مطابق اٍس عرصہ میں عوامی سیکٹر کے بنکوں نے30.18 بلین روپے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جو1985 تا1999 کے دوران قرضوں کی شکل میں معاف کی گئی تھی۔یہ رقم59.95 بلین روپے اس رقم سے زائد تھی۔ جو تین سابقہ حکومتوں کے چودہ سالہ عہد اقتدار میں معاف کی گئی تھی۔یہ قرضہ شوکت عزیز کے دور میں کھایا پیا گیا۔یہ نقطہ بھی اپنی جگہ پر سچائی کا امین ہے کہ شوکت عزیز و مشرف کے دور میں پاکستانی خزانے کو بڑی بیدردی و بے رحمی سے لوٹا گیا۔لیکن اس بعد بھی صورتحال یہی ہے۔ قرض کی وصولی تو دور کی بات ہے قرض لینے والوں کے ناموں کی فہرست بھی منظر عام پر نہیں لائی جارہی ہے۔ حنا ربانی کھر نے بھی وعدہ کیا ہے کہ یہ فہرست طویل ہےاس لئے اس کو لانے میں تاخیر ہورہی ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام کھلا خط لکھا تھا۔ جس میں چیف جسٹس کی توجہ ملکی حالات کی طرف دلاتے ہوئے ان سے کھربوں کے قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی تھی۔انہوں نے اس خط میں کہا ہے کہ سرکاری بینکوں سے اربوں کھربوں روپے کے قرضے لے کر معاف کرانے والوں کے خلاف آئین وقانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے تمام پیسہ واپس سرکاری خزانے میں لایا جائے۔ آپ اس سلسلے میں از خود نوٹس لے کر ملک کی دولت ہڑپ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ محترم چیف جسٹس آپ سے میری مودبانہ درخواست ہے کہ میرے اس کھلے خط کو پٹیشن کی حیثیت سے قانونی شکل دے کر کارروائی کا آغاز کریں تاکہ ملک معاشی بحران سے نجات پائے اور ہم سب ملکر پاکستان کو ایک مستحکم اور باوقار ملک بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔ دیکھئے الطاف حسین کی اس درخواست پر کب سنوائی ہوتی ہے



Leave a Comment







امن کے نام پر انسانوں کا قتل عام

August 5, 2009, 10:06 am

Filed under: Uncategorized

امن کے نام پر انسانوں کا قتل عام

عطا محمد تبسم



امریکن سنٹر میں ہیروشیما اور نا گاسا کی پر ایٹم بم برسانے کی فلم دکھائی جارہی تھی۔ ہیروشیما کا ہنستا بستا شہر دیکھتے ہی دیکھتے آگ اور لامتناہی آگ میں بدل گیا۔یہ خونی داستان بھی اسی امریکہ نے رقم کی ہے۔ جو آج عراق، افغانستان، پاکستان،فلیسطین اور دنیا کے دیگر خطوں میں امن، جمہوریت، دہشت گر دی کے خلاف جنگ کے نام پر انسانوں کا خون بہا رہا ہے۔ یہ داستان خونچکاں امریکہ کے کرنل پال ٹبٹس نے چھ اگست 1945 کولٹل بوائے نامی ایٹم بم گرا کر لکھی تھی۔اس کے نتیجے میں ہیروشما میں دو لاکھ انسان لقمہ اجل ہوئے۔ یہ دنیا میں اس لحاظ سے تباہی کا سب سے بڑا سنگین واقعہ تھا کہ اتنی کم مدت میں اتنے زیادہ انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ کو اس پر اب بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ نہ کبھی بم گرانے پر اس نے کوئی معذرت کی ۔دریائے آئی اوئی کے کنارے ایٹم بم کی یادگار وہ کھنڈر نما گنبد ہے جس کو ڈوم کہتے ہیں اور اسی کے پڑوس میں وہ عجائب گھر ہے جس میں ایک بچی کی وہ تڑی مڑی بائیسکل بھی ہے جس پر وہ ایٹم بم گرنے کے وقت سوار تھی۔ گنبد کی سیڑھیوں پر وہ پرچھائیں ہمیشہ کے لئے معلق ہو گئی ہے جو عمارت کے ایک ایسے باسی کی ہے جو بم گرتے وقت سیڑھیوں سے اتر رہا تھا لیکن ایٹمی حرارت سے ایک پرچھائیں میں تبدیل ہو کر وہیں معلق ہو گیا۔یہ المیہ اس عہد کی نشانی ہے جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے لیے امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے جاپان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینک دے لیکن جاپان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ امریکہ روس کے جاپان میں داخل ہونے سے پہلے ہی جاپان کو سر نگوں کرکے اپنا تسلط جمانا چاہتا تھا۔ اس لیے ان مقاصد کے حصول کے لیے اس نے انسانی تاریخ کا مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ہیروشیما پر گرایا جانے والا پہلا ایٹم بم انولا گے نامی بی-29 ہوائی جہاز پر لاد کر لایا گیا تھا جس کے پائلٹ کرنل پال ٹبٹس تھے۔یہ ساٹھ کلوگرام یورینیم 235 کا بنا ہوا بم تھا۔ لٹل بوائے نامی اس بم کو آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر ہیروشما کے مرکز پر گرایا گیا تھا۔ بم زمین سے اوپر فضا میں پھٹا۔ بہت سے لوگوں نے ایٹمی تپش سے بچنے کے لیے دریائے آئی اوئی میں چھلانگیں لگا دیں لیکن دریا کا پانی ایٹمی توانائی سے ابل رہا تھا۔ اس بم نے دو لاکھ انسانوں کی جان لی۔ جاپان نے ہیروشما پر گرنے والے ایٹم بم کے نتیجے میں بھی ہتھیار نہیں پھینکے تونو اگست کو میجر چارلس سوینی نے فیٹ مین نامی ایٹمی بم ناگا ساکی کے شہر پر گرایا۔ یہ آٹھ کلوگرام پلوٹینم 239 کا بنا ہوا بم تھا۔ اس بم کی وجہ سے ایک لاکھ بیس ہزار لوگ جان بحق ہوئے۔

امریکہ نے آج پوری دنیا میں ایک ایسی دہشت گردی کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔جس کا کوئی انت نہیں ہے۔ امریکہ آج بھی دنیا میں امن کا ٹھیکے دار بنا ہوا ہے ۔جنگی اخراجات سے اس کی معاشی بدحالی بڑھتی جارہی ہے۔ اربن انسٹیٹیوٹ کی تازہ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں عورتوں اور بچوں سمیت 35لاکھ شہری سڑکوں پر سوتے ہیں۔ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں 35لاکھ شہری بے گھر ہیں۔ ان میں ساڑھے تیرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ صرف نیویارک میں 37ہزار افراد جن میں 16 ہزار بچے بھی شامل ہیں، روزانہ مارکیٹوں کے چھجوں کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔امریکہ کے بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔امریکہ میں ایسے درجنوں گروپ اور جماعتیں قائم ہوچکی ہیں جو امریکہ سے اپنی ریاستوں کی مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس سلسلے مین کئی جماعتوں نے امریکی وفاقی حکومت کے غیر معمولی اختیارات کے خاتمے اور امریکی ریاستوں کی مکمل آزادی اور علیحدگی کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تنظیموں کا مو ¿قف یہ ہے کہ امریکہ کی وفاقی حکومت انکی ریاست سے جو ٹیکس وصول کرتی ہے اسکا بہت ہی کم حصہ ریاست کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے جبکہ امریکی حکومت امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے دنیا کے مختلف حصوں میں جو بھی فوجی کاروائیاں کررہی ہے اس کا بوجھ ٹیکسوں کی شکل میں امریکی عوام پر ہے اور انھیں شدید معاشی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آج ۶ اگست ۹۰۰۲ہے۔ اس اندوہناک واقعے کو گزرے ۴۶ برس گزر گئے ۔ ہیروشیما میں مرنے والوں کی یاد میں آج شہر کے امن پارک میں تقریبات ہوں گی ۔ مرنے والوں کی یاد میں شہر کی بڑی گھنٹی بجائی جائے گی اور شہر کے امن پارک میں گلدستے رکھے جائیں گے۔ مرنے والوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔لیکن دنیا کے باسی جو امن چین سے رہنا چاہتے ہیں، امریکی عوام سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے ٹیکس پر پلنے والی امریکی حکومت کب تک دنیا میں امن کے نام پر انسانوں کا قتل عام کرتی رہے گی



Leave a Comment







رمضان المبارک سے قبل بڑھتی ہوئی مہنگائی،اور غربت

August 5, 2009, 6:24 am

Filed under: Uncategorized

رمضان المبارک سے قبل بڑھتی ہوئی مہنگائی،اور غربت

عطا محمد تبسم

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007 ء کو لگائی جانیوالی ایمرجنسی کو غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام قرار اور پی سی او ججوں کو کام سے روک دینے کے بعد سے پاکستانی عوام کی امیدیں عدالت عالیہ کی جانب ایک بار پھر ا ٹھ رہی ہیں۔ گو عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ فیصلے سے ملک کے انتظامی اور مالیاتی فیصلے اور صدر کا حلف متاثر نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی،اور غربت کے خاتمے کے لئے بھی عدالت ہی کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں۔ رمضان المبارک کے آنے میں ابھی دو ہفتے باقی ہیں ۔ لیکن بازاروں میں مہنگائی ، قیمتوں میں تیزی سے اضافے،اشیاءصرف کی مصنوعی قلت کی جو صورتحال ہے۔وہ ناقابل برداشت ہے۔ چینی کی قیمت میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے۔ گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوچکا اور مزید قیمت بڑھائی جارہی ہے۔ دودھ اور گوشت، سبزیاں اور پھل عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جس کمی کا کااعلان کیا ہے۔ وہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اوگرا کے نوٹیفیکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت 1 روپے67پیسے کمی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ قیمتوں میں کمی کا اعلان عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گراوٹ کے باعث کیاگیاہے۔ دوسری جانب اوگرا نے سندھ اورپنجاب میں سی این جی کی قیمت میں 60پیسے اضافے کے ساتھ قیمت 48روپے 60پیسے کردی ہے جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں سی این جی کی قیمت 27پیسے کمی کے ساتھ 48.73فی کلو ہوگئی ہے۔ شائد اسی کے لئے کہا گیا ہے کہ اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ گاڑی والے حضرات کی اکثریت سی این جی استعمال کرتی ہے۔اور اس سے بھی متوسط طبقہ متاثر ہوا ہے۔پیٹرول کی قیمت میں یہ کمی عدالت کی جانب سے کاربن ٹیکس کے خلاف فیصلے کے بعد کی گئی ہے۔ اس سے قبل پیٹرولیم کی قیمتوں کے تعین کے بارے میں جسٹس ریٹائرڈ رانا بھگوان داس کی سربراہی میں بننے والے کمیشن نے اپنی رپوٹ میں کہا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کو غیر ملکی کرنسی کی بجائے پاکستانی روپے کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ پیٹرولیم کی مصنوعات میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچ سکے۔کمیشن نے سفارش کی تھی کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں کا طریقہ کار وضح کرنے کے لیے توانائی اور پیٹرولیم کی فیلڈ کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔کمیشن نے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد کیا گیا کاربن ٹیکس کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ٹیکس عوام پر اضافی بوجھ ہے جس کو نہیں لگنا چاہیے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھاکہ یہ کمیٹی مختصر، درمیانی اور طویل مدت کے منصوبے بھی بنائے اس کے علاوہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور وزارت پیٹرولیم کی استعداد کار میں بھی اضافہ کیا جائے۔

کمیشن نے سنہ 2001 سے سنہ 2009 کے مارچ کے مہینے تک پیٹرولیم مصنوعات پر عائد کیے جانے والے ٹیکسوں کی مد میں عوام سے حاصل کی گئی رقم کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق اس عرصے کے دوران حکومت نے 10 کھرب، 23 ارب 64 کروڑ روپے کمائے تھے۔ اس لوٹ مار کے بعد تو عوام کو ریلیف ملنا چاہیئے تھا۔ لیکن اب جو قیمتیں مقرر کی گئی ہیں وہ ایک مذاق کی حیثیت رکھتا ہے۔

پاکستان میں ہر دور حکومت میں کم و بیش مہنگائی کارونا رہا ہے۔ کبھی پٹرول ‘ کبھی ڈیزل ‘ کبھی آٹا اور کبھی دوسری اجناس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے غرض عوام مشکلات کا شکار ہی رہتے ہیں۔ روٹی ‘ کپڑا ‘ مکان کے بعد تعلیم اور روزگار وغیرہ یہ تمام مسائل ایسے ہیں کہ جن میں پاکستان کا ہر شہری گرفتار نظر آتا ہے۔ مگر یہ افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ حکومت نے مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے ہیں کہ تن ڈھانپنے کو کپڑا اور پڑھنے کو کتاب تو دور کی بات ہے اب دو وقت کی روٹی کے لئے بھی پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں۔سابق دور میں شوکت عزیز نے عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لئے یوٹیلٹی اسٹور کے تن مردہ میں جان ڈالی تھی لیکن اب ان اسٹورز پر بھی لوٹ مار ہے۔حال ہی میںیوٹیلٹی سٹورز پر فروخت کئے جانے والی دالوں کی قیمتوں میں ایک روپے سے دس روپے فی کلو تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ کچھ عرصے پہلے ہی یوٹیلٹی سٹورز پر فروخت کئے جانے والے تمام اشیاءکی قیمتوں میں تین روپے اضافہ کیا گیا تھا۔ ۔ اس طرح یوٹیلٹی سٹور ز اور بازاروں میں فروخت کئے جانے والی اشیاءکی قیمتیں یکساں ہو گئیں ہیں۔ جبکہ پرانا سٹاک بھی نئی قیمتوں پر فروخت کیا جارہا ہے۔مہنگائی کا یہ بڑھتا ہوا سیلاب سڑکوں، فٹ پاتھوں، محلوں ، گلیوں میں بھیک مانگنے والوں میں اضافہ کررہا ہے۔ سرکاری اداروں کو اس وقت حرکت میں آنا چاہئے۔ کراچی میں رمضان سے قبل ایسے سستے بازار لگنے چاہیئے جہاں عوام سکون سے خریداری کرسکیں۔شہری حکومت،این جی اوز، معاشرتی و سیاسی جماعتوں کو عوام کی خدمت کے اس عمل میں اپنا حصہ بٹانا چاہئے۔ تاکہ حکومت کی مدد ہو۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ رمضان کی آمد سے قبل ایسی کمیٹیاں تشکیل دے جو مارکیٹ کی مانیٹرینگ کریں۔ان میں سرکاری اہلکاروں کے ہمراہ عوامی نمائیندے بھی لئے جائیں،اگر یہ کیا گیا تو اس بات کا امکان ہے کہ عوام کو تھوڑا بہت ریلیف مل جائے۔



Leave a Comment







August 3, 2009, 8:16 am

Filed under: Uncategorized

کراچی کے لوگوں کی بے بسی اور بے حسی

عطا محمدتبسم

کراچی کے لوگوں کی بے بسی اور بے حسی کی داد دینی چائیے۔بے بسی یہ کہ اس شہر میں کیسے کیسے حادثات ہورہے ہیں،لیکن شہری بے بسی سے یہ واقعات دیکھتے ہیں۔ غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ٹائر جلاتے ہیں۔حکمرانو ںکو برا بھلا کہتے ہیں۔یہ جلوس نکالتے ہیں۔پھر بے بسی سے آنسو بہاتے ہیں اور خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔بے حسی ایسی کے شہر میں حادثہ ہو، فائرینگ ہو، بم پھٹے، عمارت گر جائے،مرنے والے مر جائیں۔ لیکن کراچی اسی طرح شہر نگاراں ،مست خراماں،اپنے جلو میں نئے ہنگامے لئے ، اپنی چہل پہل میں مگن رہے گا۔جمعہ کوکراچی کے علاقے میٹھا در میں ایک اورعمارت زمیں بوس ہو گئی۔اس سانحے میں جان بحق ہونے والے۴۲ افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں،جبکہ زخمی ہونے والے 6 افراد اسپتال میں زیر علاج ہیں‘ جس کے بعد امدادی کام ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔شہر کے قدیمی علاقے میٹھادرکی کامل گلی میںگرنے والی عمارت تقریباً 100 مربع فٹ کے پلاٹ پر بنائی گئی تھی جس کی پہلی منزل پر ایک گودام تھا جبکہ باقی 4منزلوں پر لوگ رہتے تھے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس عمارت میں 30سے زائد افراد رہتے تھے جن میں سے اکثر میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔گنجان آبادی کے اس علاقے میں اس حادثے کی اطلاع پاتے ہی مقامی لوگ بھی ایمرجنسی لائٹس اور ہتھوڑے لے کر جائے حادثہ پر پہنچ گئے اور ہاتھوں سے ملبہ ہٹانے کی کوشش کی۔حادثے کے بعد لائٹ چلی گئی تھی۔ سٹی حکومت کی جانب سے ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری بھی بھیجی گئی مگر تنگ گلی ہونے کی وجہ سے یہ جائے حادثہ پر پہنچ نہیں سکی۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن انتہائی سست رفتاری سے کیا گیا ہے اور رضاکار اور شہری حکومت کے اہلکار تاخیر سے جائے حادثہ پر پہنچے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی میں کیا کوئی ایسا ادارہ اور ایسا مرکز ہے۔ جو کسی بھی حادثے کی اطلاع پاتے ہی حرکت میں آجائے اور تمام کام سلیقے سے انجام پائیں۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہم کراچی میں ایک بھی ایسا ہنگامی مرکز نہ بنا پائے جہاں بیک وقت زخمیوں کی بڑی تعداد کو طبی امداد دی جاسکے۔ نہ ہی ایسے رضا کاروں کی کوئی فورس تیار کی گئی جو ایسے ہنگامی حالات میں تیزی سے حرکت میں آئیں۔سب سے زیادہ تو یہ کہ وہ ایسی امدادی سرگرمیوں کاتجربہ اور تربیت رکھتے ہوں۔ ہم نے سب کچھ ایدھی اور چھیپا پر چھوڑ رکھا ہے۔یہ ہی زخمیوں کو لیجائیں گے۔یہ ہی امدای کام کریں گے۔ یہ ہی کھانے کا اہتمام کریں گے۔ تو پھر حکومت اور شہری ادارے کہاں ہیں۔ اور ان کی کیا ذمہ داری ہے۔کراچی میں مخدوش عمارتیں ایک عرصے سے ہیں۔ لیکن کیا ان عمارتوں کو صرف خالی کرانے کے نوٹس کا اجراءہی ہماری ذمہ داری ہے۔ایسے خاندانوں کی آباد کاری کون کرے گا۔ کیا یہ اسی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھے رہیں گے ۔ جیسے حادثے کے بعد ہ کے بی سی اے کی جانب سے قریب کی 5عمارتوں کو مخدوش قرار دے کر خالی کرالیا ۔ اور اب یہ فٹ پاتھ پر بسیرا کر رہے ہیں۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے سال 2008 ء کی سروے رپورٹ میں شہر کی 163 مختلف قدیم اور مخدوش عمارتوں کو خطرناک قرار دیا ہے۔ جبکہ مزید عمارتوں کے معائنے کا سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق فہرست میں سب سے زیادہ خطرناک عمارتیں صدر ٹاو ¿ن میں واقع ہیں جبکہ اس فہرست میں جمشید ، لیاری، کیماڑی، ملیر اور شاہ فیصل ٹاو ¿ن کی بھی کئی مخدوش حالت عمارتیں شامل ہیںان عمارتوں کو فوری خالی کرنے کے لئے اگست میں کہا گیا تھا۔ متبادل انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ نہ ہوسکا۔اور یہ حادثات ہوئے۔جن کو ذرا سی تدبیر سے روکا جاسکتا تھا۔ کراچی میں 182 پرائمری 69 سیکنڈری اور 30 ایلیمنٹری اسکولوں کی عمارتیں اپنی خستگی کے باعث حادثات کے خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں ۔ان اسکولوں میں ہمارے آپ کے بچے پڑھتے ہیں۔ ایک ایک اسکول میں سینکڑوں بچے ہیں۔ یہ سرکاری اسکول ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی، بنیادی سہولتوں کا فقدان، سفارش کی بنیاد پر نااہل اساتذہ کے تقرری جیسی شکایات عام ہیں۔ بظاہر میٹرک تک تعلیم مفت کردی گئی ہے مگر عملاً سرکاری اسکولوں کی یہ حالت بنا دی گئی کہ وہاں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔ جن سرکاری اسکولوں کا رقبہ بڑا، عمارتیں اچھی اور معیار تعلیم قدرے بہتر ہے انہیں لوگوں کے احتجاج کے باوجود یکے بعد دیگرے نجی ملکیت میں دیا جارہا ہے ۔تو کیا ہم کسی اور بڑے حادثے کا انتظار کررہے ہیں۔بارشوں میں ۰۵ سے زائد اموات ہوئیں۔ان کا ذمہ دار کون ہے۔ کسی کو توان ہلاکتوںکی ذمہ داری قبول کرنی چائیے۔جولائی میں کراچی میں عمارت گرنے سے ہلاکتوں کا دوسرا واقعہ ہواہے۔ لیاقت آباد میں اکیس جولائی کو ایک چار منزلہ زیرِ تعمیر عمارت کےگرنے سے کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔یہاں بھی تین دن تک امدای کام جارہی رہا تھا۔ اور ہم صر ف لاشیں ہی نکال سکے۔کراچی میں چند برسوں میں شہری حکومت نے کروڑوں روپے مالیت کی بھاری مشینری خریدی تو کیا یہ صرف نمائشی تھی۔کراچی کی ۰۷ فیصد آبادی گنجان علاقوں میں رہتی ہے۔ تو کیا ان ۰۷ فیصد عوام پر مصیبت پڑنے پر کام آنے والی مشینری ہمارے پاس نہیں ہے۔اس بے بسی کا مظاہرہ ہم کھارادر اور لیاقت آباد کی گلیوں میں دیکھ چکے ہیں۔ہمیں سڑکیں دھونے والی ان مشینوں کی ضرورت تو نہ تھی۔ جو ایک دو تصویری سیشن کے بعد ناپید ہوگئی ہیں۔ہمیں ان مسائل پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے۔ یہ ہماری بے بسی اور بے کسی کا مداوا کرسکتا ہے۔۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلٰی سندھ سید قائم علی شاہ ایسے حادثات پر فوری حرکت کرتے ہیں۔ انھوں نے عمارت گرنے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔لیکن عوام چاہتے ہیں کہ اب نوٹس لینے اور تحقیقات سے آگے بڑھ کر کوئی اقدام کیا جائے ۔ورنہ یہ حادثے یوں ہی ہمارا مقدر بنے رہیں گے۔



تبصرے

  1. Hello!

    I am an affiliate program manager for InstaForex Group – the Best Broker in Asia.

    We would like to offer you the affiliate program cooperation with InstaForex. If you are interested to get involve in high commission based program, please contact me and I will provide the details.

    If you have any queries, do not hesitate to contact me.

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل