لیاری پیپلز پارٹی کا دل جو خون آلودہ ہے

لیاری پیپلز پارٹی کا دل جو خون آلودہ ہے


October 5, 2009, 10:33 am

Filed under: Uncategorized

لیاری پیپلز پارٹی کا دل جو خون آلودہ ہے

عطا محمد تبسم



بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریب ایک ایسی عوامی تقریب تھی۔جو ہمیشہ یا د آتی ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اس کے لئے لیاری کا انتخاب کیا تھا۔ اور لیاری والوں نے اس تقریب کی میزبانی کا حق ادا کردیا تھا،اس رات ککری گراﺅنڈ میں جشن کا سماں تھا۔آتش بازی،لوک رقص، لیاری والوں کی خوشیاں قابل دید تھیں۔لیاری پیپلز پارٹی کا دل ہے۔جو بھٹو خاندان سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ لیاری والوں کی پیپلز پارٹی کے لئے قربانیاں بےمثال ہیں۔بےنظیر بھٹو کی ضیا دور میں یہ لیاری کی خواتین ہی تھیں۔ جو ہمیشہ اپنی شہزادی کے گرد پروانوں کی طرح حلقہ بنائے رکھتی تھیں،بے نظیر اس حلقے میں ہمیشہ اپنی سیکورٹی سے بے فکر رہتی تھیں۔

اسی لیاری میں جرائم پیشہ عناصر اور پولیس کے درمیان مقابلے میں گزشتہ روز سات افراد ہلاک ہوگئے۔ اس سے ایک دن قبل یونیورسٹی روڈ اور گلستان جوہر کا علاقہ میدان جنگ بنا ہو تھا۔ جہا ںسندھی قو م پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی کے ایک کارکن کی ہلاکت کے خلاف احتجاج میں ۹ گاڑیاں جلادی گئی تھیں۔ترقی پسند پارٹی نے کارکن کی ہلاکت کا الزام سندھ حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی یعنی اے این پی کے کارکنان پر لگایا ہے۔جبکہ اے این پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ جمن گٹکو کی ہلاکت میں ملوث نہیں ہیں اور ان کے کارکنان پر فائرنگ کی گئی ہے۔

لیاری گزشتہ کئی برسوں سے پولیس مقابلوں اور گینگ وار سے متاثر علاقہ رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ۵۰۰۲ سے اب تک تقریبا ۰۰۴ افراد اس گینگ وار میں ہلاک ہو چکے ہیں۔لیاری میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت اور ان کے تین ساتھیوں کی ہلاکت کے واقعے کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔ رحمان بلوچ کی ہلاکت کے خلاف لیاری، گولیمار اور آس پاس کے علاقے مکمل طور پر بند ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق رحمان بلوچ کراچی کے علاقے لیاری میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری گینگ وار اور دیگر جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے۔ وہ کئی مرتبہ پولیس کی تحویل سے فرار ہوچکے تھے۔ رحمان بلوچ پر الزام تھا کہ وہ ڈکیتی سمیت ایک سو سے زیادہ جرائم میں ملوث تھے۔ حکومتِ سندھ نے ان کے سر پر پچاس لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ حالیہ حکومت کے قیام کے بعد رحمان بلوچ نے لیاری میں جاری گینگ وار کے خاتمے اور قیام امن کے لیے کوششیں شروع کر رکھی تھیں۔دو ماہ قبل لیاری میں جشن امن منعقد کیا گیا تھا، جس میں رحمان بلوچ کو سردار رحمان خان بلوچ کے لقب سے نوازہ گیا تھا۔ انہوں نے امن امان برقرار رکھنے کے لیے امن کمیٹیاں قائم کردی تھیں۔حالیہ حکومت کے قیام کے بعد گزشتہ ایک سال سے رحمان بلوچ غیر سرگرم ہوگئے تھے۔ انہوں نے لیاری میں جاری گینگ وار کے خاتمے اور قیام امن کے لیے کوششیں شروع کر رکھی تھیں اور آج کل ان کا ایک سیاسی کردار سامنے آ رہا تھا۔ لیاری سمیت شہر کی دیواروں پر ایسی چاکنگ کی گئی تھی جن میں ان کے اقدامات سراہا گیا تھا لیاری کے کچھ علاقوں میں پینے کے پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی پر لوگ ان کے شکر گذار تھے۔رحمان بلوچ اس عرصے میں ایک شوشل ورکر کی حیثیت سے مقبول ہوچکے تھے، اور اس بات کے لئے بھی کوشش کی جارہی تھی کہ انھیں سینٹر کا انتخاب لڑایا جائے۔لیاری کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں کی پاپولر لیڈر شپ کر ابھرنے سے پہلے ہی منظر عام سے ہٹا دیا جاتا ہے۔اس سے قبل بلوچ اتحاد کے سابق صدر سہراب بلوچ کو لیاری کے علاقے بغدادی میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔ جنوری دو ہزار پانچ میں بلوچ اتحاد کے چئرمین انور بھائی جان کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔ یہ تنظیم بھی لیاری میں جاری گینگ وار کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔انور بھائی جان لیاری میں ایک توانا آواز تھی جو خاموش کردی گئی۔

لیاری کی بہتری کے لئے کچھ عرصے پہلے لیاری ٹاسک فورس بھی بنائی گئی تھی، جو اچانک ختم کردی گئی تھی۔پولیس کا دعوٰی ہے کہ بہتر پولیسنگ کے ذریعے حالات پر قابو پا لیا جائے گاپولیس افسر کا کہنا ہے کہ لیاری میں بھتہ مافیا سرگرم ہے اور جرائم پیشہ افراد کے چار گروہ پولیس پر حملوں میں ملوث ہیں۔ لیاری ٹاو ¿ن پولیس نے اعلٰی حکام سے لیاری میں تعینات نفری کی تعداد ایک ہزار تک کرنے کی تجویز کررکھی ہے جس کی موجودہ تعداد چار سو ہے۔لیاری کے مکینوں کو پویس پر اعتماد نہیں ہے وہ موجودہ حالات کو پولیس کی دہشت گردوں اور بدمعاشوں کے ساتھ ملی بھگت قرار دیتے ہیں۔ ہے۔ لیاری کے بڑے مسائل لاقانونیت، بے روزگاری اور بجلی کی عدم فراہمی ہیں۔لیاری میں پولیس یا عوام کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ راتوں کو خاص طور پر گھر سے باہر نکلنا ناممکن ہے کیونکہ مختلف گروہ رات کو لڑتے ہیں فائرنگ کرتے ہیں اور عام لوگ بیچ میں آکر مارے جاتے ہیں، خوف کی وجہ سے کئی لوگوں نے اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا ہے جبکہ کاروبار اور دکانداری الگ زبوں حالی کی شکار ہے۔ڈکیت گروہ کے لوگ بھتہ گن پوائنٹ پر لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کئی کارخانے اور دکانیں بند ہوچکی ہیں۔ علاقے میں مسلسل بدامنی کی فضاءکی وجہ سے پانچ ہزار خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں۔ اس وقت لیاری میں گیارہ یونین کونسل ہیں جن میں چھ یونین کونسل ان گینگ کے قبضے میں ہیں جس کی بنیاد پر یہاں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کراچی ایک عرصے سے ایک محصور شہر کا نقشہ پیش کرتا ہے ۔ جس کے داخلی اور خارجی راستوں جرائم پیشہ افراد اور ایسے بااثر لسانی گروہ منظم ہیں جو جب چاہے شہر کا امن وامان تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔کراچی میں سہراب گوٹھ پر ہونےوالے آپریشن میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ انیس سو بانوے میں کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جو کسی نہ کسی طور انیس سو ننانوے تک جاری رہا۔لیکن بعد میں اس کا رخ جرائم پیشہ افراد کے بجائے ایک سیاسی جماعت کے خلاف کردیا گیا اور سینکڑوں افرد کو مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی میں شعبے کرمنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر رعنا صبا سلطان کا کہنا ہے کہ آپریشن جرائم پر قابو پانے کا پائیدار حل نہیں بلکہ معاشرے سے محرومیوں کے خاتمے کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔سندھ حکومت اور صدر آصف زرداری نے لیاری کی بہتری کے لیے اربوں روپے کا لیاری پیکج منظور کیا ہے جس پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے اعتماد کو بحال کرتے ہوئے جلد از جلد لیاری کے عوام کو وہ سہولتیں بہم پہنچائی جائیں جن کی انھیں ضرورت ہے۔



Leave a Comment







یہ قصہ بھی تما م ہوا

October 5, 2009, 6:02 am

Filed under: Uncategorized

یہ قصہ بھی تما م ہوا

عطا محمد تبسم



سانحہ کھوڑی گارڈن کی تحقیقات اب اختتام پذیر ہوگئی ہیں۔جس کے مطابق اکثر خواتین دم گھٹنے اور ایک ذہنی خوف کا شکا ر ہوکر ہلاک ہوئیں ۔ ڈاکڑوں کا کہنا ہے کہ پوسٹمارٹم کے نتیجے میں کسی بھی خاتون کی ہلاکت کسی زخم یا چوٹ کی وجہ سے نہیں ہوئی۔۴۱ ستمبر کو ۰۲ خوتین بھگڈر یا دم گھٹنے سے ہلاک ہوئیں،تو پورے ملک میں کوئی کہرام نہیں مچا،کوئی شور بپا نہیں ہوا، ہر ایک نے اپنی اپنی بولی بولی، اظہار ہمدردی کیا، اخبارات میں تصویر چھپوائیں، حکومت نے انکوئری کے لئے ایک جج کو مقرر کیا، انکوئری میں ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا۔ بہت سے افراد کے بیانات ریکارڈ کئے گئے،جس نے جو کچھ دیکھا تھا، اس کا اظہار کردیا۔پاکستان میں ہونے والے اکثر حادثوں ،سانحوں،اور واقعات کی طرح یہ سانحہ بھی گزر گیا۔اب ایک رپورٹ کا اور اضافہ ہوجائے گا۔رپورٹ میں کہا جائے گا کہ ان خواتین کو موت ایک حادثے کا نتیجہ تھی۔ ڈاکٹروں کے پوسٹ مارٹم نے بھی ان خواتین کے جسموں پر آنے والے زخموں کو دیکھا۔ لیکن کسی نے بھی ان عورتوں کی روحوں کے زخموں کو نہ دیکھا۔ نہ ہی کسی رپورٹ میں ان کے پیٹ میں چھپی ہوئی اس بھوک کا سراغ لگایا جاسکا،جو ان کی موت کا سبب بن گئی۔ کسی رپورٹ نے اس غربت کے بارے میں بھی نہیں کہا جس کے سبب شہر کی پسماندہ بستیوں سے نکل کر آنے والی یہ خواتیں یہاں آئی تھیں۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر نہیں ہوگا کہ ان کے بچے جن کی بھوک مٹانے کے لئے یہ خواتین یہاں آئی تھیں۔ اب کس حال میں ہیں۔ اب ان کو روٹی کے لئے کون دلاسا دے رہا ہوگا۔ یہ بچے راتوں کو ڈر کر روتے ہوں گے تو ان کو چپ کرانے والا کون ہوگا۔یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ سانحہ کھوڑی گارڈن نے معاشرے میں موجود غربت کا پردہ چاک کردیا ہے۔

عورت جو ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے وہ یہاں کتنی محفوظ ہے، ۳ سال، ۵ سال کی بچیاں بھی جنسی جنونیوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔ آئے دن ایسے ہولناک واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، جن کو پڑھتے ہیں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جن گھروں پر یہ قیامت گزرتی ہے۔ ان کا کیا حال ہوتا ہے۔اسپتالوں میں سے بچے اغوا کئے جارہے ہیں۔یہ معاشرہ کہاں جارہا ہے،اس مملکت خداداد میں علاج کی سہولت نہ ہونے سے ہر دو گھنٹے میں ایک عورت زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہے۔جہاں ہر ۲۱ گھنٹے میں ایک عورت خودکشی کرتی ہے۔جہاں ہر روز دو عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔کیا ہم ایسے ہی تھے۔ کیا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔کیا ہم اس صورتحال کو بدلنے کے کچھ کررہے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے پاکستان کا نام ساری دنیا میں سر فہرست ہے۔ جمہوریت کے شور میں خودکشیاں اور بچوں کی فروخت ہورہی ہے۔ یہ کونسا نظام ہے جس میں مہنگائی کا طوفان دیکھ کر لوگوں کو آمریت یاد آرہی ہے جس میں آٹے ، چینی کی یہ لوٹ مار تو نہ تھی۔ صدارتی‘ پارلیمانی‘ آمرانہ نظام حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی ناکامی کی بھی اصل وجہ کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ پاکستان میں ہر شعبے کے طاقتور افراد اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ اب ایک ایسا میکنزم بنایا جاچکا ہے کہ غریب عوام کا استحصال اشرافیہ کی مجبوری اور ضرورت بن چکا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے اشیاءضرورت بھی اب غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں غریب لوگ بدترین نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے پاکستان میں خودکشی کرنیوالے افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد جیسے شہروں میں غریب افراد ہر روز خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ سرمایہ دار پاکستان میں مکروہ بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ سرمائے کی طاقت کو استعمال کرکے غریب طبقے کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ حکومت‘ بیوروکریسی‘ اسٹیبلشمنٹ میں سرمایہ دار‘ جاگیردار اور جرنیل بیٹھے ہوئے ہیں جو صرف اپنے طبقے کی بہتری کیلئے پالیسی بنا رہے ہیں۔ سیاست دان ، سرمایہ کار، مذہبی قیادت سب کاروبار میں مصروف ہیں۔ غریب طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ غربت اور امارت میں اتنے بڑے فرق کی وجہ سے سماجی معاشرہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔اب چاہے لوگ خودکشی کر کے مریں یا راشن کی بھگدڑ میں کسی کو اس سے کیا غرض۔



Leave a Comment







کیری لوگر بل پرانے شکاریوں کا نیا ہتھیار

October 5, 2009, 5:54 am

Filed under: Uncategorized

کیری لوگر بل پرانے شکاریوں کا نیا ہتھیار

عطا محمد تبسم

پاکستانی حکمرانوں کو مبارک ہو کہ امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان نے پاکستان کو آئندہ پانچ برس میں ساڑھے سات ارب ڈالر کی غیر فوجی امداد کی فراہمی کے لیے کیری لوگر بل متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔ کیری لوگر بل پر صدر اوباما کی جانب سے حتمی دستخط ہونے کے بعد پاکستان کو ہر برس سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امریکی امداد ملے گی۔اس بل کی منظوری پر امریکوں کی باچھیں مسرت سے کھلی ہوئی ہیں ۔ اور ہمارے حکمران اس کامیابی پر جشن منارہے ہیں۔ لالچ ا نسانی فطرت کا حصہ ہے۔اور ہمارے حکمران اس میں بہت آگے ہیں۔ اس بل کے تحت امریکی کانگریس نے انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت پر کڑی نظر رکھے اور امریکی وزیر خارجہ ہر چھ ماہ بعد اس بات کی تصدیق کریں کہ پاکستان القاعدہ اور شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کر رہا ہے، شدت پسندوں کو اپنی سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال ہونے نہیں دے رہا، حکومتی عناصر، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو شدت پسندی کی پشت پناہی سے روک رہا ہے اور عدلیہ کے آزاد کردار میں کوئی مداخلت نہیں کر رہا۔بل کے تحت وزیر خارجہ کو اس بات کی تصدیق بھی کرنا ہوگی کہ پاکستان شدت پسند گروپوں لشکر طیبہ اور جیش محمد وغیرہ کے مبینہ تربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کے لیے مستقل اقدامات جاری رکھ رہا ہے۔کیری۔لوگر بل میں کہا گیا ہے کہ غیر فوجی امداد کی یہ رقم ترقی، تعلیم اور تونائی کے شعبوں میں ہی خرچ ہونی چاہیے اور اس کا اہم مقصد پاکستان میں جمہوری اقدار اور اداروں کا فروغ ہوگا۔ بل کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرے یا حکومت پر قبضہ کرے تو یہ امداد معطل کی جاسکے۔اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ پاکستان ایٹمی عدم پھیلاو ¿کو یقینی بنائے گا اور ایٹمی سائنسدان اے کیو خان کے مبینہ نیٹ ورک کو سرگرمیوں سے باز رکھے گا۔اس سلسلے میں پہلے بل میں تجویز کیا گیا تھا کہ پاکستان امریکہ کو مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی اجازت دیگا لیکن پاکستان کی جانب سے متعدد شرائط پر اعتراضات کے بعد اب یہ کہا گیا ہے کہ ایسے افراد کی تفتیش میں پاکستان معاونت کرے گا اور خفیہ معلومات میںامریکہ کو شریک کرے گا۔ترقی، تعلیم اور توانائی کے شعبوں میں ملنے والی اس امداد کی تقسیم کے حوالے سے بھی پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں کے درمیان اختلاف ہے امریکہ چاہتا ہے کہ تمام امداد پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے کچھ رقم غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے جبکہ کچھ رقم ترقیاتی منصوبوں کے لیے براہ راست مختص کی جائے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ امداد پاکستانی حکومت کے ذریعے ہی استعمال ہو۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔شمالی علاقہ جات کے بعد اس بل کی منظوری سے کوئٹہ بلوچستان پر کاروائی کے لئے دباﺅ ڈالا جارہا ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کسی غیر ملکی ایجنسی کی سرگرمیاں نہیں ہیں اس حوالے سے تمام خبریں بے بنیاد ہیں ، کوئٹہ کسی کی ہٹ لسٹ پر نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی اورزخمی دہشت گرد خشکی پر مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے اڈوں سے متعلق امریکا کی فہرست میں کوئٹہ سب سے اوپر ہے۔امریکی سفیر نے یہ بات واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں کہی۔ اخبار کی رپورٹ میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے طالبان تحریک کو کوئٹہ میں دوبارہ منظم ہونے کی اجازت دی کیونکہ وہ طالبان کو داخلی خطرہ سمجھنے کے بجائے اسٹریٹجک اثاثہ سمجھتے ہیں۔ امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ ماضی میں طالبان کی کوئٹہ شوری ٰ پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی کیونکہ اس علاقے میں امریکی فوج نہیں ہے اور فاٹا کی نسبت کوئٹہ کے بارے میں امریکا کو زیادہ معلومات بھی نہیں ہیں۔لیکن اب سرحد کے دوسری طرف امریکی فوجی موجود ہیں اور کوئٹہ شوری ٰ امریکی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے امریکی ایوان نمائندگان میں کیری لوگر بل کی منظوری کے بعد کہا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے اور دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے بنانے سے روکنے کی جنگ میں فرنٹ لائن ملک کا کردار ادا کیا ہے۔ نینسی پلوسی نے کہا کہ کیری لوگر بل کی منظوری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی استعداد کار کو مزید موثر بنانے میں مدد ملے گی۔ : امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان کیری لوگر بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بل سے اس بات کا بھی ثبوت ملا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ طویل المیعاد سٹریٹجک تعلقات چاہتا ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے اس بل پر دستخط ہونے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے عوام اور حکومتوں کے درمیان پارٹنرشپ کے فروغ کیلئے یہ ایک بہت بڑا تحفہ ہو گا۔امریکی اس بل کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے تعبیر کرتے ہیں،ایک امریکی سینٹر نے تو عوامی طور پر اس بل کو ایک طویل المدت سرمایہ کاری قرار دیا جس واحد مسلم ایٹمی طاقت میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔کیری لوگر بل پرانے شکاریوں کا نیا ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعہ پاکستان کو گاجر اور چھڑی کے فامولے کے ذریعہ قابو کیا گیا ہے۔ اس کی چھپی ہوئی شرائظ جب ہم پر اشکارا ہو گی تو ہمیں اندازہ ہوگا کی یہ جدید دور کا ایسٹ انڈیا کپنی کا معاہدہ ہے۔ہم نے اپنی آزادی اور قومی سلامتی کا بہت سستا سودا کیا ہے جس کا اندازہ ہمیں بہت جلد ہوجائے گا۔



Leave a Comment







نان ایشوز کی سیاست

September 30, 2009, 5:48 am

Filed under: Uncategorized

نان ایشوز کی سیاست

عطا محمد تبسم

اب اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ ایک منظم مہم کے ذریعہ عوام کو ان کے اصل مسائل سے دور کیا جارہا ہے۔ اخبارات اور الیکٹرک میڈیا پر چاند کے مسلئے پر ہونے والی لایعنی بحث اور میرا کی شادی کے ٹوٹے چلاکر عوام کو ان کے اصل مسلئے سے دور کیا جارہا ہے۔ کیا ہم نے اس بحث میں اخبارات کے صفحے کے صفحے ضائع نہیں کردیئے کہ مشرف پر مقدمہ چلایا جائے، انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، روزانہ اخبارات میں بیان دینے والے، پریس کانفرینس کرنے والے، میڈیا پر منہ سے جھاگ اگلنے والے اب کیوں اچانک خاموش ہوگئے۔ کیا عوام کی حمایت کے دعوے کرنے والے، لال مسجد کے معصوم بچوں ، اور بچیوں کے قاتلوں کو سزا دلانے کے دعوے کرنے والے حج عمرے اور شاہی ملاقاتوں میں سب کچھ بھول گئے۔چار دن تک دو عیدوں پر دن رات بیانات دینے والوں نے مشرف کی باقیات، یا اسلام کی باقیات پر فخر کرنے والوں نے اپنے بیانات سے عوام کی کوئی خدمت کی ہے۔یا عوام میں مزید تفرقہ پھیلایا ہے۔ اگر سرحد والوں نے اس بار بھی ایک دن پہلے عید کرلی تو کونسی قیامت آگئی۔کتنے برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اب کسی کی اتھارٹی کوئی ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ورنہ برصغیر پاک وہند میں دہلی کے جامع مسجد سے چاند کا اعلان ہوتا اور توپوں کے داغنے، اور نقاروں کے ذریعے رات تک پورے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ پیغام مل جاتا کہ کل عید ہے۔نہ اس میں سرکار کا دخل تھا، نہ کوئی رویت ہلال کمیٹی تھی، نہ چیئرمین کا استحقاق تھا کہ وہ ٹی وی پر آکر اعلان کریں گے۔ اجلاس میں آنے والوں کو ٹی اے ڈے اے ملے گا۔بس شہادتیں مل جاتی تھیں۔اور اس کے بعد اعلان ہوجاتا تھا۔اس زمانے میں تو ۰۲، ۲۲ منزلہ عمارتیں اور ایسی دوربین بھی نہ تھی۔پھر بھی مسلمان دہلی کی جامع مسجد کے اعلان پر کان لگائے رہتے۔ کبھی دو عیدوں کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ کتنے دن تک ہم طالبان کی سوات میںشکست کا جشن منائیں، ہم کامیابیوں پر فخر سے پھولے نہیں سماتے اور جب کوئی دھماکہ ہوجاتا ہے تو پھر خاموش ہوجاتے ہیں، کیا فائدہ ایسی بڑھکوں کا،ٹی وی چینلوں پر ایک دوسرے پرگندے الزامات میں ہم نے عوام کا کتنا وقت ضائع کیا۔ مشرف پر آئین توڑ مقدمہ چلانے کی بحث سے کیا حاصل ہوا، ذکر نہ ہوا تو بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کا نہ ہوا،رمضان کے دوران عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی آٹے اور چینی کی لمبی لمبی لائنوں میں عورتیں ہلاک ہوئیں تو بھی کوئی طوفان نہیں آیا۔ ایک دن سے زیادہ اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی ۔ اس سے زیادہ وقت تو اداکارہ میرا کی شادی یا نا شادی کی خبر پر بحث ہوتی رہی۔

بلیک واٹر کی موجودگی کے ثبوت مانگے جارہے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھے کہ جب امریکی شہری پاکستان میں غیر محفوظ ہیں تو بلیک واٹر کی طرف سے اردواور پنجابی زبان پر عبور رکھنے والوںکو بطور ایجنٹ بھرتی کیوں کیا جارہا ہے۔پشاور اور اسلام آباد میں منظم ہونے کے بعد اب کراچی میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کا کیا جواز ہے،ڈیفنس اور گلشن اقبال میں بنگلے کرائے پر کیوں حاصل کئے جارہے ہیں۔ڈیفنس کے علاقے خیابان شمشیر میں ریجنل ہیڈکوارٹر کس تنظیم کا بن رہا ہے۔ اب تو اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں غیر ملکیوں کے زیر استعمال پرائیویٹ رہائش گاہوں اور گاڑیوں کا سروے مکمل کر لیا ہے۔ جس کے مطابق غیر ملکیوں کے پاس تقریباً 13سو رہائش گاہیں ہیں جو کہ ڈپلومیٹک انکلیوڑر سے باہر سیکٹر ایف‘ جی‘ ای اور آئی سیکٹرز میں ہیں۔ امریکی سفارتخانہ کو سیکورٹی فراہم کرنے والی نجی سیکورٹی کمپنی سے غیر قانونی اسلحے کی برآمدگی کے بعد اب کونسے ثبوت کا انتظار ہے۔عوام کا حقیقی مسئلہ تو چینی کا تھا۔چینی کی قیمتوں میں جو لوٹ مچی ہے ۔ کوئی پوچھے ٹریڈنگ کارپوریشن سے کہ اس نے بروقت چینی درآمد کرنے کے اقدامات کیوں نہیں کیئے جس کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہوا۔ اگست 2009 میں شوگر ڈیلرز نے مل مالکان کے ساتھ ایڈوانس معاہدے کیسے کیئے، اگست 2009 میں ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی خریدی گئی تاہم ڈیلرز نے یہ چینی کیوں نہیں اٹھائی‘ سول سوسائٹی ‘وکلا اور عوام کی ہمدددچند سیاسی جماعتوں کو ایک ایسی تحریک چلانی چاہیئے جو حقیقت میں عوام کی نمائیندہ ہو۔ اگر سوسائٹی کا پڑھا لکھا طبقہ آج بھی کوئی تبدیلی لانے کا ارادہ کرلے تو پھر یہ تبدیلی لاکر رہتا ہے۔



Leave a Comment







September 30, 2009, 5:38 am

Filed under: Uncategorized

یہ ساری باتیںجھوٹ ہیں افسانہ ہیں

عطامحمد تبسم

پاکستان میں بدعنوانی ، رشوت،لوٹ مار،اقربا پروری،قرضے معاف کرانا،پلاٹ حاصل کرنا، سرکاری دورے، سرکاری خرچ پر علاج کرانا، اور سرکاری خرچ پر حج اور عمرے کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔اس لئے چیئر مین سینٹ کے غیرملکی دوروں پر واویلا کرنا بھی انتہائی غیر ضروری ہے، یہ دورے ہمارے نمائندوں کا استحقاق ہیں۔ جس کے لئے اس ملک کے کروڑوں لوگ پیٹ کاٹ کراپنے منتخب نمایندوں کو ہر طرح کا عیش و آرام بہم پہنچاتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم اپنے نمائندوں کے مستقبل کے لئے بھی کوشاں ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ یہ ارکان اسمبلی جو دن رات اس قوم کی بہتری اور خوشحال مستقبل کے لئے کوشاں ہیں۔ان کے لئے رہنے کو کوئی گھر نہ ہو۔ اس لئے بہت جلد ان ارکان اسمبلی کو اسلام آباد میں ایک ہزار گز کے پلاٹ دئیے جائیں گے۔کراچی کی میڑوپولیٹن کارپوریشن کے ارکان نے بھی کونسل کے اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ تیسر ٹاﺅن کی نئی بستی میں ان کی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں ایک ایک پلاٹ دیا جائے،حال ہی میںدنیابھرمیں بدعنوانی کے حقائق کا جائزہ لینے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کے بارے میں جو رپورٹ شائع کی ہے وہ انتہائی نامناسب ہے۔اور یہ ہمارے ہردلعزیز صدرکی حکومت کے ایک زبردست دھچکا دینے کی انتہائی بھونڈی کوشش ہے۔جو اس ملک کی بہتری کے لئے ہر ماہ ۰۲ دن غیرملکی دوروں پر گھر بار سے دور رہ کر اس ملک کے غریب عوام کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کے کوشس میں مصروف ہیں۔ اس رپورٹ میںپاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات پر جوعدم اعتماد کا اظہارکیاگیاہے وہ بھی اس ملک کے عوام کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے نا مناسب وقت میں شائع ہوئی ہے جب صدر مملکت امریکا بہادرکے لیے بے مثال خدمات کے عوض فرینڈز آف پاکستان کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود تھے۔۔ ان حرکتوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد دوگہرے دوستوں یعنی چین اور سعودی عرب کا اعتماد بھی پاکستان پرمجروح ہوگیاہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل تھوڑے تھوڑے وقفے سے پاکستان میں بدعنوانی کے بارے میں رپورٹیں شائع کرتی رہتی ہے لیکن اب یہ رپورٹ جلدی جلدی شائع کیجارہی ہیں۔جون 2009ءمیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق تین برسوں میں سوا چار سوفیصد بدعنوانی میں اضافہ ہواہے۔ دنیابھرمیں بدعنوانی‘ رشوت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے۔ ان اداروں کو بدعنوانی سے کوئی نفرت نہیں ہے۔ بلکہ یہ رپورٹیں صرف اس لیے مرتب کی جاتی ہیں کہ رشوت کے نام پر مقامی حکمرانوں کو بلیک میل کرکے ناپسندیدہ احکامات منظورکرائے جائیں۔ ہمارے نمائندے بہت غریب ہیں۔ قومی اسمبلی میں عوام کے منتخب نمائندوں کے جمع کروائے گئے اثاثوں کے مطابق کئی سابق وزراء اور ممبران اسمبلی کی ملکیت میں کوئی گھر یا گاڑی بھی نہیں ہے۔الیکشن کمیشن میں داخل کرائے گئے اثاثوں کےمطابق اسی س سے زیادہ سابق ممبران قومی اسمبلی، سابق وفاقی وزراءفیصل صالح حیات،اویس لغاری، وصی ظفر اور نصیر خان جبکہ وزرائے مملکت مخدوم خسرو بختیار،حنا ربانی کھراور حامد یار ہراج بھی شامل ہیں، کے پاس اپنا گھر نہیںتھا۔ سابق قانون وصی ظفر نے الیکشن کمشن کو بتایا تھاکہ وہ اپنا گھر اپنے بیٹوں کو تحفہ میں دے چکے ہیں۔ان اثاثوں کے مطابق چوہدری شجاعت حسین کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں تھی ۔ جبکہ ان کی اسلام آباد اور لاہور میں دو گھروں میں فقط شراکت داری ہے۔ خورشید شاہ کے پاس بھی کوئی گھر نہیں ہے۔دو سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین اور ظفراللہ جمالی کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ان کے علاوہ وفاقی وزیر دفاع راو ¿ سکندر اقبال ،وفاقی وزیر تجارت ہمایوں اختر خان جن کی ملوں اور پیپسی کے کاخانوں کی دھوم تو سب نے سنی ہے مگر ان کے پاس بھی کوئی گاڑی نہیں ہے۔وزیر داخلہ آفتاب شیرپاو ¿، مخدوم فیصل صالح حیات، وفاقی وزیر صحت نصیر خان، وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق اور رضا حیات ہراج نے بھی حلفاً کہا ہے کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ اتنے غریب ارکان اسمبلی کی مدد کے لئے اگر وزیر اعظم پلاٹ دیں، یا کوئی کمیشن دے تو کوئی بری بات نہیں ہے، دنیا والے تو بات کا بتنگڑ نالیتے ہیں،ٹرانسپیرینسی انٹر نیشنل والے بھی جھوٹ بولتے ہیں، یہ سب ہمارے ہردلعزیز صدر اور عوام کی محبوب جیالی قیادت کو نا مقبول بنانے کی کوشس ہے۔جس پر کسی کو یقین نہیںکرنا چاہیئے۔



Leave a Comment







بولو جی ۔۔۔ تم کیا کیا خریدو گے

September 30, 2009, 5:36 am

Filed under: Uncategorized

بولو جی ۔۔۔ تم کیا کیا خریدو گے

عطامحمد تبسم

خلیجی ممالک کو سات لاکھ ایکٹر پاکستانی اراضی لیز پر زرعی فارمز قائم کرنے کے لئے دینے کی اطلاعات نے پوری قوم کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیرِ سرمایہ کاری وقار احمد خان نے اے پی پی کو بتایا کہ ’ہم پاکستان بھر سے دس لاکھ ایکڑ زمین ایسے سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو اسے خریدنا چاہیں یا پھر طویل مدت کے لیے پٹے پر لینے کے خواہشمند ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ادھر امریکہ ہے کہ پاکستان میں سفارت کاری کے نام پر یا دوسرے پروجیکٹ کی آڑ میں دھڑ دھڑ زمین خریدنے میں مصروف ہے۔ چاہے زمین اسلام آباد کی ہو یا پشاور یا کراچی ڈیفنس کی امریکہ کو یہ ہر قیمت پر چاہئے۔ گیری لوگر بل کی شرائط میں کیا کیا پنہاں ہے۔ اسے آپ ایک نظر میں نہیں سمجھ سکتے۔ اس معاہدے میں اگر ، مگر کی شرائط اتنی پیچیدہ ہیں۔ کہ آپ ان کی گرہیں نہیں کھول سکتے۔لاہور کی عدالت میں اس سلسلے میں جو درخوا ست دائر ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ © ملکی اراضی لیز پر دینے کا اقدام ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کرنے کے مترادف ہے اور اراضی لیز پر دینے کا معاہدہ دراصل عام کاشت کاروں کے لیے موت کا پروانہ ہوگا کیونکہ اس اقدام سے کسانوں کو زرخیز اراضی سے محروم کر دیا جائے گا۔کسان بورڈ نے یہ مقدمہ قائم کیا ہے۔ اور اس کے وکیل کا کہنا ہے کہ حکومت یہ اراضی غیر ملکیوں کو دینے کے بجائے چھوٹے کسان کو دے جس سے نہ صرف کسان خوشحال ہوگا بلکہ ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔سعودی حکومت اور پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے درمیان پاکستان میں زرعی زمین پٹے پر دینے کے لیے جو روابط ہوئے ہیں ان کی بنیاد سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بننے والا ایک قانون ہے جس کے تحت حکومت کسی بھی ملک، غیر ملکی فرد یا کمپنی کو ملک کے چاروں صوبوں میں لامحدود زرعی زمین آسان شرائط اور پرکشش مراعات پر زرعی استعمال کے لیے فروخت کرنے یا پٹے پردینے کی مجاز ہے۔حکومت پاکستان کو یہ اختیار سنہ دو ہزار دو میں بننے والے کارپوریٹ فارمنگ ایکٹ کے ذریعے حاصل ہے جس کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک پالیسی بھی تیار کی گئی تھی ۔سابق صدر پرویز مشرف کے جاری کردہ اس قانون کے تحت وزارت خوراک و زراعت نے سرمایہ کاری بورڈ کے ذریعے ملک کے چاروں صوبوں میں اکانوے لاکھ ہیکٹر قابل کاشت زمین کی نشاندہی کی ہ تھی۔ جو تاحال زیر کاشت نہیں لائی جا سکی ہے۔ اس میں سے اڑتالیس لاکھ ہیکٹرز بلوچستان کے قلات، کوئٹہ، نصیر آباد اور مکران ڈویڑن میں واقع ہے۔ پنجاب میں یہ زمین ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہور میں، صوبہ سندھ میں حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ میں ہے جبکہ صوبہ سرحد کے جن اضلاع میں اس نوعیت کی سرکاری زمین کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ اور کوہاٹ شامل ہیں۔ قابل کاشت اراضی فروخت کرنے سے ملک میں خوراک کا بحران مستقبل میں مزید بڑھنے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔

ان علاقوں میں موجود زمین کو زرعی مقاصد کے لیے ملکی و غیر ملکی کارپوریٹ اداروں اور ممالک کو فروخت کرنے یا نناوے برس کے پٹے پر دینے کے لیے مراعاتی پیکج بھی موجود ہے۔ اس پیکج کی خاص بات یہ ہے کہ اس پالیسی کے تحت فروخت کردہ زمین پر کاشتکاری یا فارمنگ کو صنعت کا درجہ حاصل ہو گا جس کے باعث نہ صرف اس سلسلے میں درآمد ہونے والی مشینری ڈیوٹی فری ہوگی بلکہ مختلف مدوں میں یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ٹیکس کی چھوٹ بھی دی جائے گی۔زرعی فارمنگ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو مقامی پارٹنر ساتھ ملانے کی پابندی بھی نہیں ہو گی اور اس زمین کی پیداوار اور یہاں بننے والے مویشیوں کے فارمز کی مصنوعات وہ براہِ راست ملک سے باہر بھیجنے کے مجاز ہوں گے۔اس زمین سے حاصل ہونے والے منافع کو بھی ملک سے باہر لیجانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔مشرف تو چلے گئے۔ ان کی ڈیل اور ڈھیل اس ملک کے عوام کے لئے گلے کا پھندا بنی ہوئی ہے۔امریکہ ہو یا دوسرے غیرملکی سرمایہ دار سب لالچی نظروں سے پاکستان کو دیکھ رہے ہیں ۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں کیا ہوگا۔ اس کا اندازہ اس عبرتناک حقیقی واقعے سے کر لیئجے۔ کل یہ دن ہمیں بھی دیکھنا ہوں گے۔ جاپان کے ایک زمیندارسوئیجی چیبانا جو ان زمینداروں میں سے ایک ہیں ان کی آبائی زمین ۰۵برس سے امریکی فوجی اڈوں کے تصرف یا قبضے میں رہی ۔ اتنے عرصے یہ اپنی زمین پر قدم رکھنے سے بھی محروم رہے۔ ۶۹۹۱ میں جب جاپان امریکی فوجی معاہدے کی تجدید سے قبل چند دن کے لئے عبوری طور پر یہ معاہدہ اس وقت کے صدر کلنٹن کی آمد اور اس پر دستخط ہونے تک معلق رہا ۔ جاپانی عدالت نے ایک دشور گزار مقدمے کے دوران سوئچی پیبانا کو یہ حق دیا کہ وہ ایک دن کے لئے اپنی زمین پر قدم رکھ سکتے ہیں۔چنانچہ شکستہ دل کسان نے اس دن اپنے احباب ، دوستوں ، رشتہ داروں کو اکٹھا کیا۔ اور جا پان کا یک روایتی ساز شامی سین بجا کر اپنی زمین سے عقیدت اور محبت کا اظہا ر کیا۔



Leave a Comment







زندہ قومیں اپنے ہیروز کا ایسے ہی استقبال کرتی ہیں

September 17, 2009, 5:52 am

Filed under: Uncategorized

عطا محمد تبسم



زندہ قومیں اپنے ہیروز کا ایسے ہی استقبال کرتی ہیں ۔جیسے عراقی عوام نے بش پر جوتا پھینکنے والے عراقی صحافی منتظر زیدی کی ر ہائی کے بعدان کا استقبال کیا۔زیدی نے صدر بش پر جوتا پھینکتے ہوئے انہیں ’ کتا‘ کہا تھا ان کے اس جرم کے لیے انہیں تین سال کی سزا سنائی گئی تھی اور مارچ میں جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن ان کے صاف ستھرے ماضی کے سبب ان کی تین سال کی سزا کم کر کے ایک سال کردی گئی تھی اور اب جیل میں ان کے اچھے برتاو ¿ کی وجہ سے انہیں گذشتہ روز رہا کردیا گیا۔

منتظر زیدی کو صدر بش پر جوتا پھینکنے کے بعد عرب دنیا میں ایک ہیرو کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اور وہ اس کے مستحق بھی ہیں ، انہوں نے بش کو اس وقت کتا کہا تھا۔ جب امریکہ کا جھوٹ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اور بہت سے غدار ان کے آگے اور پیچھے دم ہلاتے پھر رہے تھے۔ صدر بش پر جوتا پھینکنے سے قبل منتظرالزیدی کو بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن ان کی جرات اور قومی حمیت نے انھیں ساری دنیا میں مشہور کردیا۔ وہ قاہرہ کے ایک نجی ٹی وی چینل ’البغدادیہ‘ کے لیے کام کرتے تھے ۔ایک پریس بریفنگ میں انہوں نے جب سابق امریکی صدر پر جوتا پھینکتے ہوئے کہا کہ’ کتے یہ عراقی بیواو ¿ں، یتیم بچوں اور ان عراقیوں کی جانب سے الوداعی تحفہ ہے جو عراق میں مارے گئے ہیں‘۔ان کا یہ انوکھا احتجاج ساری دنیا میں ٹی پر دیکھا گیا۔اور زیدی عرب دنیا کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک میں بھی ایک ہیرو کی حیثیت سے دیکھے جانے لگے ۔ جو لوگ بش پر جوتے پھینکنا چاہتے تھے ۔ ان کے نزدیک بش کو اس سے بہتر ڈھنگ سے الودع نہیں کہا جا سکتا تھا۔ایک خون آشام بھیڑیئے کے لئے یہ عبرتناک ، ذلت آمیز اختتام تھا۔زیدی کو اس کی پاداش میں جیل میں تشدد برداشت کرنا پڑا۔ان کی اس جی داری پر عراق ہی نہیں دنیا بھر میںلوگوں نے جشن منایا ،انٹرنیٹ پر گیمز بنائے گئے، ٹی شرٹ بنائی گئیں۔ اور ان کی رہائی کا جشن جاری ہے،ایسے ہی مناظر لیبیا میں اس وقت دکھائی دیئے تھے ۔ جب گزشتہ دنوں لیبیا کے ہیرولاکربی بمبار عبدالباسط علی المگراہی سکاٹ لینڈ کی جیل سے رہائی کے بعد لیبیا واپس پہنچے ۔ جہاں سینکڑوں لوگ ان کے استقبال کے لیے جمع تھے۔

عبدالباسط علی محمد المگراہی کو انیس سو اٹھاسی میں پین ایم کے مسافر جہاز کو سکاٹ لینڈ کے قصبے لاکربی کے اوپر دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کے جرم میں ستائیس برس کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس واقعے میں دو سو ستر افراد ہلاک ہوئے تھے۔لیبیا کے صدر معمر قذافی کے بیٹے نے ک المگراہی کی لیبیا واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں اسکاٹ لینڈ کی حکومت نے لاکربی طیارے کی تباہی کے الزام سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کر دیا تھا۔ المگراہی مثانے کے کینسر میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق ان کے زندہ بچنے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔امریکی اس رہائی پر شیخ پا ہیںاور امریکہ کے صدر براک اوباما نے المگراہی کی رہائی کو غلطی قرار دیا ہے۔ امریکیوں کا مطالبہ ہے کہ لیبیا کی حکومت کو المگراہی کا ہیرو کے طور استقبال نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور اب انہیں نظربندی میں رکھا جائے۔امریکہ نے عبد الباسط المگراہی کی ممکنہ رہائی یا لیبیا منتقلی کو رکوانے کی کوششیں کی تھیں۔ امریکہ کے سات سینٹروں نے سکاٹ لینڈ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ عبدالباسط المگراہی کو رہا نہ کرے۔ امریکی سینیٹروں نے جن میں ایڈورڈ کینیڈی اور جان کیری بھی شامل ہیں لاکربی کے ملزم المگراہی کی جلد رہائی کے فیصلے پر تشویش ظاہر کی تھی۔ ’لاکربی کا واقعہ بھی امریکی سی آئی اے کی سازش تھی۔ جیسی سازش گیارہ ستمبر دو ہزار کا واقعے تھا۔ یہ مسلمانوں کو بنام کرنے اور ان کے ملکوں پر قبضہ کرنے کی سازش ہے جو آہستہ آہستہ بے نقاب ہورہی ہے۔



گو امریکیوں نے اس کے بدلے میں لیبیا سے بھاری تاوان حاصل کیا ہے۔لیکن اس پر بھی وہ مطمعین نہین ہیں۔ عراق اور لیبیا کے عوام اور حکومتیں اپنے ہیروز کا ایسے ہی استقبال کر تی رہیں گی۔لیکن ہماری قوم کو کیا ہوگیا ہے، اور ہمارے حکمرانوں کی غیرت کہاں سو گئی ہے، کہ اس قوم کی ایک مظلوم بیٹی امریکہ کی قید میںہے، اس کوئی جرم بھی ثابت نہیں ہوا، اس پر تشدد کرکے ذہنی معذور بنا دیا گیا ہے، ہماری عدالتیں ، عوام، اس کی رہائی کے منتظر ہیں۔ لیکن امریکی حکومت ایک نہتی لڑی سے لرز ہ بااندام ہے۔ ڈاکٹر عافیہ اس قوم کی بیٹی ہے جسے زر فروشوں نے ڈالروں کے عوض بیچ دیا ہے،اس کے دو بچے اب بھی لاپتہ ہیں، اس کے ایک بیٹا آج بھی اپنی ماں کی راہ دیکھ رہا ہے۔کہ شائد عید پر اسے ماں کی رہائی کا تحفہ مل جائے۔



Leave a Comment







September 11, 2009, 4:41 am

Filed under: Uncategorized

نائین الیون تاریخ انسانی کا سیا ہ باب

عطامحمد تبسم

امریکا میں رونما ہونے والا نائین الیون کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کے ردعمل نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہو نے والی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں افغانستان اور عراق کو جنگ کے کھلے میدان میں تبدیل کیا وہا ں پاکستان کو بھی شدید جانی مالی نقصان اور اس کی سا لمیت کو خطرات سے دو چار کردیا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ ان ملکوں میں بھی دہشت گردی شروع کردی ہے جو اس کا ساتھ دے رہے تھے۔آج پاکستان اور ایران جیسے ملک اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ اس واقعہ کو گزرے ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن اس کے ردعمل کی باز گشت آج بھی دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔

نائن الیون

گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت اور نیو یارک میں تجارتی مرکز ورلڈٹریڈ سینٹر سے ہائی جیک کئے جانے والے تین طیارے ٹکرا دیئے گئے اور محکمہ خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ) کے باہر کار بم دھماکاہوا۔ امریکا میں ہو نے والے ان خود کش حملوں کے باعث 2974افراد لاپتہ ہوگئے۔ مرنے والوں میں دنیا کے 90ملکوں کے تمام شہری شامل تھے۔ہزاروں افراد ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جب کہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ملک کے تمام ہوائی اڈے بند کرد یئے گئے اور وائٹ ہاو ¿س سمیت اہم سرکاری عمارتیں خالی کرا لی گئیں۔گیارہ ستمبر بروز2001 منگل کی صبح نیو یارک میں جس وقت ہزاروں لوگ دفاتر جانے کے لئے اپنے گھروں سے نکل رہے تھے کہ ایک بوئنگ 767طیارہ ورلڈٹریڈ ٹاور کی 110منزلہ عمارت کے پہلے ٹاور سے ٹکرا یا۔ اس حادثے کے ٹھیک اٹھارہ منٹ بعد بوئنگ 757طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 110منزلہ دوسرے ٹاور سے ٹکرا یا۔ ان دونوں حادثات کے ٹھیک ایک گھنٹے بعدیو نائیٹڈ ائیر لائنز کا ایک اور بوئنگ 757طیارہ واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت پر گر گیا جس سے پینٹا گون کا صدر دفتر جزوی طور پر تباہ ہو گیا جب کہ عمارت کے دوسرے حصے میں آگ لگ گئی۔ ان حملوں کے بعد واشنگٹن میں ہی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل کے نزدیک طاقتور بم دھماکا ہوا اور فوراً ہی واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے قریب ہی ایک اورطا قتور بم دھماکا ہوا۔ ان حملوں کے بعد ریاست پنسلوانیا میں ہی ایک بوئنگ 757 طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا جس سے اس میں سوار 145افراد ہلاک ہو گئے۔نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے دونوں طیارے ہائی جیک کئے گئے تھے۔بوئنگ767طیارے کو بوسٹن سے لاس اینجلس جاتے ہوئے جب کہ دوسرے طیارے کو ڈلاس سے لاس اینجلس جاتے ہوئے اغوا کیا گیا۔ ان دونوں طیاروں میں کل 156افراد سوار تھے جو اس حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ان دونوں طیا روں کا تعلق امریکی ائیر لائنز نامی ایجنسی سے تھا جب کہ پینٹاگون پر گرنے والے طیارے میں 47افراد سوارتھے جو تمام ہلاک ہو گئے۔اس طیارے کا تعلق بھی یو نائیٹڈ ائیر لائن نامی کمپنی سے تھا۔یہ دونوں طیارے بھی راستے سے ہی ہائی جیک کر لئے گئے تھے۔ورلڈٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور ز ان حملوں کے بعد زمیں بوس ہو گئے۔۱

“حملے کے بعد“

ان حملوں کے بعد امریکا میں زبردست خوف وہراس پھیل گیا۔نیو یارک اور واشنگٹن سے لوگ پناہ کی تلاش میں فرار ہو نے لگے اور امریکا میں آنے والی تمام پروازوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ کینیڈا میں اتریں۔ امریکا میں ٹرین سروس بھی معطل کردی گئی۔امریکا میں تمام پلوں اور سرنگوں کی بھی ناکہ بندی کردی گئی اور ایف بی آئی نے معاملے کی تحقیقات شروع کردیں۔ امریکی حکام نے ورلڈٹریڈسینٹر پر دہشت گردی کے واقعہ میں چھ حملہ آور وں کے ہلاک ہو نے کا دعوی کیا تاہم ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں نہ ہی ان کی شناخت بتائی گئی۔۲

حملہ کس نے کیا؟

امریکی ٹی وی سی ،این، این نے حملوں کے بعد اس پروپیگندہ کا آغاز کیا کہ ان حملوں میں مسلمان انتہا پند ملوث ہیں۔امریکی صدر بش نے اسے کروسیڈ وار سے تعبیر کیا۔ سی این این نے باوثوق ذرائع کے حوالے بتایا کہ ان حملوں میں ان لو گوں کا ہاتھ ہے جن کا تعلق اسامہ بن لادن کی تنظیم سے ہے۔دنیا میں ایسی دہشت گرد تنظیمیں بہت کم ہیں جن کے پاس اتنے مالی وسائل اور جدید نیٹ ورک ہے جو اس طرح کے بڑے اور مربوط حملے کر سکتی ہیں۔ایک مبصر کا کہنا تھا کہ اس دہشت گردی کے اگرچہ مٹھی بھر لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں



نے طیارے اغوا کئے یا چلا کر عمارتوں سے ٹکرا دیئے مگر ان کے پیچھے ایک ماسٹر مائنڈبھی موجود ہے۔اب تک تو صرف دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہی زیر

بحث رہے مگر یہ بلند عمارتیں بھی بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بن گئیں جن سے صرف طیارے ہی ٹکرائے اب لوگوں کی توجہ ضرور اس جانب بھی جائے گی۔وائس آف امریکا کے مطابق حملوں کے باعث امریکا کو عشروں میں بد ترین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے۔بعض حلقے اس کا الزام اسامہ بن لادن پر عائد کرتے رہے۔ اس کی کڑیاں چند ماہ بعد ملنے والے اس ویڈیو بیان سے ملاتے ہیں جو حادثاتی طور پر ظاہر ہوئے تھے جن میں امریکی تنصیبات پر حملوں کے لئے کہا گیا تھا۔ایشیا سے ایک مبصر نے کہا کہ حملے کے لئے جس پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی ہے یہ اسا مہ بن لادن کے بس کی بات نہیں ہے۔اسامہ ان دنوں افغانستان میں مقیم تھے اور ان کی تمام تر سر گرمیوں پر پا بندی عائد تھی اور بیرونی دنیا سے ان کا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔جتنے بڑے پیمانے پر یہ کام ہوا ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ اسامہ بن لادن کا کام نہیں ہے۔مشرق وسطی کے ایک مبصر کا کہنا تھاکہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حملے میں کون ملوث ہے۔اوکلو ہو ما بم دھماکے میں پہلے مسلمانوں کو ذمہ دارٹھہرایاا گیا تھا مگر بعد میں امریکی ہی اس کے ذمہ دار پائے گئے تھے ۔ ایک فلسطینی مبصر نے کہا کہ حملے اور دھماکے کی ذمہ داری عرب دنیا پر عائد ہو گی۔ایک امریکی مبصر کا کہنا تھا اس سلسلے میں اسامہ پر شک کیا جا سکتا ہے۔۳

شکوک و شبہات



نو گیارہ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تیسرا مینار کیسے گرا تھا تیسرا مینار باقی دو میناروں کے سات گھنٹے کے بعد گِرا تھا ۔ سینتالیس منزلہ مینار جسے ’ٹاور سیون‘ بھی کہا جاتا ہے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں میناروں ’ٹوِن ٹاورز‘ کے تباہ ہونے کے سات گھنٹے بعد گرا تھا۔ تیسرے مینار کے بارے میں کچھ حلقوں کی طرف سے شک کا اظہار کیا گیا تھا کہ اسے خود دھماکہ کر کے گرایا گیا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی کے قریب ہی ماہرین کے ایک گروپ کی طرف سے عنقریب مکمل کی جانے والی رپورٹ میں اس شک کو رد کر دیا گیا۔ا اور تیسرے مینار کے گرنے کی وجہ اس کی مختلف منزلوں پر لگنے والی آگ بتائی گئی۔ یاد رہے کہ ’ٹوِن ٹاورز‘ کے برعکس تیسرے مینار سے کوئی جہاز نہیں ٹکرایا تھا۔ ماہرین کی تفتیش کے بعد یہ دنیا میں فولاد سے بنی پہلی بلند و بالا عمارت ہو گی جس کے زمین بوس ہونے کی وجہ آتشزدگی ہوگی۔ نیشنل انسٹٹیوٹ فار سٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے تفتیش کار ڈاکٹر شیام سندر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق امکان یہی ہے کہ تیسرے مینار کی مختلف منزلوں پر آگ پھیل رہی تھی جو بالآخر عمارت کے تباہ ہونے کی وجہ بنی ہوگی۔ تاہم آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئرز فار نائین الیون ٹروتھ نامی تنظیم سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسرے مینار کی تباہی کے بارے میں سرکاری طور پر بتائی جانے والی وجہ ناممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یقیناً اس مینار کو خود گرایا گیا ہوگا۔ تنظیم کے بانی رچرڈ گیگ نے کہا کہ چھٹی جماعت کا بچہ بھی اس عمارت کو گرتے ہوئے دیکھ کر اس کی رفتار اور توازن کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ یہ مینار خود زمین بوس نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جو عمارتیں خود گرتی ہیں وہ سیدھی نہیں گرتی بلکہ اس سمت جھکتی جہاں سب سے کم مزاحمت ہو۔ ’وہ سیدھی نیچے نہیں جاتیں‘۔۴



اسامہ بن لادن

اسامہ بن لادن جس پر الزامات عائد کیے گئے۔ 1979ءمیں امریکہ کی مدد کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔ اور افغان وار میں روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ امریکیوں کے سانہ بشانہ روس سے نبرد آزما تھے۔تاہم ۰۸۹۱ کے عشرے میں روس کی شکشت کے بعد ان کے امریکوں سے اختلاف ہوگئے۔ 1996 میں انہوں نے پہلا فتویٰ جاری کیا تھا کہ امریکی فوجی سعودی عرب سے نکل جائیں۔ جس میں اسامہ بن لادن نے امریکہ کی اسرائیل کے بارے میں خارجہ پالیسی پر اعتراضات کیے تھے۔ (۵) ورلڈ ٹریڈ سینٹر اورپنٹاگون میں دہشت گردی کے گیارہ ستمبر کے واقعات پر امریکا کے سرکاری اداروں میں بڑی لے دے ہو ئی۔ دنیا کی منظم ترین اور ترقی یافتہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہر جگہ موضوع بحث بنی رہی۔ان حملوں کے دو دن بعد ایف بی آئی نے 19مشتبہ افراد کی فہرست جاری کی جن کا تعلق اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ سے جوڑا گیا۔ (۶)ان مشتبہ افراد کی فہرست اور تصویروں کی اشاعت کے بعد یہ حقائق بھی منظر عام پر آگئے کہ ان میں سے بیشتر افراد حادثے کے وقت امریکا سے ہزاروں میل دور تھے۔ جس سے ایف بی آئی کے لئے مزید جگ ہنسائی کا اہتمام ہوا۔

د۔ اسامہ بن لادن نے 16ستمبر2001ءکو امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ اس کا بیان الجزیرہ سے نشرہوا۔ جس میں اس نے کہا تھا کہ یہ



انفرادی کاروائی ہے اور ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (۷)تاہم بعد میں ڈرامائی طور پر اسامہ بن لادن کے ٹیپ منظر عام لائے گئے۔ امریکی صدراتی انتخاب 2004ءکے موقع پر اسامہ بن لادن کا ایک ایسا ٹیپ منظر عام پر لایا گیا۔ جس میں اس نے امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کا اعتراف کیا۔ اسامہ بن لادن کا انسانوی کردار کے بارے میں اب عوامی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ایک خیالی پیکر ہے۔ اب اسامہ بن لادن زندہ نہیں ہے۔ اور اس خیالی پیکر میں امریکہ سی آئی اے اپنے پسندیدہ رنگ بھرتی رہتی ہے۔ امریکہ نے خالد شیخ کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے۔ جسے پاکستان سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔خالد شیخ نے پہلے اعتراف اور پھر ان الزامات سے انکار کردیا ہے ۔ اور کہا



ہے کہ اسے ایک ہی بار موت سے ہمکنار کردیا جائے۔ کیونکہ وہ تشدد کے برتاﺅ سے تنگ آچکا ہے۔(۷) نائین الیون کے واقعات کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ صدر بش کی ہوس ملک گیر اور مسلم دنیا کے خلاف کاروائی تھی۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے دو آزاد مسلمان ملک عراق اور افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کر لیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ایک ماہر رچرڈ اے کلاوک نے اپنی کتاب Against all enimiesمیں لکھا ہے کہ امریکہ کی روس کے خلاف کاروائی اور افغانستان میں آمد اور جنوب میں اسرائیل کو مضبوط کرنے کی پالیسی نے ہی القاعدہ کو جنم دیا ہے۔ ایک اور نامہ نگار پیٹربرجین نے لکھا کہ ”یہ حملے اس منصوبے کا حصے تھے جس کے تحت امریکہ کو مشرقی وسطیٰ میں اپنی فوجی اور ثقافتی موجودگی میں اضافے کا موقع ملا۔ امریکہ نے نائین الیون کے بعد ناٹو کونسل کے ذریعہ یہ اعلان کرادیا کہ امریکہ پر ہونیوالے یہ حملے ناٹو اقوام پر حملے تصور کیے جائیں گے۔ اور امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ آغاز کیا اور کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو عدالت کے کہٹرے میں لائیں گے۔ (۸)گو اقوام متحدہ دہشت گردی کے کسی متفقہ تعریف پر متفق نہیں ہو سکی لیکن اس کے باوجود امریکہ نے دہشت گرد کو ٹھکانہ دینے والے ملکوں کے خلاف معاشی اور فوجی پابندیوں حفاظتی اور اطلاعاتی انٹیلجنس میں شرکت کی ذمہ داری ڈال دی۔ اور اس کا پہلا نشانہ افغانستان اور پھر عراق کو بنایا گیا۔ یہ دونوں آزاد جمہوی ملک تھے۔ جن پر آج بھی امریکی فوجیں اور ناٹو فوجیں موجود ہیں۔ ۸۱ ستمبر۱۰۰۲ کو پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نیاز نایک نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ جولائی ۱۰۰۲ میں ۱۱۔۹ کے نیویارک کے حملوں سے دو ماہ قبل اعلی امریکی حکام نے ان سے کہا تھا کہ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائی اکتوبر کے وسط میں شروع کی جاے گی۔ بلاشبہ افغانستان پر حملے کی منصوبہ بندی ۱۱۔۹ حملوں سے بہت پہلے کر لی گئی تھی اور مقصد اس کا امریکا کی عظیم تر فوجی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا تھا۔ عر۱ق پر امریکہ کے غاضبانہ قبضے پر آج ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ حملے عراق کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

محمد عطا

تیتنس سالہ محمد عطا کا تعلق مصر سے ہے۔ 1985 میں اس نے قائرہ یونیورسٹی میں سول انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کی۔ 90ئمیں ایک سول انجینئر نگ کمپنی کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ 97ءکے وسط میں وہ انسٹی ٹیوٹ سے پندرہ ماہ کیلئے غائب ہو گیا۔ اکتوبر 98ئمیں واپس آیا تو گھنی ڈارھی رکھی ہوئی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ میں اس نے ایک جماعت بنائی۔وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتا تھا۔ امریکا میں وہ نیو یارک میں رہنے لگا اور ایک سال کے اندر اندر اس نے ہوا بازی کی ٹرننگ حاصل کر لی۔ گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ “ان میں سے ایک مرون الشیحی، جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دوسری عمارت سے ٹکرانے والے جہاز پر سوار تھا۔”ایک فٹنس کلب میں دیکھا گیا جہاں انہوں نے تین گھنٹے گزارے اور وڈیو گیم سے لطف اندوز ہوئے۔ سی آئی اے کا گمان ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے ٹکرانے والے جہاز کے پائلٹ کو سیٹ سے ہٹا کر محمد عطا نے پائلٹ کی سیٹ سنبھال لی تھی۔بعد میں

عربی اخبار الشرق الاوسط کے نمائندے نے محمد عطا کے والد سے ملاقات کی تو اس کا دعوی تھا کہ ورلڈ ٹریڈسینٹر کے دھماکے کے بعد محمد عطا نے اسے فون کیا اور اس سے مختصر گفتگو کی۔ والد کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران محمد عطا کی آواز نارمل نہیں تھی اور اسے اندیشہ ہے کہ اس کے بیٹے کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔ والد کا کہنا ہے کہ محمد عطا ہوا بازی کی الف ب سے بھی نابلد ہے۔ اسے ہوائی سفر سے چکر آتے ہیں۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس “موساد”نے محمد عطا کو اغوا کر کے اسے قتل کیا ہو گا اور اس کے پاسپورٹ کو اس غرض کے لئے استعمال کیا ہو گا۔(۹)



مروان الشیحی

امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے جو مبینہ ہاکی جیکرز کی فہرست جاری کی تھی اس میں دوسراے ہاکی جیکرکا نام مروان الشیحی بتایا گیا ہے۔ تیئس سالہ مروان یوسف الشیخی کا تعلق



متحدہ عرب امارات سے ہے۔ تفتیشی اداروں کا خیال ہے کہ ٹریڈ سینٹر پر دوسرے طیارے کو ٹکرانے کے لئے مروان الشیحی اسے کنٹرول کر رہا تھا۔ گمان کیا جاتا ہے کہ مروان کی محمد عطا سے گہری دوستی تھی۔ گیارہ ستمبر سے قبل وہ اور اس کے دو ساتھی ہائی اسکول کے بعد 1998ء میں مروان متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج میں شامل ہو گیا۔ 1999ئمیں مسلح افواج نے اسے تعلیم کے لئے جرمنی بھیجا جہاں مختصر قیام کے بعد وہ امارات واپس آگیااور شادی کی۔ امارات میں 25دن گزارنے کے بعد واپس جرمن چلا گیا جہاں اس نے اپنے پاسپورٹ کی گمشدگی ظاہر کی اور نیا پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تفتیشی اداروں کے مطابق پرانے پاسپورٹ میں افغانستان کا ویزہ تھا جہاں وہ جہاد میں شرکت کرنے گیا تھا۔ نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد وہ امریکا روانہ ہو گیا۔ امریکا جانے کے بعد اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ ہیمبرگ میں وہ اپنی مصری والدہ کے رشتہ دار محمد عطا کے ساتھ رہتا تھا۔ مروان کے اچانک لاپتہ ہونے پر اس کے گھر والے پریشان ہو گئے تھے۔ اس کے بڑے بھائی نے امارات میں سرکاری اداروں سے رجوع کیا جنہوں نے جرمنی میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ اس کا بھائی خود جرمنی گیا جہاں اسے معلوم ہوا کہ وہ امریکا گیا ہوا ہے۔ بعد میں مروان نے امارات میں اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی لیکن اس نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے۔(۰۱)

زیاد سمیر الضراح

زیاد سمیر الضراح کا تعلق بیروت سے 75کلومیٹر دور ایک گاو ¿ں المرج سے ہے۔ امریکا کے تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ پنسلوانیا کے قریب گرنے والے جہاز کے ہائی جیکروں میں شامل تھا۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ جہاز کے پائلٹ کی سیٹ زیاد نے ہی سنبھالی تھی۔ شہری ہوابازی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ پانچ سال پہلے ہیمبرگ گیا تھا۔اس دوران وہ ہر سال اپنے گھر والوں سے ملنے بیروت آتا رہا۔ آٹھ ماہ قبل اس کے والد کا بائی پاس آپریشن ہوا تو وہ اسے دیکھنے آیا تھا۔زیاد کا والد اپنے بیٹے کو 1500ڈلر ماہانہ روانہ کرتا تھاجس سے وہ اپنی تعلیم اور ضروریات کا خرچہ چلاتا۔زیاد کے والد کا کہنا ہے کہ مذکورہ حملوں سے چار گھنٹے پہلے اسے زیاد کا فون آیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی کی طرف سے بوئنگ767کی تربیت کی لئے اسکالرشپ مل گیاہے اور وہ فلوریڈا جا رہا ہے۔زیاد کے چچا جمال الجراح نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ زیاد خوش مزاج نوجوان تھا اور وہ انتہا پسند تھا اور نہ اسلامی تعلیمات کا پابند۔ جرمنی میں وہ اپنی ترک گرل فرینڈ کے ساتھ رہتا تھا۔ واضح رہے کہ زیاد کی فیملی نے اس کی وہ تصویر بھی اخبارات کو جاری کی ہے جس میں زیاد کسی تقریب میں لڑکی کے ساتھ ڈانس کر رہا ہے۔ترک گرل فرینڈ نے اخباری نمائندون سے بات چیت کرنے ہوئے کہا کہ زیاد کا مذکورہ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے محمد عطا نامی مشتبہ شخص سے اس کا کوئی تعلق رہا ہے۔(۱۱)

عبدالعزیز العمری

ایف بی آئی کی فہرست میں مبینہ ایک اور ہاکی جیکر کا نام عبدالعزیز العمری بتایا گیا ہے۔ وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاورسے ٹکرائے جانے والے طیارے میں سوار تھا۔گمان ہے کہ وہ خود بھی پائلٹ تھا۔وہ ریاض میں 24دسمبر 1972کو پیدا ہوا۔ ایف بی آئی کے مطابق عبدالعزیز العمری فلوریڈا میں مقیم تھا۔مشتبہ افراد کی فہرست میں عبدالعزیز العمری کا نام بھی شامل ہے لیکن اس نے دھماکے کے تیسرے دن ریاض میں اخباری نمائندوں سے ملاقات میں کہا کہ دھماکے کے دوران وہ ریاض میں ڈیوٹی پر تھا۔وہ 1993ءمیں وہ انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول کے لئے امریکا کے شہر کو لوراڈو گیا جہاں قیام کے دوران (1995ئ) میں اس کے فلیٹ میں چوری ہو گئی جس میں اس کا پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات بھی غائب ہو گئے۔ چوری کے واقعے کی اس نے پولیس کے اطلاع دے دی۔31دسمبر 1995ئمیں اس نے نیا پاسپورٹ بنوایا۔ 11 جنوری 1996ء کو وہ نئے پاسپورٹ پر دوبارہ امریکا گیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپریل 2000ء کو وطن واپس آگیا۔ عبد العزیز نے کہا کہ وہ شہری ہوا بازی سے قطعی واقف نہیں اور نہ ہی کسی انتہا پسند تنظیم سے اس کی وابستگی ہے۔پنسلوانیا کے قریب گر کر تباہ ہونے والے طیارے میں مشتبہ احمد النعمی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فلوریڈا میں مقیم تھا اور وہیں ہوا بازی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد النعمی نامی یہ 23سالہ نوجوان سعودی عرب کے شہر عسیر میں مقیم تھاجہاں سے پندرہ ماہ پہلے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوا اور واپس نہیں آیا۔(۲۱)

احمد النعمی

امریکا کے تفتیشی اداروں کو ریاض میں مقیم احمد النعمی ایک پائلٹ کا بھی پتہ چلا ہے۔ مذکورہ جہاز میں سوار احمد النعمی فلوریڈا میں مقیم تھا۔ ایف بی آئی نے احمد النعمی کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کی جسے دیکھنے کے بعد احمد حیدر النعمی نامی سعودی ائیر لائن کا کارکن مقامی اخبار کے دفتر گیا اور مذکورہ حملوں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔33سالہ احمد النعمی نے بتایا کہ وہ ایئر لائن میں ہوائی جہاز کے عملے کا نگران ہے۔ وہ سعودی عرب کے شہر جیران میں پیدا ہوا۔ 1998ء میں وہ پہلی بار امریکا گیا۔ گزشتہ اکتوبر میں دوسری بار اور جولائی میں وہ آخری



بار امریکا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ تینوں بار اس نے اپنا کوئی سرکاری کاغذنہیں کھویا۔ انہوں نے اعلی تعلیم بھی جدہ میں حاصل کی۔ احمد النعمی گزشتہ 14سال سے سعودی ایئر لائن سے وابستہ ہے۔ امریکا میں مختص قیام کے دوران اس نے ہوٹل کے سوائ کہیں اور اپنا پاسپورٹ نہیں دکھایا نہ ہی امریکا میں اس نے کرائے پر گاڑی لی۔ احمد النعمی نے کہا کہ ایف بی آئی کی جاری کردہ فہرست میں مشتبہ افراد کی کثیر تعداد سعودی ایئر لائنز سے وابستہ ہے جن کی اکثریت 11ستمبر کے حملوں کے دوران امریکا میں نہیں تھی۔ ان کا نام مشتبہ افراد میں شامل کر کے ہمیں صدمہ پہنچا یا ۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ۰ نے حملوں میں ملوث افراد کے ملکوں مصر،لبنان،متحدہ امارات، سعودی عرب کے بجائے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے لیے افغانستان کو منتخب کیا جس کا اس واقعے سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔(۳۱)



عراق کی جنگ میں امریکیوں کی ہلاکت اور نقصانات

عراق کی جنگ میں 3ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلا ک ہو چکے ہیں، اس سے 10گنا زیادہ زخمی ہو ئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے 450ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے ، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں 2ٹریلین(2ہزارارب)ڈالر سے زیادہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔ (۴۱)

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات

پاکستان نے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں روز اول سے معاونت فراہم کی۔ امریکہ حملوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک بار پھر افغانستان مہاجرین کی آزادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت پاکستان امریکیوں کو فوجی اڈﺅں کی سہولیات ایندھن اور دیگر اشیاءکی فراہمی میں مدد دی اور القاعدہ کے شہبے میں 600افراد کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا۔ جنہیں بدنام زمانہ گوانتا بے (کیوبا) میں لے جا کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ نے جہاں بانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال میں ۲۵امریکی فوجی کاروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مزاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہیدہوئے ہیں۔

کونڈو لیزرائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ (Undr civilian control The need for Pakistan’s military to be placed ) اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے7ارب ڈالر کی امداد کے پیکچ کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجر مولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا گیا۔ امریکہ کے جوائنٹ چیف اسٹاف ایڈمرل مائک ملین نے کہا کہ اگر مجھے کسی اسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والا ہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقینا منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنچ کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرح سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیکل ہے ڈن(Michael Hayden)کا ارشاد ہے: القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہو گئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی اے کے ڈائریکٹر روبرٹ موئیلر(Mueller (Robert کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور © ©”وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہو جائیں گے۔“ اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کڑنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق: گذشتہ 10دنوں میں خطرے کے نئے احساس یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہو چکی ہے۔(ڈان، 21اپریل2008)90 ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں برسر پیکار ہیں اور گذشتہ تین سال میں 1200سے زائد فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح جنھیں دہشت گردکہا جاتا ہے ان کا جانی نقصان بھی اس سے کسی طرح کم نہیں۔ ینز3ہزار سے زیادہ عام شہری جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں انتشار ، افراتفری اورخون خرابہ ہے۔ آبادی کے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو نائن الیون کے بعد امریکا کے حواری بننے کی بڑی بھاری معاشی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکا تو یہی طعنہ دیتا ہے کہ ہم نے 11ارب ڈالر کی امدادی ہے مگر حقیقت یہ کہ اس میں سے2ارب ڈالر



فوجی خدمات کے معاوضے میں دی گئی ہیں۔ اور اصل معاشی امداد جس کا ایک حصہ قرض کی شکل میں ہے صرف 5ارب ہے ، جب کہ پاکستان کو ملک اور بیرونی محاذ پر جو معاشی نقصان اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ 2002ءمیں صرف پانچ سال کی بنیاد پر خود امریکا کی نارتھ کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ نقصان 10سے 12ارب ڈالر قرار دیا گیا تھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق گذشتہ سات سال میں یہ نقصان 12سے 15ارب ڈالر کا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں کی گئی اور نہ اس کا کوئی مطالبہ پاکستانی حکومت نے کیا، بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔(۵۱)

مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم

دانشوروں کا کہنا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے ہیں جب انہیں امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔شاید مسلم برادری بھی ایسے ہی مرحلے سے گزر رہی ہے۔گیارہ ستمبر اور سات جولائی کے واقعات کے بعد دنیا بھر میں نسلی، مذہبی اور سیاسی مباحثوں نے خاصی شدت پکڑ لی ہے ۔نائین الیون کے واقعات کے بعد امریکہ برطانیہ مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی اور مسلمانوں سے مشابہت کی بنا پر سکھوں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بیل اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ان حملوں کا سب سے زیادہ شکار مسلمان، عرب اور مشرقی وسطیٰ کے باشندوں کو بنایا گیاہے۔ 80ہزار عرب اور مسلمان باشندوںکے4فنگر پرنٹ لے گئے۔ انٹرویو اور تفتیش کی گئی۔ 5ہزار غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے نام پر ہزاروں افرادکی ایر پورٹ پر تلاشی اور گرفتاری اور بے دخلی کی گئی۔ (۶۱)

مسلمانوں کی دل آزاریاں



نائن الیون کے بعد دنیا میں مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ۔ حضور اکرم ﷺ کے دل آزار خاکہ شائع کیے گئے۔ جس پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔نائین الیون کی ساتویںبرسی پوری دنیامیںمنائی گئی۔دنیا بھرکے رسائل وجرائد میںاس حوالے سے تحریریںشائع ہوئیں۔لیکن اس موقع پرامریکہ میںمسلمانوں کی دل آزاری کی ایک اورحرکت ہوئی۔امریکہ کی ایک کمپنی نے انٹرنیٹ پرایک گیم جاری کیاہے ”مسلمانوںکاقتل عام”Muslim Massacreنام کے اس کمپیوٹرگیم کوفری ڈاﺅن لوڈکیاجاسکتاہے۔کئی مرحلوںمیںمکمل ہونے والے اس گیم کامسلح ہیرودنیاکومسلمانوںکے جودسے پاک کرنے کے مشن پر ہے۔مشین گن ،راکٹ لانچراوردیگرجدیدترین ہتھیاروںسے لیس یہ ہیروایک طیارے سے پیراشوٹ کے ذریعہ خلیج میںاترتا ہے اورمسلمانوںکاصفایا شروع کرتا ہے۔اس کے مدمقابل اسلامی لباس میںملبوس مسلمانوںکودکھایاگیاہے۔بیک گراﺅنڈ میںمسلم کلچرکے مطابق عمارتیںاورمذہبی مقامات مساجد کودکھاتے ہوئے یہ ہیرووہ مسلمانوںکوقتل عام کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔اسے سخت مزاحمت کاسامنا کرناپڑتا ہے۔لیکن یہ تمام مزاحمتوںکودورکرتے ہوئے قتل کرتا رہتا ہے۔اورگیم کے مراحل پارہوتے رہتے ہیں۔ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اس کا مقابلہ اسامہ بن لادن سے ہوتا اوریہ ہیرواسامہ کوقتل کردیتا ہے اوراگلے مرحلے کے لئے روانہ ہوجاتاہے۔اگلے مرحلے میںنعوذ باللہ اسکا مقابلہ اللہ اور رسول ﷺ سے دکھا یا گیا ہے۔اس طرح گیم مکمل ہوتا ہے۔یہ گیم بائیس سالہ امریکی سبوترواگ نے بنایاہے۔واگ آسٹریلیامیںمقیم ہے۔واگ کاکہنا ہے کہ اس گیم مقصدیہ پیغام دینا ہے کہ زمین کے کسی چپے پرمسلمان مردیاعورت زندہ نہ رہنے پائے۔اس گیم کے ریلیز ہوتے ہی عالم اسلام سے شدید ردعمل دیکھنے میںآنے لگا ہے۔پاکستان اورایران نے اس گیم کے خلاف سخت ردعمل کااظہارکرتے ہوئے گیم کوفوراً انٹرنیٹ سے ہٹانے کامطالبہ کیاہے۔ایران کی ایک تنظیم لشکرعلی کے سربراہ مہدی سروشانی نے کہا ہے کہ امریکہ اسلام اورمسلمانوںکے خلاف منافرت پھیلانے کی ملٹی ملین ڈالرمہم جاری رکھے ہوئے ہے۔عالم اسلام کوامریکہ کی سازش سے آگا ہ ہوناچاہے۔اورامریکی سازشوںکامنہ توڑ جواب دیناناگزیرہوتاجارہا ہے۔برطانیہ کی اسلامی تنظیم رمضان فاﺅنڈیشن نے اس گیم پرشدیدغصے کااظہارکیاہے۔ایک پاکستانی کمپیوٹرگیم ایکسپرٹ نے اس حرکت کومجرمانہ ذہنیت اوربیمارذہنی کامظہرقراردیاہے (۷۱)

ہندوستان کے مسلمانوں کی تذلیل

نائن الیون کے بعد لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل ایک معمول بن چکا ہے۔ ہندوستان دنیا کے ان چند ملکوں میں ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔یہاں تقریباً پندرہ کروڑ مسلمان ہیں اور وہ بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح گیارہ ستمبر کے منفی اثرات کی زد میں آئے ہیں۔گیارہ ستمبر کے بعد ہندوستان میں کشمیر اسمبلی اور ملک کی پارلیمنٹ پر حملے کیے گئے۔ شازس کے تحت بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں حملے کا نشانہ واضح طور پر ہندوو ¿ں کو بنایا گیا اور ردعمل میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ہے۔ ان میں ٹرینوں کے مخصوص ڈبوں میں دھماکے ، احمدآباد کے اکشر دھام مندر اور بنارس کے سنکٹ موچن مندر پر بم حملے شامل ہیں۔گزشتہ برس ہندوو ¿ں کے بڑے تہوار دیوالی سے ایک روز قبل دلی



کے مصروف بازاروں میں خونریزی بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے۔۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور گیارہ ستمبر کے نیو یارک کے حملے نےمسلمانوں کی شبیہ بری طرح مجروح کی ہے۔ہندوستان میں آج مسلمان شک کے محاصرے میں ہے۔ ممبئی اور دلی جیسے بڑے شہروں میں ہندو آبادی والے علاقوں میں لوگ اب مسلمانوں کے ہاتھوں مکان فروخت کرنے یا کرائے پر دینے میں ہچکچاتے ہیں۔انڈین مسلمانوں کو دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہراساں کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کی قیمت مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ادا کرنی پڑی ہے تو دوسری جانب ممبئی اور گجرات کے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت کے لیئے ایک شخص کو بھی سزا نہ دیئے جانے سے مسلم برادری مزید پستی اور شکستگی کے احساس سے گزر رہی ہے۔گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ نے سلامتی کے نام پر جس طرح کے اقدامات کیے ہیںان کی پیروی کر تے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔۔ حقوق انسا نی کی تنظیمیں اور مسلمان شکایت کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی صورت میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جاتا ہے، لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل کی جاتی ہے اور اکثر اذیتیں دی جاتی ہیں۔اقلیتی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میڈیا عموماً مسلمانوں کی منفی خبریں ہی پیش کرتا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد سلامتی کے بعض ماہرین اور ہندو دانشوروں کی طرف سے یہ تجاویز کھل کر سامنے آئیں کہ اسرائیل کے طرز پر ہندوستان کی سکیورٹی افواج کو بھی ان افراد کے مکانوں کو تباہ کر دینا چاہیئے جو دہشت گرد کارروائیوں میں شامل ہوں یا جن پر تخریبی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا شک ہو۔ گزشتہ سات برس ہندوستان کے مسلمانوں پر کافی بھاری گزرے ہیں۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے علماء دلی میں جمع ہوئے۔ انہوں نے دہشت گردی کی ہر شکل میں خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لیئے ہو مذمت کی اور اسے اسلام کی روح کے منافی قرار دیا۔علماء نے حکومت پر یہ واضح کر دیا کہ اسلام کو دہشت گردی سے منسوب نہ کیا جائے کیونکہ اسلام، بقول ان کے، بے قصوروں کی ہلاکت کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔(۸۱)

طاقت کا عدم توازن

روس کے زوال سے پہلے اور سرد جنگ کے دوران د ±نیا میں طاقت کا توازن قائم رہا اور عالمی طاقتیںعسکری محاذآرائی سے گریز کرتی رہیں۔ امریکہ اپنے زیرِ اثر کمزور ممالک میں اپنی پسند کی حکومتیں لاتا رہا اس کے لئے اکثر ممالک میں بغاوتوں کے لئے امریکی سرمایہ کے ساتھ امریکی خفیہ ایجینسیاںبھی سرگرم عمل رہیں۔افغانستان سے روس انخلا کے بعد روس کی شکست و ریخت کاسلسلہ شروع ہو گیا۔یہ د ±نیا میں بسنے والے تمام انسانوں کی بالعموم اور مسلمانوں کی بالخصوص بدقسمتی ہے کہ آج پو ری د ±نیا امریکی عالمی طاقت کے زیرِ اثر ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کا پوری د ±نیا میں تحفظ کرتا ہے چاہے اس کی قیمت دوسری اقوام کی آزادی اور خود مختاری ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیربھی م ±ردہ ہو چکا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے سانحے میں مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً۰۰۸۲ افراد ہلاک ہوئے۔ جس کے بعد امریکہ نے اس سانحے کے ذمہ دار افراد کو سزا دینے کے لئے پہلے افغانستان کو تباہ کیا ، پھر عراق کو اور اب پاکستان پر ہر ہفتے میزائل داغے جاتے ہیں۔تین ہزار سے کم افراد کی ہلاکت کے بدلے امریکہ اب تک پچیس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کر چکا ہے اور ا ±س کے بدلے کی آگ ہے کہ اور بھڑکتی جا رہی ہے۔ اب امریکہ انجانے خوف میں مبتلا ہو چکا ہے اور مزید ہلاکتوں پر ت ±لا ہوا ہے۔ اپنے ملک سے لاکھوں میل کی دوری پر رہنے والے غیر ترقی یافتہ قبائلی لوگوں سے امریکہ خائف ہے ۔ایک ایسی عالمی طاقت جو اپنے انتہائی جدید سیٹیلائٹ نظام سے د ±نیا کے کسی مقام کی تصاویر لے سکتی ہے جس نے افغانستان کی غاروں پر د ±نیا کے وزنی ترین بم برسائے۔ جس کی خفیہ ایجینسیوں کا نیٹ ورک پوری د ±نیا میں پھیلا ہوا ہے وہ آٹھ نو سال سے اسامہ بن لادن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

امیکہ نے ا ±سامہ کے بھوت کو زندہ رکھا ہوا ہے اور اسے زندہ رکھنے میں امریکہ کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اسی بہانے وہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام مسلمان ممالک کو یکے بعد دیگرے اپنے غضب کا نشانہ بنا سکتا ہے۔اور اپنے نورِ نظر اسرائیل کو خوش رکھ سکتا ہے۔امریکہ نے د ±نیا میں جو قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کا وہ تنہا ذمہ دار نہیں بلکہ تمام اقوامِ عالم بھی اس کی ذمہ دار ہیں۔ اسلامی امہ کی بے حسی حیرتناک ہے۔ اب تک کسی بین الاقوامی فورم پر امریکہ کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم کے خلاف کوئی تحریک پیش نہیں ہوئی۔ او۔ آئی۔ سی ، عرب لیگ اور غیر جانبدار تحریک بھی اس سلسلے میں کوئی قرارداد سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں اور نہ ہی ان تنظیموں کے ر ±کن ممالک عالمی امن کو بچانے لئے کسی لائحہ عمل پر متفق ہو سکے ہیں۔

امریکہ د ±نیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا سب سے بڑا ملک

ہیروشیما اور ناگاساکی میں آج بھی امریکی بربریت کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ افغانستان کے پہاڑوں پر امریکی کارپیٹ بمباری نے بہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ دجلہ اور فرات کا پانی پندرہ لاکھ عراقیوں کے خون سے سرخ ہو چکا ہے۔ کیا۔ تمام صورت حال امریکی مفادات کے حق میں ہے اور موجودہ صورت حال تیزی سے امریکی مفادات کو



تقویت پہنچانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ صدر بش اپنی ہاری ہوئی ضنگ کو جیتنے کے لئے پاکستا ن کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جس کے لیے انھوں نے بھارت اور افغا نستان کو آلہ کار بنالیا ہے۔ اس خطے میں امریکی عزائم پورے ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔امریکہ کے در پردہ عزائم ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت کوبے بس کردیا جائے اور اس کی سرززمین پر اپنی گرفت مضبوط کرکے وسط ایشیا کے وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے اور بلوچستان میں اپنا بڑا فوجی اڈہ قائم کر کے وہ علاقائی پانیوں پر اور تیل اور گیس کی تجا ر ت اپنی نگہداشت مﺅثر کرسکے۔ اور امریکہ پاکستان میں چین کا بھی اثر رسوخ ختم کردیا جائے۔ اورامریکہ کی سب بڑی خواہش ہے کہ پاکستان جلداز جلد امریکی فوج کے ہمراہ آزاد قبائل کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ جنگ بہت زیادہ طوالت پکڑ گئی تو کہ خدا نہ کرے کہ سرحد اور بلو چستا ن میںمشرقی پاکستان جیسی ملک علیحدگی تحریک زور پکڑ جائے۔ سرحد گورنمنٹ نے امریکہ کی ایما پروزیرستان ہنگو کے علاقوںمیں طالبان پر قابو پانے کے لئے اور ان کی سرکوبی کیلئے فوج بلا لی ہے۔لیکن پاکستان کی فوجی کاروائی کے بعد بھی اگر امریکی اہداف پورے نہ ہوسکے تو امریکہ نے اگر براہ راست وزیرستان پر بڑا حملہ کرنے کی غلطی کی تو اس خطے کا امن عراق اور افغانستان جیسا میدان جنگ بن سکتا ہے۔امریکہ وزیرستان کوعراق کی سرزمین میں تبدیل کرسکتا ہے۔ جو سرزمین مستقل قتل و غارت کی سرزمین بن چکی ہے۔



امریکہ بدترین مالی بحران



ا امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بد تریین مالی بحران سے گزر رہا ہے۔امریکہ کی تاریخ میں انیس سو تیس کے بعد آنےوالے اس بدترین مالی بحران کی وجہ سے ایشیا بھر کی تمام بڑی بڑی مارکیٹوں میں ٹریڈنگ زوالہ کا شکار ہیں۔ امریکی صدر نے امریکی ساکھ کو بچانے کے لئے کھربوں ڈالر کا سرمایہ کا سہارا فراہم کیا ہے۔لیکن عالمی منڈی میں اس اعتماد میں کمی ہوئی ہے، ایشیائی ،جاپان، جنوبی کوریا، چین اور تائیوان کے حصص بازاروں میں پانچ سے چھ فیصد کی کمی ہوئی ہے، نیویارک کے حصص بازار وال سٹریٹ میںگزشتہ دنوں گزشتہ چھ برس میں شدید ترین مندی دیکھنے میں آئی۔ امریکہ میں یہ مالیاتی بحران ملک کے چوتھے بڑے بینک لیہمن برادرز کی طرف سے دیوالیہ ہونے کی درخواست دینے کے بعد شروع ہوا ہے۔۔ ہا۔دریں اثناء امریکن انٹرنیشل گروپ (اے آئی جی) کے بیٹھ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ اے آئی جی کبھی دنیا کے سب سے بڑے انشورنش گروپ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ گروپ بھی پیسہ اکھٹا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اے آئی جی امریکہ کے فیڈرل ریزروز سے قرض حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ مختلف ملکوں کے مرکزی بینکوں نے مارکیٹوں میں اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ امریکہ کے فیڈرل ریزورز نے ہنگامی بنیادوں پر دیئے جانے والے قرضوں میں توسیع کر دی ہے جبکہ برطانیہ اور یورپ کے مرکزی بینکوں نے انتالیس ارب ڈالر کی مالیاتی نظام میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے چوتھے بڑے بینک کا دیوالیہ ہونے کی درخواست دینا اور پچاس ارب ڈالر میں ایک اور بڑی بروکریج فرم میری لنچ کی فروخت نے امریکہ کے مالیاتی منظر کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے اس بحران پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہ حکومت اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس طرح کے اداروں کا بیٹھ جانا امریکہ میں مارٹگیج مارکیٹ میں آنے والے مالیاتی بحران کا حصہ ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس طرح کے کتنے اور بینک اور مالیاتی ادارے اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ا۔ امریکہ کے وزیر خزانہ یا ٹریڑری سیکریٹری ہینری پالسن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اس بات کو مناسب نہیں سمجھتے کہ لوگوں کے ٹیکسوں کا پیسہ لیہمن برادرز کو بچانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ماضی حال ہی میں حکومت نے ایک اور بینک بیر سٹرنز کو بچانے کے لیے ٹیکسوں کا پیسہ استعمال کیا تھا۔ پالسن نے کہا کہ موجودہ عالمی مالیاتی بحران آخر کار بہتری لائےگا۔۔لہیمن بردار کے دیوالیہ ہونے کی درخواست کے بعد اس کے دفاتر سے ملازمین گتے کے ڈبو میں اپنی ذاتی اشیاءلے کر جاتے ہوئے نظر آئے۔۔اس بحران کے بارے میں رابرٹ پیسٹن بز نس ایڈیٹر، بی بی سی لکھتے ہیں کہ ’ایسا مشکل وقت پہلے نہیں دیکھا‘ امریکی حکومت نے ماگیج کمپنیوں فینی مے اور فریڈی میک کی مدد کے لیے سو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی تھی۔ میں پچیس سال سے صحافت کر رہا ہوں لیکن مالیاتی شعبہ میں دو دن کی ہفتہ وار تعطیل کے دوران میں نے حالات کو اتنا بگڑتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔اور وال سٹریٹ میں، جو دنیا میں مالیاتی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز ہے، انیس سو بیس کے مالی بحران کے بعد شاید چوبیس گھنٹوں میں اتنے غیرمعمولی حالات پہلے کبھی رونما نہیں ہوئے، لیہمین برادرز نے دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اور بینک آف امریکہ مشکلات میں گھرجانے والے دوسرے بڑے بینک میرل لنچ کو پچاس ارب ڈالر میں خرید رہا ہے۔ میرل لنچ کا یہ فیصلہ کہ بینک آف امریکہ اسے خرید لے اتنا ہی حیرت انگیز ہے جتنا کہ لیہمین برادارز کا دیوالیہ ہونا۔ میرل لنچ کو اب یہ اعتماد حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک آزاد ادارے کے طور پر قائم رہ سکتا ہے جس کی وجہ سےاس نے بینک آف امریکہ کا سہارا لیا ہے۔ اس کے علاوہ اے آئی جی، جو دنیا کی



سبب سے بڑی انشورنس کمپنیوں میں شامل ہے، مالی بحران کا شکار ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق کمپنی نے امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک سے چالیس ارب ڈالر کا قرض مانگا ہے۔ جہاں تک اس پورے بحران میں فیڈرل ریزرو کے کردار کا تعلق ہے، اس نے مالیاتی ادارروں کی مدد کرنے کے لیے اپنے ضابطوں میں نرمی کی ہے تاکہ وہ ان مسائل سےنمٹنے کے لیے ایک دوسرے سے کم مدت کے قرض آسانی سے حاصل کرسکیں۔ حالات اتنے سنگین ہیں کہ دس بڑے بینکوں نے، جن میں سٹی گروپ، گولڈمین سیکس اور اور جے پی مارگین شامل ہیں، ستر بلین ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا ہے جو شرکا بینک حسب ضرورت استعمال کر سکیں گے۔ حالیہ برسوں میں عالمی معیشت کو اتنے مشکل حالات سے نہیں گزرنا پڑا ہے۔ اپنا علیحدہ فنڈ قائم کرنے والے بینکوں نے اس میں سات سات ارب ڈالر ڈالے ہیں۔ امریکی تاریخ میں ناکام ہونے والا دوسرا بڑا مالیاتی ادارہ کیلفورنیہ میں قائم گھروں کے لیے قرضے مہیا کرنے والا ایک بڑا بینک انّڈی میک بیٹھ گیا ہے۔اس بینک سے کھاتہ داروں کی طرف سے مسلسل اپنی رقوم نکلونے کے بعد اس کا انتظام ریگولیٹرز نے سنبھال لیا تھا کیونکہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ مزید رقوم مہیا کرنے میں ناکام نہ ہو جائے۔ ریگولیٹرز کا کہنا ہے کہ امریکی کی تاریخ میں یہ دوسرا بڑا مالی ادارہ ہے جو کہ فیل ہو گیا ہے۔ ینک کے بنیادی نگران آفس آف ترفٹ سپرویڑن کا کہنا ہے کہ گزشتہ گیارہ دنوں میں کھاتہ داروں نے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی رقوم نکلوائی ہیں سرمایہ کار کمپنیوں نے ان کے حصص میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کمپنیوں کے نقصان کا اثر پوری دنیا کی اقتصادیات پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ امریکی معیشت پر مر تب ہو نے والے یہ اس اثرات اس کی جنگ کی پالیسیوں کا عکاس ہیں۔ جو صدر بش کے جانے کے بعد مزید نمایاں ہو جائینگے۔(۰۲)



افغان وار کی قیمت

آئندہ نسلیں جب پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں گی تو اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ ہندوستان سے زیادہ نقصان ہمیں افغانستان کے معاملات میں ملوث ہو کر ہوا ہے۔ روس کے افغانستان پر قبضے کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے پر ہمارے ملک میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔ تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کا معاشی بوجھ اور سرحد ی علاقوں کے ساتھ ساتھ سندھ اور پنجاب کے بڑے شہروں میں متمول مہاجرین کا کاروبار پر اجارہ قائم کرنا کسی بھی طرح ہمارے لئے سود مند نہیں رہا۔دہشت گردی کی جنگ میں ایک بار پھر امریکہ کا حلیف بننا ہمیں ا س موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہمیں داخلی اور خارجی ہر دو محاذوں پر اپنی سا لمیت کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں بھی ہمیں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ا س امریکی دہشت گردی کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان کو عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئندہ پاکستان ، ایران ، سعودی عرب اور شام دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ممکنہ اہداف ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ایران سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید بہتری لائیں۔امریکہ کو یہ باور کرانے کی سخت ضرورت ہے کہ وہ ایک غیر موجود خطرے کے لئے مزید انسانی المیوں کو جنم دینا بند کرے۔ امریکہ کی اپنی معیشت بھی رو بہ زوال ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پھیلاو ¿نہ تو امریکہ کی عراق اور افغانستان میں ناکامیوں پر پردہ ڈال سکے گا اور نہ ہی امریکہ کے بین الاقوامی امیج میں کو بہتری لا سکے گا۔ عین ممکن ہے کہ پاکستانی فوج اور شدت پسند بیرونی حملہ آوروں کے خلاف متحد ہو جائیں۔ ایسے میں امریکہ اپنے ایک قابلِ اعتماد اتحادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اور خطے میں مزید سبکی بھی ا ±ٹھائے گا۔پاکستان کو روس سے اپنے روابط میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ روس اپنی شکست و ریخت کے بعد پھر ایک عالمی طاقت کے روپ میں ا ±بھر رہا ہے۔جارجیا پر حالیہ فوج کشی سے روس نے آئندہ اپنے مفادات کے بھر پور تحفظ کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان یا ایران پر امریکی تسلط یقینا روس کے مفاد میں نہیں جاتا۔ ایران میں ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر میں روس کا تعاون اور ایران کے حق میں بیانات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آئندہ پالیسی کیسی ہو

ہمیں بھی مغرب کی طرف دیکھنا بند کرنا چاہیئے اور خطے میں اپنے ہمسایوں کو حلیف بنانا چاہیئے۔ سات سمند ر پار کی مغربی اقوام ہماری ساٹھ سالہ ملکی تاریخ میں کبھی بھی قابلِ اعتبار حلیف ثابت نہیں ہوئیں۔ اور نہ ہی آئندہ ہو نگی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدرِ محترم اپنا پہلا بیرونِ ملک دورہ چین کا ہی رکھتے۔ چین ہمارا قابلِ اعتماد دوست ہے۔ اور خطے میں ایک ابھرتی ہو ئی طاقت ہے۔ ہمارے ملک کے اکثر ترقیاتی منصوبے چین کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ لکھنا پڑ رہا ہے اندریں حالات میں سیاسی قیادت سے زیادہ جنرل کیانی کی بصیرت قابلِ بھروسہ نظر آتی ہے۔ امید ہے کہ فوجی قیادت کا دورہئ چین سود مند ثابت ہو گا۔ اس وقت ہمیں چین روس اور عرب ممالک کی حمایت کی سفارتی حمایت کی سخت ضرورت ہے کاش یہ بات ہماری سیاسی قیادت سمجھ لے۔ ورنہ بھاری بوٹوں کی چاپ پھر ا ±بھرنے لگے گی کیونکہ نظریہ ضرورت کبھی بھی مردہ نہیں ہوتا۔



افغان حالات کیا ہوں گے



امریکہ نے نائیں الیون کے فورا بعد اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے افغانستان پر چڑھائی کی تھی ۔ جس کے بعد سے افغانستان پر امریکہ کا ± قبضہ ہے۔لاکھوں افغان اس جنگ میں امریکی جارحیت کا نشکار ہو چکے ہیں۔ افغانسان میں طالبان کی مزاحمت جاری ہے اور اتحادیوں کو شکست کا سامنا ہے۔ آئندہ افغان حالات کیا ہوں گے۔ بی بی سی لندن کے نمائندے آصف جیلانی لکھتے ہیں۔ فرانسیس ویندرل ’ اسپین کے ممتاز سفارت کار ہیں جو پچھلے چھ سال تک افغانستان میں یوروپی یونین کے سفیر رہنے کے بعد حال میں اس عہدہ سے سبک دوش ہو ¿ے ہیں۔ افغانستان کے خلاف امریکا کی جنگ اور اس کے نتیجہ میں طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد حامد کرزی کی حکومت کے قیام کے لے جرمنی کے شہر بون میں جو افغان کانفرنس ہو ¿ی تھی اس میں فرانسیس ویندرل نے اہم رول ادا کیا تھا۔ اس اعتبار سے یہ اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر افغان امور کے ماہر تصور کے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام جنیوا میں عالمی حکمت عملی کے سالانہ ریویو کی ایک کانفرنس میں فرانسیس ویندرل نے صاف صاف کہا ہے کہ افغانستان کے حالات سن دوہزار ایک سے بھی جب امریکا نے افغانستان پر چڑھای کی تھی ’ ابتر ہو گ ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگلی سردیاں بے حد پر تپش ثابت ہوں گی۔فرانسیس ویندرل کی راے میں افغانستان میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی تباہ کن غلطیوں کے ایک طویل سلسلہ نے حالات دگرگوں کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ بون کی افغان کانفرس میں کرز کی حکومت اس وقت قایم کی گی جب کہ شمالی اتحاد کے جنگی سرداروں کا ملک کے دو تہای علاقہ پر کنٹرول تھا یوں اس کانفرنس نے جنگی سرداروں کے کنٹرول کو تسلیم کیا اور اسے قانونی جواز فراہم کیا۔ دوسری بڑی غلطی فرانسیس ویندرل کے مطابق یہ تھی کہ امریکا نے حامد کرزی پر بے حد اعتماد کیا جیسے وہ ایک معجزہ ثابت ہوں گے۔افغانستان میں یورپی یونین کے سابق سفیر کا کہنا ہے کہ امریکا کی غلطیوں کی بناپر طالبان بڑے پیمانہ پر ازسر نو منظم ہو ¿ے ہیں اور ان کی فوجی قوت اور سیاسی اثر میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی سرحد سے ملحق جنوبی افغانستان میںاس وقت عالم یہ ہے کہ پشتون قبایل کی اکثریت کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں اور اب طالبان کی فوجی کاروایاں جنوب ہی میں نہیں بلکہ مشرق میں اور کابل کے گردو نوا ح میں بھی بڑھ گی ہیں۔پچھلے دنوں امریکا کی مسلح افواج کے چیرمین چیفس آف اسٹاف ایڈمرل ملن نے بھی یہی اعتراف کیا تھا کہ افغانستان میں امریکا کے ہاتھ سے وقت نکلتا جارہا ہے۔ سینٹ کی فوجی کمیٹی کے سامنے انہوں نے صاف صاف کہا تھا کہ مجھے یقین نہیں کہ ہم افغانستان میں جنگ جیت رہے ہیں۔انہوں نے افغانستان میں مزید ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی بھیجنے کے بارے میں صدر بش کے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور زور دیا تھا کہ افغانستان میں اس سے کہیں زیادہ فوج درکار ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں امریکا کی ۳۵ ہزار فوج تعینات ہے جو زیادہ تر پاکستان کی سرحد سے ملحق افغان علاقہ میں کاروای کر رہی ہے۔

پچھلے دنوں امریکا کے با اثر اخبار نیویارک ٹایمز نے اپنے ایک اداریہ میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان کے حالات واقعی نہایت خطرناک ہیں۔طالبان کی سپاہ نے کابل کے قریب فرانسسی اور امریکی فوجوں پر منظم حملے کے ہیں اور امریکا اور نیٹو کے فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں مغرب نواز حکومت بڑھتے ہو ¿ے محاصرہ میں ہے۔ اخبار نے لکھا تھا کہ طالبان اور القاعدہ کے جنگجو افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف ایک بڑے علاقہ میں پھیل گ گئے ہیں۔ اور وہ اپنا کنٹرول مضبوط کر رہے ہیں لیکن اس صورت حال میں نیویارک ٹایمز نے خبردار کیا تھا کہ امریکی فوجوں یا جنگی طیاروں کو پاکستان کی سر زمین پر بھیجنے کے نتیجہ میں پاکستان میں امریکا کے خلاف جذبات بھڑکیں گے یہ کام پاکستانی فوج کا ہونا چاے کہ وہ انٹیلی جنس کی مدد سے اور کڑی نگرانی کے تحت امریکا کی مالی مدد کے ساتھ طالبان اور القاعدہ کے خلاف کاروای کرے۔سات سال قبل امریکا نے افغانستان پر حملہ بقول اس کے نیو یارک میں ۱۱۔۹کے حملوں کا انتقام لینے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لے کیا تھا۔ امریکا نے ۱۱۔۹ کے حملوں میں ہلاک ہونے والے تین ہزار افراد کا انتقام تو افغانستان پر حملہ کے دوران ساڑھے دس ہزار افغان شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں لیا۔ا لیکن اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے تعاقب میں اسے یکسر ناکامی رہی ہے۔اب جب کہ صدر بش کی صدارت کی معیاد ختم ہونے میں صرف تین مہینے رہ گے ہیں اس مقصد میں ناکامی ان پر آسیب کی مانند چھاتی جارہی ہے۔بلاشبہ بظاہر امریکا نے افغانستان پر فوج کشی ۱۱۔۹ کے حملوں کے انتقام لینے ’ اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کا قلع قمع کرنے کےلئے کی تھی لیکن اس کے پس پشت گہری سازش اور حکمت عملی کارفرما تھی۔ مقصد اس فوج کشی کا افغانستان پر مستقل فوجی تسلط جمانا ہے۔افغانستان پر تسلط کی بدولت امریکا نے بیک وقت متعدد اہداف حاصل کر لے ہیں۔ ایک طرف امریکا چین کی مغربی سرحد تک پہنچ گیا ہے۔شمال میں وسط ایشیا کی جنوبی سرحدوں پر روس کے حلقہ اثر تک اس کی فوج پہنچ گی ہے۔ مغرب میں ایران کی مشرقی سرحد پر اس کا قبضہ ہو گیا ہے اور جنوب میں پاکستان اس کی دسترس میں آگیا ہے۔

۱امریکی صدارتی انتخاب میں صدر بش کی پارٹی کے امیدوار جان میکین نے بڑے و اضح طور پر کہا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قایم کرنے چاہیں۔ اور ڈیموکریٹک امیدوار براک اوباما عراق سے تو امریکی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن وہ افغانستان میں اور زیادہ امریکی فوج بھیجنے کے حامی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر بھی فوجی کاروای کے لے بیتاب نظر آتے ہیں۔۱۰۰۲میں جب امریکا نے اس صدی کی سب سے زیادہ تباہ کن اور ہولناک بمباری کے بل پر افغانستان پر فوجی تسلط حاصل کیا تھا تو اسے توقع نہیں تھی کہ افغانستان کو ” آزادی ،، دلانے والی قوت چند برس کے اندر ایک دشمن میں تبدیل ہو جاے گی اور اس کے حقیقی مقاصد کی راہ میں اسے ویت نام اور عراق ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مارچ ۵۰۰۲سے جب سے طالبان کے ساتھ امریکی فوجوں کی معرکہ آرای شروع ہو ¿ی ہے چھ سو سے زیادہ امریکی فوجی مارے گے ہیں۔ امریکی فوجوں نے دو بدو زمینی کاروائی کے بجاے وہی فضای بمباری کی حکمت عملی اختیار کی ہے جو اس نے افغانستان کے تقویت پہنچانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

امریکہ کے در پردہ عزائم



۔امریکہ کے در پردہ عزائم ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت کوبے بس کردیا جائے اور اس کی سرززمین پر اپنی گرفت مضبوط کرکے وسط ایشیا کے وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے اور بلوچستان میں اپنا بڑا فوجی اڈہ قائم کر کے وہ علاقائی پانیوں پر اور تیل اور گیس کی تجا ر ت اپنی نگہداشت مﺅثر کرسکے۔ اور امریکہ پاکستان میں چین کا بھی اثر رسوخ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اورامریکہ کی سب بڑی خواہش ہے کہ پاکستان جلداز جلد امریکی فوج کے ہمراہ آزاد قبائل کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ جنگ بہت زیادہ طوالت پکڑ گئی تو سرحد اور بلو چستا ن میںمشرقی پاکستان جیسی ملک علیحدگی تحریک زور پکڑ جانے کے خدشات بڑھ جا ئیں گے۔ امریکہ پاکستان کی سرحدی علاقوں میں 58حملے کر چکا ہے یہ وہ حملے ہیں جن کی تصدیق آئی ایس پی آر کر چکی ہے جبکہ متعدد ایسے حملے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو درحقیقت امریکہ نے کئے مگر ان کی زمہ داری پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اپنے سر لے لی۔یہ بات متعدد مرتبہ زیربحث آچکی ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں امن وامان کی تباہی کی زمہ داری براہ راست امریکہ پر عائد ہوتی ہے امریکہ نے پاکستان میں کاروائی کا جواز حاصل کرنے کیلئے سرحدی علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھرتی کر رکھے ہیںجو کاروائیاں کر کے ان کا الزام طالبان پر لگا دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب حقیقی طالبان کو بھی غیر محسوس اور نادیدہ طرز پر اسلحہ اور دیگر عسکری آلات فراہم کئے گئے کہ طالبان وزیرستان سمیت سوات اور درہ آدم خیل میں طوائف الملوکی بپا رکھیں تاکہ مسقتبل میں امریکہ ان مزاحمت کاروں کی کاروائیوں کو جواز بنا کربراہ راست امریکی حملے کر سکے۔اس کام کیلئے اسرائیل اور بھارت امریکہ کے ہمنوا ہیں اور وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے را اور موساد کی ساری صلاحتیں فراہم اور صرف کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتنے کیلئے اسے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود طالبان اور غیر ملکیوں پر گولہ باری کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرف دور میں امریکی خفیہ ایجنسیاں خیبر سے کوئٹہ تک بلا خوف خطرہ دندناتی پھرتی تھیں۔جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو کامیاب بنانے کیلئے امریکہ سے متعدد معاہدے کئے اور ان پر عملدآمد بھی کیا۔یہ معاہدے اب بھی صیغہ راز میں ہیں۔



نائین الیون تاریخ انسانی کا سیا ہ باب

عطامحمد تبسم

امریکا میں رونما ہونے والا نائین الیون کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کے ردعمل نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہو نے والی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں افغانستان اور عراق کو جنگ کے کھلے میدان میں تبدیل کیا وہا ں پاکستان کو بھی شدید جانی مالی نقصان اور اس کی سا لمیت کو خطرات سے دو چار کردیا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ ان ملکوں میں بھی دہشت گردی شروع کردی ہے جو اس کا ساتھ دے رہے تھے۔آج پاکستان اور ایران جیسے ملک اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ اس واقعہ کو گزرے ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن اس کے ردعمل کی باز گشت آج بھی دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔

نائن الیون

گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت اور نیو یارک میں تجارتی مرکز ورلڈٹریڈ سینٹر سے ہائی جیک کئے جانے والے تین طیارے ٹکرا دیئے گئے اور محکمہ خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ) کے باہر کار بم دھماکاہوا۔ امریکا میں ہو نے والے ان خود کش حملوں کے باعث 2974افراد لاپتہ ہوگئے۔ مرنے والوں میں دنیا کے 90ملکوں کے تمام شہری شامل تھے۔ہزاروں افراد ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جب کہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ملک کے تمام ہوائی اڈے بند کرد یئے گئے اور وائٹ ہاو ¿س سمیت اہم سرکاری عمارتیں خالی کرا لی گئیں۔گیارہ ستمبر بروز2001 منگل کی صبح نیو یارک میں جس وقت ہزاروں لوگ دفاتر جانے کے لئے اپنے گھروں سے نکل رہے تھے کہ ایک بوئنگ 767طیارہ ورلڈٹریڈ ٹاور کی 110منزلہ عمارت کے پہلے ٹاور سے ٹکرا یا۔ اس حادثے کے ٹھیک اٹھارہ منٹ بعد بوئنگ 757طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 110منزلہ دوسرے ٹاور سے ٹکرا یا۔ ان دونوں حادثات کے ٹھیک ایک گھنٹے بعدیو نائیٹڈ ائیر لائنز کا ایک اور بوئنگ 757طیارہ واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت پر گر گیا جس سے پینٹا گون کا صدر دفتر جزوی طور پر تباہ ہو گیا جب کہ عمارت کے دوسرے حصے میں آگ لگ گئی۔ ان حملوں کے بعد واشنگٹن میں ہی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل کے نزدیک طاقتور بم دھماکا ہوا اور فوراً ہی واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے قریب ہی ایک اورطا قتور بم دھماکا ہوا۔ ان حملوں کے بعد ریاست پنسلوانیا میں ہی ایک بوئنگ 757 طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا جس سے اس میں سوار 145افراد ہلاک ہو گئے۔نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے دونوں طیارے ہائی جیک کئے گئے تھے۔بوئنگ767طیارے کو بوسٹن سے لاس اینجلس جاتے ہوئے جب کہ دوسرے طیارے کو ڈلاس سے لاس اینجلس جاتے ہوئے اغوا کیا گیا۔ ان دونوں طیاروں میں کل 156افراد سوار تھے جو اس حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ان دونوں طیا روں کا تعلق امریکی ائیر لائنز نامی ایجنسی سے تھا جب کہ پینٹاگون پر گرنے والے طیارے میں 47افراد سوارتھے جو تمام ہلاک ہو گئے۔اس طیارے کا تعلق بھی یو نائیٹڈ ائیر لائن نامی کمپنی سے تھا۔یہ دونوں طیارے بھی راستے سے ہی ہائی جیک کر لئے گئے تھے۔ورلڈٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور ز ان حملوں کے بعد زمیں بوس ہو گئے۔۱

“حملے کے بعد“

ان حملوں کے بعد امریکا میں زبردست خوف وہراس پھیل گیا۔نیو یارک اور واشنگٹن سے لوگ پناہ کی تلاش میں فرار ہو نے لگے اور امریکا میں آنے والی تمام پروازوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ کینیڈا میں اتریں۔ امریکا میں ٹرین سروس بھی معطل کردی گئی۔امریکا میں تمام پلوں اور سرنگوں کی بھی ناکہ بندی کردی گئی اور ایف بی آئی نے معاملے کی تحقیقات شروع کردیں۔ امریکی حکام نے ورلڈٹریڈسینٹر پر دہشت گردی کے واقعہ میں چھ حملہ آور وں کے ہلاک ہو نے کا دعوی کیا تاہم ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں نہ ہی ان کی شناخت بتائی گئی۔۲

حملہ کس نے کیا؟

امریکی ٹی وی سی ،این، این نے حملوں کے بعد اس پروپیگندہ کا آغاز کیا کہ ان حملوں میں مسلمان انتہا پند ملوث ہیں۔امریکی صدر بش نے اسے کروسیڈ وار سے تعبیر کیا۔ سی این این نے باوثوق ذرائع کے حوالے بتایا کہ ان حملوں میں ان لو گوں کا ہاتھ ہے جن کا تعلق اسامہ بن لادن کی تنظیم سے ہے۔دنیا میں ایسی دہشت گرد تنظیمیں بہت کم ہیں جن کے پاس اتنے مالی وسائل اور جدید نیٹ ورک ہے جو اس طرح کے بڑے اور مربوط حملے کر سکتی ہیں۔ایک مبصر کا کہنا تھا کہ اس دہشت گردی کے اگرچہ مٹھی بھر لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں



نے طیارے اغوا کئے یا چلا کر عمارتوں سے ٹکرا دیئے مگر ان کے پیچھے ایک ماسٹر مائنڈبھی موجود ہے۔اب تک تو صرف دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہی زیر

بحث رہے مگر یہ بلند عمارتیں بھی بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بن گئیں جن سے صرف طیارے ہی ٹکرائے اب لوگوں کی توجہ ضرور اس جانب بھی جائے گی۔وائس آف امریکا کے مطابق حملوں کے باعث امریکا کو عشروں میں بد ترین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے۔بعض حلقے اس کا الزام اسامہ بن لادن پر عائد کرتے رہے۔ اس کی کڑیاں چند ماہ بعد ملنے والے اس ویڈیو بیان سے ملاتے ہیں جو حادثاتی طور پر ظاہر ہوئے تھے جن میں امریکی تنصیبات پر حملوں کے لئے کہا گیا تھا۔ایشیا سے ایک مبصر نے کہا کہ حملے کے لئے جس پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی ہے یہ اسا مہ بن لادن کے بس کی بات نہیں ہے۔اسامہ ان دنوں افغانستان میں مقیم تھے اور ان کی تمام تر سر گرمیوں پر پا بندی عائد تھی اور بیرونی دنیا سے ان کا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔جتنے بڑے پیمانے پر یہ کام ہوا ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ اسامہ بن لادن کا کام نہیں ہے۔مشرق وسطی کے ایک مبصر کا کہنا تھاکہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حملے میں کون ملوث ہے۔اوکلو ہو ما بم دھماکے میں پہلے مسلمانوں کو ذمہ دارٹھہرایاا گیا تھا مگر بعد میں امریکی ہی اس کے ذمہ دار پائے گئے تھے ۔ ایک فلسطینی مبصر نے کہا کہ حملے اور دھماکے کی ذمہ داری عرب دنیا پر عائد ہو گی۔ایک امریکی مبصر کا کہنا تھا اس سلسلے میں اسامہ پر شک کیا جا سکتا ہے۔۳

شکوک و شبہات



نو گیارہ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تیسرا مینار کیسے گرا تھا تیسرا مینار باقی دو میناروں کے سات گھنٹے کے بعد گِرا تھا ۔ سینتالیس منزلہ مینار جسے ’ٹاور سیون‘ بھی کہا جاتا ہے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں میناروں ’ٹوِن ٹاورز‘ کے تباہ ہونے کے سات گھنٹے بعد گرا تھا۔ تیسرے مینار کے بارے میں کچھ حلقوں کی طرف سے شک کا اظہار کیا گیا تھا کہ اسے خود دھماکہ کر کے گرایا گیا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی کے قریب ہی ماہرین کے ایک گروپ کی طرف سے عنقریب مکمل کی جانے والی رپورٹ میں اس شک کو رد کر دیا گیا۔ا اور تیسرے مینار کے گرنے کی وجہ اس کی مختلف منزلوں پر لگنے والی آگ بتائی گئی۔ یاد رہے کہ ’ٹوِن ٹاورز‘ کے برعکس تیسرے مینار سے کوئی جہاز نہیں ٹکرایا تھا۔ ماہرین کی تفتیش کے بعد یہ دنیا میں فولاد سے بنی پہلی بلند و بالا عمارت ہو گی جس کے زمین بوس ہونے کی وجہ آتشزدگی ہوگی۔ نیشنل انسٹٹیوٹ فار سٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے تفتیش کار ڈاکٹر شیام سندر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق امکان یہی ہے کہ تیسرے مینار کی مختلف منزلوں پر آگ پھیل رہی تھی جو بالآخر عمارت کے تباہ ہونے کی وجہ بنی ہوگی۔ تاہم آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئرز فار نائین الیون ٹروتھ نامی تنظیم سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسرے مینار کی تباہی کے بارے میں سرکاری طور پر بتائی جانے والی وجہ ناممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یقیناً اس مینار کو خود گرایا گیا ہوگا۔ تنظیم کے بانی رچرڈ گیگ نے کہا کہ چھٹی جماعت کا بچہ بھی اس عمارت کو گرتے ہوئے دیکھ کر اس کی رفتار اور توازن کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ یہ مینار خود زمین بوس نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جو عمارتیں خود گرتی ہیں وہ سیدھی نہیں گرتی بلکہ اس سمت جھکتی جہاں سب سے کم مزاحمت ہو۔ ’وہ سیدھی نیچے نہیں جاتیں‘۔۴



اسامہ بن لادن

اسامہ بن لادن جس پر الزامات عائد کیے گئے۔ 1979ءمیں امریکہ کی مدد کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔ اور افغان وار میں روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ امریکیوں کے سانہ بشانہ روس سے نبرد آزما تھے۔تاہم ۰۸۹۱ کے عشرے میں روس کی شکشت کے بعد ان کے امریکوں سے اختلاف ہوگئے۔ 1996 میں انہوں نے پہلا فتویٰ جاری کیا تھا کہ امریکی فوجی سعودی عرب سے نکل جائیں۔ جس میں اسامہ بن لادن نے امریکہ کی اسرائیل کے بارے میں خارجہ پالیسی پر اعتراضات کیے تھے۔ (۵) ورلڈ ٹریڈ سینٹر اورپنٹاگون میں دہشت گردی کے گیارہ ستمبر کے واقعات پر امریکا کے سرکاری اداروں میں بڑی لے دے ہو ئی۔ دنیا کی منظم ترین اور ترقی یافتہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہر جگہ موضوع بحث بنی رہی۔ان حملوں کے دو دن بعد ایف بی آئی نے 19مشتبہ افراد کی فہرست جاری کی جن کا تعلق اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ سے جوڑا گیا۔ (۶)ان مشتبہ افراد کی فہرست اور تصویروں کی اشاعت کے بعد یہ حقائق بھی منظر عام پر آگئے کہ ان میں سے بیشتر افراد حادثے کے وقت امریکا سے ہزاروں میل دور تھے۔ جس سے ایف بی آئی کے لئے مزید جگ ہنسائی کا اہتمام ہوا۔

د۔ اسامہ بن لادن نے 16ستمبر2001ءکو امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ اس کا بیان الجزیرہ سے نشرہوا۔ جس میں اس نے کہا تھا کہ یہ



انفرادی کاروائی ہے اور ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (۷)تاہم بعد میں ڈرامائی طور پر اسامہ بن لادن کے ٹیپ منظر عام لائے گئے۔ امریکی صدراتی انتخاب 2004ءکے موقع پر اسامہ بن لادن کا ایک ایسا ٹیپ منظر عام پر لایا گیا۔ جس میں اس نے امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کا اعتراف کیا۔ اسامہ بن لادن کا انسانوی کردار کے بارے میں اب عوامی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ایک خیالی پیکر ہے۔ اب اسامہ بن لادن زندہ نہیں ہے۔ اور اس خیالی پیکر میں امریکہ سی آئی اے اپنے پسندیدہ رنگ بھرتی رہتی ہے۔ امریکہ نے خالد شیخ کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے۔ جسے پاکستان سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔خالد شیخ نے پہلے اعتراف اور پھر ان الزامات سے انکار کردیا ہے ۔ اور کہا



ہے کہ اسے ایک ہی بار موت سے ہمکنار کردیا جائے۔ کیونکہ وہ تشدد کے برتاﺅ سے تنگ آچکا ہے۔(۷) نائین الیون کے واقعات کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ صدر بش کی ہوس ملک گیر اور مسلم دنیا کے خلاف کاروائی تھی۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے دو آزاد مسلمان ملک عراق اور افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کر لیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ایک ماہر رچرڈ اے کلاوک نے اپنی کتاب Against all enimiesمیں لکھا ہے کہ امریکہ کی روس کے خلاف کاروائی اور افغانستان میں آمد اور جنوب میں اسرائیل کو مضبوط کرنے کی پالیسی نے ہی القاعدہ کو جنم دیا ہے۔ ایک اور نامہ نگار پیٹربرجین نے لکھا کہ ”یہ حملے اس منصوبے کا حصے تھے جس کے تحت امریکہ کو مشرقی وسطیٰ میں اپنی فوجی اور ثقافتی موجودگی میں اضافے کا موقع ملا۔ امریکہ نے نائین الیون کے بعد ناٹو کونسل کے ذریعہ یہ اعلان کرادیا کہ امریکہ پر ہونیوالے یہ حملے ناٹو اقوام پر حملے تصور کیے جائیں گے۔ اور امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ آغاز کیا اور کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو عدالت کے کہٹرے میں لائیں گے۔ (۸)گو اقوام متحدہ دہشت گردی کے کسی متفقہ تعریف پر متفق نہیں ہو سکی لیکن اس کے باوجود امریکہ نے دہشت گرد کو ٹھکانہ دینے والے ملکوں کے خلاف معاشی اور فوجی پابندیوں حفاظتی اور اطلاعاتی انٹیلجنس میں شرکت کی ذمہ داری ڈال دی۔ اور اس کا پہلا نشانہ افغانستان اور پھر عراق کو بنایا گیا۔ یہ دونوں آزاد جمہوی ملک تھے۔ جن پر آج بھی امریکی فوجیں اور ناٹو فوجیں موجود ہیں۔ ۸۱ ستمبر۱۰۰۲ کو پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نیاز نایک نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ جولائی ۱۰۰۲ میں ۱۱۔۹ کے نیویارک کے حملوں سے دو ماہ قبل اعلی امریکی حکام نے ان سے کہا تھا کہ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائی اکتوبر کے وسط میں شروع کی جاے گی۔ بلاشبہ افغانستان پر حملے کی منصوبہ بندی ۱۱۔۹ حملوں سے بہت پہلے کر لی گئی تھی اور مقصد اس کا امریکا کی عظیم تر فوجی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا تھا۔ عر۱ق پر امریکہ کے غاضبانہ قبضے پر آج ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ حملے عراق کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

محمد عطا

تیتنس سالہ محمد عطا کا تعلق مصر سے ہے۔ 1985 میں اس نے قائرہ یونیورسٹی میں سول انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کی۔ 90ئمیں ایک سول انجینئر نگ کمپنی کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ 97ءکے وسط میں وہ انسٹی ٹیوٹ سے پندرہ ماہ کیلئے غائب ہو گیا۔ اکتوبر 98ئمیں واپس آیا تو گھنی ڈارھی رکھی ہوئی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ میں اس نے ایک جماعت بنائی۔وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتا تھا۔ امریکا میں وہ نیو یارک میں رہنے لگا اور ایک سال کے اندر اندر اس نے ہوا بازی کی ٹرننگ حاصل کر لی۔ گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ “ان میں سے ایک مرون الشیحی، جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دوسری عمارت سے ٹکرانے والے جہاز پر سوار تھا۔”ایک فٹنس کلب میں دیکھا گیا جہاں انہوں نے تین گھنٹے گزارے اور وڈیو گیم سے لطف اندوز ہوئے۔ سی آئی اے کا گمان ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے ٹکرانے والے جہاز کے پائلٹ کو سیٹ سے ہٹا کر محمد عطا نے پائلٹ کی سیٹ سنبھال لی تھی۔بعد میں

عربی اخبار الشرق الاوسط کے نمائندے نے محمد عطا کے والد سے ملاقات کی تو اس کا دعوی تھا کہ ورلڈ ٹریڈسینٹر کے دھماکے کے بعد محمد عطا نے اسے فون کیا اور اس سے مختصر گفتگو کی۔ والد کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران محمد عطا کی آواز نارمل نہیں تھی اور اسے اندیشہ ہے کہ اس کے بیٹے کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔ والد کا کہنا ہے کہ محمد عطا ہوا بازی کی الف ب سے بھی نابلد ہے۔ اسے ہوائی سفر سے چکر آتے ہیں۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس “موساد”نے محمد عطا کو اغوا کر کے اسے قتل کیا ہو گا اور اس کے پاسپورٹ کو اس غرض کے لئے استعمال کیا ہو گا۔(۹)



مروان الشیحی

امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے جو مبینہ ہاکی جیکرز کی فہرست جاری کی تھی اس میں دوسراے ہاکی جیکرکا نام مروان الشیحی بتایا گیا ہے۔ تیئس سالہ مروان یوسف الشیخی کا تعلق



متحدہ عرب امارات سے ہے۔ تفتیشی اداروں کا خیال ہے کہ ٹریڈ سینٹر پر دوسرے طیارے کو ٹکرانے کے لئے مروان الشیحی اسے کنٹرول کر رہا تھا۔ گمان کیا جاتا ہے کہ مروان کی محمد عطا سے گہری دوستی تھی۔ گیارہ ستمبر سے قبل وہ اور اس کے دو ساتھی ہائی اسکول کے بعد 1998ء میں مروان متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج میں شامل ہو گیا۔ 1999ئمیں مسلح افواج نے اسے تعلیم کے لئے جرمنی بھیجا جہاں مختصر قیام کے بعد وہ امارات واپس آگیااور شادی کی۔ امارات میں 25دن گزارنے کے بعد واپس جرمن چلا گیا جہاں اس نے اپنے پاسپورٹ کی گمشدگی ظاہر کی اور نیا پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تفتیشی اداروں کے مطابق پرانے پاسپورٹ میں افغانستان کا ویزہ تھا جہاں وہ جہاد میں شرکت کرنے گیا تھا۔ نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد وہ امریکا روانہ ہو گیا۔ امریکا جانے کے بعد اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ ہیمبرگ میں وہ اپنی مصری والدہ کے رشتہ دار محمد عطا کے ساتھ رہتا تھا۔ مروان کے اچانک لاپتہ ہونے پر اس کے گھر والے پریشان ہو گئے تھے۔ اس کے بڑے بھائی نے امارات میں سرکاری اداروں سے رجوع کیا جنہوں نے جرمنی میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ اس کا بھائی خود جرمنی گیا جہاں اسے معلوم ہوا کہ وہ امریکا گیا ہوا ہے۔ بعد میں مروان نے امارات میں اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی لیکن اس نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے۔(۰۱)

زیاد سمیر الضراح

زیاد سمیر الضراح کا تعلق بیروت سے 75کلومیٹر دور ایک گاو ¿ں المرج سے ہے۔ امریکا کے تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ پنسلوانیا کے قریب گرنے والے جہاز کے ہائی جیکروں میں شامل تھا۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ جہاز کے پائلٹ کی سیٹ زیاد نے ہی سنبھالی تھی۔ شہری ہوابازی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ پانچ سال پہلے ہیمبرگ گیا تھا۔اس دوران وہ ہر سال اپنے گھر والوں سے ملنے بیروت آتا رہا۔ آٹھ ماہ قبل اس کے والد کا بائی پاس آپریشن ہوا تو وہ اسے دیکھنے آیا تھا۔زیاد کا والد اپنے بیٹے کو 1500ڈلر ماہانہ روانہ کرتا تھاجس سے وہ اپنی تعلیم اور ضروریات کا خرچہ چلاتا۔زیاد کے والد کا کہنا ہے کہ مذکورہ حملوں سے چار گھنٹے پہلے اسے زیاد کا فون آیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی کی طرف سے بوئنگ767کی تربیت کی لئے اسکالرشپ مل گیاہے اور وہ فلوریڈا جا رہا ہے۔زیاد کے چچا جمال الجراح نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ زیاد خوش مزاج نوجوان تھا اور وہ انتہا پسند تھا اور نہ اسلامی تعلیمات کا پابند۔ جرمنی میں وہ اپنی ترک گرل فرینڈ کے ساتھ رہتا تھا۔ واضح رہے کہ زیاد کی فیملی نے اس کی وہ تصویر بھی اخبارات کو جاری کی ہے جس میں زیاد کسی تقریب میں لڑکی کے ساتھ ڈانس کر رہا ہے۔ترک گرل فرینڈ نے اخباری نمائندون سے بات چیت کرنے ہوئے کہا کہ زیاد کا مذکورہ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے محمد عطا نامی مشتبہ شخص سے اس کا کوئی تعلق رہا ہے۔(۱۱)

عبدالعزیز العمری

ایف بی آئی کی فہرست میں مبینہ ایک اور ہاکی جیکر کا نام عبدالعزیز العمری بتایا گیا ہے۔ وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاورسے ٹکرائے جانے والے طیارے میں سوار تھا۔گمان ہے کہ وہ خود بھی پائلٹ تھا۔وہ ریاض میں 24دسمبر 1972کو پیدا ہوا۔ ایف بی آئی کے مطابق عبدالعزیز العمری فلوریڈا میں مقیم تھا۔مشتبہ افراد کی فہرست میں عبدالعزیز العمری کا نام بھی شامل ہے لیکن اس نے دھماکے کے تیسرے دن ریاض میں اخباری نمائندوں سے ملاقات میں کہا کہ دھماکے کے دوران وہ ریاض میں ڈیوٹی پر تھا۔وہ 1993ءمیں وہ انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول کے لئے امریکا کے شہر کو لوراڈو گیا جہاں قیام کے دوران (1995ئ) میں اس کے فلیٹ میں چوری ہو گئی جس میں اس کا پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات بھی غائب ہو گئے۔ چوری کے واقعے کی اس نے پولیس کے اطلاع دے دی۔31دسمبر 1995ئمیں اس نے نیا پاسپورٹ بنوایا۔ 11 جنوری 1996ء کو وہ نئے پاسپورٹ پر دوبارہ امریکا گیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپریل 2000ء کو وطن واپس آگیا۔ عبد العزیز نے کہا کہ وہ شہری ہوا بازی سے قطعی واقف نہیں اور نہ ہی کسی انتہا پسند تنظیم سے اس کی وابستگی ہے۔پنسلوانیا کے قریب گر کر تباہ ہونے والے طیارے میں مشتبہ احمد النعمی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فلوریڈا میں مقیم تھا اور وہیں ہوا بازی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد النعمی نامی یہ 23سالہ نوجوان سعودی عرب کے شہر عسیر میں مقیم تھاجہاں سے پندرہ ماہ پہلے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوا اور واپس نہیں آیا۔(۲۱)

احمد النعمی

امریکا کے تفتیشی اداروں کو ریاض میں مقیم احمد النعمی ایک پائلٹ کا بھی پتہ چلا ہے۔ مذکورہ جہاز میں سوار احمد النعمی فلوریڈا میں مقیم تھا۔ ایف بی آئی نے احمد النعمی کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کی جسے دیکھنے کے بعد احمد حیدر النعمی نامی سعودی ائیر لائن کا کارکن مقامی اخبار کے دفتر گیا اور مذکورہ حملوں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔33سالہ احمد النعمی نے بتایا کہ وہ ایئر لائن میں ہوائی جہاز کے عملے کا نگران ہے۔ وہ سعودی عرب کے شہر جیران میں پیدا ہوا۔ 1998ء میں وہ پہلی بار امریکا گیا۔ گزشتہ اکتوبر میں دوسری بار اور جولائی میں وہ آخری



بار امریکا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ تینوں بار اس نے اپنا کوئی سرکاری کاغذنہیں کھویا۔ انہوں نے اعلی تعلیم بھی جدہ میں حاصل کی۔ احمد النعمی گزشتہ 14سال سے سعودی ایئر لائن سے وابستہ ہے۔ امریکا میں مختص قیام کے دوران اس نے ہوٹل کے سوائ کہیں اور اپنا پاسپورٹ نہیں دکھایا نہ ہی امریکا میں اس نے کرائے پر گاڑی لی۔ احمد النعمی نے کہا کہ ایف بی آئی کی جاری کردہ فہرست میں مشتبہ افراد کی کثیر تعداد سعودی ایئر لائنز سے وابستہ ہے جن کی اکثریت 11ستمبر کے حملوں کے دوران امریکا میں نہیں تھی۔ ان کا نام مشتبہ افراد میں شامل کر کے ہمیں صدمہ پہنچا یا ۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ۰ نے حملوں میں ملوث افراد کے ملکوں مصر،لبنان،متحدہ امارات، سعودی عرب کے بجائے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے لیے افغانستان کو منتخب کیا جس کا اس واقعے سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔(۳۱)



عراق کی جنگ میں امریکیوں کی ہلاکت اور نقصانات

عراق کی جنگ میں 3ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلا ک ہو چکے ہیں، اس سے 10گنا زیادہ زخمی ہو ئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے 450ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے ، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں 2ٹریلین(2ہزارارب)ڈالر سے زیادہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔ (۴۱)

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات

پاکستان نے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں روز اول سے معاونت فراہم کی۔ امریکہ حملوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک بار پھر افغانستان مہاجرین کی آزادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت پاکستان امریکیوں کو فوجی اڈﺅں کی سہولیات ایندھن اور دیگر اشیاءکی فراہمی میں مدد دی اور القاعدہ کے شہبے میں 600افراد کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا۔ جنہیں بدنام زمانہ گوانتا بے (کیوبا) میں لے جا کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ نے جہاں بانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال میں ۲۵امریکی فوجی کاروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مزاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہیدہوئے ہیں۔

کونڈو لیزرائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ (Undr civilian control The need for Pakistan’s military to be placed ) اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے7ارب ڈالر کی امداد کے پیکچ کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجر مولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا گیا۔ امریکہ کے جوائنٹ چیف اسٹاف ایڈمرل مائک ملین نے کہا کہ اگر مجھے کسی اسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والا ہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقینا منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنچ کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرح سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیکل ہے ڈن(Michael Hayden)کا ارشاد ہے: القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہو گئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی اے کے ڈائریکٹر روبرٹ موئیلر(Mueller (Robert کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور © ©”وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہو جائیں گے۔“ اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کڑنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق: گذشتہ 10دنوں میں خطرے کے نئے احساس یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہو چکی ہے۔(ڈان، 21اپریل2008)90 ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں برسر پیکار ہیں اور گذشتہ تین سال میں 1200سے زائد فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح جنھیں دہشت گردکہا جاتا ہے ان کا جانی نقصان بھی اس سے کسی طرح کم نہیں۔ ینز3ہزار سے زیادہ عام شہری جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں انتشار ، افراتفری اورخون خرابہ ہے۔ آبادی کے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو نائن الیون کے بعد امریکا کے حواری بننے کی بڑی بھاری معاشی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکا تو یہی طعنہ دیتا ہے کہ ہم نے 11ارب ڈالر کی امدادی ہے مگر حقیقت یہ کہ اس میں سے2ارب ڈالر



فوجی خدمات کے معاوضے میں دی گئی ہیں۔ اور اصل معاشی امداد جس کا ایک حصہ قرض کی شکل میں ہے صرف 5ارب ہے ، جب کہ پاکستان کو ملک اور بیرونی محاذ پر جو معاشی نقصان اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ 2002ءمیں صرف پانچ سال کی بنیاد پر خود امریکا کی نارتھ کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ نقصان 10سے 12ارب ڈالر قرار دیا گیا تھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق گذشتہ سات سال میں یہ نقصان 12سے 15ارب ڈالر کا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں کی گئی اور نہ اس کا کوئی مطالبہ پاکستانی حکومت نے کیا، بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔(۵۱)

مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم

دانشوروں کا کہنا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے ہیں جب انہیں امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔شاید مسلم برادری بھی ایسے ہی مرحلے سے گزر رہی ہے۔گیارہ ستمبر اور سات جولائی کے واقعات کے بعد دنیا بھر میں نسلی، مذہبی اور سیاسی مباحثوں نے خاصی شدت پکڑ لی ہے ۔نائین الیون کے واقعات کے بعد امریکہ برطانیہ مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی اور مسلمانوں سے مشابہت کی بنا پر سکھوں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بیل اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ان حملوں کا سب سے زیادہ شکار مسلمان، عرب اور مشرقی وسطیٰ کے باشندوں کو بنایا گیاہے۔ 80ہزار عرب اور مسلمان باشندوںکے4فنگر پرنٹ لے گئے۔ انٹرویو اور تفتیش کی گئی۔ 5ہزار غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے نام پر ہزاروں افرادکی ایر پورٹ پر تلاشی اور گرفتاری اور بے دخلی کی گئی۔ (۶۱)

مسلمانوں کی دل آزاریاں



نائن الیون کے بعد دنیا میں مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ۔ حضور اکرم ﷺ کے دل آزار خاکہ شائع کیے گئے۔ جس پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔نائین الیون کی ساتویںبرسی پوری دنیامیںمنائی گئی۔دنیا بھرکے رسائل وجرائد میںاس حوالے سے تحریریںشائع ہوئیں۔لیکن اس موقع پرامریکہ میںمسلمانوں کی دل آزاری کی ایک اورحرکت ہوئی۔امریکہ کی ایک کمپنی نے انٹرنیٹ پرایک گیم جاری کیاہے ”مسلمانوںکاقتل عام”Muslim Massacreنام کے اس کمپیوٹرگیم کوفری ڈاﺅن لوڈکیاجاسکتاہے۔کئی مرحلوںمیںمکمل ہونے والے اس گیم کامسلح ہیرودنیاکومسلمانوںکے جودسے پاک کرنے کے مشن پر ہے۔مشین گن ،راکٹ لانچراوردیگرجدیدترین ہتھیاروںسے لیس یہ ہیروایک طیارے سے پیراشوٹ کے ذریعہ خلیج میںاترتا ہے اورمسلمانوںکاصفایا شروع کرتا ہے۔اس کے مدمقابل اسلامی لباس میںملبوس مسلمانوںکودکھایاگیاہے۔بیک گراﺅنڈ میںمسلم کلچرکے مطابق عمارتیںاورمذہبی مقامات مساجد کودکھاتے ہوئے یہ ہیرووہ مسلمانوںکوقتل عام کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔اسے سخت مزاحمت کاسامنا کرناپڑتا ہے۔لیکن یہ تمام مزاحمتوںکودورکرتے ہوئے قتل کرتا رہتا ہے۔اورگیم کے مراحل پارہوتے رہتے ہیں۔ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اس کا مقابلہ اسامہ بن لادن سے ہوتا اوریہ ہیرواسامہ کوقتل کردیتا ہے اوراگلے مرحلے کے لئے روانہ ہوجاتاہے۔اگلے مرحلے میںنعوذ باللہ اسکا مقابلہ اللہ اور رسول ﷺ سے دکھا یا گیا ہے۔اس طرح گیم مکمل ہوتا ہے۔یہ گیم بائیس سالہ امریکی سبوترواگ نے بنایاہے۔واگ آسٹریلیامیںمقیم ہے۔واگ کاکہنا ہے کہ اس گیم مقصدیہ پیغام دینا ہے کہ زمین کے کسی چپے پرمسلمان مردیاعورت زندہ نہ رہنے پائے۔اس گیم کے ریلیز ہوتے ہی عالم اسلام سے شدید ردعمل دیکھنے میںآنے لگا ہے۔پاکستان اورایران نے اس گیم کے خلاف سخت ردعمل کااظہارکرتے ہوئے گیم کوفوراً انٹرنیٹ سے ہٹانے کامطالبہ کیاہے۔ایران کی ایک تنظیم لشکرعلی کے سربراہ مہدی سروشانی نے کہا ہے کہ امریکہ اسلام اورمسلمانوںکے خلاف منافرت پھیلانے کی ملٹی ملین ڈالرمہم جاری رکھے ہوئے ہے۔عالم اسلام کوامریکہ کی سازش سے آگا ہ ہوناچاہے۔اورامریکی سازشوںکامنہ توڑ جواب دیناناگزیرہوتاجارہا ہے۔برطانیہ کی اسلامی تنظیم رمضان فاﺅنڈیشن نے اس گیم پرشدیدغصے کااظہارکیاہے۔ایک پاکستانی کمپیوٹرگیم ایکسپرٹ نے اس حرکت کومجرمانہ ذہنیت اوربیمارذہنی کامظہرقراردیاہے (۷۱)

ہندوستان کے مسلمانوں کی تذلیل

نائن الیون کے بعد لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل ایک معمول بن چکا ہے۔ ہندوستان دنیا کے ان چند ملکوں میں ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔یہاں تقریباً پندرہ کروڑ مسلمان ہیں اور وہ بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح گیارہ ستمبر کے منفی اثرات کی زد میں آئے ہیں۔گیارہ ستمبر کے بعد ہندوستان میں کشمیر اسمبلی اور ملک کی پارلیمنٹ پر حملے کیے گئے۔ شازس کے تحت بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں حملے کا نشانہ واضح طور پر ہندوو ¿ں کو بنایا گیا اور ردعمل میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ہے۔ ان میں ٹرینوں کے مخصوص ڈبوں میں دھماکے ، احمدآباد کے اکشر دھام مندر اور بنارس کے سنکٹ موچن مندر پر بم حملے شامل ہیں۔گزشتہ برس ہندوو ¿ں کے بڑے تہوار دیوالی سے ایک روز قبل دلی



کے مصروف بازاروں میں خونریزی بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے۔۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور گیارہ ستمبر کے نیو یارک کے حملے نےمسلمانوں کی شبیہ بری طرح مجروح کی ہے۔ہندوستان میں آج مسلمان شک کے محاصرے میں ہے۔ ممبئی اور دلی جیسے بڑے شہروں میں ہندو آبادی والے علاقوں میں لوگ اب مسلمانوں کے ہاتھوں مکان فروخت کرنے یا کرائے پر دینے میں ہچکچاتے ہیں۔انڈین مسلمانوں کو دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہراساں کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کی قیمت مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ادا کرنی پڑی ہے تو دوسری جانب ممبئی اور گجرات کے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت کے لیئے ایک شخص کو بھی سزا نہ دیئے جانے سے مسلم برادری مزید پستی اور شکستگی کے احساس سے گزر رہی ہے۔گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ نے سلامتی کے نام پر جس طرح کے اقدامات کیے ہیںان کی پیروی کر تے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔۔ حقوق انسا نی کی تنظیمیں اور مسلمان شکایت کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی صورت میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جاتا ہے، لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل کی جاتی ہے اور اکثر اذیتیں دی جاتی ہیں۔اقلیتی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میڈیا عموماً مسلمانوں کی منفی خبریں ہی پیش کرتا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد سلامتی کے بعض ماہرین اور ہندو دانشوروں کی طرف سے یہ تجاویز کھل کر سامنے آئیں کہ اسرائیل کے طرز پر ہندوستان کی سکیورٹی افواج کو بھی ان افراد کے مکانوں کو تباہ کر دینا چاہیئے جو دہشت گرد کارروائیوں میں شامل ہوں یا جن پر تخریبی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا شک ہو۔ گزشتہ سات برس ہندوستان کے مسلمانوں پر کافی بھاری گزرے ہیں۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے علماء دلی میں جمع ہوئے۔ انہوں نے دہشت گردی کی ہر شکل میں خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لیئے ہو مذمت کی اور اسے اسلام کی روح کے منافی قرار دیا۔علماء نے حکومت پر یہ واضح کر دیا کہ اسلام کو دہشت گردی سے منسوب نہ کیا جائے کیونکہ اسلام، بقول ان کے، بے قصوروں کی ہلاکت کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔(۸۱)

طاقت کا عدم توازن

روس کے زوال سے پہلے اور سرد جنگ کے دوران د ±نیا میں طاقت کا توازن قائم رہا اور عالمی طاقتیںعسکری محاذآرائی سے گریز کرتی رہیں۔ امریکہ اپنے زیرِ اثر کمزور ممالک میں اپنی پسند کی حکومتیں لاتا رہا اس کے لئے اکثر ممالک میں بغاوتوں کے لئے امریکی سرمایہ کے ساتھ امریکی خفیہ ایجینسیاںبھی سرگرم عمل رہیں۔افغانستان سے روس انخلا کے بعد روس کی شکست و ریخت کاسلسلہ شروع ہو گیا۔یہ د ±نیا میں بسنے والے تمام انسانوں کی بالعموم اور مسلمانوں کی بالخصوص بدقسمتی ہے کہ آج پو ری د ±نیا امریکی عالمی طاقت کے زیرِ اثر ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کا پوری د ±نیا میں تحفظ کرتا ہے چاہے اس کی قیمت دوسری اقوام کی آزادی اور خود مختاری ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیربھی م ±ردہ ہو چکا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے سانحے میں مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً۰۰۸۲ افراد ہلاک ہوئے۔ جس کے بعد امریکہ نے اس سانحے کے ذمہ دار افراد کو سزا دینے کے لئے پہلے افغانستان کو تباہ کیا ، پھر عراق کو اور اب پاکستان پر ہر ہفتے میزائل داغے جاتے ہیں۔تین ہزار سے کم افراد کی ہلاکت کے بدلے امریکہ اب تک پچیس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کر چکا ہے اور ا ±س کے بدلے کی آگ ہے کہ اور بھڑکتی جا رہی ہے۔ اب امریکہ انجانے خوف میں مبتلا ہو چکا ہے اور مزید ہلاکتوں پر ت ±لا ہوا ہے۔ اپنے ملک سے لاکھوں میل کی دوری پر رہنے والے غیر ترقی یافتہ قبائلی لوگوں سے امریکہ خائف ہے ۔ایک ایسی عالمی طاقت جو اپنے انتہائی جدید سیٹیلائٹ نظام سے د ±نیا کے کسی مقام کی تصاویر لے سکتی ہے جس نے افغانستان کی غاروں پر د ±نیا کے وزنی ترین بم برسائے۔ جس کی خفیہ ایجینسیوں کا نیٹ ورک پوری د ±نیا میں پھیلا ہوا ہے وہ آٹھ نو سال سے اسامہ بن لادن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

امیکہ نے ا ±سامہ کے بھوت کو زندہ رکھا ہوا ہے اور اسے زندہ رکھنے میں امریکہ کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اسی بہانے وہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام مسلمان ممالک کو یکے بعد دیگرے اپنے غضب کا نشانہ بنا سکتا ہے۔اور اپنے نورِ نظر اسرائیل کو خوش رکھ سکتا ہے۔امریکہ نے د ±نیا میں جو قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کا وہ تنہا ذمہ دار نہیں بلکہ تمام اقوامِ عالم بھی اس کی ذمہ دار ہیں۔ اسلامی امہ کی بے حسی حیرتناک ہے۔ اب تک کسی بین الاقوامی فورم پر امریکہ کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم کے خلاف کوئی تحریک پیش نہیں ہوئی۔ او۔ آئی۔ سی ، عرب لیگ اور غیر جانبدار تحریک بھی اس سلسلے میں کوئی قرارداد سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں اور نہ ہی ان تنظیموں کے ر ±کن ممالک عالمی امن کو بچانے لئے کسی لائحہ عمل پر متفق ہو سکے ہیں۔

امریکہ د ±نیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا سب سے بڑا ملک

ہیروشیما اور ناگاساکی میں آج بھی امریکی بربریت کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ افغانستان کے پہاڑوں پر امریکی کارپیٹ بمباری نے بہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ دجلہ اور فرات کا پانی پندرہ لاکھ عراقیوں کے خون سے سرخ ہو چکا ہے۔ کیا۔ تمام صورت حال امریکی مفادات کے حق میں ہے اور موجودہ صورت حال تیزی سے امریکی مفادات کو



تقویت پہنچانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ صدر بش اپنی ہاری ہوئی ضنگ کو جیتنے کے لئے پاکستا ن کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جس کے لیے انھوں نے بھارت اور افغا نستان کو آلہ کار بنالیا ہے۔ اس خطے میں امریکی عزائم پورے ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔امریکہ کے در پردہ عزائم ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت کوبے بس کردیا جائے اور اس کی سرززمین پر اپنی گرفت مضبوط کرکے وسط ایشیا کے وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے اور بلوچستان میں اپنا بڑا فوجی اڈہ قائم کر کے وہ علاقائی پانیوں پر اور تیل اور گیس کی تجا ر ت اپنی نگہداشت مﺅثر کرسکے۔ اور امریکہ پاکستان میں چین کا بھی اثر رسوخ ختم کردیا جائے۔ اورامریکہ کی سب بڑی خواہش ہے کہ پاکستان جلداز جلد امریکی فوج کے ہمراہ آزاد قبائل کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ جنگ بہت زیادہ طوالت پکڑ گئی تو کہ خدا نہ کرے کہ سرحد اور بلو چستا ن میںمشرقی پاکستان جیسی ملک علیحدگی تحریک زور پکڑ جائے۔ سرحد گورنمنٹ نے امریکہ کی ایما پروزیرستان ہنگو کے علاقوںمیں طالبان پر قابو پانے کے لئے اور ان کی سرکوبی کیلئے فوج بلا لی ہے۔لیکن پاکستان کی فوجی کاروائی کے بعد بھی اگر امریکی اہداف پورے نہ ہوسکے تو امریکہ نے اگر براہ راست وزیرستان پر بڑا حملہ کرنے کی غلطی کی تو اس خطے کا امن عراق اور افغانستان جیسا میدان جنگ بن سکتا ہے۔امریکہ وزیرستان کوعراق کی سرزمین میں تبدیل کرسکتا ہے۔ جو سرزمین مستقل قتل و غارت کی سرزمین بن چکی ہے۔



امریکہ بدترین مالی بحران



ا امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بد تریین مالی بحران سے گزر رہا ہے۔امریکہ کی تاریخ میں انیس سو تیس کے بعد آنےوالے اس بدترین مالی بحران کی وجہ سے ایشیا بھر کی تمام بڑی بڑی مارکیٹوں میں ٹریڈنگ زوالہ کا شکار ہیں۔ امریکی صدر نے امریکی ساکھ کو بچانے کے لئے کھربوں ڈالر کا سرمایہ کا سہارا فراہم کیا ہے۔لیکن عالمی منڈی میں اس اعتماد میں کمی ہوئی ہے، ایشیائی ،جاپان، جنوبی کوریا، چین اور تائیوان کے حصص بازاروں میں پانچ سے چھ فیصد کی کمی ہوئی ہے، نیویارک کے حصص بازار وال سٹریٹ میںگزشتہ دنوں گزشتہ چھ برس میں شدید ترین مندی دیکھنے میں آئی۔ امریکہ میں یہ مالیاتی بحران ملک کے چوتھے بڑے بینک لیہمن برادرز کی طرف سے دیوالیہ ہونے کی درخواست دینے کے بعد شروع ہوا ہے۔۔ ہا۔دریں اثناء امریکن انٹرنیشل گروپ (اے آئی جی) کے بیٹھ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ اے آئی جی کبھی دنیا کے سب سے بڑے انشورنش گروپ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ گروپ بھی پیسہ اکھٹا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اے آئی جی امریکہ کے فیڈرل ریزروز سے قرض حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ مختلف ملکوں کے مرکزی بینکوں نے مارکیٹوں میں اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ امریکہ کے فیڈرل ریزورز نے ہنگامی بنیادوں پر دیئے جانے والے قرضوں میں توسیع کر دی ہے جبکہ برطانیہ اور یورپ کے مرکزی بینکوں نے انتالیس ارب ڈالر کی مالیاتی نظام میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے چوتھے بڑے بینک کا دیوالیہ ہونے کی درخواست دینا اور پچاس ارب ڈالر میں ایک اور بڑی بروکریج فرم میری لنچ کی فروخت نے امریکہ کے مالیاتی منظر کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے اس بحران پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہ حکومت اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس طرح کے اداروں کا بیٹھ جانا امریکہ میں مارٹگیج مارکیٹ میں آنے والے مالیاتی بحران کا حصہ ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس طرح کے کتنے اور بینک اور مالیاتی ادارے اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ا۔ امریکہ کے وزیر خزانہ یا ٹریڑری سیکریٹری ہینری پالسن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اس بات کو مناسب نہیں سمجھتے کہ لوگوں کے ٹیکسوں کا پیسہ لیہمن برادرز کو بچانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ماضی حال ہی میں حکومت نے ایک اور بینک بیر سٹرنز کو بچانے کے لیے ٹیکسوں کا پیسہ استعمال کیا تھا۔ پالسن نے کہا کہ موجودہ عالمی مالیاتی بحران آخر کار بہتری لائےگا۔۔لہیمن بردار کے دیوالیہ ہونے کی درخواست کے بعد اس کے دفاتر سے ملازمین گتے کے ڈبو میں اپنی ذاتی اشیاءلے کر جاتے ہوئے نظر آئے۔۔اس بحران کے بارے میں رابرٹ پیسٹن بز نس ایڈیٹر، بی بی سی لکھتے ہیں کہ ’ایسا مشکل وقت پہلے نہیں دیکھا‘ امریکی حکومت نے ماگیج کمپنیوں فینی مے اور فریڈی میک کی مدد کے لیے سو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی تھی۔ میں پچیس سال سے صحافت کر رہا ہوں لیکن مالیاتی شعبہ میں دو دن کی ہفتہ وار تعطیل کے دوران میں نے حالات کو اتنا بگڑتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔اور وال سٹریٹ میں، جو دنیا میں مالیاتی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز ہے، انیس سو بیس کے مالی بحران کے بعد شاید چوبیس گھنٹوں میں اتنے غیرمعمولی حالات پہلے کبھی رونما نہیں ہوئے، لیہمین برادرز نے دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اور بینک آف امریکہ مشکلات میں گھرجانے والے دوسرے بڑے بینک میرل لنچ کو پچاس ارب ڈالر میں خرید رہا ہے۔ میرل لنچ کا یہ فیصلہ کہ بینک آف امریکہ اسے خرید لے اتنا ہی حیرت انگیز ہے جتنا کہ لیہمین برادارز کا دیوالیہ ہونا۔ میرل لنچ کو اب یہ اعتماد حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک آزاد ادارے کے طور پر قائم رہ سکتا ہے جس کی وجہ سےاس نے بینک آف امریکہ کا سہارا لیا ہے۔ اس کے علاوہ اے آئی جی، جو دنیا کی



سبب سے بڑی انشورنس کمپنیوں میں شامل ہے، مالی بحران کا شکار ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق کمپنی نے امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک سے چالیس ارب ڈالر کا قرض مانگا ہے۔ جہاں تک اس پورے بحران میں فیڈرل ریزرو کے کردار کا تعلق ہے، اس نے مالیاتی ادارروں کی مدد کرنے کے لیے اپنے ضابطوں میں نرمی کی ہے تاکہ وہ ان مسائل سےنمٹنے کے لیے ایک دوسرے سے کم مدت کے قرض آسانی سے حاصل کرسکیں۔ حالات اتنے سنگین ہیں کہ دس بڑے بینکوں نے، جن میں سٹی گروپ، گولڈمین سیکس اور اور جے پی مارگین شامل ہیں، ستر بلین ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا ہے جو شرکا بینک حسب ضرورت استعمال کر سکیں گے۔ حالیہ برسوں میں عالمی معیشت کو اتنے مشکل حالات سے نہیں گزرنا پڑا ہے۔ اپنا علیحدہ فنڈ قائم کرنے والے بینکوں نے اس میں سات سات ارب ڈالر ڈالے ہیں۔ امریکی تاریخ میں ناکام ہونے والا دوسرا بڑا مالیاتی ادارہ کیلفورنیہ میں قائم گھروں کے لیے قرضے مہیا کرنے والا ایک بڑا بینک انّڈی میک بیٹھ گیا ہے۔اس بینک سے کھاتہ داروں کی طرف سے مسلسل اپنی رقوم نکلونے کے بعد اس کا انتظام ریگولیٹرز نے سنبھال لیا تھا کیونکہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ مزید رقوم مہیا کرنے میں ناکام نہ ہو جائے۔ ریگولیٹرز کا کہنا ہے کہ امریکی کی تاریخ میں یہ دوسرا بڑا مالی ادارہ ہے جو کہ فیل ہو گیا ہے۔ ینک کے بنیادی نگران آفس آف ترفٹ سپرویڑن کا کہنا ہے کہ گزشتہ گیارہ دنوں میں کھاتہ داروں نے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی رقوم نکلوائی ہیں سرمایہ کار کمپنیوں نے ان کے حصص میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کمپنیوں کے نقصان کا اثر پوری دنیا کی اقتصادیات پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ امریکی معیشت پر مر تب ہو نے والے یہ اس اثرات اس کی جنگ کی پالیسیوں کا عکاس ہیں۔ جو صدر بش کے جانے کے بعد مزید نمایاں ہو جائینگے۔(۰۲)



افغان وار کی قیمت

آئندہ نسلیں جب پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں گی تو اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ ہندوستان سے زیادہ نقصان ہمیں افغانستان کے معاملات میں ملوث ہو کر ہوا ہے۔ روس کے افغانستان پر قبضے کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے پر ہمارے ملک میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔ تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کا معاشی بوجھ اور سرحد ی علاقوں کے ساتھ ساتھ سندھ اور پنجاب کے بڑے شہروں میں متمول مہاجرین کا کاروبار پر اجارہ قائم کرنا کسی بھی طرح ہمارے لئے سود مند نہیں رہا۔دہشت گردی کی جنگ میں ایک بار پھر امریکہ کا حلیف بننا ہمیں ا س موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہمیں داخلی اور خارجی ہر دو محاذوں پر اپنی سا لمیت کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں بھی ہمیں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ا س امریکی دہشت گردی کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان کو عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئندہ پاکستان ، ایران ، سعودی عرب اور شام دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ممکنہ اہداف ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ایران سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید بہتری لائیں۔امریکہ کو یہ باور کرانے کی سخت ضرورت ہے کہ وہ ایک غیر موجود خطرے کے لئے مزید انسانی المیوں کو جنم دینا بند کرے۔ امریکہ کی اپنی معیشت بھی رو بہ زوال ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پھیلاو ¿نہ تو امریکہ کی عراق اور افغانستان میں ناکامیوں پر پردہ ڈال سکے گا اور نہ ہی امریکہ کے بین الاقوامی امیج میں کو بہتری لا سکے گا۔ عین ممکن ہے کہ پاکستانی فوج اور شدت پسند بیرونی حملہ آوروں کے خلاف متحد ہو جائیں۔ ایسے میں امریکہ اپنے ایک قابلِ اعتماد اتحادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اور خطے میں مزید سبکی بھی ا ±ٹھائے گا۔پاکستان کو روس سے اپنے روابط میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ روس اپنی شکست و ریخت کے بعد پھر ایک عالمی طاقت کے روپ میں ا ±بھر رہا ہے۔جارجیا پر حالیہ فوج کشی سے روس نے آئندہ اپنے مفادات کے بھر پور تحفظ کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان یا ایران پر امریکی تسلط یقینا روس کے مفاد میں نہیں جاتا۔ ایران میں ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر میں روس کا تعاون اور ایران کے حق میں بیانات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آئندہ پالیسی کیسی ہو

ہمیں بھی مغرب کی طرف دیکھنا بند کرنا چاہیئے اور خطے میں اپنے ہمسایوں کو حلیف بنانا چاہیئے۔ سات سمند ر پار کی مغربی اقوام ہماری ساٹھ سالہ ملکی تاریخ میں کبھی بھی قابلِ اعتبار حلیف ثابت نہیں ہوئیں۔ اور نہ ہی آئندہ ہو نگی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدرِ محترم اپنا پہلا بیرونِ ملک دورہ چین کا ہی رکھتے۔ چین ہمارا قابلِ اعتماد دوست ہے۔ اور خطے میں ایک ابھرتی ہو ئی طاقت ہے۔ ہمارے ملک کے اکثر ترقیاتی منصوبے چین کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ لکھنا پڑ رہا ہے اندریں حالات میں سیاسی قیادت سے زیادہ جنرل کیانی کی بصیرت قابلِ بھروسہ نظر آتی ہے۔ امید ہے کہ فوجی قیادت کا دورہئ چین سود مند ثابت ہو گا۔ اس وقت ہمیں چین روس اور عرب ممالک کی حمایت کی سفارتی حمایت کی سخت ضرورت ہے کاش یہ بات ہماری سیاسی قیادت سمجھ لے۔ ورنہ بھاری بوٹوں کی چاپ پھر ا ±بھرنے لگے گی کیونکہ نظریہ ضرورت کبھی بھی مردہ نہیں ہوتا۔



افغان حالات کیا ہوں گے



امریکہ نے نائیں الیون کے فورا بعد اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے افغانستان پر چڑھائی کی تھی ۔ جس کے بعد سے افغانستان پر امریکہ کا ± قبضہ ہے۔لاکھوں افغان اس جنگ میں امریکی جارحیت کا نشکار ہو چکے ہیں۔ افغانسان میں طالبان کی مزاحمت جاری ہے اور اتحادیوں کو شکست کا سامنا ہے۔ آئندہ افغان حالات کیا ہوں گے۔ بی بی سی لندن کے نمائندے آصف جیلانی لکھتے ہیں۔ فرانسیس ویندرل ’ اسپین کے ممتاز سفارت کار ہیں جو پچھلے چھ سال تک افغانستان میں یوروپی یونین کے سفیر رہنے کے بعد حال میں اس عہدہ سے سبک دوش ہو ¿ے ہیں۔ افغانستان کے خلاف امریکا کی جنگ اور اس کے نتیجہ میں طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد حامد کرزی کی حکومت کے قیام کے لے جرمنی کے شہر بون میں جو افغان کانفرنس ہو ¿ی تھی اس میں فرانسیس ویندرل نے اہم رول ادا کیا تھا۔ اس اعتبار سے یہ اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر افغان امور کے ماہر تصور کے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام جنیوا میں عالمی حکمت عملی کے سالانہ ریویو کی ایک کانفرنس میں فرانسیس ویندرل نے صاف صاف کہا ہے کہ افغانستان کے حالات سن دوہزار ایک سے بھی جب امریکا نے افغانستان پر چڑھای کی تھی ’ ابتر ہو گ ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگلی سردیاں بے حد پر تپش ثابت ہوں گی۔فرانسیس ویندرل کی راے میں افغانستان میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی تباہ کن غلطیوں کے ایک طویل سلسلہ نے حالات دگرگوں کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ بون کی افغان کانفرس میں کرز کی حکومت اس وقت قایم کی گی جب کہ شمالی اتحاد کے جنگی سرداروں کا ملک کے دو تہای علاقہ پر کنٹرول تھا یوں اس کانفرنس نے جنگی سرداروں کے کنٹرول کو تسلیم کیا اور اسے قانونی جواز فراہم کیا۔ دوسری بڑی غلطی فرانسیس ویندرل کے مطابق یہ تھی کہ امریکا نے حامد کرزی پر بے حد اعتماد کیا جیسے وہ ایک معجزہ ثابت ہوں گے۔افغانستان میں یورپی یونین کے سابق سفیر کا کہنا ہے کہ امریکا کی غلطیوں کی بناپر طالبان بڑے پیمانہ پر ازسر نو منظم ہو ¿ے ہیں اور ان کی فوجی قوت اور سیاسی اثر میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی سرحد سے ملحق جنوبی افغانستان میںاس وقت عالم یہ ہے کہ پشتون قبایل کی اکثریت کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں اور اب طالبان کی فوجی کاروایاں جنوب ہی میں نہیں بلکہ مشرق میں اور کابل کے گردو نوا ح میں بھی بڑھ گی ہیں۔پچھلے دنوں امریکا کی مسلح افواج کے چیرمین چیفس آف اسٹاف ایڈمرل ملن نے بھی یہی اعتراف کیا تھا کہ افغانستان میں امریکا کے ہاتھ سے وقت نکلتا جارہا ہے۔ سینٹ کی فوجی کمیٹی کے سامنے انہوں نے صاف صاف کہا تھا کہ مجھے یقین نہیں کہ ہم افغانستان میں جنگ جیت رہے ہیں۔انہوں نے افغانستان میں مزید ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی بھیجنے کے بارے میں صدر بش کے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور زور دیا تھا کہ افغانستان میں اس سے کہیں زیادہ فوج درکار ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں امریکا کی ۳۵ ہزار فوج تعینات ہے جو زیادہ تر پاکستان کی سرحد سے ملحق افغان علاقہ میں کاروای کر رہی ہے۔

پچھلے دنوں امریکا کے با اثر اخبار نیویارک ٹایمز نے اپنے ایک اداریہ میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان کے حالات واقعی نہایت خطرناک ہیں۔طالبان کی سپاہ نے کابل کے قریب فرانسسی اور امریکی فوجوں پر منظم حملے کے ہیں اور امریکا اور نیٹو کے فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں مغرب نواز حکومت بڑھتے ہو ¿ے محاصرہ میں ہے۔ اخبار نے لکھا تھا کہ طالبان اور القاعدہ کے جنگجو افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف ایک بڑے علاقہ میں پھیل گ گئے ہیں۔ اور وہ اپنا کنٹرول مضبوط کر رہے ہیں لیکن اس صورت حال میں نیویارک ٹایمز نے خبردار کیا تھا کہ امریکی فوجوں یا جنگی طیاروں کو پاکستان کی سر زمین پر بھیجنے کے نتیجہ میں پاکستان میں امریکا کے خلاف جذبات بھڑکیں گے یہ کام پاکستانی فوج کا ہونا چاے کہ وہ انٹیلی جنس کی مدد سے اور کڑی نگرانی کے تحت امریکا کی مالی مدد کے ساتھ طالبان اور القاعدہ کے خلاف کاروای کرے۔سات سال قبل امریکا نے افغانستان پر حملہ بقول اس کے نیو یارک میں ۱۱۔۹کے حملوں کا انتقام لینے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لے کیا تھا۔ امریکا نے ۱۱۔۹ کے حملوں میں ہلاک ہونے والے تین ہزار افراد کا انتقام تو افغانستان پر حملہ کے دوران ساڑھے دس ہزار افغان شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں لیا۔ا لیکن اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے تعاقب میں اسے یکسر ناکامی رہی ہے۔اب جب کہ صدر بش کی صدارت کی معیاد ختم ہونے میں صرف تین مہینے رہ گے ہیں اس مقصد میں ناکامی ان پر آسیب کی مانند چھاتی جارہی ہے۔بلاشبہ بظاہر امریکا نے افغانستان پر فوج کشی ۱۱۔۹ کے حملوں کے انتقام لینے ’ اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کا قلع قمع کرنے کےلئے کی تھی لیکن اس کے پس پشت گہری سازش اور حکمت عملی کارفرما تھی۔ مقصد اس فوج کشی کا افغانستان پر مستقل فوجی تسلط جمانا ہے۔افغانستان پر تسلط کی بدولت امریکا نے بیک وقت متعدد اہداف حاصل کر لے ہیں۔ ایک طرف امریکا چین کی مغربی سرحد تک پہنچ گیا ہے۔شمال میں وسط ایشیا کی جنوبی سرحدوں پر روس کے حلقہ اثر تک اس کی فوج پہنچ گی ہے۔ مغرب میں ایران کی مشرقی سرحد پر اس کا قبضہ ہو گیا ہے اور جنوب میں پاکستان اس کی دسترس میں آگیا ہے۔

۱امریکی صدارتی انتخاب میں صدر بش کی پارٹی کے امیدوار جان میکین نے بڑے و اضح طور پر کہا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قایم کرنے چاہیں۔ اور ڈیموکریٹک امیدوار براک اوباما عراق سے تو امریکی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن وہ افغانستان میں اور زیادہ امریکی فوج بھیجنے کے حامی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر بھی فوجی کاروای کے لے بیتاب نظر آتے ہیں۔۱۰۰۲میں جب امریکا نے اس صدی کی سب سے زیادہ تباہ کن اور ہولناک بمباری کے بل پر افغانستان پر فوجی تسلط حاصل کیا تھا تو اسے توقع نہیں تھی کہ افغانستان کو ” آزادی ،، دلانے والی قوت چند برس کے اندر ایک دشمن میں تبدیل ہو جاے گی اور اس کے حقیقی مقاصد کی راہ میں اسے ویت نام اور عراق ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مارچ ۵۰۰۲سے جب سے طالبان کے ساتھ امریکی فوجوں کی معرکہ آرای شروع ہو ¿ی ہے چھ سو سے زیادہ امریکی فوجی مارے گے ہیں۔ امریکی فوجوں نے دو بدو زمینی کاروائی کے بجاے وہی فضای بمباری کی حکمت عملی اختیار کی ہے جو اس نے افغانستان کے تقویت پہنچانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

امریکہ کے در پردہ عزائم



۔امریکہ کے در پردہ عزائم ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت کوبے بس کردیا جائے اور اس کی سرززمین پر اپنی گرفت مضبوط کرکے وسط ایشیا کے وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے اور بلوچستان میں اپنا بڑا فوجی اڈہ قائم کر کے وہ علاقائی پانیوں پر اور تیل اور گیس کی تجا ر ت اپنی نگہداشت مﺅثر کرسکے۔ اور امریکہ پاکستان میں چین کا بھی اثر رسوخ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اورامریکہ کی سب بڑی خواہش ہے کہ پاکستان جلداز جلد امریکی فوج کے ہمراہ آزاد قبائل کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ جنگ بہت زیادہ طوالت پکڑ گئی تو سرحد اور بلو چستا ن میںمشرقی پاکستان جیسی ملک علیحدگی تحریک زور پکڑ جانے کے خدشات بڑھ جا ئیں گے۔ امریکہ پاکستان کی سرحدی علاقوں میں 58حملے کر چکا ہے یہ وہ حملے ہیں جن کی تصدیق آئی ایس پی آر کر چکی ہے جبکہ متعدد ایسے حملے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو درحقیقت امریکہ نے کئے مگر ان کی زمہ داری پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اپنے سر لے لی۔یہ بات متعدد مرتبہ زیربحث آچکی ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں امن وامان کی تباہی کی زمہ داری براہ راست امریکہ پر عائد ہوتی ہے امریکہ نے پاکستان میں کاروائی کا جواز حاصل کرنے کیلئے سرحدی علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھرتی کر رکھے ہیںجو کاروائیاں کر کے ان کا الزام طالبان پر لگا دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب حقیقی طالبان کو بھی غیر محسوس اور نادیدہ طرز پر اسلحہ اور دیگر عسکری آلات فراہم کئے گئے کہ طالبان وزیرستان سمیت سوات اور درہ آدم خیل میں طوائف الملوکی بپا رکھیں تاکہ مسقتبل میں امریکہ ان مزاحمت کاروں کی کاروائیوں کو جواز بنا کربراہ راست امریکی حملے کر سکے۔اس کام کیلئے اسرائیل اور بھارت امریکہ کے ہمنوا ہیں اور وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے را اور موساد کی ساری صلاحتیں فراہم اور صرف کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتنے کیلئے اسے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود طالبان اور غیر ملکیوں پر گولہ باری کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرف دور میں امریکی خفیہ ایجنسیاں خیبر سے کوئٹہ تک بلا خوف خطرہ دندناتی پھرتی تھیں۔جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو کامیاب بنانے کیلئے امریکہ سے متعدد معاہدے کئے اور ان پر عملدآمد بھی کیا۔یہ معاہدے اب بھی صیغہ راز میں ہیں۔



نائین الیون تاریخ انسانی کا سیا ہ باب

عطامحمد تبسم

امریکا میں رونما ہونے والا نائین الیون کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کے ردعمل نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دہشت گردی کے خلاف ایک نہ ختم ہو نے والی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جہاں افغانستان اور عراق کو جنگ کے کھلے میدان میں تبدیل کیا وہا ں پاکستان کو بھی شدید جانی مالی نقصان اور اس کی سا لمیت کو خطرات سے دو چار کردیا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ ان ملکوں میں بھی دہشت گردی شروع کردی ہے جو اس کا ساتھ دے رہے تھے۔آج پاکستان اور ایران جیسے ملک اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ اس واقعہ کو گزرے ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن اس کے ردعمل کی باز گشت آج بھی دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔

نائن الیون

گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت اور نیو یارک میں تجارتی مرکز ورلڈٹریڈ سینٹر سے ہائی جیک کئے جانے والے تین طیارے ٹکرا دیئے گئے اور محکمہ خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ) کے باہر کار بم دھماکاہوا۔ امریکا میں ہو نے والے ان خود کش حملوں کے باعث 2974افراد لاپتہ ہوگئے۔ مرنے والوں میں دنیا کے 90ملکوں کے تمام شہری شامل تھے۔ہزاروں افراد ہلاک اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جب کہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ملک کے تمام ہوائی اڈے بند کرد یئے گئے اور وائٹ ہاو ¿س سمیت اہم سرکاری عمارتیں خالی کرا لی گئیں۔گیارہ ستمبر بروز2001 منگل کی صبح نیو یارک میں جس وقت ہزاروں لوگ دفاتر جانے کے لئے اپنے گھروں سے نکل رہے تھے کہ ایک بوئنگ 767طیارہ ورلڈٹریڈ ٹاور کی 110منزلہ عمارت کے پہلے ٹاور سے ٹکرا یا۔ اس حادثے کے ٹھیک اٹھارہ منٹ بعد بوئنگ 757طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 110منزلہ دوسرے ٹاور سے ٹکرا یا۔ ان دونوں حادثات کے ٹھیک ایک گھنٹے بعدیو نائیٹڈ ائیر لائنز کا ایک اور بوئنگ 757طیارہ واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی عمارت پر گر گیا جس سے پینٹا گون کا صدر دفتر جزوی طور پر تباہ ہو گیا جب کہ عمارت کے دوسرے حصے میں آگ لگ گئی۔ ان حملوں کے بعد واشنگٹن میں ہی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل کے نزدیک طاقتور بم دھماکا ہوا اور فوراً ہی واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے قریب ہی ایک اورطا قتور بم دھماکا ہوا۔ ان حملوں کے بعد ریاست پنسلوانیا میں ہی ایک بوئنگ 757 طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا جس سے اس میں سوار 145افراد ہلاک ہو گئے۔نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے دونوں طیارے ہائی جیک کئے گئے تھے۔بوئنگ767طیارے کو بوسٹن سے لاس اینجلس جاتے ہوئے جب کہ دوسرے طیارے کو ڈلاس سے لاس اینجلس جاتے ہوئے اغوا کیا گیا۔ ان دونوں طیاروں میں کل 156افراد سوار تھے جو اس حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ان دونوں طیا روں کا تعلق امریکی ائیر لائنز نامی ایجنسی سے تھا جب کہ پینٹاگون پر گرنے والے طیارے میں 47افراد سوارتھے جو تمام ہلاک ہو گئے۔اس طیارے کا تعلق بھی یو نائیٹڈ ائیر لائن نامی کمپنی سے تھا۔یہ دونوں طیارے بھی راستے سے ہی ہائی جیک کر لئے گئے تھے۔ورلڈٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور ز ان حملوں کے بعد زمیں بوس ہو گئے۔۱

“حملے کے بعد“

ان حملوں کے بعد امریکا میں زبردست خوف وہراس پھیل گیا۔نیو یارک اور واشنگٹن سے لوگ پناہ کی تلاش میں فرار ہو نے لگے اور امریکا میں آنے والی تمام پروازوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ کینیڈا میں اتریں۔ امریکا میں ٹرین سروس بھی معطل کردی گئی۔امریکا میں تمام پلوں اور سرنگوں کی بھی ناکہ بندی کردی گئی اور ایف بی آئی نے معاملے کی تحقیقات شروع کردیں۔ امریکی حکام نے ورلڈٹریڈسینٹر پر دہشت گردی کے واقعہ میں چھ حملہ آور وں کے ہلاک ہو نے کا دعوی کیا تاہم ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں نہ ہی ان کی شناخت بتائی گئی۔۲

حملہ کس نے کیا؟

امریکی ٹی وی سی ،این، این نے حملوں کے بعد اس پروپیگندہ کا آغاز کیا کہ ان حملوں میں مسلمان انتہا پند ملوث ہیں۔امریکی صدر بش نے اسے کروسیڈ وار سے تعبیر کیا۔ سی این این نے باوثوق ذرائع کے حوالے بتایا کہ ان حملوں میں ان لو گوں کا ہاتھ ہے جن کا تعلق اسامہ بن لادن کی تنظیم سے ہے۔دنیا میں ایسی دہشت گرد تنظیمیں بہت کم ہیں جن کے پاس اتنے مالی وسائل اور جدید نیٹ ورک ہے جو اس طرح کے بڑے اور مربوط حملے کر سکتی ہیں۔ایک مبصر کا کہنا تھا کہ اس دہشت گردی کے اگرچہ مٹھی بھر لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں



نے طیارے اغوا کئے یا چلا کر عمارتوں سے ٹکرا دیئے مگر ان کے پیچھے ایک ماسٹر مائنڈبھی موجود ہے۔اب تک تو صرف دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہی زیر

بحث رہے مگر یہ بلند عمارتیں بھی بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بن گئیں جن سے صرف طیارے ہی ٹکرائے اب لوگوں کی توجہ ضرور اس جانب بھی جائے گی۔وائس آف امریکا کے مطابق حملوں کے باعث امریکا کو عشروں میں بد ترین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے۔بعض حلقے اس کا الزام اسامہ بن لادن پر عائد کرتے رہے۔ اس کی کڑیاں چند ماہ بعد ملنے والے اس ویڈیو بیان سے ملاتے ہیں جو حادثاتی طور پر ظاہر ہوئے تھے جن میں امریکی تنصیبات پر حملوں کے لئے کہا گیا تھا۔ایشیا سے ایک مبصر نے کہا کہ حملے کے لئے جس پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی ہے یہ اسا مہ بن لادن کے بس کی بات نہیں ہے۔اسامہ ان دنوں افغانستان میں مقیم تھے اور ان کی تمام تر سر گرمیوں پر پا بندی عائد تھی اور بیرونی دنیا سے ان کا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔جتنے بڑے پیمانے پر یہ کام ہوا ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ اسامہ بن لادن کا کام نہیں ہے۔مشرق وسطی کے ایک مبصر کا کہنا تھاکہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حملے میں کون ملوث ہے۔اوکلو ہو ما بم دھماکے میں پہلے مسلمانوں کو ذمہ دارٹھہرایاا گیا تھا مگر بعد میں امریکی ہی اس کے ذمہ دار پائے گئے تھے ۔ ایک فلسطینی مبصر نے کہا کہ حملے اور دھماکے کی ذمہ داری عرب دنیا پر عائد ہو گی۔ایک امریکی مبصر کا کہنا تھا اس سلسلے میں اسامہ پر شک کیا جا سکتا ہے۔۳

شکوک و شبہات



نو گیارہ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تیسرا مینار کیسے گرا تھا تیسرا مینار باقی دو میناروں کے سات گھنٹے کے بعد گِرا تھا ۔ سینتالیس منزلہ مینار جسے ’ٹاور سیون‘ بھی کہا جاتا ہے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں میناروں ’ٹوِن ٹاورز‘ کے تباہ ہونے کے سات گھنٹے بعد گرا تھا۔ تیسرے مینار کے بارے میں کچھ حلقوں کی طرف سے شک کا اظہار کیا گیا تھا کہ اسے خود دھماکہ کر کے گرایا گیا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی کے قریب ہی ماہرین کے ایک گروپ کی طرف سے عنقریب مکمل کی جانے والی رپورٹ میں اس شک کو رد کر دیا گیا۔ا اور تیسرے مینار کے گرنے کی وجہ اس کی مختلف منزلوں پر لگنے والی آگ بتائی گئی۔ یاد رہے کہ ’ٹوِن ٹاورز‘ کے برعکس تیسرے مینار سے کوئی جہاز نہیں ٹکرایا تھا۔ ماہرین کی تفتیش کے بعد یہ دنیا میں فولاد سے بنی پہلی بلند و بالا عمارت ہو گی جس کے زمین بوس ہونے کی وجہ آتشزدگی ہوگی۔ نیشنل انسٹٹیوٹ فار سٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے تفتیش کار ڈاکٹر شیام سندر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق امکان یہی ہے کہ تیسرے مینار کی مختلف منزلوں پر آگ پھیل رہی تھی جو بالآخر عمارت کے تباہ ہونے کی وجہ بنی ہوگی۔ تاہم آرکیٹکٹس اینڈ انجنیئرز فار نائین الیون ٹروتھ نامی تنظیم سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیسرے مینار کی تباہی کے بارے میں سرکاری طور پر بتائی جانے والی وجہ ناممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یقیناً اس مینار کو خود گرایا گیا ہوگا۔ تنظیم کے بانی رچرڈ گیگ نے کہا کہ چھٹی جماعت کا بچہ بھی اس عمارت کو گرتے ہوئے دیکھ کر اس کی رفتار اور توازن کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ یہ مینار خود زمین بوس نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جو عمارتیں خود گرتی ہیں وہ سیدھی نہیں گرتی بلکہ اس سمت جھکتی جہاں سب سے کم مزاحمت ہو۔ ’وہ سیدھی نیچے نہیں جاتیں‘۔۴



اسامہ بن لادن

اسامہ بن لادن جس پر الزامات عائد کیے گئے۔ 1979ءمیں امریکہ کی مدد کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔ اور افغان وار میں روس کے خلاف جہاد میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ امریکیوں کے سانہ بشانہ روس سے نبرد آزما تھے۔تاہم ۰۸۹۱ کے عشرے میں روس کی شکشت کے بعد ان کے امریکوں سے اختلاف ہوگئے۔ 1996 میں انہوں نے پہلا فتویٰ جاری کیا تھا کہ امریکی فوجی سعودی عرب سے نکل جائیں۔ جس میں اسامہ بن لادن نے امریکہ کی اسرائیل کے بارے میں خارجہ پالیسی پر اعتراضات کیے تھے۔ (۵) ورلڈ ٹریڈ سینٹر اورپنٹاگون میں دہشت گردی کے گیارہ ستمبر کے واقعات پر امریکا کے سرکاری اداروں میں بڑی لے دے ہو ئی۔ دنیا کی منظم ترین اور ترقی یافتہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہر جگہ موضوع بحث بنی رہی۔ان حملوں کے دو دن بعد ایف بی آئی نے 19مشتبہ افراد کی فہرست جاری کی جن کا تعلق اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ سے جوڑا گیا۔ (۶)ان مشتبہ افراد کی فہرست اور تصویروں کی اشاعت کے بعد یہ حقائق بھی منظر عام پر آگئے کہ ان میں سے بیشتر افراد حادثے کے وقت امریکا سے ہزاروں میل دور تھے۔ جس سے ایف بی آئی کے لئے مزید جگ ہنسائی کا اہتمام ہوا۔

د۔ اسامہ بن لادن نے 16ستمبر2001ءکو امریکہ میں رونما ہونے والے واقعات سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ اس کا بیان الجزیرہ سے نشرہوا۔ جس میں اس نے کہا تھا کہ یہ



انفرادی کاروائی ہے اور ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (۷)تاہم بعد میں ڈرامائی طور پر اسامہ بن لادن کے ٹیپ منظر عام لائے گئے۔ امریکی صدراتی انتخاب 2004ءکے موقع پر اسامہ بن لادن کا ایک ایسا ٹیپ منظر عام پر لایا گیا۔ جس میں اس نے امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کا اعتراف کیا۔ اسامہ بن لادن کا انسانوی کردار کے بارے میں اب عوامی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ایک خیالی پیکر ہے۔ اب اسامہ بن لادن زندہ نہیں ہے۔ اور اس خیالی پیکر میں امریکہ سی آئی اے اپنے پسندیدہ رنگ بھرتی رہتی ہے۔ امریکہ نے خالد شیخ کو ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا ہے۔ جسے پاکستان سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔خالد شیخ نے پہلے اعتراف اور پھر ان الزامات سے انکار کردیا ہے ۔ اور کہا



ہے کہ اسے ایک ہی بار موت سے ہمکنار کردیا جائے۔ کیونکہ وہ تشدد کے برتاﺅ سے تنگ آچکا ہے۔(۷) نائین الیون کے واقعات کے پس پردہ مقاصد کے بارے میں دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ صدر بش کی ہوس ملک گیر اور مسلم دنیا کے خلاف کاروائی تھی۔ جس کے نتیجے میں دنیا کے دو آزاد مسلمان ملک عراق اور افغانستان پر امریکہ نے قبضہ کر لیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے ایک ماہر رچرڈ اے کلاوک نے اپنی کتاب Against all enimiesمیں لکھا ہے کہ امریکہ کی روس کے خلاف کاروائی اور افغانستان میں آمد اور جنوب میں اسرائیل کو مضبوط کرنے کی پالیسی نے ہی القاعدہ کو جنم دیا ہے۔ ایک اور نامہ نگار پیٹربرجین نے لکھا کہ ”یہ حملے اس منصوبے کا حصے تھے جس کے تحت امریکہ کو مشرقی وسطیٰ میں اپنی فوجی اور ثقافتی موجودگی میں اضافے کا موقع ملا۔ امریکہ نے نائین الیون کے بعد ناٹو کونسل کے ذریعہ یہ اعلان کرادیا کہ امریکہ پر ہونیوالے یہ حملے ناٹو اقوام پر حملے تصور کیے جائیں گے۔ اور امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ آغاز کیا اور کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کو عدالت کے کہٹرے میں لائیں گے۔ (۸)گو اقوام متحدہ دہشت گردی کے کسی متفقہ تعریف پر متفق نہیں ہو سکی لیکن اس کے باوجود امریکہ نے دہشت گرد کو ٹھکانہ دینے والے ملکوں کے خلاف معاشی اور فوجی پابندیوں حفاظتی اور اطلاعاتی انٹیلجنس میں شرکت کی ذمہ داری ڈال دی۔ اور اس کا پہلا نشانہ افغانستان اور پھر عراق کو بنایا گیا۔ یہ دونوں آزاد جمہوی ملک تھے۔ جن پر آج بھی امریکی فوجیں اور ناٹو فوجیں موجود ہیں۔ ۸۱ ستمبر۱۰۰۲ کو پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نیاز نایک نے بی بی سی کے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ جولائی ۱۰۰۲ میں ۱۱۔۹ کے نیویارک کے حملوں سے دو ماہ قبل اعلی امریکی حکام نے ان سے کہا تھا کہ افغانستان کے خلاف فوجی کاروائی اکتوبر کے وسط میں شروع کی جاے گی۔ بلاشبہ افغانستان پر حملے کی منصوبہ بندی ۱۱۔۹ حملوں سے بہت پہلے کر لی گئی تھی اور مقصد اس کا امریکا کی عظیم تر فوجی حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا تھا۔ عر۱ق پر امریکہ کے غاضبانہ قبضے پر آج ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ حملے عراق کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

محمد عطا

تیتنس سالہ محمد عطا کا تعلق مصر سے ہے۔ 1985 میں اس نے قائرہ یونیورسٹی میں سول انجینئر نگ کی تعلیم حاصل کی۔ 90ئمیں ایک سول انجینئر نگ کمپنی کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ 97ءکے وسط میں وہ انسٹی ٹیوٹ سے پندرہ ماہ کیلئے غائب ہو گیا۔ اکتوبر 98ئمیں واپس آیا تو گھنی ڈارھی رکھی ہوئی تھی۔ انسٹی ٹیوٹ میں اس نے ایک جماعت بنائی۔وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتا تھا۔ امریکا میں وہ نیو یارک میں رہنے لگا اور ایک سال کے اندر اندر اس نے ہوا بازی کی ٹرننگ حاصل کر لی۔ گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ “ان میں سے ایک مرون الشیحی، جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دوسری عمارت سے ٹکرانے والے جہاز پر سوار تھا۔”ایک فٹنس کلب میں دیکھا گیا جہاں انہوں نے تین گھنٹے گزارے اور وڈیو گیم سے لطف اندوز ہوئے۔ سی آئی اے کا گمان ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے ٹکرانے والے جہاز کے پائلٹ کو سیٹ سے ہٹا کر محمد عطا نے پائلٹ کی سیٹ سنبھال لی تھی۔بعد میں

عربی اخبار الشرق الاوسط کے نمائندے نے محمد عطا کے والد سے ملاقات کی تو اس کا دعوی تھا کہ ورلڈ ٹریڈسینٹر کے دھماکے کے بعد محمد عطا نے اسے فون کیا اور اس سے مختصر گفتگو کی۔ والد کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران محمد عطا کی آواز نارمل نہیں تھی اور اسے اندیشہ ہے کہ اس کے بیٹے کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔ والد کا کہنا ہے کہ محمد عطا ہوا بازی کی الف ب سے بھی نابلد ہے۔ اسے ہوائی سفر سے چکر آتے ہیں۔ اسرائیل کی انٹیلی جنس “موساد”نے محمد عطا کو اغوا کر کے اسے قتل کیا ہو گا اور اس کے پاسپورٹ کو اس غرض کے لئے استعمال کیا ہو گا۔(۹)



مروان الشیحی

امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی نے جو مبینہ ہاکی جیکرز کی فہرست جاری کی تھی اس میں دوسراے ہاکی جیکرکا نام مروان الشیحی بتایا گیا ہے۔ تیئس سالہ مروان یوسف الشیخی کا تعلق



متحدہ عرب امارات سے ہے۔ تفتیشی اداروں کا خیال ہے کہ ٹریڈ سینٹر پر دوسرے طیارے کو ٹکرانے کے لئے مروان الشیحی اسے کنٹرول کر رہا تھا۔ گمان کیا جاتا ہے کہ مروان کی محمد عطا سے گہری دوستی تھی۔ گیارہ ستمبر سے قبل وہ اور اس کے دو ساتھی ہائی اسکول کے بعد 1998ء میں مروان متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج میں شامل ہو گیا۔ 1999ئمیں مسلح افواج نے اسے تعلیم کے لئے جرمنی بھیجا جہاں مختصر قیام کے بعد وہ امارات واپس آگیااور شادی کی۔ امارات میں 25دن گزارنے کے بعد واپس جرمن چلا گیا جہاں اس نے اپنے پاسپورٹ کی گمشدگی ظاہر کی اور نیا پاسپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تفتیشی اداروں کے مطابق پرانے پاسپورٹ میں افغانستان کا ویزہ تھا جہاں وہ جہاد میں شرکت کرنے گیا تھا۔ نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد وہ امریکا روانہ ہو گیا۔ امریکا جانے کے بعد اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ ہیمبرگ میں وہ اپنی مصری والدہ کے رشتہ دار محمد عطا کے ساتھ رہتا تھا۔ مروان کے اچانک لاپتہ ہونے پر اس کے گھر والے پریشان ہو گئے تھے۔ اس کے بڑے بھائی نے امارات میں سرکاری اداروں سے رجوع کیا جنہوں نے جرمنی میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ اس کا بھائی خود جرمنی گیا جہاں اسے معلوم ہوا کہ وہ امریکا گیا ہوا ہے۔ بعد میں مروان نے امارات میں اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی لیکن اس نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہے۔(۰۱)

زیاد سمیر الضراح

زیاد سمیر الضراح کا تعلق بیروت سے 75کلومیٹر دور ایک گاو ¿ں المرج سے ہے۔ امریکا کے تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ پنسلوانیا کے قریب گرنے والے جہاز کے ہائی جیکروں میں شامل تھا۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ جہاز کے پائلٹ کی سیٹ زیاد نے ہی سنبھالی تھی۔ شہری ہوابازی کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ پانچ سال پہلے ہیمبرگ گیا تھا۔اس دوران وہ ہر سال اپنے گھر والوں سے ملنے بیروت آتا رہا۔ آٹھ ماہ قبل اس کے والد کا بائی پاس آپریشن ہوا تو وہ اسے دیکھنے آیا تھا۔زیاد کا والد اپنے بیٹے کو 1500ڈلر ماہانہ روانہ کرتا تھاجس سے وہ اپنی تعلیم اور ضروریات کا خرچہ چلاتا۔زیاد کے والد کا کہنا ہے کہ مذکورہ حملوں سے چار گھنٹے پہلے اسے زیاد کا فون آیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی کی طرف سے بوئنگ767کی تربیت کی لئے اسکالرشپ مل گیاہے اور وہ فلوریڈا جا رہا ہے۔زیاد کے چچا جمال الجراح نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ زیاد خوش مزاج نوجوان تھا اور وہ انتہا پسند تھا اور نہ اسلامی تعلیمات کا پابند۔ جرمنی میں وہ اپنی ترک گرل فرینڈ کے ساتھ رہتا تھا۔ واضح رہے کہ زیاد کی فیملی نے اس کی وہ تصویر بھی اخبارات کو جاری کی ہے جس میں زیاد کسی تقریب میں لڑکی کے ساتھ ڈانس کر رہا ہے۔ترک گرل فرینڈ نے اخباری نمائندون سے بات چیت کرنے ہوئے کہا کہ زیاد کا مذکورہ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے محمد عطا نامی مشتبہ شخص سے اس کا کوئی تعلق رہا ہے۔(۱۱)

عبدالعزیز العمری

ایف بی آئی کی فہرست میں مبینہ ایک اور ہاکی جیکر کا نام عبدالعزیز العمری بتایا گیا ہے۔ وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاورسے ٹکرائے جانے والے طیارے میں سوار تھا۔گمان ہے کہ وہ خود بھی پائلٹ تھا۔وہ ریاض میں 24دسمبر 1972کو پیدا ہوا۔ ایف بی آئی کے مطابق عبدالعزیز العمری فلوریڈا میں مقیم تھا۔مشتبہ افراد کی فہرست میں عبدالعزیز العمری کا نام بھی شامل ہے لیکن اس نے دھماکے کے تیسرے دن ریاض میں اخباری نمائندوں سے ملاقات میں کہا کہ دھماکے کے دوران وہ ریاض میں ڈیوٹی پر تھا۔وہ 1993ءمیں وہ انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول کے لئے امریکا کے شہر کو لوراڈو گیا جہاں قیام کے دوران (1995ئ) میں اس کے فلیٹ میں چوری ہو گئی جس میں اس کا پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات بھی غائب ہو گئے۔ چوری کے واقعے کی اس نے پولیس کے اطلاع دے دی۔31دسمبر 1995ئمیں اس نے نیا پاسپورٹ بنوایا۔ 11 جنوری 1996ء کو وہ نئے پاسپورٹ پر دوبارہ امریکا گیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپریل 2000ء کو وطن واپس آگیا۔ عبد العزیز نے کہا کہ وہ شہری ہوا بازی سے قطعی واقف نہیں اور نہ ہی کسی انتہا پسند تنظیم سے اس کی وابستگی ہے۔پنسلوانیا کے قریب گر کر تباہ ہونے والے طیارے میں مشتبہ احمد النعمی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فلوریڈا میں مقیم تھا اور وہیں ہوا بازی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد النعمی نامی یہ 23سالہ نوجوان سعودی عرب کے شہر عسیر میں مقیم تھاجہاں سے پندرہ ماہ پہلے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوا اور واپس نہیں آیا۔(۲۱)

احمد النعمی

امریکا کے تفتیشی اداروں کو ریاض میں مقیم احمد النعمی ایک پائلٹ کا بھی پتہ چلا ہے۔ مذکورہ جہاز میں سوار احمد النعمی فلوریڈا میں مقیم تھا۔ ایف بی آئی نے احمد النعمی کی تصویر بھی میڈیا کو جاری کی جسے دیکھنے کے بعد احمد حیدر النعمی نامی سعودی ائیر لائن کا کارکن مقامی اخبار کے دفتر گیا اور مذکورہ حملوں سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا۔33سالہ احمد النعمی نے بتایا کہ وہ ایئر لائن میں ہوائی جہاز کے عملے کا نگران ہے۔ وہ سعودی عرب کے شہر جیران میں پیدا ہوا۔ 1998ء میں وہ پہلی بار امریکا گیا۔ گزشتہ اکتوبر میں دوسری بار اور جولائی میں وہ آخری



بار امریکا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ تینوں بار اس نے اپنا کوئی سرکاری کاغذنہیں کھویا۔ انہوں نے اعلی تعلیم بھی جدہ میں حاصل کی۔ احمد النعمی گزشتہ 14سال سے سعودی ایئر لائن سے وابستہ ہے۔ امریکا میں مختص قیام کے دوران اس نے ہوٹل کے سوائ کہیں اور اپنا پاسپورٹ نہیں دکھایا نہ ہی امریکا میں اس نے کرائے پر گاڑی لی۔ احمد النعمی نے کہا کہ ایف بی آئی کی جاری کردہ فہرست میں مشتبہ افراد کی کثیر تعداد سعودی ایئر لائنز سے وابستہ ہے جن کی اکثریت 11ستمبر کے حملوں کے دوران امریکا میں نہیں تھی۔ ان کا نام مشتبہ افراد میں شامل کر کے ہمیں صدمہ پہنچا یا ۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ۰ نے حملوں میں ملوث افراد کے ملکوں مصر،لبنان،متحدہ امارات، سعودی عرب کے بجائے دہشت گردی کے خلاف کاروائی کے لیے افغانستان کو منتخب کیا جس کا اس واقعے سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔(۳۱)



عراق کی جنگ میں امریکیوں کی ہلاکت اور نقصانات

عراق کی جنگ میں 3ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلا ک ہو چکے ہیں، اس سے 10گنا زیادہ زخمی ہو ئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے 450ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے ، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں 2ٹریلین(2ہزارارب)ڈالر سے زیادہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔ (۴۱)

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات

پاکستان نے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں روز اول سے معاونت فراہم کی۔ امریکہ حملوں کی وجہ سے پاکستان میں ایک بار پھر افغانستان مہاجرین کی آزادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت پاکستان امریکیوں کو فوجی اڈﺅں کی سہولیات ایندھن اور دیگر اشیاءکی فراہمی میں مدد دی اور القاعدہ کے شہبے میں 600افراد کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا۔ جنہیں بدنام زمانہ گوانتا بے (کیوبا) میں لے جا کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ نے جہاں بانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال میں ۲۵امریکی فوجی کاروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مزاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہیدہوئے ہیں۔

کونڈو لیزرائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ (Undr civilian control The need for Pakistan’s military to be placed ) اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے7ارب ڈالر کی امداد کے پیکچ کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجر مولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا گیا۔ امریکہ کے جوائنٹ چیف اسٹاف ایڈمرل مائک ملین نے کہا کہ اگر مجھے کسی اسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والا ہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقینا منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنچ کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرح سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیکل ہے ڈن(Michael Hayden)کا ارشاد ہے: القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہو گئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی اے کے ڈائریکٹر روبرٹ موئیلر(Mueller (Robert کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور © ©”وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہو جائیں گے۔“ اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کڑنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق: گذشتہ 10دنوں میں خطرے کے نئے احساس یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہو چکی ہے۔(ڈان، 21اپریل2008)90 ہزار فوجی قبائلی علاقوں میں برسر پیکار ہیں اور گذشتہ تین سال میں 1200سے زائد فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ اسی طرح جنھیں دہشت گردکہا جاتا ہے ان کا جانی نقصان بھی اس سے کسی طرح کم نہیں۔ ینز3ہزار سے زیادہ عام شہری جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی خاصی تعداد میں شامل ہیں۔ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں انتشار ، افراتفری اورخون خرابہ ہے۔ آبادی کے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو نائن الیون کے بعد امریکا کے حواری بننے کی بڑی بھاری معاشی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکا تو یہی طعنہ دیتا ہے کہ ہم نے 11ارب ڈالر کی امدادی ہے مگر حقیقت یہ کہ اس میں سے2ارب ڈالر



فوجی خدمات کے معاوضے میں دی گئی ہیں۔ اور اصل معاشی امداد جس کا ایک حصہ قرض کی شکل میں ہے صرف 5ارب ہے ، جب کہ پاکستان کو ملک اور بیرونی محاذ پر جو معاشی نقصان اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا صحیح تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ 2002ءمیں صرف پانچ سال کی بنیاد پر خود امریکا کی نارتھ کمانڈ کی ویب سائٹ پر یہ نقصان 10سے 12ارب ڈالر قرار دیا گیا تھا۔ آزاد ذرائع کے مطابق گذشتہ سات سال میں یہ نقصان 12سے 15ارب ڈالر کا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں کی گئی اور نہ اس کا کوئی مطالبہ پاکستانی حکومت نے کیا، بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔(۵۱)

مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم

دانشوروں کا کہنا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے ہیں جب انہیں امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔شاید مسلم برادری بھی ایسے ہی مرحلے سے گزر رہی ہے۔گیارہ ستمبر اور سات جولائی کے واقعات کے بعد دنیا بھر میں نسلی، مذہبی اور سیاسی مباحثوں نے خاصی شدت پکڑ لی ہے ۔نائین الیون کے واقعات کے بعد امریکہ برطانیہ مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی اور مسلمانوں سے مشابہت کی بنا پر سکھوں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بیل اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ان حملوں کا سب سے زیادہ شکار مسلمان، عرب اور مشرقی وسطیٰ کے باشندوں کو بنایا گیاہے۔ 80ہزار عرب اور مسلمان باشندوںکے4فنگر پرنٹ لے گئے۔ انٹرویو اور تفتیش کی گئی۔ 5ہزار غیر ملکیوں کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ پوری دنیا میں دہشت گردی کے نام پر ہزاروں افرادکی ایر پورٹ پر تلاشی اور گرفتاری اور بے دخلی کی گئی۔ (۶۱)

مسلمانوں کی دل آزاریاں



نائن الیون کے بعد دنیا میں مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ۔ حضور اکرم ﷺ کے دل آزار خاکہ شائع کیے گئے۔ جس پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔نائین الیون کی ساتویںبرسی پوری دنیامیںمنائی گئی۔دنیا بھرکے رسائل وجرائد میںاس حوالے سے تحریریںشائع ہوئیں۔لیکن اس موقع پرامریکہ میںمسلمانوں کی دل آزاری کی ایک اورحرکت ہوئی۔امریکہ کی ایک کمپنی نے انٹرنیٹ پرایک گیم جاری کیاہے ”مسلمانوںکاقتل عام”Muslim Massacreنام کے اس کمپیوٹرگیم کوفری ڈاﺅن لوڈکیاجاسکتاہے۔کئی مرحلوںمیںمکمل ہونے والے اس گیم کامسلح ہیرودنیاکومسلمانوںکے جودسے پاک کرنے کے مشن پر ہے۔مشین گن ،راکٹ لانچراوردیگرجدیدترین ہتھیاروںسے لیس یہ ہیروایک طیارے سے پیراشوٹ کے ذریعہ خلیج میںاترتا ہے اورمسلمانوںکاصفایا شروع کرتا ہے۔اس کے مدمقابل اسلامی لباس میںملبوس مسلمانوںکودکھایاگیاہے۔بیک گراﺅنڈ میںمسلم کلچرکے مطابق عمارتیںاورمذہبی مقامات مساجد کودکھاتے ہوئے یہ ہیرووہ مسلمانوںکوقتل عام کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔اسے سخت مزاحمت کاسامنا کرناپڑتا ہے۔لیکن یہ تمام مزاحمتوںکودورکرتے ہوئے قتل کرتا رہتا ہے۔اورگیم کے مراحل پارہوتے رہتے ہیں۔ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اس کا مقابلہ اسامہ بن لادن سے ہوتا اوریہ ہیرواسامہ کوقتل کردیتا ہے اوراگلے مرحلے کے لئے روانہ ہوجاتاہے۔اگلے مرحلے میںنعوذ باللہ اسکا مقابلہ اللہ اور رسول ﷺ سے دکھا یا گیا ہے۔اس طرح گیم مکمل ہوتا ہے۔یہ گیم بائیس سالہ امریکی سبوترواگ نے بنایاہے۔واگ آسٹریلیامیںمقیم ہے۔واگ کاکہنا ہے کہ اس گیم مقصدیہ پیغام دینا ہے کہ زمین کے کسی چپے پرمسلمان مردیاعورت زندہ نہ رہنے پائے۔اس گیم کے ریلیز ہوتے ہی عالم اسلام سے شدید ردعمل دیکھنے میںآنے لگا ہے۔پاکستان اورایران نے اس گیم کے خلاف سخت ردعمل کااظہارکرتے ہوئے گیم کوفوراً انٹرنیٹ سے ہٹانے کامطالبہ کیاہے۔ایران کی ایک تنظیم لشکرعلی کے سربراہ مہدی سروشانی نے کہا ہے کہ امریکہ اسلام اورمسلمانوںکے خلاف منافرت پھیلانے کی ملٹی ملین ڈالرمہم جاری رکھے ہوئے ہے۔عالم اسلام کوامریکہ کی سازش سے آگا ہ ہوناچاہے۔اورامریکی سازشوںکامنہ توڑ جواب دیناناگزیرہوتاجارہا ہے۔برطانیہ کی اسلامی تنظیم رمضان فاﺅنڈیشن نے اس گیم پرشدیدغصے کااظہارکیاہے۔ایک پاکستانی کمپیوٹرگیم ایکسپرٹ نے اس حرکت کومجرمانہ ذہنیت اوربیمارذہنی کامظہرقراردیاہے (۷۱)

ہندوستان کے مسلمانوں کی تذلیل

نائن الیون کے بعد لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل ایک معمول بن چکا ہے۔ ہندوستان دنیا کے ان چند ملکوں میں ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔یہاں تقریباً پندرہ کروڑ مسلمان ہیں اور وہ بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح گیارہ ستمبر کے منفی اثرات کی زد میں آئے ہیں۔گیارہ ستمبر کے بعد ہندوستان میں کشمیر اسمبلی اور ملک کی پارلیمنٹ پر حملے کیے گئے۔ شازس کے تحت بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں حملے کا نشانہ واضح طور پر ہندوو ¿ں کو بنایا گیا اور ردعمل میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ہے۔ ان میں ٹرینوں کے مخصوص ڈبوں میں دھماکے ، احمدآباد کے اکشر دھام مندر اور بنارس کے سنکٹ موچن مندر پر بم حملے شامل ہیں۔گزشتہ برس ہندوو ¿ں کے بڑے تہوار دیوالی سے ایک روز قبل دلی



کے مصروف بازاروں میں خونریزی بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے۔۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور گیارہ ستمبر کے نیو یارک کے حملے نےمسلمانوں کی شبیہ بری طرح مجروح کی ہے۔ہندوستان میں آج مسلمان شک کے محاصرے میں ہے۔ ممبئی اور دلی جیسے بڑے شہروں میں ہندو آبادی والے علاقوں میں لوگ اب مسلمانوں کے ہاتھوں مکان فروخت کرنے یا کرائے پر دینے میں ہچکچاتے ہیں۔انڈین مسلمانوں کو دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہراساں کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف دہشت گردی کی قیمت مسلمانوں کو اجتماعی طور پر ادا کرنی پڑی ہے تو دوسری جانب ممبئی اور گجرات کے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت کے لیئے ایک شخص کو بھی سزا نہ دیئے جانے سے مسلم برادری مزید پستی اور شکستگی کے احساس سے گزر رہی ہے۔گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ نے سلامتی کے نام پر جس طرح کے اقدامات کیے ہیںان کی پیروی کر تے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔۔ حقوق انسا نی کی تنظیمیں اور مسلمان شکایت کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی صورت میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جاتا ہے، لوگوں کی مذہبی بنیادوں پر تذلیل کی جاتی ہے اور اکثر اذیتیں دی جاتی ہیں۔اقلیتی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میڈیا عموماً مسلمانوں کی منفی خبریں ہی پیش کرتا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد سلامتی کے بعض ماہرین اور ہندو دانشوروں کی طرف سے یہ تجاویز کھل کر سامنے آئیں کہ اسرائیل کے طرز پر ہندوستان کی سکیورٹی افواج کو بھی ان افراد کے مکانوں کو تباہ کر دینا چاہیئے جو دہشت گرد کارروائیوں میں شامل ہوں یا جن پر تخریبی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا شک ہو۔ گزشتہ سات برس ہندوستان کے مسلمانوں پر کافی بھاری گزرے ہیں۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے علماء دلی میں جمع ہوئے۔ انہوں نے دہشت گردی کی ہر شکل میں خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لیئے ہو مذمت کی اور اسے اسلام کی روح کے منافی قرار دیا۔علماء نے حکومت پر یہ واضح کر دیا کہ اسلام کو دہشت گردی سے منسوب نہ کیا جائے کیونکہ اسلام، بقول ان کے، بے قصوروں کی ہلاکت کو کبھی قبول نہیں کر سکتا۔(۸۱)

طاقت کا عدم توازن

روس کے زوال سے پہلے اور سرد جنگ کے دوران د ±نیا میں طاقت کا توازن قائم رہا اور عالمی طاقتیںعسکری محاذآرائی سے گریز کرتی رہیں۔ امریکہ اپنے زیرِ اثر کمزور ممالک میں اپنی پسند کی حکومتیں لاتا رہا اس کے لئے اکثر ممالک میں بغاوتوں کے لئے امریکی سرمایہ کے ساتھ امریکی خفیہ ایجینسیاںبھی سرگرم عمل رہیں۔افغانستان سے روس انخلا کے بعد روس کی شکست و ریخت کاسلسلہ شروع ہو گیا۔یہ د ±نیا میں بسنے والے تمام انسانوں کی بالعموم اور مسلمانوں کی بالخصوص بدقسمتی ہے کہ آج پو ری د ±نیا امریکی عالمی طاقت کے زیرِ اثر ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کا پوری د ±نیا میں تحفظ کرتا ہے چاہے اس کی قیمت دوسری اقوام کی آزادی اور خود مختاری ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیربھی م ±ردہ ہو چکا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے سانحے میں مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً۰۰۸۲ افراد ہلاک ہوئے۔ جس کے بعد امریکہ نے اس سانحے کے ذمہ دار افراد کو سزا دینے کے لئے پہلے افغانستان کو تباہ کیا ، پھر عراق کو اور اب پاکستان پر ہر ہفتے میزائل داغے جاتے ہیں۔تین ہزار سے کم افراد کی ہلاکت کے بدلے امریکہ اب تک پچیس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک کر چکا ہے اور ا ±س کے بدلے کی آگ ہے کہ اور بھڑکتی جا رہی ہے۔ اب امریکہ انجانے خوف میں مبتلا ہو چکا ہے اور مزید ہلاکتوں پر ت ±لا ہوا ہے۔ اپنے ملک سے لاکھوں میل کی دوری پر رہنے والے غیر ترقی یافتہ قبائلی لوگوں سے امریکہ خائف ہے ۔ایک ایسی عالمی طاقت جو اپنے انتہائی جدید سیٹیلائٹ نظام سے د ±نیا کے کسی مقام کی تصاویر لے سکتی ہے جس نے افغانستان کی غاروں پر د ±نیا کے وزنی ترین بم برسائے۔ جس کی خفیہ ایجینسیوں کا نیٹ ورک پوری د ±نیا میں پھیلا ہوا ہے وہ آٹھ نو سال سے اسامہ بن لادن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

امیکہ نے ا ±سامہ کے بھوت کو زندہ رکھا ہوا ہے اور اسے زندہ رکھنے میں امریکہ کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اسی بہانے وہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام مسلمان ممالک کو یکے بعد دیگرے اپنے غضب کا نشانہ بنا سکتا ہے۔اور اپنے نورِ نظر اسرائیل کو خوش رکھ سکتا ہے۔امریکہ نے د ±نیا میں جو قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کا وہ تنہا ذمہ دار نہیں بلکہ تمام اقوامِ عالم بھی اس کی ذمہ دار ہیں۔ اسلامی امہ کی بے حسی حیرتناک ہے۔ اب تک کسی بین الاقوامی فورم پر امریکہ کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم کے خلاف کوئی تحریک پیش نہیں ہوئی۔ او۔ آئی۔ سی ، عرب لیگ اور غیر جانبدار تحریک بھی اس سلسلے میں کوئی قرارداد سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں اور نہ ہی ان تنظیموں کے ر ±کن ممالک عالمی امن کو بچانے لئے کسی لائحہ عمل پر متفق ہو سکے ہیں۔

امریکہ د ±نیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا سب سے بڑا ملک

ہیروشیما اور ناگاساکی میں آج بھی امریکی بربریت کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ افغانستان کے پہاڑوں پر امریکی کارپیٹ بمباری نے بہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ دجلہ اور فرات کا پانی پندرہ لاکھ عراقیوں کے خون سے سرخ ہو چکا ہے۔ کیا۔ تمام صورت حال امریکی مفادات کے حق میں ہے اور موجودہ صورت حال تیزی سے امریکی مفادات کو



تقویت پہنچانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔ صدر بش اپنی ہاری ہوئی ضنگ کو جیتنے کے لئے پاکستا ن کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جس کے لیے انھوں نے بھارت اور افغا نستان کو آلہ کار بنالیا ہے۔ اس خطے میں امریکی عزائم پورے ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔امریکہ کے در پردہ عزائم ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت کوبے بس کردیا جائے اور اس کی سرززمین پر اپنی گرفت مضبوط کرکے وسط ایشیا کے وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے اور بلوچستان میں اپنا بڑا فوجی اڈہ قائم کر کے وہ علاقائی پانیوں پر اور تیل اور گیس کی تجا ر ت اپنی نگہداشت مﺅثر کرسکے۔ اور امریکہ پاکستان میں چین کا بھی اثر رسوخ ختم کردیا جائے۔ اورامریکہ کی سب بڑی خواہش ہے کہ پاکستان جلداز جلد امریکی فوج کے ہمراہ آزاد قبائل کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ جنگ بہت زیادہ طوالت پکڑ گئی تو کہ خدا نہ کرے کہ سرحد اور بلو چستا ن میںمشرقی پاکستان جیسی ملک علیحدگی تحریک زور پکڑ جائے۔ سرحد گورنمنٹ نے امریکہ کی ایما پروزیرستان ہنگو کے علاقوںمیں طالبان پر قابو پانے کے لئے اور ان کی سرکوبی کیلئے فوج بلا لی ہے۔لیکن پاکستان کی فوجی کاروائی کے بعد بھی اگر امریکی اہداف پورے نہ ہوسکے تو امریکہ نے اگر براہ راست وزیرستان پر بڑا حملہ کرنے کی غلطی کی تو اس خطے کا امن عراق اور افغانستان جیسا میدان جنگ بن سکتا ہے۔امریکہ وزیرستان کوعراق کی سرزمین میں تبدیل کرسکتا ہے۔ جو سرزمین مستقل قتل و غارت کی سرزمین بن چکی ہے۔



امریکہ بدترین مالی بحران



ا امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بد تریین مالی بحران سے گزر رہا ہے۔امریکہ کی تاریخ میں انیس سو تیس کے بعد آنےوالے اس بدترین مالی بحران کی وجہ سے ایشیا بھر کی تمام بڑی بڑی مارکیٹوں میں ٹریڈنگ زوالہ کا شکار ہیں۔ امریکی صدر نے امریکی ساکھ کو بچانے کے لئے کھربوں ڈالر کا سرمایہ کا سہارا فراہم کیا ہے۔لیکن عالمی منڈی میں اس اعتماد میں کمی ہوئی ہے، ایشیائی ،جاپان، جنوبی کوریا، چین اور تائیوان کے حصص بازاروں میں پانچ سے چھ فیصد کی کمی ہوئی ہے، نیویارک کے حصص بازار وال سٹریٹ میںگزشتہ دنوں گزشتہ چھ برس میں شدید ترین مندی دیکھنے میں آئی۔ امریکہ میں یہ مالیاتی بحران ملک کے چوتھے بڑے بینک لیہمن برادرز کی طرف سے دیوالیہ ہونے کی درخواست دینے کے بعد شروع ہوا ہے۔۔ ہا۔دریں اثناء امریکن انٹرنیشل گروپ (اے آئی جی) کے بیٹھ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ اے آئی جی کبھی دنیا کے سب سے بڑے انشورنش گروپ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ گروپ بھی پیسہ اکھٹا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اے آئی جی امریکہ کے فیڈرل ریزروز سے قرض حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ مختلف ملکوں کے مرکزی بینکوں نے مارکیٹوں میں اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ امریکہ کے فیڈرل ریزورز نے ہنگامی بنیادوں پر دیئے جانے والے قرضوں میں توسیع کر دی ہے جبکہ برطانیہ اور یورپ کے مرکزی بینکوں نے انتالیس ارب ڈالر کی مالیاتی نظام میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے چوتھے بڑے بینک کا دیوالیہ ہونے کی درخواست دینا اور پچاس ارب ڈالر میں ایک اور بڑی بروکریج فرم میری لنچ کی فروخت نے امریکہ کے مالیاتی منظر کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے اس بحران پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہ حکومت اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس طرح کے اداروں کا بیٹھ جانا امریکہ میں مارٹگیج مارکیٹ میں آنے والے مالیاتی بحران کا حصہ ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس طرح کے کتنے اور بینک اور مالیاتی ادارے اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ا۔ امریکہ کے وزیر خزانہ یا ٹریڑری سیکریٹری ہینری پالسن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اس بات کو مناسب نہیں سمجھتے کہ لوگوں کے ٹیکسوں کا پیسہ لیہمن برادرز کو بچانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ماضی حال ہی میں حکومت نے ایک اور بینک بیر سٹرنز کو بچانے کے لیے ٹیکسوں کا پیسہ استعمال کیا تھا۔ پالسن نے کہا کہ موجودہ عالمی مالیاتی بحران آخر کار بہتری لائےگا۔۔لہیمن بردار کے دیوالیہ ہونے کی درخواست کے بعد اس کے دفاتر سے ملازمین گتے کے ڈبو میں اپنی ذاتی اشیاءلے کر جاتے ہوئے نظر آئے۔۔اس بحران کے بارے میں رابرٹ پیسٹن بز نس ایڈیٹر، بی بی سی لکھتے ہیں کہ ’ایسا مشکل وقت پہلے نہیں دیکھا‘ امریکی حکومت نے ماگیج کمپنیوں فینی مے اور فریڈی میک کی مدد کے لیے سو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی تھی۔ میں پچیس سال سے صحافت کر رہا ہوں لیکن مالیاتی شعبہ میں دو دن کی ہفتہ وار تعطیل کے دوران میں نے حالات کو اتنا بگڑتے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔اور وال سٹریٹ میں، جو دنیا میں مالیاتی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز ہے، انیس سو بیس کے مالی بحران کے بعد شاید چوبیس گھنٹوں میں اتنے غیرمعمولی حالات پہلے کبھی رونما نہیں ہوئے، لیہمین برادرز نے دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اور بینک آف امریکہ مشکلات میں گھرجانے والے دوسرے بڑے بینک میرل لنچ کو پچاس ارب ڈالر میں خرید رہا ہے۔ میرل لنچ کا یہ فیصلہ کہ بینک آف امریکہ اسے خرید لے اتنا ہی حیرت انگیز ہے جتنا کہ لیہمین برادارز کا دیوالیہ ہونا۔ میرل لنچ کو اب یہ اعتماد حاصل نہیں ہے کہ وہ ایک آزاد ادارے کے طور پر قائم رہ سکتا ہے جس کی وجہ سےاس نے بینک آف امریکہ کا سہارا لیا ہے۔ اس کے علاوہ اے آئی جی، جو دنیا کی



سبب سے بڑی انشورنس کمپنیوں میں شامل ہے، مالی بحران کا شکار ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق کمپنی نے امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک سے چالیس ارب ڈالر کا قرض مانگا ہے۔ جہاں تک اس پورے بحران میں فیڈرل ریزرو کے کردار کا تعلق ہے، اس نے مالیاتی ادارروں کی مدد کرنے کے لیے اپنے ضابطوں میں نرمی کی ہے تاکہ وہ ان مسائل سےنمٹنے کے لیے ایک دوسرے سے کم مدت کے قرض آسانی سے حاصل کرسکیں۔ حالات اتنے سنگین ہیں کہ دس بڑے بینکوں نے، جن میں سٹی گروپ، گولڈمین سیکس اور اور جے پی مارگین شامل ہیں، ستر بلین ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا ہے جو شرکا بینک حسب ضرورت استعمال کر سکیں گے۔ حالیہ برسوں میں عالمی معیشت کو اتنے مشکل حالات سے نہیں گزرنا پڑا ہے۔ اپنا علیحدہ فنڈ قائم کرنے والے بینکوں نے اس میں سات سات ارب ڈالر ڈالے ہیں۔ امریکی تاریخ میں ناکام ہونے والا دوسرا بڑا مالیاتی ادارہ کیلفورنیہ میں قائم گھروں کے لیے قرضے مہیا کرنے والا ایک بڑا بینک انّڈی میک بیٹھ گیا ہے۔اس بینک سے کھاتہ داروں کی طرف سے مسلسل اپنی رقوم نکلونے کے بعد اس کا انتظام ریگولیٹرز نے سنبھال لیا تھا کیونکہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ مزید رقوم مہیا کرنے میں ناکام نہ ہو جائے۔ ریگولیٹرز کا کہنا ہے کہ امریکی کی تاریخ میں یہ دوسرا بڑا مالی ادارہ ہے جو کہ فیل ہو گیا ہے۔ ینک کے بنیادی نگران آفس آف ترفٹ سپرویڑن کا کہنا ہے کہ گزشتہ گیارہ دنوں میں کھاتہ داروں نے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی رقوم نکلوائی ہیں سرمایہ کار کمپنیوں نے ان کے حصص میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان کمپنیوں کے نقصان کا اثر پوری دنیا کی اقتصادیات پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ امریکی معیشت پر مر تب ہو نے والے یہ اس اثرات اس کی جنگ کی پالیسیوں کا عکاس ہیں۔ جو صدر بش کے جانے کے بعد مزید نمایاں ہو جائینگے۔(۰۲)



افغان وار کی قیمت

آئندہ نسلیں جب پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں گی تو اس نتیجے پر پہنچیں گی کہ ہندوستان سے زیادہ نقصان ہمیں افغانستان کے معاملات میں ملوث ہو کر ہوا ہے۔ روس کے افغانستان پر قبضے کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے پر ہمارے ملک میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔ تیس لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کا معاشی بوجھ اور سرحد ی علاقوں کے ساتھ ساتھ سندھ اور پنجاب کے بڑے شہروں میں متمول مہاجرین کا کاروبار پر اجارہ قائم کرنا کسی بھی طرح ہمارے لئے سود مند نہیں رہا۔دہشت گردی کی جنگ میں ایک بار پھر امریکہ کا حلیف بننا ہمیں ا س موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہمیں داخلی اور خارجی ہر دو محاذوں پر اپنی سا لمیت کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں بھی ہمیں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ا س امریکی دہشت گردی کا راستہ روکنے کے لئے پاکستان کو عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئندہ پاکستان ، ایران ، سعودی عرب اور شام دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ممکنہ اہداف ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم ایران سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید بہتری لائیں۔امریکہ کو یہ باور کرانے کی سخت ضرورت ہے کہ وہ ایک غیر موجود خطرے کے لئے مزید انسانی المیوں کو جنم دینا بند کرے۔ امریکہ کی اپنی معیشت بھی رو بہ زوال ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پھیلاو ¿نہ تو امریکہ کی عراق اور افغانستان میں ناکامیوں پر پردہ ڈال سکے گا اور نہ ہی امریکہ کے بین الاقوامی امیج میں کو بہتری لا سکے گا۔ عین ممکن ہے کہ پاکستانی فوج اور شدت پسند بیرونی حملہ آوروں کے خلاف متحد ہو جائیں۔ ایسے میں امریکہ اپنے ایک قابلِ اعتماد اتحادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اور خطے میں مزید سبکی بھی ا ±ٹھائے گا۔پاکستان کو روس سے اپنے روابط میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ روس اپنی شکست و ریخت کے بعد پھر ایک عالمی طاقت کے روپ میں ا ±بھر رہا ہے۔جارجیا پر حالیہ فوج کشی سے روس نے آئندہ اپنے مفادات کے بھر پور تحفظ کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان یا ایران پر امریکی تسلط یقینا روس کے مفاد میں نہیں جاتا۔ ایران میں ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر میں روس کا تعاون اور ایران کے حق میں بیانات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آئندہ پالیسی کیسی ہو

ہمیں بھی مغرب کی طرف دیکھنا بند کرنا چاہیئے اور خطے میں اپنے ہمسایوں کو حلیف بنانا چاہیئے۔ سات سمند ر پار کی مغربی اقوام ہماری ساٹھ سالہ ملکی تاریخ میں کبھی بھی قابلِ اعتبار حلیف ثابت نہیں ہوئیں۔ اور نہ ہی آئندہ ہو نگی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدرِ محترم اپنا پہلا بیرونِ ملک دورہ چین کا ہی رکھتے۔ چین ہمارا قابلِ اعتماد دوست ہے۔ اور خطے میں ایک ابھرتی ہو ئی طاقت ہے۔ ہمارے ملک کے اکثر ترقیاتی منصوبے چین کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ لکھنا پڑ رہا ہے اندریں حالات میں سیاسی قیادت سے زیادہ جنرل کیانی کی بصیرت قابلِ بھروسہ نظر آتی ہے۔ امید ہے کہ فوجی قیادت کا دورہئ چین سود مند ثابت ہو گا۔ اس وقت ہمیں چین روس اور عرب ممالک کی حمایت کی سفارتی حمایت کی سخت ضرورت ہے کاش یہ بات ہماری سیاسی قیادت سمجھ لے۔ ورنہ بھاری بوٹوں کی چاپ پھر ا ±بھرنے لگے گی کیونکہ نظریہ ضرورت کبھی بھی مردہ نہیں ہوتا۔



افغان حالات کیا ہوں گے



امریکہ نے نائیں الیون کے فورا بعد اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے افغانستان پر چڑھائی کی تھی ۔ جس کے بعد سے افغانستان پر امریکہ کا ± قبضہ ہے۔لاکھوں افغان اس جنگ میں امریکی جارحیت کا نشکار ہو چکے ہیں۔ افغانسان میں طالبان کی مزاحمت جاری ہے اور اتحادیوں کو شکست کا سامنا ہے۔ آئندہ افغان حالات کیا ہوں گے۔ بی بی سی لندن کے نمائندے آصف جیلانی لکھتے ہیں۔ فرانسیس ویندرل ’ اسپین کے ممتاز سفارت کار ہیں جو پچھلے چھ سال تک افغانستان میں یوروپی یونین کے سفیر رہنے کے بعد حال میں اس عہدہ سے سبک دوش ہو ¿ے ہیں۔ افغانستان کے خلاف امریکا کی جنگ اور اس کے نتیجہ میں طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد حامد کرزی کی حکومت کے قیام کے لے جرمنی کے شہر بون میں جو افغان کانفرنس ہو ¿ی تھی اس میں فرانسیس ویندرل نے اہم رول ادا کیا تھا۔ اس اعتبار سے یہ اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر افغان امور کے ماہر تصور کے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے زیر اہتمام جنیوا میں عالمی حکمت عملی کے سالانہ ریویو کی ایک کانفرنس میں فرانسیس ویندرل نے صاف صاف کہا ہے کہ افغانستان کے حالات سن دوہزار ایک سے بھی جب امریکا نے افغانستان پر چڑھای کی تھی ’ ابتر ہو گ ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگلی سردیاں بے حد پر تپش ثابت ہوں گی۔فرانسیس ویندرل کی راے میں افغانستان میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی تباہ کن غلطیوں کے ایک طویل سلسلہ نے حالات دگرگوں کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ بون کی افغان کانفرس میں کرز کی حکومت اس وقت قایم کی گی جب کہ شمالی اتحاد کے جنگی سرداروں کا ملک کے دو تہای علاقہ پر کنٹرول تھا یوں اس کانفرنس نے جنگی سرداروں کے کنٹرول کو تسلیم کیا اور اسے قانونی جواز فراہم کیا۔ دوسری بڑی غلطی فرانسیس ویندرل کے مطابق یہ تھی کہ امریکا نے حامد کرزی پر بے حد اعتماد کیا جیسے وہ ایک معجزہ ثابت ہوں گے۔افغانستان میں یورپی یونین کے سابق سفیر کا کہنا ہے کہ امریکا کی غلطیوں کی بناپر طالبان بڑے پیمانہ پر ازسر نو منظم ہو ¿ے ہیں اور ان کی فوجی قوت اور سیاسی اثر میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی سرحد سے ملحق جنوبی افغانستان میںاس وقت عالم یہ ہے کہ پشتون قبایل کی اکثریت کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں اور اب طالبان کی فوجی کاروایاں جنوب ہی میں نہیں بلکہ مشرق میں اور کابل کے گردو نوا ح میں بھی بڑھ گی ہیں۔پچھلے دنوں امریکا کی مسلح افواج کے چیرمین چیفس آف اسٹاف ایڈمرل ملن نے بھی یہی اعتراف کیا تھا کہ افغانستان میں امریکا کے ہاتھ سے وقت نکلتا جارہا ہے۔ سینٹ کی فوجی کمیٹی کے سامنے انہوں نے صاف صاف کہا تھا کہ مجھے یقین نہیں کہ ہم افغانستان میں جنگ جیت رہے ہیں۔انہوں نے افغانستان میں مزید ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی بھیجنے کے بارے میں صدر بش کے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور زور دیا تھا کہ افغانستان میں اس سے کہیں زیادہ فوج درکار ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت افغانستان میں امریکا کی ۳۵ ہزار فوج تعینات ہے جو زیادہ تر پاکستان کی سرحد سے ملحق افغان علاقہ میں کاروای کر رہی ہے۔

پچھلے دنوں امریکا کے با اثر اخبار نیویارک ٹایمز نے اپنے ایک اداریہ میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان کے حالات واقعی نہایت خطرناک ہیں۔طالبان کی سپاہ نے کابل کے قریب فرانسسی اور امریکی فوجوں پر منظم حملے کے ہیں اور امریکا اور نیٹو کے فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں مغرب نواز حکومت بڑھتے ہو ¿ے محاصرہ میں ہے۔ اخبار نے لکھا تھا کہ طالبان اور القاعدہ کے جنگجو افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے دونوں طرف ایک بڑے علاقہ میں پھیل گ گئے ہیں۔ اور وہ اپنا کنٹرول مضبوط کر رہے ہیں لیکن اس صورت حال میں نیویارک ٹایمز نے خبردار کیا تھا کہ امریکی فوجوں یا جنگی طیاروں کو پاکستان کی سر زمین پر بھیجنے کے نتیجہ میں پاکستان میں امریکا کے خلاف جذبات بھڑکیں گے یہ کام پاکستانی فوج کا ہونا چاے کہ وہ انٹیلی جنس کی مدد سے اور کڑی نگرانی کے تحت امریکا کی مالی مدد کے ساتھ طالبان اور القاعدہ کے خلاف کاروای کرے۔سات سال قبل امریکا نے افغانستان پر حملہ بقول اس کے نیو یارک میں ۱۱۔۹کے حملوں کا انتقام لینے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لے کیا تھا۔ امریکا نے ۱۱۔۹ کے حملوں میں ہلاک ہونے والے تین ہزار افراد کا انتقام تو افغانستان پر حملہ کے دوران ساڑھے دس ہزار افغان شہریوں کی ہلاکت کی صورت میں لیا۔ا لیکن اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے تعاقب میں اسے یکسر ناکامی رہی ہے۔اب جب کہ صدر بش کی صدارت کی معیاد ختم ہونے میں صرف تین مہینے رہ گے ہیں اس مقصد میں ناکامی ان پر آسیب کی مانند چھاتی جارہی ہے۔بلاشبہ بظاہر امریکا نے افغانستان پر فوج کشی ۱۱۔۹ کے حملوں کے انتقام لینے ’ اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کا قلع قمع کرنے کےلئے کی تھی لیکن اس کے پس پشت گہری سازش اور حکمت عملی کارفرما تھی۔ مقصد اس فوج کشی کا افغانستان پر مستقل فوجی تسلط جمانا ہے۔افغانستان پر تسلط کی بدولت امریکا نے بیک وقت متعدد اہداف حاصل کر لے ہیں۔ ایک طرف امریکا چین کی مغربی سرحد تک پہنچ گیا ہے۔شمال میں وسط ایشیا کی جنوبی سرحدوں پر روس کے حلقہ اثر تک اس کی فوج پہنچ گی ہے۔ مغرب میں ایران کی مشرقی سرحد پر اس کا قبضہ ہو گیا ہے اور جنوب میں پاکستان اس کی دسترس میں آگیا ہے۔

۱امریکی صدارتی انتخاب میں صدر بش کی پارٹی کے امیدوار جان میکین نے بڑے و اضح طور پر کہا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قایم کرنے چاہیں۔ اور ڈیموکریٹک امیدوار براک اوباما عراق سے تو امریکی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن وہ افغانستان میں اور زیادہ امریکی فوج بھیجنے کے حامی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر بھی فوجی کاروای کے لے بیتاب نظر آتے ہیں۔۱۰۰۲میں جب امریکا نے اس صدی کی سب سے زیادہ تباہ کن اور ہولناک بمباری کے بل پر افغانستان پر فوجی تسلط حاصل کیا تھا تو اسے توقع نہیں تھی کہ افغانستان کو ” آزادی ،، دلانے والی قوت چند برس کے اندر ایک دشمن میں تبدیل ہو جاے گی اور اس کے حقیقی مقاصد کی راہ میں اسے ویت نام اور عراق ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مارچ ۵۰۰۲سے جب سے طالبان کے ساتھ امریکی فوجوں کی معرکہ آرای شروع ہو ¿ی ہے چھ سو سے زیادہ امریکی فوجی مارے گے ہیں۔ امریکی فوجوں نے دو بدو زمینی کاروائی کے بجاے وہی فضای بمباری کی حکمت عملی اختیار کی ہے جو اس نے افغانستان کے تقویت پہنچانے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

امریکہ کے در پردہ عزائم



۔امریکہ کے در پردہ عزائم ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت کوبے بس کردیا جائے اور اس کی سرززمین پر اپنی گرفت مضبوط کرکے وسط ایشیا کے وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے اور بلوچستان میں اپنا بڑا فوجی اڈہ قائم کر کے وہ علاقائی پانیوں پر اور تیل اور گیس کی تجا ر ت اپنی نگہداشت مﺅثر کرسکے۔ اور امریکہ پاکستان میں چین کا بھی اثر رسوخ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اورامریکہ کی سب بڑی خواہش ہے کہ پاکستان جلداز جلد امریکی فوج کے ہمراہ آزاد قبائل کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ جنگ بہت زیادہ طوالت پکڑ گئی تو سرحد اور بلو چستا ن میںمشرقی پاکستان جیسی ملک علیحدگی تحریک زور پکڑ جانے کے خدشات بڑھ جا ئیں گے۔ امریکہ پاکستان کی سرحدی علاقوں میں 58حملے کر چکا ہے یہ وہ حملے ہیں جن کی تصدیق آئی ایس پی آر کر چکی ہے جبکہ متعدد ایسے حملے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو درحقیقت امریکہ نے کئے مگر ان کی زمہ داری پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اپنے سر لے لی۔یہ بات متعدد مرتبہ زیربحث آچکی ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں امن وامان کی تباہی کی زمہ داری براہ راست امریکہ پر عائد ہوتی ہے امریکہ نے پاکستان میں کاروائی کا جواز حاصل کرنے کیلئے سرحدی علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھرتی کر رکھے ہیںجو کاروائیاں کر کے ان کا الزام طالبان پر لگا دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب حقیقی طالبان کو بھی غیر محسوس اور نادیدہ طرز پر اسلحہ اور دیگر عسکری آلات فراہم کئے گئے کہ طالبان وزیرستان سمیت سوات اور درہ آدم خیل میں طوائف الملوکی بپا رکھیں تاکہ مسقتبل میں امریکہ ان مزاحمت کاروں کی کاروائیوں کو جواز بنا کربراہ راست امریکی حملے کر سکے۔اس کام کیلئے اسرائیل اور بھارت امریکہ کے ہمنوا ہیں اور وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے را اور موساد کی ساری صلاحتیں فراہم اور صرف کئے ہوئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتنے کیلئے اسے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود طالبان اور غیر ملکیوں پر گولہ باری کرنے کی ضرورت ہے۔ مشرف دور میں امریکی خفیہ ایجنسیاں خیبر سے کوئٹہ تک بلا خوف خطرہ دندناتی پھرتی تھیں۔جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو کامیاب بنانے کیلئے امریکہ سے متعدد معاہدے کئے اور ان پر عملدآمد بھی کیا۔یہ معاہدے اب بھی صیغہ راز میں ہیں۔



Leave a Comment







September 3, 2009, 5:27 am

Filed under: Uncategorized

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے,,,,قلم کمان …حامد میر



سیاست کا آسمان رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگاتا۔ برسوں پرانے دشمن چند لمحوں میں ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں اور پرانے دوست ایک دوسرے کا دشمن بننے میں دیر نہیں لگاتے۔ جیلوں میں قید رہنے والے دنوں میں حکمران بن جاتے ہیں اور پھر لمحوں میں ایک دفعہ پھر حکمران سے قیدی بن جاتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو جلاوطنی پر مجبور کرنے والے آخرکار خود جلاوطن ہو جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ان تمام غلطیوں کے باوجود بہت کم سیاستدان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں۔ انہی غلطیوں سے طوفان جنم لیتے ہیں اور یہ طوفان سیاست کے آسمان کا رنگ تبدیل کر دیتے ہیں۔ پاکستانی سیاست ایک دفعہ پھر طوفان کی زد میں ہے۔ کچھ دوست طوفان سے پریشان ہیں لیکن نہ جانے کیوں مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ شاید طوفان دیکھ دیکھ کر طوفانوں کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ طوفان آیا تو آسمان دیر تک صاف رہے گا۔ آسمان کے ساتھ ساتھ زمین پر رنگ بدلنے والے انسان بھی سیاست میں نہیں رہیں گے اس لئے سیاسی قوتوں میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی اور نئی صف بندیوں سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس میں سے بھی خیر کا پہلو تلاش کیا جانا چاہئے۔ جو آج دشمن نظر آ رہے ہیں کل دوبارہ دوست بن سکتے ہیں۔مجھے 23مارچ 1991ء کو مینار پاکستان لاہور کے سائے تلے منعقد ہونے والا جلسہ آج بھی یاد ہے جس سے نواز شریف اور الطاف حسین دونوں نے خطاب کیا تھا۔ مجھے 1992ء کا وہ وقت بھی یاد ہے جب الطاف حسین کے ساتھ آفاق احمد اور عامر خان منحرف ہو کر لاہور بھاگ آئے اور انہیں پیپلز پارٹی نے پناہ دی۔ اس زمانے میں سلمان تاثیر پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات تھے اور کیولری گراؤنڈ لاہور میں واقع اپنی رہائش گاہ پر آفاق احمد کی قابل اعتماد صحافیوں کے ساتھ ملاقاتیں کروایا کرتے تھے۔ پھر جب نوابزادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان ہوا تو اس میں ایم کیو ایم حقیقی بھی شامل تھی۔

مجھے وہ واقعہ بھی نہیں بھولتا جب 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نیویارک جاتے ہوئے لندن رکیں۔ میں ان کے وفد میں شامل تھا اور وزیراعظم کے وفد کو ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے عشائیہ دے رکھا تھا۔ میں عشائیے میں شرکت کی بجائے ٹیکسی میں بیٹھ کر الطاف حسین سے ملنے چلا گیا، نجم سیٹھی میرے ہمراہ تھے ہمارے خیال میں الطاف حسین کو ملنا ایک معمول کی بات تھی لیکن جب وہاں سے واپسی پر وزیراعظم کا طیارہ ہیتھرو ایئر پورٹ سے روانہ ہوا تو چند ہی لمحوں بعد محترمہ بے نظیر نے مجھے بلا کر کہا کہ ”کیا تم نہیں جانتے کہ الطاف حسین ایک مفرور ملزم ہے وہ غدار ہے اور تم مجھ سے پوچھے بغیر اس سے ملنے چلے گئے؟“ محترمہ بے نظیر بھٹو سخت غصے میں تھیں لہٰذا میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا اور نیویارک پہنچ کر الطاف حسین سے ملاقات کے بارے میں کالم لکھ دیا۔ کالم شائع ہوا تو ہم واپس پاکستان آ رہے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک دفعہ پھر مجھے اور وفد میں شامل دیگر صحافیوں کو بلا لیا۔ ایک دفعہ پھر الطاف حسین کے ساتھ ہماری ملاقات پر بحث شروع ہوگئی اور اس بحث کے دوران ظفر عباس اور زاہد حسین کی وزیراعظم سے تلخ کلامی بھی ہوگئی۔

پھر 1997ء آیا۔ نواز شریف وزیراعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر تھیں۔ سینیٹر سیف الرحمن نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بہت سے مقدمات دائر کر دیئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سینیٹر سیف الرحمن ہر پریس کانفرنس میں بے نظیر بھٹو کو غدار کہا کرتے تھے۔ 1998ء میں محترمہ کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو انہوں نے پاکستان چھوڑ دیا۔ پاکستان چھوڑنے سے قبل انہوں نے مجھے گلوگیر لہجے میں کہا کہ یاد رکھنا مجھے جلاوطن کرنے والا ایک دن خود جلاوطن ہوگا۔ پھر جنوری 1999ء آیا۔ نواز شریف حکومت کراچی میں فوجی عدالتیں قائم کرنا چاہتی تھی۔ میں فوجی عدالتوں کی تجویز کے خلاف کالم لکھ رہا تھا۔ ایک دن وزیر اطلاعات مشاہد حسین نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کچھ صحافیوں کی ملاقات کا اہتمام کیا۔ ملاقات میں مشرف نے فوجی عدالتوں کے فائدے بتانے شروع کئے تو میں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے ایم کیو ایم سے سیاسی انتقام لیا جائے گا اس لئے فوج کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔ یہ سن کر مشرف نے الطاف حسین کے بارے میں ایک لمبی تقریر کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ الطاف حسین اور عاصمہ جہانگیر پاکستان کے دشمن ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے شدید غصے میں ضیاء الدین اور سعود ساحر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرا بس چلے تو اپنے ہاتھ سے الطاف حسین کو گولی مار دوں۔ اس فقرے پر ہماری مشرف سے گرما گرمی ہوگئی لیکن موقع پر موجود جنرل عزیز خان نے معاملہ ٹھنڈا کروا دیا۔

پھر دسمبر 2000ء آ گیا۔ مشرف حکمران اور نواز شریف ان کے قیدی بن گئے۔ ایک دن نواز شریف کو ہوائی جہاز میں بٹھا کر جلا وطن کر دیا گیا۔ 2003ء میں ایک انٹرویو کے دوران میں نے پرویز مشرف سے کہا کہ اگر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو وطن واپس آنے دیا جائے تو اس میں کیا برائی ہے؟ مشرف نے تلملا کر کہا کہ یہ دونوں صرف میری لاش سے گزر کر واپس آ سکتے ہیں۔ 2006ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو مشرف نے دونوں کا اتحاد توڑنے کیلئے پیپلز پارٹی سے خفیہ مذاکرات شروع کر دیئے۔ سیاست کا آسمان رنگ بدلتا رہا۔ کل کے دوست لمحوں میں دشمن اور دشمن لمحوں میں دوست بنتے رہے۔ پھر 9مارچ 2007ء آیا۔ یہ ایک نئے طوفان کا آغاز تھا۔ ایک دن پرویز مشرف کے ایک قریبی عزیز نے مجھے کہا کہ جسٹس افتخار چوہدری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، مستقبل مشرف کا ہے نہ بے نظیر واپس آئے گی نہ نواز شریف واپس آئے گا۔ موصوف نے مجھے اپنا مستقبل بنانے کیلئے 15کروڑ روپے کی پیشکش کی اور کہا کہ بہت جلد جسٹس افتخار کو سعودی عرب بھیج دیا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آج مشرف سعودی عرب میں ہے اور افتخار محمد چوہدری دوبارہ چیف جسٹس بن چکے ہیں۔ مشرف کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ جدہ بلا کر کہا گیا ہے کہ سیاسی بیان بازی سے گریز کرو ورنہ ہم زیادہ دیر تک تمہیں بچا نہ پائیں گے۔ وہ الطاف حسین جو کبھی پیپلز پارٹی کی قیادت اور پرویز مشرف کیلئے غدار تھے آج وہی الطاف حسین ان دونوں کے مسیحا بن چکے ہیں۔ آصف علی زرداری اور پرویز مشرف دونوں اس وقت الطاف حسین کی پناہ میں ہیں لیکن سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی کراچی کے صدر سینیٹر فیصل رضا عابدی نے ہمیں وثوق سے کہا ہے کہ کراچی کا اگلا ضلعی ناظم پیپلز پارٹی سے ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں پیپلز پارٹی کی نظر صرف پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر نہیں کراچی کی نظامت پر بھی ہے۔ آج کے دوست کل پھر ایک دوسرے کے دشمن بن سکتے ہیں اور آج کے دشمن کل دوست بن سکتے ہیں۔ اکتوبر میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ ایم کیو ایم فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد کو خونریزی سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پیپلز پارٹی یہاں ایم کیو ایم سے اتحاد کر لے اور نظامت کے خواب نہ دیکھے۔ بصورت دیگر سیاست کا آسمان پھر اپنے رنگ بدلے گا۔ نئے حالات میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) میں قربت پیدا ہو سکتی ہے اور ایسی صورت میں صدر آصف علی زرداری کیلئے کوئی جائے پناہ نہ رہے گی۔ آج کل انہیں پیپلز پارٹی نے نہیں بلکہ صرف الطاف حسین نے بچا رکھا ہے لہٰذا وہ آئندہ فیصلے سوچ سمجھ کر کریں۔



Leave a Comment







بھارت میں نئے ایٹمی دھماکوں کا جنون

September 2, 2009, 5:59 am

Filed under: Uncategorized

بھارت میں نئے ایٹمی دھماکوں کا جنون



عطامحمد تبسم



بھارت میں دفاعی تحقیق و ترقی کے ادارے ڈی آر ڈی او کے سینیئر سائنسدان کے سنتھانم نے۱۱ برس بعد دنیا کو یہ کہ کر حیران کردیا ہے کہ بھارت نے مئی انیس سو اٹھانوے میں پوکھران میں جو جوہری آزمائشی دھماکے کیے گئے تھے، وہ حکومتی دعووں کے بر عکس پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ اپنے دفاعی جوہری پروگرام کو بہتر بنانے کے لیے بھارت کو مزید آزمائشی دھماکے کرنے کی ضرورت ہے۔سنتھانم آزمائشی جوہری دھماکوں کے وقت پوکھران میں موجود تھے۔ اور اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے جوہری دھماکے کئے تھے۔ اب ان کا دعویٰ ہے کہ ’ تھرمونیوکلیر ’ یا ہا ئیڈروجن بم کے دھماکوں کی شدت سائنسدانوں کی توقعات سے کہیں کم تھی۔ ۰۹۹۱ میں ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور انہیں دھماکوں کے بعد پاکستان میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی زبر دست بین الاقوامی دباو ¿ کے باوجود جوابی آزمائشی دھماکے کیے تھے۔جوہری دھماکوں کی آزمائش کے وقت پوکھرن میں سابق صدر اے پی جے عبدالکلام اور اس وقت کے قومی سلامتی کے صلاح کار برجیش مشرا بھی موجود تھے۔لیکن برجیش مشرا نے کے سنتھانم کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیسٹ پوری طرح کامیاب رہا تھا اور ایٹمی سائنسدان عبدالکلام نے اس کی تصدیق بھی کی تھی۔اسی نوعیت کے دعوے اس وقت غیر ملکی اداروں نے بھی کیے تھے جو اپنے انتہائی حساس آلات سے زیر زمین دھماکوں کی شدت کافی باریکی سے ناپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ آلات زلزلوں کی شدت ناپنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

کے سنتھانم نے یہ دعوی ایسے وقت کیا ہے جب بھارت اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے میں مصروف ہے اور اس نے حال ہی میں امریکہ، فرانس، اور روس سے اس سلسلے میں نئے معاہدات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت نے ابھی تک سی ٹی بی ٹی کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں۔بھارتی سائنسدان کے اس دعوے نے دنیا کر جہاں حیران کیا ہے وہاں بھارت میں بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔سینئر جوہری سائنسدان آر آر سبرامنیم نے کے سنتھانم کے دعوی کو قابل یقین کہاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنتھانم کو حقیقت کا علم ہوگا کیونکہ وہ اس پورے عمل میں شامل تھے اور ٹیسٹ کے وقت وہاں موجود تھے۔ ’انہی جذ بات کی عکاسی کرتے ہوئے جوہری سائنسدان گوپال کرشنا نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اس وقت بھی ماہرین کو یہ ماننے میں کافی دشواری ہوئی تھی کہ پہلا ہی آزمائشی دھماکہ چالیس کلوٹن کا تھا۔ ’ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ ٹیسٹ اگر اتنا کامیاب رہا ہے تو یہ ایک غیرمعمولی کامیابی ہے۔بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمیرل سریش مہتا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بھارت کے پاس بھرپور دفاعی جوہری صلاحیت موجود ہے اور یہ کہ پوکھران دھماکے پوری طرح کامیاب تھے۔

پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نئے سرے سے ایٹمی دھماکے کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے راہ ہموار کررہا ہے۔ پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا کہنا ہے کہ بھارت اگر ایٹمی دھماکے کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ بھارت کی حکومت ملکی مفاد میں فیصلے کرتی ہے ۔ایک امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ جب آپ اپنی سابقہ غلطیوں کی بنیاد پر نیا منصوبہ بناتے ہیں تو آپ نئے سرے سے تجربہ کرنے کے لئے پاگل ہوجاتے ہیں۔ اور بھارت یہی کر رہا ہے۔ سنتھانم کے بیان سے آزمائشی دھماکوں کی کامیابی پر بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے کیونکہ حکومت یہ دعوے کرتی رہی ہے کہ اب اسے مزید جوہری آزمائشی دھماکے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس کا براہ راست تعلق اس بات سے بھی ہے کہ آیا حکومت کو آزمائشی دھماکوں پر پابندی کے معاہدے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے چاہئیں یا نہیں۔

حکومتی سائنسدانوں کا دعوی تھا کہ آزمائشی دھماکے کی شدت پینتالیس کلوٹن تھی لیکن سنتھانم اور دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ یہ دھماکہ بیس کلو ٹن سے زیادہ نہیں تھا۔ہندوستان نے پوکھرن میں گیارہ اور تیرہ مئی انیس سو اٹھانوے کو پانچ جوہری آزمائشی دھماکے کیے تھے اور اس پورے عمل کی ذمہ داری ڈی آر ڈی او نے سنبھالی تھی۔ ان دھماکوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے خلاف عالمی برادری نے تعزیری پابندیاں عائد کر دی تھیں جو کئی برسوں تک جاری رہیں۔



بھارت خطے میں سیاسی بالادستی کے لئے جوہری تجربات کر تا رہا ہے ۔ حال ہی میںہندوستان نے اپنی ٹیکنالوجی سے بنی ہوئی پہلی جوہری آبدوز سمندر میں اتاری ہے۔ یہ آبدوز جوہری میزائلوں سے لیس ہے اور سمندر کی گہرائیوں سے اپنے ہدف پر نشانہ لینے کی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔’اریہنت‘ نامی یہ آبدوز ایٹمی ری ایکٹر سے چلتی ہے اور اس کی سمندر کی سطح سے زیر آب جانے کی رفتار بہت تیز ہے۔

اریہنت آبدوز تقریباً دو برس تک مختلف تجرباتی مراحل سے گزرے گی اور اسے باضابطہ طور پر 2011 میں ہندوستانی بحریہ میں شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح کی دو مزید جوہری آبدوزیں 2015 تک تیار کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ آبدوز روس کی ’چارلی-1‘ آبدوز کی ساخت پر بنائی گئی ہے اور یہ جوہری میزائل سے حملے کرنے اور جوابی حملے کر سکتی ہے۔ اس کی لمبائی 104 میٹر ہے اوراس کی رفتارپجپن کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس آبدوز سے سو میٹر کی گہرائی سے مزائل فائر کیے جا سکتے ہیں۔ اریہنت پانی کے نیچے سوسے زیا دہ دنوں تک رہ سکتی ہے۔ اسے پیغام سرانی کے لیے بھی پانی کی اوپری سطح نہیں آنا پڑے گا۔ اس پر 80 میگا واٹ کا جوہری ری ایکٹر لگا ہوا ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوہری آبدوزوں کی شمولیت سے خطے میں ہندوستانی بحریہ کی پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گی۔ ہندوستان بحر ہند میں اپنی بحری طاقت کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بحریہ کی جدید کاری کے عمل میں اس کی نظر روایتی حریف پاکستان پر نیں بلکہ چین پر ہے۔

بھارت اور روس میں جوہری معاہدہ ہو چکا ہے ۔ جس کے تحت روس بھارت کے لیے چار جوہری ری ایکٹرز بنانے میں ہندوستان کی مدد کرےگا۔روس جنوبی بھارت کے کوڈن کولم میں پہلے ہی سے ایک ہزار میگاواٹ کی وسعت والے ایک ری ایکٹر کو بنانے میں مصروف ہے ۔اس معاہدے پربھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور روسی صدر دیمتری مدیدیو نے دستخط کیے ہیں ۔امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد بھارت نے پہلے فرانس کے ساتھ اور اب روس کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے معاہدہ کیا ہے۔اس سمجھوتے سے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو ¿ اور جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں ۔تقریباً تین دہائیوں تک پابندیوں کا سامنا کرنے کے بعد بھارت کو امریکہ نے سویلین جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی مہیا کر دی ہے۔ اس معاہدے سے امریکہ کو بھارت کے سویلین جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت کے بدلے امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی اور توانائی کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ امریکی صدر بش اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے معاہدے پر دستخط جولائی دو ہزار پانچ میں کیے تھے جس کے بعد کئی برسوں کے مذاکرات کے بعد واشنگٹن میں دونوں ممالک کے وزرائ خارجہ نے گزشتہ ہفتے اس معاہدے کو حتمی شکل دے دی۔ اس معاہدے کے تحت بھارت نے جوہری تجربات کا حق محفوظ رکھا ہے تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں وہ معاہدہ ختم تصور کرے گا۔ لیکن کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتے سے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو ¿ اور جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

’اس معاہدے کے تحت بھارت کو جوہری ایندھن فراہم کیا جاسکے گا جو وہ اپنی دفاعی پیداوار کی جانب لگا سکے گا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت یورینیم کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کرسکے گا۔ اگرچہ بھارت میں چند ایسے ریکٹرز ہیں جو سویلین یعنی بجلی کی پیداوار کے لیے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ یورینیم صرف انہیں ریکٹرز میں استعمال ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بھارت اپنی پیداوار تین، چار اور دس گنا تک بڑھا سکے گا۔ بھارت تین سے تیس جوہری ہتھیار سالانہ تیار کر سکے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی گزشتہ دنوں امریکہ سے اسی قسم کے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکہ سے کہا کہ وہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان امتیازی سلوک نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ معاہدے کے بعد اب پاکستان کا بھی حق ہے کہ اس طرح کے معاہدے کا مطالبہ کرے۔

موید یوسف امریکہ میں بوسٹن یونیورسٹی میں پڑھانے کے علاوہ کالم نگار بھی ہیں۔ اس معاہدے کو وہ کئی حوالوں سے ایک غیرمعمولی معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل ان رعایات کے ساتھ یہ معاہدہ نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل چین اور روس کو بھی ری پروسیسنگ کی سہولت مہیا نہیں تھی۔‘ صرف اسرائیل، پاکستان اور بھارت اس کیٹگری میں آتے ہیں۔ اسرائیل نے چونکہ جوہری ہتھیاروں کا اعتراف نہیں کیا ہے تو پھر صرف پاکستان اور بھارت ہی دو ایسے ملک رہ جاتے ہیں۔ جب بھارت کو یہ سہولت دی تو پاکستان کو بھی دینی چاہیے۔بعض مبصرین کے خیال میں بھارت سے اس ڈیل کے ذریعے امریکہ علاقے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا چین اور پاکستان کے درمیان کسی ایسے معاہدے کی وہ شدید مخالفت کرے گا۔ ایسے میں کیا پاکستان کو چین کی جانب دیکھنا چاہیے؟

ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو ¿ کے سلسلے میں کئی اہم سوالات پیدا کر دیے ہیں۔تاہم یہ بھی ایک اہم سوال ہے



کہ اس معاہدے کے بعد ہندوستان اور امریکہ کے نئے دفاعی تعلقات کیا اہمیت رکھتے ہیں۔آئی اے ای اے ادارے کے ڈائرکٹر جنرل محمد البرداعی کا کہنا ہے’مجھے لگتا ہے کہ یہ معاہدہ ہندوستان کے لیے، دنیا کے لیے، جوہری عدم پھیلاو ¿ کے لیے اور دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے آزادی دلانے کی ہماری کوششوں کے لیے بہت اچھا ہے۔‘

بعض ماہرین کے خیال میں اس معاہدے کے بعد جوہری عدم پھیلاو ¿ کی مہم کو دھچکہ لگا ہے کیونکہ ہندوستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں لیکن اس نے جوہری عدم پھیلاو ¿ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں اور اس پر سے پابندی بھی ہٹ گئی ہے۔ لندن میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز میں جوہری معاملات کے ماہر مارک فٹڑپیٹرک اس معاہدہ کو جوہری عدم پھیلاو ¿ کی مہم کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا’ اس معاہدے سے دوسرے ملکوں کو یہ پیغام جائے گا کہ انڈیا کی ضرورت سے زیادہ حمایت کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد پاکستان، ایران اور شمالی کوریا اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے اس معاہدے کا سہارا لیں گے۔ اس کے علاوہ مصر جیسے ممالک مستقبل میں اپنے لیے اس معاہدے کو ایک نمونے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘ یہ امر کافی دلچسپ ہے کہ پینتالیس ملکوں کے جوہری گروپ نے ہند امریکہ معاہدے کو اتفاق رائے سے منظوری دی جب کہ ملک کے اندر سیاسی جماعتوں کے اندر اس معاہدے پر شدید اختلافات ہیں۔ حزب اختلاف کی حماعت بی جے پی نے اسے ’ملک کے اقتدار اعلٰی سے سمجھوتہ ‘ قرار دیا تو وہیں بائیں بازو کی جماعتیں بھی اسے’امریکی سامراجیت کے آگے گھٹنے ٹیکنے‘ کے مترادف بتا رہی ہیں۔

اس معاہدے کے نفاذ سے آئندہ دس برس میں جوہری ری ایکٹروں سے تیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ جوہری توانائی کے محکمے مطابق سنہ 2050 تک ایٹمی ری ایکٹروں سے دو لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔ طویل مدتی منصوبے کے تحت اس صدی کے وسط تک ہندوستان کی بجلی کی ضروریات کا 26 فیصد جوہری ٹیکنالوجی سے پورا کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ ہندوستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔ بھارت میں اس وقت پندرہ ایٹمی ری ایکٹر موجود ہیں لیکن یورینیم کی کمی کے سبب ان سے دو ہزار میگا واٹ سے بھی کم بجلی پیدا ہو پا رہی ہے۔ اس معاہدے کے نفاذ سے آئندہ دس برس میں جوہری ری ایکٹروں سے تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدہ کی جا سکے گی

ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی مجموعی داخلی پیداوار صرف پانچ برس میں دوگنی ہوگئی ہے لیکن سڑکوں، جدید بندرگاہوں، سٹوریج اور سب سے اہم بجلی کی کمی کے سبب اس ترقی کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ چین اگر آج ہندوستان سے برسوں آگے چل رہا ہے تو صرف اس لیے کہ اس نے ترقی کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل آج سے تیس برس پہلے شروع کر دیا تھا۔ اور وہاں جو منصوبے بنائے گئے وہ حال کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ مستقبل کے تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں جو جدید ڈھانچے تیار ہو رہے ہیں وہ امریکہ اور یورپ سے برسوں آگے ہیں۔ ہندوستان میں بجلی کی کتنی قلت ہے اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر جیسی ترقی یافتہ صنعتی ریاست میں بھی صنعتوں کے لیے روزانہ کئی گھنٹے بجلی کی سپلا ئی بند کرنی پڑتی ہے۔ کانپور جیسے صنعتی شہر بجلی اور دوسری سہولیات کی کمی کے سبب’تباہ‘ ہوگئے اور نوئیڈا اور غازی آباد جیسے علاقوں میں صنعتی یونٹ چلائے رکھنے کے لیے ہر برس ہزاروں کروڑ روپے جنریٹر ڈیزل پر صرف ہوتے ہیں۔

پاکستان کی جوہری ٹیکنالوجی پر بھارت ہی نہیں امریکہ ،اسرائیل اور اسلام دشمن قوتوں کی ایک عرصے سے نظر ہے۔ بھارت کے ایٹمی قوت کے جنون میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہنا مشکل ہوگیا ہے۔بھارت کو اپنے تمام منصوبوں میں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گذشتہ دنوں اس بارے میں ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاتھا کہ فرانس نے پاکستان کو جو غیر مشروط جوہری ٹیکنالوجی کی پیشکش کی ہے اس پر ہم اس کے مشکور ہیں لیکن امریکہ کو چاہیے کہ وہ ہمیں بھی وہی ٹیکنالوجی دے جس کا اس نے بھارت سے معاہدہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پر امن جوہری ٹیکنالوجی رکھنا ہر ملک کا حق ہے اور اس ضمن میں وہ ایران کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے ساتھ ایران کے جاری مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں تاہم ریفرل پالیسی کی حمایت نہیں کرتے۔

پاکستان کے جوہری اثاثوں پر امریکی تشویش اب کوئی نئی بات نہیں رہی ۔پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے بارے میں امریکہ کے سرکاری حلقے مسلسل تشویش کا شکار رہے ہیں۔ گو امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ وہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی پاکستان کی صلاحیت سے مطمئن ہیں۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو اسلام آباد سے اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ پاکستان کے نیوکلیر ہتھیار شدت پسندوں سے محفوظ ہیں۔یہ بیانات ایک ایسے وقت پر سامنے آ ئے تھے ۔ جب پاکستان کے صدر آصف زرداری اور انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس



آئی کے سربراہ شجاع پاشا امریکی صدر باراک اوباما اور دیگر اعلیٰ حکام سے پہلی ملاقات کرنے امریکہ پہنچے تھے۔دوسری جانب بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ بھارت اور فرانس کے درمیان ایٹمی تعاون کے معاہدے کے لئے فرانس کا دورہ کرچکے ہیں۔ دونوں ملکوں نے بعض خاص شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا تعاون کی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

بھارت کے برعکس امریکہ اور اقوام متحدہ خطے میں ایران اور شام جیسے ملکوں کا پیچھا کررہا ہے۔ عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا ڈرامہ رچا کر اس ملک پر امریکی قبضے کو بھی ساری دنیا جانتی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران نے ایک ہزار تین سو کلوگرام یورینیم جمع کر لیا ہے جبکہ شام کے پاس بھی یورینیم کی موجودگی کے آثار پائے گئے ہیں۔ یہ پرپیگنڈہ بھی کیا جارہا ہے کہ ایران کے پاس جتنی مقدار میں یورینیم ہے وہ ایک جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل امریکہ کے ان دعوو ¿ں کی بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ ستمبر 2007 میں اسرائیل نے شام کے جس مقام پر حملہ کرکے اسے تباہ کیا تھا، وہ ایک جوہری ری ایکٹر تھا جس نے ابھی کام کرنا شروع نہیں کیا تھا۔گزشتہ سال اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کو شام کے الکبیر جوہری مرکز سے یورینیم کے آثار ملے تھے۔اسرائیل نے شام کے اس جوہری مرکز کو 2007 میں ایک میزائل حملے میں تباہ کر دیا تھا۔ ایران پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی ہدایات کے برعکس یورینیم کی افزودگی جاری رکھے ہوئے ہے۔سیکورٹی کونسل نے ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی تمام سرگرمیاں اس وقت تک بند کر دے جب تک جوہری توانائی کے عالمی ادارے ’آئی اے ای اے‘ کے نگران اس کے یورینیم افزودگی کے پروگرام کا معائنہ نہیں کر لیتے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔مغربی ممالک اور امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کو ہمیشہ تشویش کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے۔اسرائیل ماضی میں عراق اور شام کی جوہری تنصیبات کو حملے کرکے تباہ کر چکا ہے۔پاکستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میںبھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے مکمل حفاظت میں ہیں اور ان اثاثوں کی حفاظت کے لیے پاکستان کو کسی ملک کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جو ممالک بھارت کے ساتھ جوہری معاہدےکر رہے ہیں ا ±نہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دنیا کو بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدے کرتے ہوئے اپنا دوہرا معیار ترک کرنا چاہیے۔

پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہمیشہ محفوط ہاتھوں میں رہے ہیں، لیکن ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے پاکستان پر امریکی دباﺅ جاری ہے ۔امریکہ کے اتحادی ملک دنیا میں کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی قوت نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔لیکن پاکستان دنیا کا واحد مسلمان ملک ہے جس نے یہ طاقت نہ صرف حاصل کرلی ہے بلکہ اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے، بھارت کو امریکہ نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میںآزادی دے کر خطے میں عدم توازن پیدا کردیا ہے، پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت کو پرامن مقاصد کے لئے استمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید توانائی کے بحران میں مبتلا ہے ۔ اگر پاکستان کو بھی ایٹمی بجلی گھر کی سہولت حاصل ہو تو اس کی معاشی مشکلات کم ہوسکتی ہیں، عالمی برادری کو اپنے دوہرے معیارات پر نظر ثانی کرتے ہوئے پاکستان کو بھی وہی سہولتیں دینی چاہئے، جو بھارت کو دی گئی ہیں،



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل