یہ ہم سب کے بچوں کا معاملہ ہے

یہ ہم سب کے بچوں کا معاملہ ہے


عظا محمد تبسم



گزشتہ دنوں ایک بنک میں ایک دوست کے پاس جانا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ بنک سے قرض لینے والی کمپنیوں کے اسٹاک کا سالانہ آڈٹ کیا جاتا ہے۔ میرے آڈیٹر نے بتایا کہ ڈبوں میں دودھ فروخت والی ایک کمپنی کے آڈٹ کے دوران اس کمپنی کے اسٹاک میں پاو ¿ڈر دودھ، ویجیٹیبل آئل اور ڈیری کریم ، کے علاوہ یوریا کھاد اور کاسٹک سوڈا بھی خاصی مقدار میں شامل تھا۔ میرے دوست کا کہنا تھا کہ ڈبوں میں پیک دودھ کو گاڑھا کرنے اور تا دیر محفوظ رکھنے کے لئے یہ کمپنیاں عوام کی جانوں سے کھیل رہی ہیں۔اور ملاوٹ شدہ دودھ بڑے پیمانے پر مہنگے داموں پر خرچ کیا جارہا ہے۔جس سے عوام طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔اس کے براہ راست اثرات گردوں میں پتھری اور دیگر جسمانی عوارض کی صورت میں رونما ہورہے۔اس مضر صحت دودھ کے بارے میں دوسری بات انھوں نے یہ بتائی کہ اس کو کسی بھی لیبارٹری میں ٹسٹ کرالو۔ یہ نقلی دودھ ثابت نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک مقدمہ ان دنوں للاہور ہائی کورٹ میںزیر سماعت ہے۔ مقدمے میں ایک وکیل نے ۰۱ ہزار روپے خرچ کرکے دودھ کے نمونے جمع کئے ہیں،اب یہ نمونے لندن کی لیبارٹریز میں جانچ کے لئے بھیجے جائیں گے۔ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیکٹوں میں بند ملاوٹ شدہ مضرصحت دودھ کی خرید و فروخت کے خلاف کیس پر مزیدکارروائی22 دسمبر تک ملتوی کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ کسی کو بھی انسانوں اور خصوصاً بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے گی اگرکوئی اس جرم میں ملوث پایا گیا خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اسے جیل جانا پڑے گا۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان میں دودھ میں ملاوٹ کا تجزیہ کرنے والی لیبارٹریاں غیرمعیاری ہیں، اس لیے دودھ کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کیلئے بیرون ملک بھجوائے جائیں گے۔ دوران سماعت عدالتی معاون بیرسٹر سدرہ نے عدالت کو بتایا کہ کئی ممالک میں چائنا کی تیارکردہ بہت سی کھانے پینے کی اشیاءپر پابندی عائدکی گئی ہے کہ ان میں میلامائن کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ عدالت کے روبرو ظفراللہ ایڈووکیٹ نے درخواست دائر کر رکھی ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈبوں اور پیکٹوں میں بند فروخت ہونے والا دودھ مضرصحت اجزاء کی ملاوٹ کا حامل ہے جس سے انسانی صحت اور خصوصاً بچوں کی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس دودھ میں میلامائن اور دوسرے مضرصحت اجزاءشامل ہوتے ہیں لہٰذا اس دودھ کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی جائے ۔ اب تک ہم دودھ میں پانی ملانے پر روتے تھے، لیکن اب پتہ چلا کہ دودھ میں محض پانی ملانے کے عمل سے انسانی صحت پر اتنے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے تھے۔ جس قدر پاو ¿ڈر، ویجیٹیبل آئل اور ڈیری کریم سے دودھ تیار کردہ دودھ سے ہوتے ہیں۔یہ تو سراسر انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح دودھ کو زیادہ گاڑھا کرنے، زیادہ دنوں تک محفوظ رکھنے اور خراب ہونے سے بچانے کے لیے یوریا کھاد، کاسٹک سوڈا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کا استعمال ایک گھناو ¿نا جرم ہے۔ ایسے دودھ سے پاکستانی نسل طرح طرح کے امراض کا شکار ہو رہی ہے۔ اس معاملہ میں حکومت کے ذمہ داران کی چشم پوشی کسی صورت بھی قابل معافی نہیں ہے۔ نہ جانے ہمارے فوڈ انسپکٹر کیا کررہے ہیں۔ حکومتی محکمے دودھ میں ملاوٹ کے خلاف فوری مو ¿ثر کارروائی عمل میں لانے سے گریزاں ہیں۔ ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مضر صحت ملاوٹ کرنے والے عناصر کے خلاف مقدمات درج کروائے جائیں انہیں جرمانے کیے جائیں۔ انکے سٹاک اور جائیدادیں ضبظ کی جائیں۔ ملاوٹ کی وجہ سے بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کی صحت پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نئی نسل کی جسمانی نشوونما متاثر ہو رہی ہے۔ ہماری قوم کے نوجوان نسل کے قد پست اور جسم نحیف ہوتے جا رہے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک کی نوجوان نسل دراز قد اور مضبوط جسم کی مالک ہے۔ حکومت دودھ میں ملاوٹ کے خلاف مو ¿ثر قانون سازی کرے اور دودھ میں ملاوٹ کے خلاف مہم چلائے اور محکمہ لائیو سٹاک، محکمہ صحت، ڈسٹرکٹ گورنمنٹس، PCSIR لیبارٹری خصوصی افسران برائے انسداد ملاوٹ اورمحکمہ ماحولیات کو ہدایات جاری کرے کہ وہ دودھ میں ملاوٹ کے خلاف مہم چلائیں، بازار سے دودھ کے نمونہ جات حاصل کرکے لیبارٹری میں ٹیسٹ کروائے جائیں کہ اس میں کونسے کیمیکل شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بھی دودھ میں ملاوٹ کے خلاف مہم چلائیں۔ اور قوم کو ملاوٹ کے عذاب سے بچائیں۔ یہ کوئی سیاسی اشو نہیں ہمارا اور ہماری نسلوں کی صحت کا معاملہ ہے۔ دیگر جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی میری درخوست ہے کہ دودھ میں مضر صحت ملاوٹ کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔یہ ہم سب کے بچوں کا معاملہ ہے۔



Leave a Comment







قائد تحریک کی درخواست کا نمبر بھی آگیا

December 11, 2009, 11:15 am

Filed under: Uncategorized

قائد تحریک کی درخواست کا نمبر بھی آگیا

عطا محمد تبسم

پاکستان میں قرضوںکی معافی کے لئے اس قوم کے ساتھ ایسا بڑا دھوکہ کیا گیا ہے کہ اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔قر ضے وہاں واپس ہوتے ہیں ۔ جہاں ان کی واپسی کے لئے قرض وصول کرنے والے کھڑے ہوں۔جہاں قرض وصول کرنے والے ہی اپنے دعوی میں کمزور ہوں ۔ وہاں قرض کیسے وصول کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر وہ شخص جس نے قرضہ لیا تھا۔ اور ٹیکنیکل طور پر اداروں نے ہی قرضہ ، معاف کردیا تو ان کی ناددہندگی کو کون چیلنج کرے گا۔اگست ۹۰۰۲ میں ایم کیو ایم کے قائد نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک کھلا خط لکھا تھا۔ جس میں انھوں نے چیف جسٹس کی توجہ ملکی معاملات پر دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے بنکوں سے لئے جانے والاکھربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کے خلاف آئین اور قانون کے تحت کاروائی کی جائے اور تمام پیشہ قومی خزانے میں واپس لایا جائے۔ اور اس خط پر از خوس نوٹس لے کر کاروائی کی جائے۔ قومی اخبار کے ان ہی کالموں میں ہم نے لکھاتھا کہ قائد تحریک کی اس درخواست کا نمبر کب آئے گا۔ گزشتہ روز جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خط پر سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے 1971 سے لیکر اب تک معاف کرائے گئے قرضوں کا تفصیلی ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے سوموٹو لیتے ہوئے درخواست گزار کے خط کو 2007کے سوموٹو کیس کے ساتھ یکجا کردیا جس میں عدالت نے 54 ارب روپے کے قرضے معاف کرانے کے خلاف سومو ٹو لیا تھا۔ عدالت نے الطاف حسین کے خط پر گورنر سٹیٹ بینک اور سیکرٹری فنانس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان لوگوں کے ناموں کا ریکارڈ طلب کرلیا جنہوں نے 1971 سے لیکر آج تک قرضے معاف کرائے۔ عدالت نے حکم دیا کہ درخواست گزار الطاف حسین کو بھی اس بات سے آگاہ کردیا جائے کہ ان کے خط پر سوموٹو نوٹس لے لیا گیا ہے ۔یوں قائد تحریک کی اس درخواست کا نمبر آگیا ہے۔ جناب الطاف حسین قدم بہ قدم قومی سیاست میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ قومی سیاست میں ان کی موجودگی اس ملک کے بہت سے مسائل حل کرسکتی ہے۔ بشرطیہ وہ قوم کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز رکھیں۔ان قرضوں کی فہرست جو اخبار میں آرہی ہے تو اس پر ردعمل بھی آرہا ہے۔اب تک سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جام مدد علی نے کہا ہے کہ میں نے کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا ہے ۔نیشنل بینک آف پاکستان نے قرضوں کی معافی کے حوالے سے میڈیا خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بینک نے سب سے کم قرضے معاف کئے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ چوہدری فیملی نے کوئی قرض معاف نہیں کرایا، وفاقی وزیر منظور وٹو نے کہا ہے کہ 29 لاکھ روپے قرض معاف نہیں کرایا، ہمایوں اختر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے کسی فرد نے آج تک ایک ٹیڈی پائی کا قرض معاف نہیں کروایا، جبکہ حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا۔ عذر گناہ از بدتر اش گناہ کے مصداق نیشنل بینک کی تردید نما تصدیق ہے۔ جس میں انہوں نے قرضوں کی معافی کے بارے میں میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے اس تاثر کی تردید کی ہے جس میں سب سے زیادہ معاف کردہ قرضے نیشنل بینک کے بتائے گئے ہیں۔ ترجمان نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل بینک آف پاکستان نے سب سے کم یعنی اثاثہ جات کے 0.83 فیصد قرضے معاف کئے۔ 2000-2008ء کے دوران بینک کے مجموعی معاف کردہ قرضے 6.723 ارب روپے رہے۔ 68 فیصد لازمی ایڈجسٹمنٹ ہیں (اس میں 38 فیصد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سرکلر 29 کے تحت ایڈجسٹ کئے گئے ہیں۔سب بڑا فراڈ یہی ہو ا ہے کہ جن قوانین کے تحت یہ قرض واپش لیا جانا تھا۔ اس ہی کو بدل دیا گیا۔سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ اب اس بات پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ قرض معاف کرانے والوں کی ساری تفصیلات عوام کے علم میں لائی جارہی ہیں اور یقینا آزاد میڈیا کا اس میں بہت اہم کردار ہے کل جب یہ قرض معاف ہورہے تھے اور وہ مشرف کے ساتھ تھے۔تو اس وقت وہ کیوں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے قائد نوازشریف اور پارٹی کی مشاورت سے سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے گئے قرضوں کی واپسی کے لئے عدالت میں درخواست دائر کریں گے ۔ سوال یہ ہے کہ میاں صاحب اور بی بی کے دور میں معاف کئے کئے قرضوں کا کیا ہوگا،اور کیا written off کئے ہوئے قرضے واپس مل سکتے ہیں ؟ اس کا عمومی جواب ً نہیں ہے۔ کیونکہ سب نے فائیلوں کا پیٹ بھرا ہے،ان قرضوں کی معافی کے لئے بھی بڑے بڑے فائل کھلے ہوں گے۔ کروڑوں روپے کی رشوت دی گئی ہوگی۔ مگر بہت سے حقائق ریکارڈ پر ہیں۔عدالت میں بہت سے حقائق سے پردہ اٹھے گا۔ اگر اب بھی کوئی بنک کوئی مالیاتی ادارہ کسی واپس شدہ قرضے کی وصولی کے پیچھے پڑ گیا تو بالآخر کامیاب ہو سکتا ہے۔یہ بھی خبر آئی ہے کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر قرضوں کی معافی کے بعد بھی تمام بینکوں کے کل شرح منافع میں 408 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ بنک اپنے کھاتے داروں کو اپنے منافع میںشریک نہیں کرتے ہیں، گویا یہ پیشہ عوام کا ہے جسے بنکوں نے ہتھیا لیا ہے۔۔ قابل توجہ بات یہ ہے مالی سال 2006ءکے دوران تمام پاکستانی بینک مل کر ٹیکس کٹوتی کے بعد 82.54 ارب روپے کل شرح منافع کمانے میں کامیاب ہوئے تمام پاکستانی بینکوں کے حاصل کردہ کل شرح منافع کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداءمیں یہ مالیاتی ادارے صرف ان لوگوں سے کمائی کر رہے تھے جو اپنے ذمے شرح سود مقررہ وقت پر اور شیڈول کے مطابق ادا کر رہے تھے جبکہ دیگر کسٹمرز بڑے قرضے لے کر حکومتی سرپرستی اور بینکرز کی ملی بھگت سے انہیں معاف کروا رہے تھے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پاکستانی بینک اس وقت بھی اچھا منافع کمارہے ہیں جبکہ عالمی معیشت بحران میں جکڑی ہے اور بنکنگ سیکٹر کو شدید مندی کا سامنا ہے بڑے پیمانے پر قرضہ جات کی معافی اور غیرمنافع بخش قرضہ جات کے بڑے اعداد و شمار سے پاکستانی بنکوں کی بیلنس شیٹ کمزور ہونی چاہئے تھی لیکن یہ اعداد و شمار معجزے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کے صرف 7 سال میں 125ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کئے گئے جبکہ محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے منتخب ادوار 1986-1999ءکے دوران صرف 30 ارب کے قرضے معاف کئے گئے۔ میاں نوازشریف کے دو ادوار حکومت میں 22.35 ارب روپے کے قرضے معاف کئے گئے جو 1986سے 1999ءکے دوران معاف کئے گئے کل قرضہ جات کا 74.5 فیصد ہیں بینظیربھٹو شہید کے دو ادوار میں 7.23 ارب روپے کے قرضہ جات معاف کئے گئے جو ان 13سالوں میں معاف کئے گئے قرضہ جات کا 24.2 فیصد بنتے ہیں۔ اب جو ا۷۹۱ سے اب کے قرضوں کا قصہ شروع ہوگا۔ تو مزید انکشافات ہوں گے۔قوم کے سامنے یہ حقائق آنا اور مجرموں کو کیفردار پہنچانا ضروری ہے۔



Leave a Comment







ہم اب بھی خاموش ہیں

December 11, 2009, 11:12 am

Filed under: Uncategorized

ہم اب بھی خاموش ہیں

عطا محمد تبسم



ہمارے حکمران اب تک امریکہ کی کاسہ کیسی میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں اس بات کی ہمت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے امریکی آقاﺅں کے خلاف کچھ کہہ سکیں۔پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی اب کوئی راز نہیں ہے۔مساجد ،مدرسے، بازار ، دفاتر سب پر حملے کئے جارہے ہیں،یہ حملے باقاعد تربیت یافتہ لوگ کررہے ہیں۔جو کرائے کے قاتل نہیں ہیں، بلکہ باقاعدہ لڑائی کرکے ہمیں تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں۔عوام کو کیوں اعتماد میں لے کر نہیں بتایا جارہاہے۔ اب تک پکڑے جانے والے لوگوں کو عدالتوں کے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا۔ پاکستان میں صرف مذہبی لوگوں کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حال ہی میں معروف امریکی جریدے ’وینٹی فیئر‘ نے امریکی نجی فوجی ایجنسی بلیک واٹر کے سربراہ کے اعترافات سمیت ایجنسی سے متعلق انکشافات پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلیک واٹر کو امریکی سی آئی کے کی طرف سے پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کرنے کا کام دیا گیا تھا لیکن بعد میں امریکی حکومت کی طرف سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ فیشن، فن اور سیاست پر نکلنے والے مشہور امریکی جریدے ’وینٹی فیئر‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بلیک واٹر کے سربراہ ایرک پرنس کی شخصیت پر خاکے اور ان کے انٹرویو میں بلیک واٹر سے متعلق کی گئی کئی کارروائیوں اور سرگرمیوں کی تردید اور تصدیق کے علاوہ بلیک واٹر تنظیم کے امریکہ کے اندر اور عراق اور افغانستان میں کاروائیوں کے متعلق اہم انکشافات بھی کیے گئے ہیں۔ برطانوی ر یڈیو کے مطابق اس رپورٹ میں واشنگٹن پوسٹ کی اس خبر کا ذکر بھی ہے جس کے مطابق سی آئی اے نے بلیک واٹر کو القاعدہ اور طالبان رہنماوں کو قتل کرنے کے پروگرام چلانے کا ٹھیکہ دیا تھا۔ اس پروگرام سے واقف ایک ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سی آئی اے کے ایسے پروگرام میں مبینہ طور پر گیارہ ستمبر کے دہشتگرد حملوں میں ہائی جیکروں کی مالی معاونت کرنے والے شخص مامون درکنزالی کو جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں نشانہ بنا کر قتل کرنے کے منصوبے کے علاوہ پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان کا قتل بھی شامل تھا۔ وینٹی فیئر‘ کی اسی رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ دبئی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مبینہ طور متوقع طور سی آئی ٹیم نے دبئی میں ڈھونڈ نکالا تھا لیکن امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے اس کارروائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ جریدہ بتاتا ہے کہ سی آئی اے کے قاتل جتھوں کے’ڈھونڈو، نشانے کا تعین کرو اور ختم کرو‘ نامی پروگرام کی منظوری دو ہزار دو میں سابق صدر جارج بش نے دی تھی۔ اس سے قبل سی آئی اے کے ایسے پروگرام پر ریگن دور میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے افراد کو نشانے پر رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایجنسی کے پروگرام کا دائرہ اس سے کہیں بڑا تھا جتنا تصور کیا جاتا تھا۔تاہم امریکی جریدے نے اپنے سی آئی اے میں ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ عبدالقدیر خان یا درکنزالی جیسے مشنز کو ختم کردینے کی وجہ ایسے مشنوں پر مامور افراد کی نا اہلی یا اس کے لیے مطلوب اہلیت کا فقدان نہیں بلکہ سیاسی نیت ( پولیٹیکل ول) کا نہ ہونا تھا۔اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں وینٹی فیئر کی ٹیم نے بلیک واٹر سے سربراہ اور سابق امریکی کمانڈو ایرک پرنس

کے ہمراہ بلیک واٹر کی امریکی ریاست شمالی کیرولآئنا میں واقع تربیت گاہ، ورجینیا ریاست میں اس کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ افغانستان پاکستان سرحد پر افغان پولیس کو تربیت دینے والے مرکز کا بھی تفصیلی دورہ کیا۔جریدے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایرک پرنس نے انکشاف کیا کہ ستمبر دو ہزار آٹھ میں اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں جس شام خودکش حملہ ہوا اسی شام ہوٹل میں انہیں چیک ان ہونا تھا لیکن انہوں نے اپنے اسلام آباد کے سفر کا پروگرام منسوخ کردیا تھا۔ ایرک پرنس نے وینٹی فیئر کو بتایا کہ انہیں امریکہ سے اطلاع ملی تھی کہ ان کا ایک سالہ بیٹا سوئمنگ پول میں گرگیا ہے جسے بعد میں اس کے بارہ سالہ بھائی نے بچا لیا تھا اور اس کی خیریت کی اطلاع ملنے پر انہوں نے افغانستان سے براستہ اسلام آباد ایک رات میریٹ ہوٹل میں قیام کے بعد امریکہ جانے کے لیے اس سفر کا ارادہ ختم کر دیا تھا ۔ یہ سارے انکشافات کس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ہم امریکہ کی جنگ میں گھٹنے گوڈے دھنس چکے ہیں۔ امریکی استعمار کے چاہنے والے اس ملک کی تباہی پر لگے ہوئے ہیں اور ہم اب بھی خاموش ہیں۔



Leave a Comment







دنیا کی اہم ترین اور انتہائی طاقتور شخصیات

December 11, 2009, 11:11 am

Filed under: Uncategorized

دنیا کی اہم ترین اور انتہائی طاقتور شخصیات

عطا محمد تبسم

مجھے طاقت اور اقتدار سے محبت ہے لیکن یہ محبت ایک آرٹسٹ جیسی محبت ہے ۔جیسی ایک فنکار اپنے وائیلن سے کرتا ہے۔ نیپولین بونا پارٹ کا یہ قول آج کی دنیا میں پوری طرح صادق نہیں آتا۔دنیا میں ہر شخص کو اپنے اقتدار سے محبت ہے۔ چاہے یہ اقتدار اور طاقت کسی عورت کو اپنے گھر پر ہو چاہے کسی دفتر میں کسی باس کوحاصل ہو۔لیکن اصل مزا تو طاقت کے نشے میں ہے۔ جو بادشاہوں کو بادشاہ بناتا ہے۔ایک سربرہ مملکت کی طاقت کا نشہ کچھ دیگر چیز ہے۔یہ قوت اور اقتدار ایک مزہبی پیشوا کے اقتدار سے مختلف ہوتا ہے۔قوت اور حکمرانی کے دائرے مختلف ہوتے ہیں۔کسی صحافی کے قلم کی طاقت کا کسی دہشت گرد کی طاقت سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا،لیکن جب تک قوت اور طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ کسی کی طاقت کا صحیح اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔کیا کوئی شخص دنیا کے بہت سے لوگوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ پوپ بینڈیٹ ایک ارب سے زیادہ افراد کے مذہبی پیشوا ہیں۔یعنی دنیا کے چھٹے حصے پر ان کا اثر نفوز ہے۔ دنیا کو چلانے والی اہم ترین اور انتہائی طاقتور شخصیات کی ایک فہرست امریکی بزنس میگزین ”فوربز“ نے شائع کی ہے اس فہرست میں سربراہان مملکت بڑے سرمایہ دار سوشل ورکرز، مذہبی پیشوا حتیٰ کہ مجرموں کو بھی شامل کیا گیا ہے مذکورہ جریدہ کے مطابق یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں انتہائی اثرو رسوخ اور اختیارات کی حامل ہیں۔ 2009ءکی طاقتور شخصیات کی فہرست مرتب کرنے والے صحافیوں نے کہا کہ فہرست مرتب کرنے سے قبل ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ”اختیار یا طاقت کی حقیقت کیا ہے؟“ اور کسی شخص کے با اثر ہونے کی کسوٹی کیا ہونی چاہیے؟ اس کے نتیجے میں اثرو اختیار کی چار اقسام سامنے آئیں“ مائیکل نور اور نکول پرل روتھ نے کہا کہ ”کسی ایک کسوٹی یا رویہ پرپورا اترنے والا شخص با اثر اور با اختیار نہیں، ضروری ہے کہ ایسی شخصیت چاروں جہات کی کسوٹی پر پورا اترتی ہو۔ پہلی کسوٹی: کیا ایسا شخص دیگر بہت سے لوگوں پر اثر اور اختیار رکھتا ہے؟دوسری کسوٹی: کیا یہ شخص اپنے معاصرین کے مقابلے میں زیادہ مالی وسائل رکھتا ہے؟تیسری کسوٹی: کیا یہ شخص دیگر بہت سے حلقوں اور شعبوں میں اثرو نفوذررکھتا ہے؟ چوتھی کسوٹی: کیا یہ شخص اپنے اثرو رسوخ اور اختیار کا باقاعدہ استعمال کرتا ہے؟

اس طے کردہ اصول کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کواس وقت دنیا کی انتہائی با اختیار اورطاقتور شخصیت قرار دیا گیاہے،۔ چین کے صدر ہو جن تادوسری اہم، طاقتور اور اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیت ہیں جبکہ روس کے صدر ولادی میرپوٹن کو اس فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ ۵۸ سالہ سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز طاقتور شخصیات کی فہرست میں نویں نمبر پر ہیں ۔ اس فہرست میں وہ سب سے زیادہ معمر فرد ہیں۔ جب کہ فہرست کے سب سے کم عمر بااثر افرد میں ۶۳ سالہ گوگل کے بانی سرگے برین اور لیری پیج بھی شامل ہیں جن کا نمبر پانچواں ہے۔ ، پاپائے روم بینی ڈکٹ 11 ویں پوزیشن پر، اٹلی کے وزیر اعظم برلسکونی 12 ویں، جرمن چانسلر انجیلا مرکل 15 ویں، بھارتی وزیر ا عظم من موہن سنگھ 36 ویں، القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن، 37 ویں، ایران کے رہبر اعلیٰ آئت اللہ خامنہ ای 40 ویں اسرئیلی وزیر اعظم بینجمن ناتین یاہو ۵۴ ویں نمبر پر ہیں۔ اس فہرست میں منشیات کے بے تاج بادشاہ جوکین گزمین کو ۱۴ واں نمبر دیا گیا ۔ اس فہرست میں بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل مارک جان تھاپشن بھی شامل ہیں جن کا نمبر ۵۶ واں ہے۔جبکہ ونیز ویلا کے صدر ہوگوشاویز کو آخری پوزیشن 67 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ فوربز کی اس فہرست میںپاکستانی وزیر اعظم اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان اسامہ بن لادن نام ڈال کر خطے کی سیاسی صورتحال پر خاموش تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں ایک نام ایسا بھی ہے۔جو کسی بھی طرح با اثر اور با اختیار نہیں کہے جاسکتے ہیں ۔اور اس حوالے سے طے کردہ اصول و ضوابط کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتا ہے یہ شخصیت وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی کی ہے جریدے کے مطابق گیلانی ان افراد میں شامل ہیں جو مجموعی طور پر 10 کروڑ انسانوں میں اپنا اثر و نفوذ رکھتے ہیں یوسف رضاگیلانی کو اس فہرست میں 38 ویں پوزیشن دی گئی ہیں ۔ وزیراعظم 17 ویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات کے بغیر بے اثر تصور کئے جاتے ہیں،ان کے مقابلے میں صدر آصف زرداری کے پاس مالی و سائل بھی بہت زیادہ ہیں اور ایک اندازے کے مطابق انکی مالیت 40 ارب ڈالر سے زائد ہے اور گیلانی نے اپنے انتخابی گوشوارے میں اپنے اثاثوں کی مالیت صرف دو لاکھ بتائی ہے۔ اس فہرست میں مائیک ڈیوک کا نمبر ۸ واں ہے۔ جو امریکہ میں پرائیوٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ ملازمین رکھتے ہیں،وہ وال مارٹ کے چیف ایگزیکٹیو ہیں۔نیویارک ٹایمز کے ایگزیکیٹیو ایڈیٹر بل کیلر بھی اس دوڑ میں ۷۵ واں نمبر پر ہیں۔جن کے اثر رسوخ اور وسائل انڈسٹری کے دیگر افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کسی شخص کت عہدے سے اس کی قوت اور اثر کا اندازہ لگانا مناسب نہیں ہے۔ اس کے لئے کسی فرد کی سوچ،دانش مندی،مثبت انداز فکر،کردار،اخلاقیات اور اس کے کام کو بھی سامنے رکھا جانا چاہئے۔یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا اس نے قوت اثر رسوخ کا صحیح سمت میں استعمال کیا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کامیاب لوگوں کے پیچھے کچھ اور شخصیات ہوتی ہیں۔وہی قوت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں میںروتھ چائلڈ اور راک فیلر کے نام لئے جاتے ہیں، جن کے سامنے اوباہامہ اور ہیلری کیلنٹن کٹھ پتلی شمار کئے جاتے ہیں۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ دنیا میں غربت، مسائل،مشکلات تباہی کا سبب یہی لوگ ہیں،جو دنیا کو جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنارہے ہیں۔دنیا انھیں سچائی، انصاف کا علمبراد سمجھتی ہے۔لیکن یہ اخلاقیات کے ادنی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔



Leave a Comment







این آر او کا مردہ پھر زندہ ہوگیا

December 11, 2009, 11:09 am

Filed under: Uncategorized

این آر او کا مردہ پھر زندہ ہوگیا

عطا محمد تبسم



این آر او کے بارے میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوگیا۔لیکن یہ مردہ جسے دفن کردیا گیا تھا اب ایسا زندہ ہوا ہے کہ اس سے بہت سے لوگ موت سے ہمکنار ہونے والے ہیں۔ٍعدلیہ کا اتنا بڑا بنچ جب بھی بنتا ہے ،کہا جاتا ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ آنے والا ہوتا ہے۔ یوں بھی اس وقت ملک میں جمہوریت ہے لیکن بدقسمتی سے منتخب نمائیندوں نے سارا بوجھ عدلیہ پر ڈال دیا ہے۔ عدلیہ کے پیچھے اس وقت عوام کی طاقت ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ عوام نے عدلیہ سے بے حد امیدیں لگا رکھی ہیں۔ قومی دولت کی جو لوٹ مار اس ملک میں کی گئی ہے۔ اس کی کوئی حد ہے نہ حساب،اب یہ معاملہ کھربوں روپے کا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے اربوں روپے کی لوٹ مار کی ہے ۔تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دن رات غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔منگائی نے انسانوں کی زندگی عذاب میں کی ہوئی ہے۔بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف میں ہونے والی ڈیل میں دبئی کے حکمران خاندان کا رول اہم تھا۔ لیکن اس وقت جنرل مشرف کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اگر وہ ایک جلا وطن رہنما کی واپسی پر دبئی کے شیخ کی بات مان لیں تو دوسرے کی واپسی سے متعلق سعودی عرب کے شیخ کو انکار ان کے لیے نا ممکن ہو جائے گا۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف این آر او پر ہونے والے مذاکرات کا براہ راست حصہ تو نہ تھے لیکن ان کی واپسی اس قانون سے اتنی ہی جڑی ہوئی تھی جتنی بینظیر بھٹو کی۔بینظیر بھٹو ملک کے عوام کی محبوب تھیں۔ عوام انھیں اپنی صفوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ قاف نے بہت شور مچایا کہ بی بی جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر کے واپس آ رہی ہے لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگوں نے انہیں کراچی میں خوش آمدید کہا۔وطن واپسی کے بعد بینظیر بھٹو نے ایک دانستہ حکمت عملی کے تحت میاں نواز شریف سے مسلسل رابطہ رکھا۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ قتل ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے میاں نواز شریف سے ٹیلیفون پر بات کی تھی۔ بینظیر بھٹو کی ہر بات اور ہر حرکت سے واضح تھا کہ وہ اپنے مفاہمتی فلسفے کو محض ایک قانون تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔ ان کی یہ واضح خواہش تھی کہ وہ اپنے ناقدین پر ثابت کریں کہ این آر او ان کی ذاتی سیاست کی بقا نہیں بلکہ پاکستان میں مفاہمت کے مستقبل کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔بینظیر بھٹو کا اصرار تھا کہ جب سیاسی دشمنی کی دیواروں کو قانونی سہارا دے کر کھڑا کیا ہو تو انہیں گرا کر ان کی جگہ سیاسی مفاہمت کی بنیادیں ڈالنا بھی قانونی سہارے کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کی نظر میں این آر او کے بغیر چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل درآمد ناممکن تھا اور اس معاملے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے کبھی ان سے اختلاف نہیں کیا۔

بے نظیر بھٹو تو اس فلسفے کو اور بھی آگے لے جانے کی خواہشمند تھیں۔ وہ کئی سال تک جنوبی افریقہ کی طرز پر حقائق اور مفاہمت کمیشن بنانے پر زور دیتی رہیں جس کے سامنے سب سیاستدان، جرنیل، کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس اپنے جرائم کا اعتراف کرتے، آئندہ قانون کی پاسداری کا عہد کرتے، سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچنے کا عزم کرتے اور فوجی قیادت سیاسی حکومتوں کے خلاف سازش کرنے سے توبہ کرتی۔ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی موت کے ساتھ ہی پاکستان میں تیزی سےآگے بڑھتی ہوئی سیاسی مفاہمت نے بھی دم توڑ دیا۔ سیاسی مفاہمت کے اس کھیل میں میاں نواز شریف اس وقت تک بینظیر بھٹو کے جونئیر پارٹنر بنے رہنے پر آمادہ تھے۔ لیکن بینظیر بھٹو کی موت سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے انہیں نئی راہیں دکھائیں۔دوسری جانب بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری کی سیاست نے بھی ایک نئی کروٹ لی۔ بینظیر بھٹو یہ طے کر کے وطن لوٹیں تھیں کہ آصف زرداری دبئی میں رہتے ہوئے بچوں کا خیال رکھیں گے۔ لیکن ان کی موت نے پارٹی کی ذمہ داریان لوگوں پر ڈال دی جو نہ تو بینظیر بھٹو کے سیاسی مفاہمت کے فلسفے سے پوری طرح واقف تھے اور نہ ہی اسے عملی جامہ پہنانے کا سیاسی قد کاٹھ رکھتے تھے۔سیاسی بدمزگی نے ایک بار پھر این آر او کے مردے میں جان ڈال دی کیونکہ پے در پے ہونے والی سیاسی حماقتوں نے وہ سیاسی مفاہمت جو این آر او کی روح تھی اسے ختم کردیا تھا۔اب وہی این آر او جس نے پاکستانی سیاست کو مفاہمت کے ایک نئے دور میں لے جانا تھا چند گنے چنے لوگوں کی ذاتی سیاست کا پہرے دار نظر آنے لگا۔ ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے دامن چھڑا لے جنہوں نے ایں آر او سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور جب تک وہ لوگ کلین ہوکر نہیں آجاتے اس وقت تک انھیں امور مملکت سے علیحدہ رکھنا چاہئے۔ عوام، اور پاکستانی میڈیا کی خبروں، اطلاعات، تجزیوں اور تبصروں نے ایک نئی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این آر او اچھا ہے یا برا، اس سے قطع نظر لگتا یہی ہے کہ اٹھائیس نومبر کے بعد این آر او کی قبر میں اس قانون کے ساتھ ساتھ قومی مفاہمت کا مردہ بھی لیٹے گا۔



Leave a Comment







December 11, 2009, 11:07 am

Filed under: Uncategorized

ملا عمراینڈ سی آئی اے چیف ان کراچی

عطا محمد تبسم

اسامہ اور ملا عمر امریکیوں کے لئے ایک ڈراﺅنا خواب ہے۔جس سے امریکیوں کی نیند حرام ہوگئی ہیں۔دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں پر تھوپی گئی اس جنگ میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ افغانستان، عراق،اور پاکستان میں اس جنگ کو اس طرح مسلط کردیا گیا ہے کہ اب ہم سوچنے سمجھنے سے بھی مجبور ہوچلے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے خودکش دھماکوں اور روزانہ معصوم بچوں، خواتین، نوجوانوں کے اٹھتے ہوئے جنازوں کو دیکھ کر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یہ کیا ہے۔ مذہب اسلام،شعائر اسلام، مدرسوں، مساجد کو دہشت گردی کے اڈے بنا کر پیش کرنا کس کا کام ہے۔ اگر آپ کو اب بھی اس کا اندازہ نہیں تو سی آئی اے کے سربراہ کی پاکستان آمد پر تو آپ کو اس سازش کا اندازہ ہوجانا چاہئے۔ ایک جانب بلیک واٹر ہے۔ جو پاکستان میں اپنا نظام چلا رہی ہے۔ دوسری جانب امریکی ہیں جو آئے دن ایک نئے ایجنڈے کے ساتھ ڈو مور دو مور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں،کے خون میں لتھڑے ہوئے ڈالروں سے محبت ہے۔افغانستان کی سرحدوں سے آپریشن اور ڈرون حملے پاکستان کے اندر گھس آئے۔ سوات،قبائیلی علاقے، کوئٹہ کے بعد اب کراچی پر بھی دشمنوں کی نظر ہے۔ ابھی تک تو کراچی میں طالبان کے آنے کا شور تھا،اب طالبان پکڑے بھی جانے لگے۔اور ساتھ ہی اور او ر اور کا شور مچاتے ہوئے امریکی میڈیا نے کراچی میں ملا عمر کی موجودگی کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز نے الزام عائد کیا ہے کہ ملا عمر کراچی میں روپوش ہیں ،اخبار نے تین موجودہ اور ایک سابق امریکی انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے امریکی ڈرونزحملوں سے بچنے کے لیے ایک آنکھ سے معذور افغان طالبان رہنما ملا عمر کراچی میں چھپے ہوئے ہیں جہاں انہیں پاکستانی خفیہ ایجنسی کی معاونت حاصل ہے۔اخبار کے مطابق 2001میں جب امریکا نے افغانستان پر جارحیت کی تو اس وقت ملا عمر اپنی شوریٰ کے ساتھ قندھار سے کوئٹہ میں منتقل ہوگئے تھے۔اخبار نے امریکی خفیہ ایجنسی کے حوالے سے بتایا کہ ملا عمر نے گزشتہ ماہ رمضان کے بعدکوئٹہ سے کراچی کا سفر کیا۔ انہوں نے کراچی میں اعلیٰ قیادت پر مشتمل کونسل کی تشکیل کی،کراچی جو امریکا اور پاکستانی حکام کی انسداد دہشت گردی مہم سے تاحال محفوظ شہرہے، موضوع کی حساسیت کی بنا پرحکام نے اخبار کو معلومات فراہم کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ انہوں نے دعوی ٰکیا کہ ملا عمر کو عنقریب ڈرونز حملے میں ہلاک کیا جانا تھا ،اس حملے سے بچانے کیلئے پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی نے ملا عمر کو کوئٹہ سے کراچی میں منتقلی میں مدد فراہم کی۔ طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے ممتاز تجزیہ کارBruce Riede نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملا عمر حال ہی میں کراچی میں روپوش ہو ئے ہیں۔اخبار نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں مدرسوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جہاں ملا عمر آسانی سے روپوش رہ سکتے ہیں، ریڈل نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کراچی میں خودکش بمبار کافی تعداد میں موجو د ہیں،لیکن طالبان اور القاعدہ کراچی میں ایسی کارروائی کر کے اپنے ہی گھونسلے میں خرابی کے مصداق کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتی۔ انسداد دہشت گردی کے امریکی حکام نے تصدیق کی کہ انہیں اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ طالبان کے کچھ رہنما کوئٹہ سے کراچی منتقل ہوئے ہیں تاہم اس سے یہ یقین نہیں کرنا چاہیے کہ طالبان کی قیادت مکمل طور پر پاکستان کے کسی اور شہر میں منتقل ہوگئی ہے۔ ایک دوسری خفیہ ایجنسی کے ذرائع نے یہ تصدیق کی ہے کہ الیکٹرانک اور انسانی ذرائع کے ساتھ ساتھ خفیہ ذرائع نے بھی ملا عمر کی کوئٹہ سے منتقلی کی تصدیق کی ہے تاہم اسامہ یا ایمن کراچی میں موجودنہیں ہیں۔کراچی میں منتقلی کی ایک بڑی وجہ گنجان آبادی کا حامل شہر ہونے کی وجہ سے امریکی ڈرونز حملوں کو خطرہ نہیں ہے،اخبار کے مطابق القاعدہ کراچی میں 2001سے موجودہے۔اس رپورٹ پر ہمارا ردعمل کیا ہے صرف دفتر خارجہ کا یہ بیان کہ ٬ پاکستان نے القاعدہ اور طالبان کی قیادت کی ملک میں موجودگی کی رپورٹوں کو مسترد کر دیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے نجی ٹیلی ویڑن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی روزنامے ”واشنگٹن پوسٹ“ میں شائع ہونے والی رپورٹ من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے القاعدہ اور طالبان کی قیادت کی ملک میں موجودگی کی رپورٹس کو ہمیشہ سختی سے مسترد کیا ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان ندیم کیانی نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی حکومت میں سے کوئی کوئٹہ یا کراچی شوریٰ کے بارے میں معلومات رکھتا ہے تو پھر وہ اسے پاکستان کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کرتا تاکہ ہم اس مسئلہ سے نمٹ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ملا عمر کی کراچی میں موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں۔اورہمارے وزیر اعظم نے امریکی سیاسی رہنماﺅں اور حکمرانوں کے بجا ئے ۔ ا مریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر لی اون ای پنیٹا سے بات چیت میں کہا ہے کہ افغانستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی سے جنوبی ایشیائ میں علاقائی توازن متاثر نہیں ہونا چاہئے، امریکہ سٹرٹیجک شراکت داری کو تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے غلط فہمیاں دور کرکے اعتماد قائم کرے۔ وہ جمعہ کو وزیراعظم ہاﺅس میں امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر لی اون ای پنیٹا سے بات چیت کر رہے تھے۔ ملاقات میں افغانستان کے متعلق نئی امریکی پالیسی زیر غور آئی اور وزیراعظم نے زور دیا کہ امریکہ کو افغانستان کے متعلق اپنے روڈ میپ سے پاکستان کو پوری طرح آگاہ کرنا چاہئے اور اس میں پاکستان کی تجاویز کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان کے دورے پرآئے ہوئے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا سے ملاقات کی۔ملاقات میں دو طرفہ امور، علاقائی صورتحال اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر پر واضح کیا کہ کابل میں سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں دہشتگردی کی سرگرمیوں کی معاونت کررہے ہیں۔ سیکورٹی اداروں نے اس حوالے سے بھی ثبوت سی آئی اے کے سربراہ کو پیش کئے۔اس صورتحال میں ہمیں سوچ لینا چاہئے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔



Leave a Comment







میڈیا کیا کرے؟

October 16, 2009, 10:14 am

Filed under: Uncategorized

میڈیا کیا کرے؟

عطا محمدتبسم

کراچی کے ایک اخبار میں شاہراہ فیصل پر نصب ہونے والے خفیہ کیمروں کی تصویر شائع کی ہے ۔جس کے بعد یہ کیمرے اب خفیہ کیمرے نہیں رہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے لاہور حملوں کے بعد ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے میڈیا کے رول کی تعریف کی اور کہا کہ میڈیا نے جی ایچ کیو پر حملے کے بعد جو مثبت رول ادا کیا ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی شمولیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام ایس ایم ایس، فون، تصویر، ویڈیو کے ذریعے ایس اطلاعات دیں ۔ جو کسی بھی طرح غیر معمولی ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ صرف ایک ایسی اطلاع پر جس میں کہا گیا تھا کہ ہمارے یہاں تندور سے ایک گھر میں ۰۶ ، ۰۷ روٹیاں جاتی ہیں۔ لیکن وہاں بندہ کوئی نظر نہیں آتا۔ہم نے ایک بڑے دہشت گرد گروپ کا سراغ لگا لیا۔ رحمان ملک کے اس انکشاف کے بعد تندور والوں کا کیا حشر ہوگا۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا پر جو کچھ کہا جارہا ہے یا دکھایا جارہا ہے۔وہ صحیح ہے۔ کیا خون آلودہ لاشیں، جلے ہوئے ہاتھ پاﺅں،دہشت گرد کی کٹی پھٹی لاشیں،یا انسانی جسموں کے چیتھڑے، میڈیا پر دکھانا ضروری ہیں۔ کیا میڈیا پر ہونی والی نان ایشوز کی بحثیں،چیختی ہوئی اینکرپرسن، اور اپنے موقف کے الفاظ دوسروں کے منہ میں ڈالنے سے قوم کی کوئی خدمت ہورہی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ضروری ہے۔ آخر میڈیا کی کیا ذمہ داری ہے۔ کہتے ہیں کہ کہتے ہیںکہ جنگ اور لڑائی میں سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی مسابقت کی جنگ میں شاید سچ کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور صحافت کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے مذاکرے میں اپوزیشن کی خاتون رکن اسمبلی،خاتون وزیر کی گفتگو کے دوران جو زبان استعمال کی گئی۔وہ گھروں میں ٹی وی دیکھنے والی خواتین کے لئے ایک صدمے سے کم نہیں تھا۔بیڈ روم اور ہیرا منڈی کے تذکرے ب گھروں پر ببچوں پر کیا اثرات مرتب کریں گے۔

حال ہی میں ایک شادی سکینڈل میں ملوث پاکستان کی سب سے بڑی فلمی ہیروئن کا ایک ایسا ویڈیو کلپ نشرہوا جس میں وہ صوفے پر براجمان رپورٹر پر جھکی کبھی اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کرتو کبھی اس کے سینے پر ہتھیلی جماکراسے کچھ سمجھارہی ہیں۔اسی کلپ کے آغاز میں اداکارہ کی ویڈیو کیمرہ بند کرنے کی درخواست اور جوابا انہیں دی جانے والی جھوٹی یقین دہانی بھی موجود ہے۔

ممبئی حملوں کے بعد ہمارے میڈیا نے بھارت کے کام کو آسان کردیا۔ انوسٹٹیگیشن کے نام پر جو کچھ میڈیا نے دکھایا اس نے پاکستانوں کے سر شرم سے جھکادئیے ۔بھارت کشمیر میں جو کچھ کررہا ہے۔ اس پر بھارتی میڈیامجرمانہ طور پر خاموش ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اپنے ہی گھر کو بدنام کئے جارہے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ آپ کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی کے بھی گھر میں گھس سکتے ہیں، آپ کیمرہ بند ہونے کا جھانسہ دیکرکسی کی بھی نجی زندگی کا تماشہ لگا سکتے ہیں کیونکہ آپ ٹی وی کے رپورٹر، اینکر ہیں۔ میڈیا کے ایک سٹار ہیں، گفتار کے غازی ہیں۔صدرمملکت،چیف جسٹس آف پاکستان سے لیکر نتھوقصائی تک کوئی بھی آپ کی ‘ اعلی پرفارمنس’ کا نشانہ بن سکتا ہے۔آپ کسی کے بھی ذاتی کردار پر خود بھی کیچڑ اچھال سکتے اور کسی کے ذریعے بھی یہ کام کروا سکتے ہیں۔روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلی مجیب الرحمان شامی اس صورتحال کو ایک طوفان بدتمیزی قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ سیاسی و ذاتی الزام تراشی ہورہی ہے لوگ مرغے لڑانے بیٹھ جاتے ہیں۔جو چاہے جس کو مرضی گالی دے اور اس کا نام آزادی صحافت رکھ دیا گیاہے۔’عارف نظامی کہتے ہیں ‘جب سڑک پر چلتے لوگوں کو اینکر پرسن بنا دیا جائے اور ان کی مناسب تربیت کا بندوبست بھی نہ کیا جائے تو یقینامعیار نیچے آئے گا۔ پاکستان میں پہلے پرائم ٹائم میں ڈرامے اور کامیڈی شو دیکھے جاتے تھے۔اب لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے نیوز ٹاک شو دیکھتے ہیں ۔ صحافتی اخلاقیات کے ضابطے بنانے کی بات اکثر زور وشور سے کی جاتی ہے۔ لیکن اس مسئلے پر کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اکثر میڈیا سے شاکی نظر آتی ہے۔ بجلی کے مسلئے پر ایک وزیر نے پارلیمنٹ میں ایک اینکر پرشن کو شٹ اپ کہا۔ کل وزیر داخلہ دہائی دے رہے تھے کہ ان کے متعلق جھوٹ اڑائی ہے کہ وہ حملے کے بعدجی ایچ کیو نہیں گئے۔ پاکستان میں آج تک ہتک عزت کا کوئی ایسا مقدمہ نہیں ہوا جس میں میڈیا کو سزاسنائے جانے کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہوا ہو۔ پوری صحافتی تاریخ میں صرف نوائے وقت کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما شیخ رشید (مرحوم) کا ایک کیس ہواتھا جس میں اخبار کو کرڑوں روپوں میں جرمانہ بھی ہوا لیکن بعد میں سپریم کورٹ سے اخبار کے حق میں فیصلہ ہوگیا تھا۔ اب امریکہ میں امریکی سفیر حسین حقانی نے انگریزی روزنامے دی نیشن پر ایک ارب روپے کے ہرجانے کا دعوی کیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ہتک عزت کا قانوں اور سول سوسائٹی ہی میڈیا اور صحافت کا کردار بہتر بنا سکتے ہیں۔پاکستانی میڈیا بڑی مشکل میں ہے وہ کیا کرے ؟



Leave a Comment







اوباما کو امن کا نوبل انعام کس لئے

October 15, 2009, 9:39 am

Filed under: Uncategorized

اوباما کو امن کا نوبل انعام کس لئے

عطا محمد تبسم

دنیا میں دھماکے کرنے کا سہرا اگر کسی کے سر ہے تو وہ الفریڈ نوبل ہیں۔ جونوبل انعام کے بانی کہلاتے ہیں۔ الفریڈ سویڈن میں پیدا ہوئے ۔ لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روس میں گزارا۔ ڈائنامائٹ الفریڈ نوبل ہی نے ایجاد کیا تھا۔ جس کے طفیل ساری دنیا میں دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔رواں سال 5 خواتین نے نوبل انعام جیت کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا جبکہ امریکا کی ایلینر اوسٹروم اقتصادیات کا نوبل انعام جیت کر یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔۔ اب تک ایک سال میں تین خواتین کی جانب سے نوبل انعام جیتنے کا ریکارڈ 2004ءمیں قائم ہوا تھا جو رواں سال 5 خواتین کی جانب سے نوبل انعام جیتنے سے ٹوٹ گیا۔ گزشتہ ہفتے نوبل انعام کمیٹی نے جرمن مصنف ہوٹا مویلر کو ادب، اسرائیل کی ادایوناتھ کو کیمسٹری، آسٹریلوی امریکن ایلزبتھ بلیک برن اور امریکا کی کیرول گریڈر کو مشترکہ طور پر طب کا نوبل انعام دیا۔ اس بار نوبل انعام کی خاص بات یہ ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے جس پر دنیا بھر میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے،عالمی رہنماو ں نے امید ظاہر کی ہے کہ اوباما دنیا میں امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ایرن نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوبل انعام دینے کا فیصلہ وقت سے پہلے اور جلد بازی میں کیا گیا۔ انعام دینے کا بہترین وقت وہ ہوتا جب عراق اور افغانستا ن سے غیرملکی فوجیں نکل جاتیں اور امریکا فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتا۔ کیوبا کا کہنا ہے کہ اوباما کو صرف وعدوں کی بنیاد پر انعام سے نوازا گیا۔ دنیا کو درپیش مسائل وعدوں سے نہیں سنجیدہ عملی اقدامات سے حل ہوں گے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ جب تک امریکا کی پالیساں تبدیل نہ ہوں،یہ انعام فلسطینیوں کو آگے یا پیچھے نہیں لے جاسکتا۔ امریکی صدر جن کے نامہ اعمال میں ابھی تک کوئی کریڈٹ نہیں ہیں۔شاید خود بھی حیران ہیں کہ انھیں یہ انعام کس بات پر دیا گیا ہے۔ ساری دنیا اس فیصلے پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ روس، ایران،پاکستان،عراق،فلسطین اور لبنان میں عوام نے فیصلے پر تنقید جبکہ اسرائیل، برطانیہ،جرمنی، فرانس، بھارت اوردیگر ممالک میں فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ الفریڈ نوبل نے ڈائنا مائیٹ کے علاوہ متعدد دوسری ایجادات بھی کی تھیں۔۔ اپنی زمینوں اور ڈائنامائٹ سے کمائی گئی دولت کے باعث 1896ءمیں اپنے انتقال کے وقت نوبل کے اکاو ¿نٹ میں 90 لاکھ ڈالر کی رقم تھی۔

الفریڈ نوبل نے موت سے قبل اس نے اپنی وصیت میں لکھ دیا تھا کہ اس کی یہ دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے جنہوں نے گزشتہ سال کے دوران میں طبیعات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔پس اس وصیت کے تحت فوراً ایک فنڈ قائم کر دیا گیا جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم کیا جانے لگا۔ 1968ءسے نوبل انعام کے شعبوں میں معاشیات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نوبل فنڈ کے بورڈ کے 6 ڈائریکٹر ہیں جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور ان کا تعلق سویڈن یا ناروے کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔نوبل فنڈ میں ہر سال منافع میں اضافے کے ساتھ ساتھ انعام کی رقم بھی بڑھ رہی ہے۔ 1948ء میں انعام یافتگان کو فی کس 32 ہزار ڈالر ملے تھے، جب کہ 1997 میں یہی رقم بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10 دسمبر 1901ءکو منعقد ہوئی تھی۔ تب سے یہ تقریب ہر سال اسی تاریخ کو ہوتی ہے۔

طبیعات کا نوبل انعام “رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے طبیعات کے شعبے میں اہم ترین دریافت یا ایجاد کی ہو ۔ کیمیا کا نوبل انعام “رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے طبیعات کے شعبے میں اہم ترین دریافت یا بہتری کی ہو ۔ نوبل انعام برائے طب “کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے طب کے شعبے میں اہم ترین دریافت کی ہو ۔ ادب کا نوبل انعام “سوئیڈش اکیڈمی ” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے ادب کے شعبے میں نمایاں کام کیا ہو ۔ امن کا نوبل انعام “نارویجیئن نوبل کمیٹی” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے اقوام کے درمیان دوستی، افواج کےخاتمے یا کمی اور امن عمل تشکیل دینے یا اس میں اضافہ کرنے کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دی ہوں۔ اقتصادیات کا نوبل انعام اسے باضابطہ طور پر الفریڈ نوبل یادگاری The Sveriges Riksbank Prize کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی سفارش نوبل نے نہیں کی تھی۔ یہ انعام “رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز” دیتی ہے

اس بار امریکا کی ایلینور اوسٹروم اور اولیور ولیم سن نے معیشت کا نوبل انعام مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ اس طرح ایلینور معیشت کے شعبہ میں نوبل انعام جیتنے والی پہلی جبکہ رواں سال نوبل انعام حاصل کرنے والی پانچویں خاتون ہیں۔ چھہتر سالہ ایلی نور اور ستتر سالہ ولیم سن کو معاشی بحران کے خاتمے کیلئے خدمات پر نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ انعام کی چودہ ملین ڈالرز کی رقم دونوں ماہرین معیشت میں مساوی طور پر تقسیم کی جائے گی۔ ایلینور انڈیانا یونیورسٹی کی پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں جبکہ وہ ایریزونا یونیورسٹی کی بانی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ولیم سن کا تعلق کیلی فورنیا یونیورسٹی سے ہے قتصادیات کا نوبیل پرائز دو امریکی ماہرین ایلینور اوسٹرم اور اولیور ولیئمسن کو دیا گیا ہے۔انیس سو اسی کے بعد سے اس انعام کو امریکی چوبیس مرتبہ جیت چکے ہیں اور انیس سو اڑسٹھ میں اقتصادیات کے لیے نوبیل انعام شروع ہونے کے بعد سے محترمہ اوسٹرم یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔محترمہ اوسٹرم نے کہا کہ ’ہم اب نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین عظیم سائنسی کارنامے کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ اقتصادیات کا نوبیل انعام جیتنے والی پہلی خاتون ہونا یقیناً اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز حاصل کرنے والی آخری عورت نہین ہونگی۔‘رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے انہیں یہ ایوارڈ اس تحقیق کے لیے دیا ہے کہ کس طرح جنگلات، دریاو ¿ن اور گھاس کے مبیدانوں جیسے قدرتی وسائل کا استعمال کرنے والے ان کی دیکھ بھال حکومت اور اور نجی کمپنیوں سے بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔مسٹر ولیئمسن نے یہ تفتیش کی ہے کہ خام مال کی سپلائی اور تیاری جیسی مارکٹ سرگرمیاں کیوں زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں اگر وہ ایک واحد فرم کے تحت کی جائیں۔

ادب کے شعبے میں جرمن مصنفہ ہرٹا ملر نے سنہ 2009 کے لیے ادب کا نوبیل انعام حاصل کیاہے۔ جرمن مصنفہ کو متاثر کن شاعری اور ناولز لکھنے پر نوبل انعام کا حق دار قرار دیاگیا۔ ہرٹا مولر رومانیہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے مختصر کہانیوں کا مجموعہ۔ لو لینڈ۔ لکھا جس پر رومانیہ میں پابندی لگا دی گئی تاہم اسے جرمنی میں بے انتہا پسند کیا گیا۔ 1953 میں رومانیہ میں پیدا ہونے والی ہرٹا ملر رومانیہ کے ڈکٹیٹر نکولائی چاو ¿شسکو کے دورِ اقتدار کے مشکل حالات کو پیش کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی نے ملر کے لیے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ان کی نثر کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی بھی تعریف کی ہے۔ ملر رومانیہ کی جرمن اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کی والدہ کو سویت یونین میں ایک مزدور کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ہرٹا ملر کو ستّر کی دہائی میں رومانیہ کی خفیہ پولیس سے تعاون نہ کرنے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور اس کے بعد سنہ 1987 میں جرمنی منتقل ہوگئیں۔ جرمنی منتقل ہونے سے قبل سنہ 1982 میں جرمن زبان میں لکھ گئے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا جسے رومانیہ میں سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔ ملر کی ابتدائی تحریریں تو ان کے ملک سے چوری چھپے باہر لے جائی گئیں تاہم بعد میں آنے والے سالوں میں انہیں متعدد ادبی انعام ملے جن میں سنہ 1998 میں ڈبلن میں دیا جانے والا امپیک ایوارڈ بھی شامل ہے۔

اس برس کیمسٹری میں نوبل اعزاز بھارتی نڑاد امریکی سائنسداں وینکٹ رامن رامکرشنن اور دیگر دو سائنسدانوں کوہے۔ ڈاکٹر راماکرشنن کی سربراہی میں کام کرانے والی سائنسدانوں کی اس ٹیم کو رائبوسومز کے مطالعے پر یہ انعام دیا گیا۔ رائبوسومز انسان کے جسم میں پروٹین بناتا ہے۔ امریکی شہری ڈاکٹر راماکرشنن کو اسرائیلی خاتون سائنسدان ادا یونوتھ، اور امریکہ کے تھومس سٹیز کے ساتھ اس اعزاز کے لیے متنخب کیا گیا ہے۔ بھارت میں پیدا ہوئے راماکرشنن اس وقت برطانیہ کی کمیبریج یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ستاون سالہ راما کرشنن کیمبریج یونیورسٹی کے ایم آر سی لیباریٹریز آف مالیکولر بائیولوجی کے سٹرکچرل سٹیڈیز سیکشن کے چیف سائنسدان ہیں۔ تینوں سائنسدانوں نے تھری ڈائمینشنل تصاویر کے ذریعے پوری دنیا کو سمجھایا کہ کس طرح رائبوسومز الگ الگ کیمیکل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ نوبل اعزاز کمیٹی کا کہنا ہے کہ ’ان سائنسدانوں نے سائینس کی دنیا میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ان کے اس کام کی وجہ سے بہت ساری بیماریوں کا علاج اینٹی بائیٹک دوائیوں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ ادا یونوتھ اسرائیل کے وزمین انسٹیٹیوٹ میں سٹرکچرل بائیولوجی کی پروفیسر ہیں اور کیمیائی سائنس کے شعبے میں نوبل پانے والی چوتھی خاتون ہیں۔ تیسری سائنسدان تھومس سٹیز کا تعلق امریکہ کی ییل یونیورسٹی سے ہے

اامریکی صدر براک اوباما نے اس سال جنوری میں اقتدار سنبھالا تو پوری دنیا کو ان سے بہت امیدیں وابتہ تھیں۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے دنیا کو تباہی سے دوچار کیا تھا۔اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا بحران ہو جس کا حل تلاش کرنے کا عزم براک اوباما نے نہ کیا ہو۔لیکن اب تک اباہاما کے کارناموں میں سے کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر انھیں دنیا میں امن کا سب سے برا اعزاز دیا جاتا۔ اب اگر انھیں یہ اعزاز دے ہی دیا گیا ہے تو اب ان کی ذمہ داری ہے کہوہ اس کی لاج رکھیں۔ اور اپنے آپ کو بجا طور پر اس اعزاز کا مستحق ثابت کردیں۔ امن کا یہ انعام شائدانھیں اسی لئے دیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے سے باز رہیں۔



۔



Leave a Comment







اوباما کو امن کا نوبل انعام کس لئے

October 15, 2009, 9:39 am

Filed under: Uncategorized

اوباما کو امن کا نوبل انعام کس لئے

عطا محمد تبسم

دنیا میں دھماکے کرنے کا سہرا اگر کسی کے سر ہے تو وہ الفریڈ نوبل ہیں۔ جونوبل انعام کے بانی کہلاتے ہیں۔ الفریڈ سویڈن میں پیدا ہوئے ۔ لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روس میں گزارا۔ ڈائنامائٹ الفریڈ نوبل ہی نے ایجاد کیا تھا۔ جس کے طفیل ساری دنیا میں دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔رواں سال 5 خواتین نے نوبل انعام جیت کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا جبکہ امریکا کی ایلینر اوسٹروم اقتصادیات کا نوبل انعام جیت کر یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔۔ اب تک ایک سال میں تین خواتین کی جانب سے نوبل انعام جیتنے کا ریکارڈ 2004ءمیں قائم ہوا تھا جو رواں سال 5 خواتین کی جانب سے نوبل انعام جیتنے سے ٹوٹ گیا۔ گزشتہ ہفتے نوبل انعام کمیٹی نے جرمن مصنف ہوٹا مویلر کو ادب، اسرائیل کی ادایوناتھ کو کیمسٹری، آسٹریلوی امریکن ایلزبتھ بلیک برن اور امریکا کی کیرول گریڈر کو مشترکہ طور پر طب کا نوبل انعام دیا۔ اس بار نوبل انعام کی خاص بات یہ ہے کہ امریکی صدر براک اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے جس پر دنیا بھر میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے،عالمی رہنماو ں نے امید ظاہر کی ہے کہ اوباما دنیا میں امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ایرن نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوبل انعام دینے کا فیصلہ وقت سے پہلے اور جلد بازی میں کیا گیا۔ انعام دینے کا بہترین وقت وہ ہوتا جب عراق اور افغانستا ن سے غیرملکی فوجیں نکل جاتیں اور امریکا فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتا۔ کیوبا کا کہنا ہے کہ اوباما کو صرف وعدوں کی بنیاد پر انعام سے نوازا گیا۔ دنیا کو درپیش مسائل وعدوں سے نہیں سنجیدہ عملی اقدامات سے حل ہوں گے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے کہا ہے کہ جب تک امریکا کی پالیساں تبدیل نہ ہوں،یہ انعام فلسطینیوں کو آگے یا پیچھے نہیں لے جاسکتا۔ امریکی صدر جن کے نامہ اعمال میں ابھی تک کوئی کریڈٹ نہیں ہیں۔شاید خود بھی حیران ہیں کہ انھیں یہ انعام کس بات پر دیا گیا ہے۔ ساری دنیا اس فیصلے پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ روس، ایران،پاکستان،عراق،فلسطین اور لبنان میں عوام نے فیصلے پر تنقید جبکہ اسرائیل، برطانیہ،جرمنی، فرانس، بھارت اوردیگر ممالک میں فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ الفریڈ نوبل نے ڈائنا مائیٹ کے علاوہ متعدد دوسری ایجادات بھی کی تھیں۔۔ اپنی زمینوں اور ڈائنامائٹ سے کمائی گئی دولت کے باعث 1896ءمیں اپنے انتقال کے وقت نوبل کے اکاو ¿نٹ میں 90 لاکھ ڈالر کی رقم تھی۔

الفریڈ نوبل نے موت سے قبل اس نے اپنی وصیت میں لکھ دیا تھا کہ اس کی یہ دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے جنہوں نے گزشتہ سال کے دوران میں طبیعات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔پس اس وصیت کے تحت فوراً ایک فنڈ قائم کر دیا گیا جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم کیا جانے لگا۔ 1968ءسے نوبل انعام کے شعبوں میں معاشیات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نوبل فنڈ کے بورڈ کے 6 ڈائریکٹر ہیں جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور ان کا تعلق سویڈن یا ناروے کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔نوبل فنڈ میں ہر سال منافع میں اضافے کے ساتھ ساتھ انعام کی رقم بھی بڑھ رہی ہے۔ 1948ء میں انعام یافتگان کو فی کس 32 ہزار ڈالر ملے تھے، جب کہ 1997 میں یہی رقم بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10 دسمبر 1901ءکو منعقد ہوئی تھی۔ تب سے یہ تقریب ہر سال اسی تاریخ کو ہوتی ہے۔

طبیعات کا نوبل انعام “رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے طبیعات کے شعبے میں اہم ترین دریافت یا ایجاد کی ہو ۔ کیمیا کا نوبل انعام “رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے طبیعات کے شعبے میں اہم ترین دریافت یا بہتری کی ہو ۔ نوبل انعام برائے طب “کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے طب کے شعبے میں اہم ترین دریافت کی ہو ۔ ادب کا نوبل انعام “سوئیڈش اکیڈمی ” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے ادب کے شعبے میں نمایاں کام کیا ہو ۔ امن کا نوبل انعام “نارویجیئن نوبل کمیٹی” کی جانب سے اس شخص کو دیا جاتا ہے جس نے اقوام کے درمیان دوستی، افواج کےخاتمے یا کمی اور امن عمل تشکیل دینے یا اس میں اضافہ کرنے کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دی ہوں۔ اقتصادیات کا نوبل انعام اسے باضابطہ طور پر الفریڈ نوبل یادگاری The Sveriges Riksbank Prize کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی سفارش نوبل نے نہیں کی تھی۔ یہ انعام “رائل سوئیڈش اکیڈمی آف سائنسز” دیتی ہے

اس بار امریکا کی ایلینور اوسٹروم اور اولیور ولیم سن نے معیشت کا نوبل انعام مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ اس طرح ایلینور معیشت کے شعبہ میں نوبل انعام جیتنے والی پہلی جبکہ رواں سال نوبل انعام حاصل کرنے والی پانچویں خاتون ہیں۔ چھہتر سالہ ایلی نور اور ستتر سالہ ولیم سن کو معاشی بحران کے خاتمے کیلئے خدمات پر نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ انعام کی چودہ ملین ڈالرز کی رقم دونوں ماہرین معیشت میں مساوی طور پر تقسیم کی جائے گی۔ ایلینور انڈیانا یونیورسٹی کی پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں جبکہ وہ ایریزونا یونیورسٹی کی بانی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ولیم سن کا تعلق کیلی فورنیا یونیورسٹی سے ہے قتصادیات کا نوبیل پرائز دو امریکی ماہرین ایلینور اوسٹرم اور اولیور ولیئمسن کو دیا گیا ہے۔انیس سو اسی کے بعد سے اس انعام کو امریکی چوبیس مرتبہ جیت چکے ہیں اور انیس سو اڑسٹھ میں اقتصادیات کے لیے نوبیل انعام شروع ہونے کے بعد سے محترمہ اوسٹرم یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔محترمہ اوسٹرم نے کہا کہ ’ہم اب نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین عظیم سائنسی کارنامے کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ اقتصادیات کا نوبیل انعام جیتنے والی پہلی خاتون ہونا یقیناً اعزاز ہے لیکن یہ اعزاز حاصل کرنے والی آخری عورت نہین ہونگی۔‘رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے انہیں یہ ایوارڈ اس تحقیق کے لیے دیا ہے کہ کس طرح جنگلات، دریاو ¿ن اور گھاس کے مبیدانوں جیسے قدرتی وسائل کا استعمال کرنے والے ان کی دیکھ بھال حکومت اور اور نجی کمپنیوں سے بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔مسٹر ولیئمسن نے یہ تفتیش کی ہے کہ خام مال کی سپلائی اور تیاری جیسی مارکٹ سرگرمیاں کیوں زیادہ موثر ثابت ہوتی ہیں اگر وہ ایک واحد فرم کے تحت کی جائیں۔

ادب کے شعبے میں جرمن مصنفہ ہرٹا ملر نے سنہ 2009 کے لیے ادب کا نوبیل انعام حاصل کیاہے۔ جرمن مصنفہ کو متاثر کن شاعری اور ناولز لکھنے پر نوبل انعام کا حق دار قرار دیاگیا۔ ہرٹا مولر رومانیہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے مختصر کہانیوں کا مجموعہ۔ لو لینڈ۔ لکھا جس پر رومانیہ میں پابندی لگا دی گئی تاہم اسے جرمنی میں بے انتہا پسند کیا گیا۔ 1953 میں رومانیہ میں پیدا ہونے والی ہرٹا ملر رومانیہ کے ڈکٹیٹر نکولائی چاو ¿شسکو کے دورِ اقتدار کے مشکل حالات کو پیش کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی نے ملر کے لیے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ان کی نثر کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کی بھی تعریف کی ہے۔ ملر رومانیہ کی جرمن اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کی والدہ کو سویت یونین میں ایک مزدور کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ہرٹا ملر کو ستّر کی دہائی میں رومانیہ کی خفیہ پولیس سے تعاون نہ کرنے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور اس کے بعد سنہ 1987 میں جرمنی منتقل ہوگئیں۔ جرمنی منتقل ہونے سے قبل سنہ 1982 میں جرمن زبان میں لکھ گئے ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا جسے رومانیہ میں سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔ ملر کی ابتدائی تحریریں تو ان کے ملک سے چوری چھپے باہر لے جائی گئیں تاہم بعد میں آنے والے سالوں میں انہیں متعدد ادبی انعام ملے جن میں سنہ 1998 میں ڈبلن میں دیا جانے والا امپیک ایوارڈ بھی شامل ہے۔

اس برس کیمسٹری میں نوبل اعزاز بھارتی نڑاد امریکی سائنسداں وینکٹ رامن رامکرشنن اور دیگر دو سائنسدانوں کوہے۔ ڈاکٹر راماکرشنن کی سربراہی میں کام کرانے والی سائنسدانوں کی اس ٹیم کو رائبوسومز کے مطالعے پر یہ انعام دیا گیا۔ رائبوسومز انسان کے جسم میں پروٹین بناتا ہے۔ امریکی شہری ڈاکٹر راماکرشنن کو اسرائیلی خاتون سائنسدان ادا یونوتھ، اور امریکہ کے تھومس سٹیز کے ساتھ اس اعزاز کے لیے متنخب کیا گیا ہے۔ بھارت میں پیدا ہوئے راماکرشنن اس وقت برطانیہ کی کمیبریج یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ستاون سالہ راما کرشنن کیمبریج یونیورسٹی کے ایم آر سی لیباریٹریز آف مالیکولر بائیولوجی کے سٹرکچرل سٹیڈیز سیکشن کے چیف سائنسدان ہیں۔ تینوں سائنسدانوں نے تھری ڈائمینشنل تصاویر کے ذریعے پوری دنیا کو سمجھایا کہ کس طرح رائبوسومز الگ الگ کیمیکل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ نوبل اعزاز کمیٹی کا کہنا ہے کہ ’ان سائنسدانوں نے سائینس کی دنیا میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور ان کے اس کام کی وجہ سے بہت ساری بیماریوں کا علاج اینٹی بائیٹک دوائیوں کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ ادا یونوتھ اسرائیل کے وزمین انسٹیٹیوٹ میں سٹرکچرل بائیولوجی کی پروفیسر ہیں اور کیمیائی سائنس کے شعبے میں نوبل پانے والی چوتھی خاتون ہیں۔ تیسری سائنسدان تھومس سٹیز کا تعلق امریکہ کی ییل یونیورسٹی سے ہے

اامریکی صدر براک اوباما نے اس سال جنوری میں اقتدار سنبھالا تو پوری دنیا کو ان سے بہت امیدیں وابتہ تھیں۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے دنیا کو تباہی سے دوچار کیا تھا۔اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا بحران ہو جس کا حل تلاش کرنے کا عزم براک اوباما نے نہ کیا ہو۔لیکن اب تک اباہاما کے کارناموں میں سے کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر انھیں دنیا میں امن کا سب سے برا اعزاز دیا جاتا۔ اب اگر انھیں یہ اعزاز دے ہی دیا گیا ہے تو اب ان کی ذمہ داری ہے کہوہ اس کی لاج رکھیں۔ اور اپنے آپ کو بجا طور پر اس اعزاز کا مستحق ثابت کردیں۔ امن کا یہ انعام شائدانھیں اسی لئے دیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے سے باز رہیں۔



۔



Leave a Comment







امریکیوں کے خدشات

October 7, 2009, 6:44 am

Filed under: Uncategorized

امریکیوں کے خدشات

عطامحمد تبسم

اسلام آباد کے قلب میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے دفتر میں خود کش حملے کے بعد ملک بھر میں اقوام متحدہ کے تمام دفاتر کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے عوامی فلاح کے لیے نہیں بلکہ امریکی مفادات کے تحفظ کا کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ وزیرستان میں تازہ کارروائی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دے جوکہ بقول ان کے ’خالہ جی کا گھر نہیں ہوگا‘۔ اعظم طارق کا کہنا تھا ’امریکی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ناعاقبت اندیش حکمران کئی برسوں سے قبائلی علاقوں پر ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں سے گولہ باری کر رہے ہیں۔ مسجدیں اڑائی جا رہی ہیں، مدرسے تباہ کر رہے ہیں اور ہنستے بستے گھر تباہ کر رہے ہیں۔ لیکن حصول ڈالر میں بدمست حکمراں اسے کامیابی تصور کر رہے ہیں۔ ان کا الزام تھا کہ اقوام متحدہ نہ کسی کی داد رسی کرسکتا ہے نہ اس کا سلیقہ اور صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کو متنازعہ امریکی کمپنی بلیک واٹر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ ’ہم پاکستانی قوم، فوج اور سرزمین کے دشمن نہیں ہیں۔

وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایسے مزید حملے ہوں گے، کیونکہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی تیاریاں مکمل ہیں۔سوات آپریشن کی کامیابی کو شور اور غلغلہ ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ ایک نئے معرکے کی تیاریا ں ہوچکی ہیں ۔بے سہارا اور پریشان حال عوام ایک بار پھر نقل مکانی کررہے ہیں۔گو امریکی حکام بظاہر صدر زرداری، پاکستانی فوج اور سول حکومت کی شدت پسندی کے خلاف لڑائی کی وجہ سے تعریف کر رہے ہیں لیکن امریکی ذرائع ابلاغ وہ باتیں منظر عام پر لارہے ہیں جو سیاستدان مصلحتاً نہیں کر سکتے۔واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان پر اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ صدر اوباما پاکستان میں جو کم سے کم سیاسی اور فوجی مقاصد ہیں وہ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ اخبار کے مطابق گو پاکستانی فوج نے طالبان کو وادی سوات سے مار بھگایا ہے کیونکہ ان کی سوات میں موجودگی پاکستان کی اپنی بقا کے لیے خطرناک تھی۔ لیکن وہ ابھی وزیرستان میں طالبان کے خلاف لڑائی نہیں لڑنا چاہتی جو کہ اصل علاقہ ہے جہاں طالبان کا گڑھ ہے اور وہ وہیں سے افغانستان کے خلاف حملے منظم کر رہے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ایسے لسانی پنجابی اسلامی شدت پسند گروپ بھی متحرک ہیں جنہوں نے ہندوستان کے خلاف، ممکنہ طور پر خفیہ اداروں کی مدد سے، حملے منظم کیے تھے، جبکہ صدر آصف زرداری کی حکومت اہلیت کی کمی کا شکار ہے اور غیر مقبول ہے اور حکومت کے مخالفین کے دعوے ہیں کہ اس نے انیس سو نوے کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں جب مسٹر زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب ملا تھا۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ایسے لسانی پنجابی اسلامی شدت پسند گروپ پاکستان میں متحرک ہیں جنہوں نے ہندوستان کے خلاف، ممکنہ طور پر خفیہ اداروں کی مدد سے، حملے منظم کیے تھے، جبکہ صدر آصف زرداری کی حکومت اہلیت کی کمی کا شکار ہے اور غیر مقبول ہے اور حکومت کے مخالفین کے دعوے ہیں کہ اس نے انیس سو نوے کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں جب انھیںمسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب ملا تھا۔اخبار نے تجویز کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کی ترقی، تعلیم اور توانائی کے لیے جو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی امداد کا کیری لوگر پروگرام بنایا ہے اس کو جلد کانگریس سے منظور کرایا جائے اور کوشش کی جائے کہ یہ رقم براہ راست صرف حکومت کو تھما دینے کے بجائے مخصوص پراجیکٹس کو دی جائے۔امریکہ کے ایک اور بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز کو یہ فکر لاحق ہے کہ امریکہ پاکستان کو امداد تو دے رہا ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ رہ رقم ترقی، تعلیم اور تونائی پر خرچ ہوگی اور رشوت اور بدعنوانی کی نظر نہیں ہوجائے گی؟اخبار کے مطابق امریکی اقتصادی ماہرین کی ٹیموں نے حال میں اسلام آباد کے دورے کیے ہیں اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ رقم کن منصوبوں پر خرچ ہو اور کیا اقدامات کیے جائیں کہ یہ پیسہ اسی مقصد پر خرچ ہو جس کے لیے مختص کیا جارہا ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ وہ جو رقم پاکستان کو دے رہا ہے اس کا استعمال اس طرح ہو پاکستانی عوام کو امریکہ اپنا دوست لگے اور امریکہ مخالف احساسات کچھ کم ہوں۔ لیکن ایک امریکی اہلکار کے مطابق ضروری نہیں کہ پاکستانی حکومت کو دی جانے والی رقم سے ملک میں ترقی، تعلیم یا توانائی کچھ بھی حاصل ہوسکے۔امریکہ کا ایجنڈا اب کسی سے مخفی نہیں رہا وہ اسلام مسلمانوں اور پاکستان کے دشمنوں بھارت اور اسرائیل کا آزمودہ دوست اور خیرخواہ ہے۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تک رسائی، چین اور ایران کا گھیراو ¿ کرنے کیلئے پاکستان میں سفارت خانے کی توسیع کی آڑھ میں فوجیوں اور جاسوسوں کی چھاو ¿نیاں بنائی جا رہی ہیں اور دنیا میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی کالونی ہے جس کا وائسرائے ہالبروک اسلام آباد میں بیٹھ کر سیاسی اور اقتصادی معاملات پر احکامات جاری کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب امداد مانگنے کے بجائے اس ”پرائی جنگ“ سے نکلنے کی حکمت عملی وضع کی جائے جس پر اپنے پاس سے36 ارب ڈالر خرچ کرکے ہم نے رسوائی و عدم استحکام کی جو خریداری کی ہے سراسر خسارے کا سودا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے ممکنہ ایٹمی تجربات کا بھرپور جواب دینے کی تدبیر اور امریکی مداخلت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ ملک کا دفاع اور سلامتی کسی قسم کے خطرے سے دوچار نہ ہو۔

دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں شمولیت کے بعد سے پاکستان 36ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے جبکہ امریکہ سے اب تک پاکستان کو بمشکل10 ارب ڈالر ملے ہیں۔ اگلے 5 سال کے دوران مزید ساڑھے7 ارب ڈالر ملنے کی امید ہے لیکن اس امداد کا جھانسہ دے کر فنڈز خرچ کرنے کے نظام کی نگرانی کے نام پر امریکہ نے اسلام آباد میں اپنی خفیہ ایجنسیوں، فوج اور دیگر اداروں کا وسیع و عریض نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔ امریکی سفیر این پیٹرسن نے اعتراف کیا کہ امریکہ اسلام آباد میں 200مکان کرائے پر لے چکا ہے سفارت خانے میں توسیع کرکے میرینز کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ امریکی سفیر نے انکی تعداد کم بتائی مگر دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط انکی تعداد ایک ہزار ظاہر کر چکے ہیں۔ بدنام زمانہ تنظیم ”بلیک واٹر“ کے اہلکاروں کی اسلام آباد اور پشاور میں موجودگی اور ان کے لئے 3سو بلٹ پروف گاڑیوں کی پورٹ قاسم پر پہنچنے کی اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں یہ پراجیکٹ سی آئی اے کا ہے جس کا مقصد القاعدہ اور طالبان کے اہم لیڈروں تک رسائی حاصل کرنے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں پر نظر بد رکھنا ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری ختم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ سلامتی کو درپیش خطرات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں اور دیگر اقدامات کی وجہ سے امریکہ کیخلاف نفرت کا اعتراف امریکی سفیر کے علاوہ رچرڈ ہالبروک اور مائیک مولن بھی کر چکے ہیں اس لئے اتنی بڑی تعداد میں امریکیوں کی وفاقی دارالحکومت میں موجودگی بذات خود سیکورٹی مسائل کا باعث بنی رہے گی اور عام شہریوں کی زندگی کو بھی خطرات لاحق رہیں گے۔تازہ ترین یہ کہ امریکی صدر بارک اباہامہ نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت جہاں بھی القاعدہ کے ٹھکانے ہیں انھیں نشانہ بنایا جائے گا۔اس صورتحال میں امریکی امداد اور کیری لوگر بل کے پاس ہونے پر اظہار مسرت کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ملک کیسی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔



Leave a Comment



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل