نواز ۔۔۔۔۔ ساڈا شیر ہے۔

نواز ۔۔۔۔۔ ساڈا شیر ہے۔باقی ہیر پھیر ہے۔الیکشن کے دنوں میں جب یہ نعرہ لگتا تھا۔ تو میاں برادران کے سینے خوشی سے پھول جاتے تھے۔شاید یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نواز گروپ نے شیر کا انتخابی نشان پسند کیا تھا۔شیر کے نشان نے کام دکھا دیا اور میاں نواز شریف کی پارٹی کامیاب ہوگئی۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔اس لئے بادشاہت کا خواب شیر والی پارٹی بھی دیکھنے لگے۔تو یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے۔لیکن جب ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پارٹی رہنما خود کو واقعی شیر سمجھنے لگے تھے تو اچانک شیر کو مشکل پڑ گئی۔تخت و تاج تو گیا سو گیا جان کے لالے پڑ گئے۔ ایسے وقت میں بکری تو کیا چو ہا بنا پڑے تو وہ بھی قابل قبول ہوتا ہے۔سو جان ہے تو جہاں ہے کے مصداق پہلے جان بچانا ضروری ٹہرا۔لیکن خوئے سلطانی آسانی سے نہیں جاتی ہے۔ شہزادوں کے شوق بھی شاہانہ ہوتے ہیں۔ شیر سے الفت ہی تھی ۔جو وزیر اعلی پنجاب کے صاحبزادے نے سائبیریا کے برفزاروں میں پایا جانے والا شیر منگوایا۔برفزارماحول میں پرورش پانے والے شیر کو تو وہی ماحول چاہئے۔ لاہور کی گرمی اس شیر کی برداشت سے باہر ہے۔ا س لئے اس شیر کو شریف خاندان کے رائے ونڈ فارم پر بجلی سے ٹھنڈا رکھے جانے والے ایک خصوصی احاطے میں رکھا گیا ۔ جب پورے ملک میں بجلی کی ہا ہا کار مچی ہو تو ایک شیر بچے کے لئے برف والا ماحول پیدا کرنے پر کتنی بجلی خرچ ہوگی۔یوں بھی شوق دا کوئی مول نہیں ہوتا۔ لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ شیر کی درآمد کی خبر میڈیا والوں کے ہاتھ لگ گئی۔ ذرائع ابلاغ میں ایک شور مچ گیا ۔ کیونکہ اس نایاب شیر کو ایئر کنڈیشن پنجرے میں رکھا جاتا تھا۔پاکستان میں اس وقت زبردست گرمی پڑ رہی ہے اور اس گرمی میں ملک بجلی کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔لوگ ایک دوسرے کے میٹر اور ایئر کنڈیشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔جب یہ خبر شائع ہوئی کہ اس احاطے کو مقامی طور پر بجلی سے ٹھنڈا رکھا جاتا ہے تو ملکی اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں شدید تنقید شروع ہو گئی۔بجلی کے اس شدید بحران میں جب شہروں میں دس سے بارہ گھنٹے کی روزانہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ تو ایک شیر بچے کے لئے یہ عیاشی کیوں۔اس تنقید کے پیش نظریہ حکم دیا گیا کہ اس شیر کو فوری طور پر حکام کے حوالے کر دیا جائے۔جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کہنا ہے کہ شریف خاندان اب اس شیر کو رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ والے کہتے ہیں اس شیر کو صوبے سرحد کی حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ کیوں صوبے سرحد کی حکومت کا انتخاب کیا گیا تاہم ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سرحد میں موسم پنجاب کی نسبت ٹھنڈا رہتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مادہ شیر ہے۔ اور شریف خاندان اس کے بچے کھلاناچاہتا ہے ۔ اس کے لئے انھوں نے سرحد والوں سے کہا کہ وہ ایک شیر دے دیں ۔تاکہ وہ اس شیرنی کے بچے دیکھ سکیں۔سرحد والوں کا کہنا ہے کہ بھائی شیرنی ادھر بھیج دو۔ اس لئے یہ شیر وہا ں بھیجا جارہا ہے۔ کہتے ہیںکہ وزارت ماحولیات نے ایسے جانوروں کی برآمد پر پابندی عائد کررکھی ہے۔لیکن یہ پابندیاں تو ہما سما کے لئے ہوتی ہیں۔ ہمارے حکمران بھی عجیب ہیں۔ کسی کو گھوڑے پالنے کا شوق ہے تو کسی کو کتے پالنے کا اور کسی کو شیر پالنے کا۔۔۔۔۔۔عوام کو پالنے کا کسی کو خیال نہیں۔




Leave a Comment







عشق کے کھیل میں جاں کا زیاں ہوتا ہے

July 31, 2009, 9:35 am

Filed under: Uncategorized

عشق کے کھیل میں جاں کا زیاں ہوتا ہے

عطا محمد تبسم

لاہور میں کالے کوٹ والے چند وکلاءکی جانب سے تشدد کے جو واقعات سامنے آئے ہیں۔اس نے حکومتی رٹ کا سوال پھر اٹھا دیا ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی قانون ہے،کیا اس قانون پر عملداری ہورہی ہے۔کیاظلم ،زیادتی، چوری، ڈکیتی،لوٹ مار،گراں فروشی،اغوا، قتل، اور تشدد کے واقعات کی روک تھام کی جارہی ہے۔ کیا ملک کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جارہا ہے۔کیا کوئی ظالم کا ہاتھ پکڑ نے والا ہے۔ کیاکوئی قانون کی خلاف ورزی کا مر تکب یہاں سزا پاتا ہے۔ اس ملک کے کروڑوں عوام رات دن ، اسکرین پر ان واقعات کی فوٹیج دیکھتے ہیں۔اخبارات میں تصویر اور خبریں دیکھتے ہیں۔ انڑنیٹ کے بلاگ پر دستاویزی ثبوت دیکھتے ہیں۔اور یو ٹیوب پر وہ فحش مکالمات سنتے ہیں۔جن میں کہا جاتا ہے۔ تم نے لائیو پروگرام کے دوران سوال پوچھا تھا نا۔ اب میں تم کو اس کا جواب دیتا ہوں۔اور طبقہ اشرافیہ کے یہی لوگ اقتدار کے ایوانواں میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔کیامقدمات دل کی بھڑاس نکا لنے کے لئے چلائے جارہے ہیں۔چونکہ اس وقت آمر کرسی اقتدار پر فائز تھا۔اس لئے اس کا کچھ نہ بگاڑا جاسکا۔ اور آج وہ اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی اتنا بااثر ہے۔کہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہو نا تو دور کی بات۔۔۔۔اس کے چیلوں کو بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خواجہ محمد شریف نے صحافیوں اور پولیس پر وکلاء کی جانب سے تشدد کا از خود نوٹس لے لیاہے۔ انھوں نے ایک ڈویڑن بنچ بھی بنا دیا ہے ۔جو پیر کو ازخود نوٹس کی سماعت کرے گا۔ اس سلسلے میں ایس پی آپریشن اور لاہور بار کے صدر کو پیر کو طلب کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے سیشن کورٹ کے باہر ایک مقامی نجی چینل کے کیمرہ مین پر تشدد کرنے والے وکلا کے خلاف تھانہ اسلام پورہ میں ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے۔لیکن کیا واقعی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔اورملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائےگا۔یہ خوش فہمیاں ہیں۔ اگر اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو کسی کو چیف جسٹس آف پاکستان کو بالوں سے پکڑنے کی جرات نہ ہوتی، آئین اور قانون کے ساتھ یوں مذاق نہ کیا جاتا، صحافیوں، وکلاءسول سوسائٹی پر کیمروں کے سامنے وحشیانہ انداز میں سادہ لباس والے ڈنڈے نہ برساتے،۲۱ مئی کو کراچی میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی، وکلاءکو زندہ نہ جلایا جاتا۔ چینلوں پر حملے نہ ہوتے،عوام کی محبوب رہنما شاہراہ عام پر یوں قتل نہ کردی جاتی،جو راہ میں رکاوٹ ہو اسے اسے آگ اور بارود سے نہ اڑا یا جاتا۔

پاکستان مےں گزشتہ برسوں میں کئی صحافی اور اخبار نوےس قتل، گرفتار ، تشدد سے شدےد زخمی اور ہراساں کئے گئے ہیں۔ان واقعات کا تسلسل جا ری ہے۔صحافت اب آسان پروفیشن نہیں ہے۔ یہ خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ خاص طور پر کیمرے والے صحافی، اور فوٹوگرافر ان جانیں تو عذاب میں ہوتی ہیں۔ صحافےوں کے قتل ، گرفتارےوں ، تشدد اورہراساں کرنے ، آزادی اظہار پر پابندےوں کے خلاف سپرےم کورٹ مےں شکیل ترابی کی پٹےشن موجود ہے۔ صرف مئی 2006 ءسے مئی 2007 کے دوران اےک سال میں پانچ صحافی قتل ہوئے 17 گرفتار ، 61 زخمی اور 27 کوہراساں کےا گےا 11 واقعات مےں مےڈےا کی جائےداد کو نقصان پہنچاےا گےا۔ مےڈےا کورےج پر پابندےوں کے 16 واقعات سامنے آئے ۔ ۸۰۰۲ اور ۹۰۰۲ میں بھی ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی بات مانتے ہوئے دیانت داری سے اپنا پیشہ وارانہ فرض نبھائیں۔ انھیں ہر حال میں سچ کی رپورٹنگ کرنی چاہیے۔ مختلف ذرائع ابلاغ اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مشترکہ بنیادی اصولوں پر مبنی کتاب ” صحافت کے عناصر” میں مصنفین بِل کوواچ اور ٹام روسینسٹیل لکھتے ہیں کہ حقائق کے بارے میں معلومات اکٹھی اور ان کی تصدیق کرنے کے بعد ” صحافی کو ان کے مطالب کی ایماندارانہ اور قابلِ اعتماد تصویر پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”صحافیوں کو کسی تنازعہ میں شامل تمام فریقین کی صحیح عکاسی کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ رپورٹنگ کے دوران تمام متعلقہ ماخذات کا احاطہ کرنا ہی وہ طرزِ فکر ہے جو صحافی کی ساکھ کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ بااعتماد رپورٹنگ کرکے صحافی ایمانداری کے ساتھ کسی واقعہ کے بارے میں قابلِ اعتماد معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور عمداً واقعے کا ہو بہو نقشہ کھینچتا ہے۔ یہ کو ئی آ سان کام نہیں کہ کسی واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس سے لا تعلق رہا اور اس کا اثر نہ لیا جائے۔ صحافی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں اور کرتے بھی ہیں۔ تاہم اپنے کام سے مکمل انصاف کرنے کے لئے انہیں خود پر قابو رکھنا پڑتا ہے۔

اس کام میں جاں کا زیاں ہونے کا ہر آن کھٹکا لگا رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی پاکستان کے میڈیا نے جس بہادری اور جی داری کے ساتھآزادی صحافی کی جنگ لڑی ہے۔سول سوسائیٹی میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔وکلاءکو بھی ان کالی بھیڑوں کی سر کوبی کرنا چائیے۔جو ان کی بدنامی کا باعث ہورہی ہیں۔ یہ سازش بھی ہوسکتی ہے۔ شیرافگن کو نمونہ عبرت بنانے والے بھی تو نادیدہ ہاتھ تھے۔ جو کالے کوٹوں میں ملبوس تھے۔جب کسی صحافی پر تشدد اور ظلم ہوتا ہے ۔تو معاشرے میں مایوسی پھیلتی ہے۔ صحافےوں پر تشدد اور مظالم کے باعث عام آدمی کے حقوق متاثر ہوتے ہےں۔ اس کے بعد عام آدمی کے حقوق کے لئے کوئی نہیں کھڑا ہوتا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافےوں کے خلاف ہونے والے مظالم کا از خود نوٹس لے اور صحافےوں کو تحفظ اور عمدہ ماحول فراہم کےا جائے تاکہ وہ اپنے فرائض آزادانہ ماحول مےں ادا کر سکےں۔ مستقبل کا صحافتی کردار اسی وقت متعین ہوگا۔ جب قانون کی حکمرانی ہو اور صحافیوں کر اپنے فرائض ادا کرنے کی آزادی ہو۔



Leave a Comment







July 29, 2009, 9:50 am

Filed under: Uncategorized

کشمیرسیکس سکینڈل کشمیریوں کی بے کسی کا رونا ہے



Leave a Comment







کشمیرسیکس سکینڈل کشمیریوں کی بے کسی کا رونا ہے

July 29, 2009, 9:49 am

Filed under: Uncategorized

کشمیرسیکس سکینڈل کشمیریوں کی بے کسی کا رونا ہے

عطا محمد تبسم



اپوزیشن بڑی ظالم ہوتی ہے۔وہ اپنے مخالفین کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔اور انھیں اچانک دبوچ لیتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ایک کٹ پتلی حکومت ہے۔ جس کے وزیراعلی عمر عبداللہ ہیں۔ شیخ عبداللہ کے پوتے۔شیخ عبداللہ کا خاندان کانگریس کے ساتھ ہے۔اور کشمیر میں وہ ہندو نواز کہلاتے ہیں۔منگل کے روز جموں کشمیر کی صوبائی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران حزب اختلاف نے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ دو ہزار چھ کے بدنام زمانہ سیکس سکینڈل میں ملوث ہیں۔اس الزام کے بعد عمر عبداللہ اس قدر غصے میں آئے کہ اپنے کارکنوں کے روکنے کے باوجود وہ اپنے والد کے ہمراہ گورنر کے پاس پہنچے اور اپنا استعفیٰ سونپ دیا ۔جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف پی ڈی پی کے رکن مظفرح ±سین بیگ نے اسپیکر کو ملک کے سب سے بڑے تفتیشی ادارہ سی بی آئی کی مرتب کردہ ایک فہرست تھما دی تھی۔ اس فہرست میں جموں کشمیر کے اس بدنام زمانہ سیکس سکینڈل میں ملوث ا ±ن ایک سو ا ±نتیس ملزموں کے نام شامل تھے۔ جن کی سی بی آئی تفتیش کررہی ہے۔مسٹر بیگ، مفتی محمد سعید کی وزارت میں قانون کے وزیرتھے، انہوں نے اسپیکر سے کہا کہ ، ‘اس فہرست میں ملزم نمبر 102 کو دیکھ لیجئے، وہ عمرعبداللہ ولد فاروق عبداللہ ہیں۔’ اس کے بعد ایون میں شور وغل مچ گیا۔عبداللہ نے نہایت جذباتی انداز میں اعلان کیا کہ وہ صوبائی گورنر کو اپنا استعفیٰ سونپ دینگے۔ انہوں نے کہا : ‘ مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ملزم بے گناہ ثابت نہیں ہوتا وہ گناہ گار ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ میرے اوپر ایک کلنک ہے، ایک دھبہ ہے۔’اور عمر عبداللہ استعفی دینے پہنچ گئے۔

عمر عبداللہ پر یہ کلنگ کا ٹیکہ ہو نہ ہو لیکن بھارتی حکومت کے لئے یہ شرمناک باب ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ظلم اورکشمیریوںپر جس طرح عرصہ حیات تنگ کررھا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔کشمیر میں آئے دن فوجیوں کی جانب سے خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات ہوتے ہیں۔ کشمیر سیکس اسکینڈل بھارت کے اس نقاب کو اتاردیتا ہے۔ جو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔۶۰۰۲ میں انڈین ایکپریس میں نوجوان کشمیری لڑکیوں کو نوکریوں کا جھانسہ دے کر ان کی برہنہ فلمیں بنانےا ور ان کا جنسی استحصال کرنے سے متعلق یہ سنسنی خیز سکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔

۶۰۰۲ مئی میں انڈین ایکسپریس نے جموں کشمیر پولیس کے حوالے سے سیکس اسکینڈل کا انکشاف کیا تھا۔جس میں بڑے بڑے سیاستدان،پولیس حکام،اثر افراد،انٹیلیجنس کے حکام شامل تھے۔پولیس نے ۲ سی ڈی بھی پکڑی تھی۔ جس میں ان سرگرمیوں کا ریکارڈ تھا۔اس سی ڈی میں ایک ۵۱ سالہ بچی کی ویڈیو بھی تھی ۔جس سے زبردستی زیادتی کی جارہی تھی۔ بعد ازان اس بچی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔یہ آٹھ ویں جماعت کی طالبہ تھی۔جس نے شناختی پریڈ میں کئی ملزمان کو شناخت کرلیا تھا۔ان میں ٹرانسپورٹ منسٹر حکیم یاسین،ایم ایل اے غلام حسین، یوجیش سہنائے، ڈی جی پی رینک افسر راجندر ٹیکو، سنئیر آئی پی ایس آفیسر اشکور وانی، نیاز محمود ، شیخ محمود ،جموں کشمیر بنک کے چیئرمین یوسف خان،براڈوے ہوٹل کے مالک انیل امید شامل تھے۔ اس بچی نے عدالت میں ایک گورے چٹا صاحب کا بھی ذکر کیا تھا۔ جنہوں نے ایک سرکاری ہٹ میں چشمہ شاہی پر ایک بچی کے ساتھ بدکاری کی تھی۔یہ گورے چٹے صاحب بعد میں پرنسپل سیکر یٹری پلاننگ اقبال کنڈے نکلے۔اس مقدمے کی جموں کشمیر ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ایک اہم گواہ کو ایک عمارت کی تیسری منزل سے گرا کر ہلاک کردیا گیا۔

اس واقعے کی ایک بار پھر یاد دہانی نے بھارت کے اصل روپ کو دنیا کے سامنے کردیا ہے کہ وہ نہ صرف ان واقعات کی پشت پناہی کررہا ہے۔ بلکہ انسانی حقوق کو بری طرح پائمال کررہا ہے۔ بھارت میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ گروپ سرگرم ہیں۔اقلیتوں پر سکھوں، عیسائی،مسلمانوں،اور دلتوں پر اس کے ظلم پناہ ہیں۔ لوگ گجرات میں ہونے والے فسادات کو ابھی نہیں بھولے ہیں۔بابری مسجد کا سانحہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے۔پاکستان پر بھارت مسلسل الزام تراشی کر رہا ہے۔پاکستان کی دوستی کی خواہش کو اس کی کمزوری سمجھا جارہا ہے۔بلوچستان اور سرحد کے واقعات میں جو غیر مختون طالبان کے لاشے ملے ہیں۔ وہ پاکستان کے معاملات میں بھارتی در اندازی کا ثبوت ہیں۔ان حالات میں بھارت کو اپنے رویئے پر غور کر نا چاہئے اور کشمیر میں انسانی خون کی ہولی کھیلنے اور انسانی حقوق کی پائمالی سے باز آجانا چاہئے۔



Leave a Comment







July 29, 2009, 7:16 am

Filed under: Uncategorized

اخباروافکار

۔

تعارف سيد منور حسن

سيد منور حسن دہلي ميں ايک ممتاز سيد گھرانے ميں پيدا ہوئے۔ والد کا نام سيد اخلاق حسن تھا اور آپ کے خاندان نے قيام پاکستان کے وقت دہلي سے کراچي ہجرت کي۔ سيد منور حسن نے سنہ 1963ء اور سنہ1966 ميں کراچي يونيورسٹي سے عمرانيات اور اسلاميات ميں ”ايم اے” کے امتحانات امتيازي حيثيت سے پاس کئے۔ دور طالب علمي ميں سيد صاحب ايک اچھے طالب علم، جامعہ کراچي ميں اردو اور انگلش کے مقرر اور جامعہ کے ميگزين کے ايڈيٹر رہے۔ صدر ايوب خان کے مارشل لاء دور ميں سيد منور حسن بائيں بازو کي مقبول اور متحرک طلبہ تنظيم ”نيشنل اسٹوڈنٹس فيڈريشن” ميں شامل ہوئے اور وہاں اس کي صدارت کے عہدے تک پہونچے۔ اسي دوران انہوں نے مولانا سيد ابوالاعلي مودودي کي تحريروں کا مطالعہ کيا اور مولانا کي تحريروں سے متاثر ہوکر ”اسلامي جمعيت طلبہ پاکستان” ميں شامل ہوگئے اور دو سال کے قليل عرصہ ميں مرکزي ناظم اعلي منتخب ہوگئے۔ سيد منور حسن مسلسل تين سال تک اسلامي جمعيت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلي منتخب ہوتے رہے۔ جمعيت کے ناظم اعلي کي حيثيت سے سيد منور حسن نے مارشل لاء کے جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کيا۔ ان کو جيل ميں بھي بھيجا گيا۔ انہوں نے اسلامي نظام تعليم، تعليمي مسائل اور خواتين يونيورسٹي کے قيام جيسے اہم موضوعات پر بھرپور جد و جہد کي اور اس سلسلے ميں رائے عامہ کو متوجہ کرنے ميں اہم کردار ادا کيا۔ سنہ 1963 ميں سيد منور حسن نے ادارہ معارف اسلامي کراچي کي ذمہ داري سنبھالي، جہاں تھوڑے ہي عرصے ميں ان کي زير نگراني علمي، ادبي اور ديني موضوعات پر 70 سے زائد کتابيں شائع ہوئيں۔ اسي دوران سيد منور حسن دو انگلش جرائد “The Criterion” اور “The Universal message” کے مدير بھي رہے۔ سيد منور حسن نے سنہ 1967 ميں ” جماعت اسلامي پاکستان” ميں شموليت اختيار کي اور جلد ہي کراچي شہر کے ”امير” بنادئے گئے۔ اسي دوران جماعت اسلامي کي مرکزي مجلس شوري اور مرکزي مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوگئے۔ انہوں نے ”متحدہ جمہوري محاذ” اور ”پاکستان قومي اتحاد” کے پليٹ فارم سے بھي فعال کردار ادا کيا۔ تحريک نظام مصطفي کے دوران آپ کو ايک مرتبہ پھر جيل بھيج ديا گيا۔ سنہ 1977 کے عام انتخابات ميں سيد منور حسن صاحب قومي اسمبلي کے رکن منتخب ہوئے اور ملک بھر ميں سب سے زيادہ ووٹ لينے کا ريکارڈ قائم کيا۔ سيد منور حسن کو سنہ 1992 ميں جماعت اسلامي پاکستان کا مرکزي قيم ”سيکريٹري جنرل” بناديا گيا۔ سيد منور حسن کي سنہ 1974 ميں شادي ہوئي۔ اولاد ميں ايک بيٹي اور ايک بيٹا ہے۔ سيد منور حسن صاحب کي اہليہ محترمہ عائشہ منور بھي جماعت اسلامي پاکستان کے حلقہ خواتين کي مرکزي سيکريٹري جنرل رہيں۔ وہ گزشتہ اسمبلي ميں ممبر قومي اسمبلي بھي رہ چکي ہيں۔ سيد منور حسن نے بے شمار قومي اور بين الاقوامي کانفرنسوں اور اجتماعات ميں شرکت کي۔ سيد منور حسن امريکہ، کنيڈا، يورپ، مشرق وسطيٰ، اور جنوب مشرقي ايشيا کے ممالک کے بے شمار دورے کرچکے ہيں۔ اندرون اور بيرون ملک آپ کے خطابات کو بہت پسند کيا جاتا ہے اور ان کي بہت سي آڈيو اور ويڈيو کيسٹس ہر جگہ سني جاتي ہيں۔



Leave a Comment







نظام بدلنے کی روایت

July 28, 2009, 10:12 am

Filed under: Uncategorized

نظام بدلنے کی روایت

عطا محمد تبسم

ضلعی حکومتوںکے نئے نظام پر گفتگو ہورہی تھی۔لیفٹینیٹ جنرل رٹائرڈ تنویر نقوی جو اس نظام کے خالق تھے۔سوالات کے جواب دے رہے تھے کہ ایک سوال ہوا یہ نظام کب تک قائم رہے گا۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ اب یہ نظام مستقل رہے گا۔ کیوں کہ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بہت بڑی دعوت ہو۔ اور اس کا تما م گند صاف کیا جائے۔ اور پھر سیاست دانوں کو اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ آکر پھر سے وہی کچھ کریں۔۸ برس بعد پھر وہی ہورہا ہے۔

حکومت نے بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ چاروں صوبوںمیںمقامی حکومتوں کے موجودہ نظام کو صوبوں کے ماتحت لایا جائے گا۔ اختیارات کی کشمکش اور موجودہ نظام کو لپٹنے سے قبل ہی ان معاملات میں تیزی آگئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ناظم کراچی سید مصطفی کمال اور پانچ ٹاو ¿ن ناظمین نے سٹی ناظم کے اختیارات پر قدغن سے متعلق صوبائی حکومت کے دو خطوط کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔صوبائی محکمہ بلدیات،بورڈ آف ریوینیو اور چیف منسٹر کے پرنسپل سیکرٹری کی طرف جاری کئے گئے خطوط میں کہا گیاتھاکہ وزیراعلیٰ سندھ نے ضلعی ناظمین پر سرکاری املاک فروخت کرنے، ٹرانسفر یا نیلام کرنے پر پابندی لگادی ہے۔درخواست گزاروں کے وکیل نے پٹیشن میں مو ¿قف اختیار کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل140 اے کے تحت صوبائی حکومتیں ضلعی حکومتیں قائم کرنے اور انکو اختیارات کی منتقلی کی پابند ہیں اوروزیراعلیٰ سندھ کے احکامات پر مبنی یہ دو خطوط قانونی تقاضوں کو پورے کئے بغیر اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جاری کئے گئے ہیں اس لئے انہیں منسوخ کیا جائے۔

چند دن قبل اسلام آباد میں چاروں صوبوں کے وزراء اور اعلی حکام کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں بتایا گیا تھاکہ موجودہ بلدیاتی نظام کو صوبوں کے ماتحت کیا جائے گا۔ اس بارے بلدیاتی اداروں کے قانون میں ترامیم کی سمری جلد ہی صدر آصف زرداری کو بھجوا دی جائے گی۔اس سے قبل ناظمین نے صدر کو ایک خط لکھا تھا جس میں بلدیاتی اداروں کو تحلیل نہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔جبکہ سپریم کورٹ میں بھی اس بارے میں ایک درخواست جمع کرائی گئی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگست میں بلدیاتی اداروں میں ناظمین کی جگہ ایڈمنسٹریٹرز تعینات کردئیے جائیں گے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے فی الحال بلدیاتی انتخابات کروانا ممکن نہیں ۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکمراں جماعتوں کی مقبولیت کا گراف منفی میں جاچکا ہے اوران کے بقول حکمرانوں کو خدشہ ہے کہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات ان کی مقبولیت کا پول کھول دیں گے۔بعض اسے افسر شاہی یعنی بیورکریسی کی سازش کہتے ہیںجن کو بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات ہضم نہیں ہورہے ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی و بلدیاتی سالہ تاریخ میں اب تک سات بلدیاتی الیکشن فوجی حکمرانوں کے دور میں ہوئے سیاسی حکومتوں نے اس حوالے سے ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہیں۔ تمام ایسے آمر حکمرانوں نے سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگایااور اپنے اقتدار کو طول دینے کے بلدیاتی نظام کا سہارا لیا۔ ایوب خان نے اس مقصد کیلئے بنیادی جمہوری کے تحت بی ڈی الیکشن کرائے۔ ضیاءالحق نے اقتدار میں عوام کی حقیقی شرکت کےلئے مجلس شوری اور میئر سسٹم ایجاد کیا اور پرویز مشرف نے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے ضلعی حکومتوں کی داغ بیل ڈالی۔ پھر ان آمر کے انجام کے ساتھ ہی ان کے بنائے ہوئے نظام بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے۔ آمروں نے اپنے لئے تالیاں بجوانے، نعرے لگوانے اور اپنے جلسوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھا کرنے کے لئے ان اداروں کا سہارا لئے رکھا۔ ایسے ایک جلسے میں اسلام آباد میں پرویز مشرف نے عوام کو مکے دکھا کر عوام کی قوت کا اظہار کیا تھا۔اب نہ وہ مکے ہیں اور نہ ہی وہ عوام کی طاقت۔کراچی میںمئیر عبدالستار افغانی نے جب عوامی حقوق مانگے ، تو ان کی بساط لپیٹ دی گئی۔، فاروق ستا ر عرصے تک عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔،نعمت اللہ خان کو شاندار خدمات کے باوجود دوسری مدت نہیں دی گئی ۔اور اب مصطفے کمال ہیں آگے جانے کیا ہو۔کراچی پر پہلے عوامی دور میں بھی ایڈمنسٹریٹرز بیٹھے رہے۔ اب بھی اسی کی تیاریاں ہیں۔ موجودہ ضلعی نظام میں ممکن ہے کچھ خامیاں ہوں مگر درحقیقت یہ خامیاں عوام کیلئے سود مند، حکمران طبقہ اور منتخب نمائندوں کیلئے نقصان دہ ہیں۔ کراچی ، حیدرآباد میں جو ترقیاتی کام اس نظام کے تحت ہوئے وہ ایک مثال ہیں۔ اس وقت بھی یہی مسئل درپیش ہے کہ صوبائی حکومت کس طرح اپنے صوبے کے ضلع میں ایک نئی حکومت کا وجود تسلیم کرے، منتخب ارکان کیو ں اتنی بھاری مالیت کے ترقیاتی منصوبوں سے دور رہیں۔ یہ بات طے ہے کہ کوئی نظام اپنی حیثیت میں برا نہیں ہوتا۔ اصل خرابی نظام چلانے والوں میں ہوتی ہے نظام چلانے والے دیانت دار مخلص نیک نیت ہوں تو بدترین استحصالی نظام میں رہتے ہوئے بھی ملک و قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ انصاف اور جمہوریت کا تقاضا ہے موجودہ نظام کو برقرار رکھا جائے۔ صرف حکمرانوں کی خواہش اور ارکان اسمبلی کے مطالبہ پر اس نظام کا خاتمہ قوم سے سنگین نوعیت کا مذاق ہو گا ، نظام بدلنے کی یہ روایت جاری رہی تو ہم صرف تجربات کرتے رہ جائیں



Leave a Comment







July 28, 2009, 6:17 am

Filed under: Uncategorized

بے گور و کفن لاشے

عطا محمد تبسم

ہم ایک قبائیلی معاشرہ میں رہ رہے ہیں۔جو لوگ اسے جمہوری اور آزاد معاشرہ کہتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ کیسا آزاد جمہوری اور اسلامی معاشرہ ہے۔بوڑھے بلوچ سردار اکبر بگٹی نے سوئی میں ایک مہذب،پڑھی لکھی،ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی تھی تو اس حکام وقت نے پہلے تو اس واقعے ہی سے انکار کردیا۔پھر اس خاتون کو زباں بندی کے حکم کے ساتھ ملک سے زبردستی باہر بھیج دیا۔کیونکہ اس واقعے میں ملوث افراد بااثر تھے۔آج بھی بلوچستان کے جس واقعے پر ساری دنیا میں پاکستان، مسلمان، اسلام،اور بلوچوں کو مطعون کیا جارہا ہے۔ ان میں با اثر افراد ہیں۔ ان کی اپنی عدالتیں ہیں،اپنے جرگے ہیں، اپنے فیصلے ہیں۔ہماری سیاسی اشرافیہ کی یہ مجبوری ہے کہ وہ ان اقدامات پر خاموشی اختیار کرے، ظالموں سے سمجھوتہ کرے،مظلوموں کی زبان بند کرے۔ بلوچستان میں پیش آنے والے سانحے نے ہر دردمند پاکستانی کے دلوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس شرمناک واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ بلوچستان میں پانچ خواتین کو جس شرمناک انداز میں قتل کرکے غیرت کی سیاہ تاریخ رقم کی گئی ہے یہ لمحہ فکریہ اور المیہ ہے، بلوچستان کے شہر نصیرآباد میں سیاہ کاری کے الزام میں ’زندہ دفن‘ کی جانے والی دو لڑکیوں کی لاشیں قبرکشائی کے بعد نکال لی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق ان کے جسم پر گولیوں کے نشان ہیں اور انھیں کفن کے بغیر دفنایا گیا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نصیر آباد شبیر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ قبریں لڑکیوں کے آبائی گاو ¿ں بابا کوٹ سے دس کلومیٹر دور تھیں۔ ڈاکٹروں، پولیس اور مجسٹریٹ کی موجودگی میں قبر کشائی کی گئی ۔ جہاں سے دو لڑکیوں کی لاشیں ملی ہیں اور ان لاشوں پر گولیوں کے نشان تھے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں اور انھیں زندہ ہی دفن کردیا گیا تھا۔یہ کیسی قبائیلی روایات ہیں، یہ کونسے قوانین ہیں۔ کیا ہم اب بھی ایام جاہلیت میں ہیں۔

اسلام حرمت و تقدیس نسواں کی تعلیمات دیتا ہے، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺنے ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کی تعظیم کرنا سکھائی ہے۔ مخلوط حکومت میں شامل بی این پی کے سینیٹر اسراراللہ زہری نے قتل کے اس واقعہ کو بلوچ روایات قرار دے کر ان ہزاروں بلوچوں کی توہین کی ہے جو خواتین کا احترام کرتے ہیں۔ لڑکیوں کو بغیر کفن کے سادہ کپڑوں میں دفن کیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لڑکیوں کو سیاہ کاری کے الزام میں قتل کیا گیا ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات میں لاش کو کفن میں دفن نہیں کیا جاتا ہے۔ اس معاشرے میں آزاد ی اظہار کہاں ہے۔لوگ ایسی خبریں دیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔اور خبریں چھاپنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ان قبائیلی علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کی اموات سے کیا جاسکتا ہے۔بلوچستان سے آنے والی ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ بات سامنے آئی تھی کہ پانچ خواتین کو زندہ جلا کر دفن کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے نے بتایا کہ یہ پانچ خواتین نہیں تھیں بلکہ تین خواتین تھیں جنھیں قتل کیا گیا ہے۔ جن میں سے دو بدنصیب خواتین کی قبر کشائی کے بعد لاشیں نکالی گئی ہیں۔اسلام تو سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔اسلام نے انسانی جان کی حرمت قائم کی ہے۔ ۔ مجرم کو سزا دینے کا اختیار صرف عدالت رکھتی ہے۔ کوئی سردار، حاکم، پولس، ماورائے عدالت قتل نہیں کر سکتی ہے۔ لہذا اس قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے سزا دی جائے چاہے وہ کسی وزیر کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔

بلوچوں کو اور ان کے رسم رواج ہدف تنقید بنانے والوں کو جاننا چاہیے کہ بلوچ بہت باغیرت، باضمیر، قول کے پکے اور عورتوں کی عزت کرنے والے ہیں۔ ہر معاشرے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اور پاکستان میں اس سے بڑے بڑے واقعات ہوتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ ان کاموں کو اپنی روایا ت ہی بتاتے ہیں۔ سب لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب بلوچستان میں کیا ہونے والا ہے جو ایسے واقعات سب کو نظر آنے لگے؟بلوچستان اس وقت شعلہ جوالہ بنا ہوا ہے۔ اس کے لوگوں کی محرومیاں ہیں۔ان کے نوجوانوں نے بندوق اٹھا لی ہے۔پہاڑ پر جا نے والے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔

’اج اکھاں وارث شاہ نوں

کِتے قبراں وچوں بول

اک روئی سی دھی

توں لِکھ لِکھ مارے وین

اج لکھاں دھیاں روندیاں

تینوں وارث شاہ نوں کہن



کچرا چننے والے مزدور بچے



اتوار کی چھٹی کے دن صبح سویرے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں نے گیلری سے جھانک کر دیکھا تو دو بچے کھڑے تھے۔ © © ©”انکل کوئی کام ہے تو بتائیں“۔ صبح سویرے ایسا کوئی کام نہیں تھا۔ جو میں ان بچوں سے لے سکتا تھا۔ میں نے نفی میں سر ہلادیا۔ یہ بچے مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ غربت نے گھروں میں بچوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ روٹی مانگنے یا کمانے کے لیے اکثر گھروں سے بچے صبح سویرے نکل جاتے ہیں۔ کراچی میںلاکھوںبچے محنت کشی کرتے ہیں۔ ان محنت کش بچوں میں ”کچرا چننے والے بچے بھی شامل ہیں۔ کراچی میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیرے لگے ہوئے ہیں۔ مسجدوں کے آس پاس پارکوں کے اطراف میں ، ہر گلی میں یہ بچے کچرے سے کار آمد اشیاءتلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ کچرے میں رہنا اور اس کچرے سے چیزیں چننا ہی ان کا روز گار ہے جو انہیں دو وقت کی روٹی مہیا کرتا ہے۔ کچرا چننے والے معصوم بچے اپنے ننھے سے وجود پر کچرے کا تھیلا اٹھائے، ننگے پیر، میلے پھٹے کپڑے پہنے کچرا کنڈیوں میں سر گرداں ہوتے ہیں ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کچرے سے ان کے کام کی کوئی چیز نکل آئے چاہئے غلاظت میں جانا پڑے، چاہے پیروں میں کانچچبے۔ پیر زخمی ہوں تب بھی اپنے وجود کو کچرے کے بوجھ تلے دبائے پھرتے ہیں۔ان میں اکثر بچوں کی عمر یں 8تا 10سال ہوتی ہیں۔ کچرا چننے والے ان بچوں میں اکثریت مسلمان بچوں کی ہے، بالخصوص افغان بچے یہ کام کرتے زیادہ نظر آتے ہیں کیونکہ ان بچوں کی ضمانت دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا اس لئے کوئی بھی دکاندار انہیں اپنی دکان پر رکھنے کو تیار نہیں ہوتا لہذا یہ بچے کم عمری سے ہی کچرا چننے کی محنت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے اپنی بساط سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کراچی میں 30ہزار سے 35ہزار ایسے افراد ہیں جو کوڑے سے کار آمد اشیا چنتے ہیں۔ کچرا چننے والے بچوں کی اکثریت خانہ بدوشی کی زندگی گزارتی ہے ان میں اکثریت چھوٹے علاقوں سے بڑے علاقوں کی جانب رخ کرتے ہیں۔ یہ بچے کچرے سے لوہا، شیشہ ، پلاسٹک ، گتہ جمع کرتے ہیں اور کباڑی کے پاس بیچ آتے ہیں اگر علاقے میں کباڑی نہ ہو تو ایک جگہ بڑے تھیلوں میں کچرا جمع کر کے شام کو سوزو کی کرائے پر لے کر کباڑی کو یہ کچرا بیچ آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس قدر محنت کے باوجود ان بچوں کو ان کا جائز حق نہیں ملتا انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کہاں ان کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے کیونکہ کباڑی ان بچوں کو بہت کم پیسے دیتا ہے اکثر کباڑیوں کے ترازو بھی صحیح نہیں ہوتے اسی طرح لوہے کے ٹکڑے بھی انتہائی کم دام میں لئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ معصوم بچے کچرے سے دھماکہ خیز، نقصان دہ اشیاءبھی اٹھالیتے ہیں۔ جس سے ان کاجانی نقصان ہو جاتا ہے۔ ان بچوں کی صحت پر سب سے زیادہ مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گندگی میں رہنے کی وجہ سے عموما یہ بچے بیمار رہتے ہیں اس کے علاوہ نہاتے بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے خارش، دانے ان بچوں کو علاج معالجہ کی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ کھانا مانگ کر کھاتے ہیں۔ کپڑے اور جوتے بھی مانگ کر ہی پہنتے ہیں یہ بچے صحت مند تفریح سے بھی محروم رہتے ہیں۔ کچرا چننے والے بچوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ بچے باقاعدہ کوئی ہنر نہیں سیکھ پاتے اس لئے عموما نوجوانی کے دور میں انہیں بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عمر کے اس دورمیں بھی یہ کچرا اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں کارخانوں یا ورکشاپ میں کام کرنے والے بچے تمام تر تلخ حالات کے باوجود آہستہ آہستہ کام سیکھ جاتے ہیں۔ اس طرح یہ سیکھا ہوا ہنر نوجوانی کے دور میں بھی ان بچوں کے کام آتا ہے۔

محنت کش بچوں کے ساتھ ساتھ میں شہروں میںتیزی سے آوارہ بچوں کا بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان آوارہ بچوں کی اکثریت منشیات کے عادی ہوتے ہیں اور چھوٹے موٹے جرائم کا بھی ارتکاب کرتے رہتے ہیں کہ ایک سروے کے مطابق 5سے 18سال تک کے 53فیصد بچے منشیات کے عادی ہوتے ہیں۔ بچے جن منشیات کے عادی ہوتے ہیں ان میں گٹکا، ڈائنرپام، راکٹ کیپسول مینڈریکس ، کچی شراب، بھنگ، افیون، صمد بونڈ اور دیگرنشہ آوار اشیاءشامل ہیں۔ بعض اس کی روشنی میں پتہ چلا کہ برے ماحول سخت محنت اور کام کی زیادتی سے پیدا شدہ تھکن ، گھر کا سخت ترین اذیت ناک ماحول سے فرار اختیار کرکے انہوں نے منشیات کی دنیا میں پناہ لی۔ جب کہ بعض بچوں نے بتایا کہ انہوں نے محض دوستی ، یاری اور دوستوں کی ترغیب پرنشہ آور اشیاءاستعمال کرنے کا آغاز کیا۔ ممنوعہ منشیات کے حصول کے بارے میں بتایا گیا کہ چرس، افیون، کچی شراب، راکٹ اور مینڈریکس کی گولیاں شہروں اور دیہات میں قائم منشیات کے اڈوں سے مل جاتی ہیں۔ اڈے کو قانون نافذ کرنے والے بعض افسران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ملک میں ہرروز نت نئے منصوبوں کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔ لکن ان بچوں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون ہے نہ ہی کوئی منصوبہ کیا ہمارا مستقبل یونہی منشیات اور کچرے کے ڈھیرکی نظر ہوجائے گی۔

ٹھ دردمنداں دیا دردیا



آئے گی۔ نہیں آئے گی



کراچی کے عوام کی اکثریت آجکل راتوں کو ایک کھیل کھیلتی ہے۔ جس میں گھر کے تمام افراد شریک ہوتے ہیں ۔ اس کھیل میں ایک بچہ کہتا ہے ۔ آئے گی۔ دوسرا کہتا ہے۔ نہیں آئے گی۔ تیسرا کہتا ہے۔ آئے گی ضرور۔یہ کھیل ہر گھر ہر گلی ہر محلے میں کھیلا جاتا ہے۔یوں تو یہ کھیل رات دن کھیلا جاتا ہے۔ لیکن راتوں کو اس کھیل کی شدت ذرا زیادہ ہوتی ہے۔گرمیوں میں اس کھیل کی شدت میں اس قدر حدت آجاتی ہے۔ کہ گلی محلے کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور مزید حدت پھیلانے کے لیے سڑکوں پر پہلے ٹا ئر اور پھر گاڑیاں جلاتے ہیں۔ جو لوگ اس کی ہمت نہیں رکھتے وہ دل جلاتے ہیں۔اور ٓانسو بہاتے ہیں۔گزشتہ دس سال تو ہم سوتے رہے۔ اس لیے کالے پیلے آشا بھاشا ڈیم بنانے کے منصوبے بناتے رہے۔ اب ہم نے ڈیم بنانے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ اب ڈیم نہیں بن سکتے۔ اس لیے ہم نے گھڑیوں کو آگے پیچھے کرنے کا سلسلسہ شروع کردیا ہے۔اس لیے کل سے ہمارے نظام الا وقات تبدیل ہوجائیں گے۔کراچی والوں کو بجلی کے اس قدر جھٹکے لگیں ہیں کہ اب وہ اس کے جانے کے عادی ہوگئے ہیں۔بجلی کے بلوں کا اب سارا بوجھ ان صارفین کو سہنا پڑ رہا ہے۔ جو بل کی ادائیگی باقاعدگی سے کر تے ہیں ۔ ان کے ملازمین عیش میں ہیں کہ انہیں بجلی کے بل ادا نہیں کرنے پڑتے۔کنڈے والے بھی عیش میں ہیں کہ انھیں کو ئی بل ادا نہین کرنا پڑ تا۔حال ہی میں ایک رپوٹ آئی ہے جس میں بتا یا گیا ہے کہ کے ای ایس سی میں ہونے کے کیا کیا فائدے ہیں ۔ کے ایس سی کے 10ہزار سے زائد مستقل ملازمین سالانہ 33کروڑ29لاکھ روپے سے زائد مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جس کا بوجھ ادارے کو مالی مشکالات کے باوجود برداشت کر نا پڑرہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مجموعی ملازمین کی تعداد 10ہزار سے زائد ہے، کے ایس سی کے قابل اعتماد ذرائع کے مطابق ادارے کی جانب سے مستقل آفیسرز اسٹاف کو ماہانہ مفت بجلی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔جس کے تحت نان آفیسر کیڈر کے اسٹاف کو 4سو یونٹس تک مفت استعمال کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جبکہ آفیسرز کیڈر کے مستقل اسٹاف کو 6سو 9سو یونٹس ماہانہ کی سہولت حاصل ہے۔ ایس سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محتاط انداز ے کے مطابق ادارے کے 10ہزار سے زائد مستقل ملازمین ماہانہ 2کروڑ 77لاکھ 48ہزار روپے سے زائد کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جس کا تخمیہ 6.05روپے فی یونٹ کے اوسط سے لگایا گیا ہے۔ اس طرح کے ای ایس سی کے ملازمین ماہانہ بنیاد پر 42لاکھ 69ہزار یونٹس جبکہ سالانہ بنیاد پر 5کروڑ 12لاکھ28ہزار یونٹس استعمال کرتے ہیں۔ ان سہولیات کے بعد یقینا آپ کا بھی دل چاہتا ہوگا کہ ملازمت ہو تو ایسی ہو جس میں آم کے ٓام اور گٹھلیوں کے دام بھی ملیں۔جنگ نہیں ہوگی

عطا محمد تبسم



پاکستان نے جنگ نہ ہونے کے لئے کیا کیا جتن نہییں کئے۔ ہم جنگ سے بچنے کے لئے اپنے شہریوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری کی، معصوم بچوں اور بچیوں کو شہید کیا۔ ملا ضعیف جسے سفارت کار کو امریکوں کے حوالے کیا۔ ڈاکٹر عافیہ اور ان کے بچوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ فاٹا اور سرحد میں اپنے شہریوں پر بمباری کی، باجوڑ اور سوات مٹہ اور قبائل میں آپریشن کیا۔سرحد میں تین لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ہزاروں شہریوں کو دہشت گردی کے شبے میں ہلاک کیا۔ صرف اس لئے کہ ہم جنگ سے بچنا چاہتے تھے۔ہم یہ چاہتے تھے کہ ہم پر دہشت گردی کا الزام نہ آئے۔اس لئے جب اقوام متحدہ کی قرار داد کی منظور ہوئی تو ہم نے جماعت الدعوہ جیسی جماعت پر پابندی عائد کرنے میں لمحوں کی بھی تاخیر نہیں کی نہ صرف جماعت الدعوہ پر پابندی عائد کر دی گئی بلکہ اس تنظیم کے سرکردہ رہنماﺅں کو نظر بند یا گرفتار کر لیا گیا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ جماعت الدعوہ اس ملک میں رفاہی کام کررہی ہے۔پاکستان سے جہادی کلچر کا خاتمہ خالصتاََ امریکی اور بھارتی منشاءہے۔ یہ کام پاکستان انتہائی دیانتداری سے سر انجام دیا ہے۔ اجمل قصاب کے پاکستانی شہری ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ہے ایک گھناونی سازش ہے۔ یہ پاک بھارت تنازعے کو ڈیزائن کرنے والوں کو خوب معلوم ہے کہ اجمل قصاب کا تعلق کس دیس ہے۔فرض کر لیا جائے کہ اجمل قصاب واقعی پاکستانی شہری ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اجمل واقعی 26نومبر کو ممبئی حملوں کے دوران گرفتار ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے اجمل قصاب پہلے سے بھارت کی قید میں ہواور اسے جان بوجھ کر ممبئی حملوں میں ملوث دکھا دیا گیا ہو۔تمام ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ایسے امورپر مہارت رکھتی ہیں ۔ پھر بھارتی ایجنسی را تو ان معاملات میں کمال رکھتی ہے۔

بھارتی پولیس ایسے ایسے کمالات کا مظاہرہ کر جاتی ہے کہ رائی پہاڑ اور پہاڑ رائی کی شکل اختیار کر جاتے ہیں اجمل قصاب کو پاکستانی ثابت کرنا تو خیر کوئی قصہ ہی نہیں۔ 26نومبر کے واقعہ سے بھارتی انتہا پسند تنظیموں اور بھارت میں بسنے والوں یہودیوں کو بہت سے فواہد حاصل ہوئے ہیں۔یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اے ٹی ایس کے چیف کر کرے اور اس کے دو ساتھی آفیسراشوک کامٹے اوروجے سالسکر ہندو انتہا پسند تنظیموں اور ممبئی میں قائم یہودی مرکز”نریمان ہاﺅس”کے مابین تعلقات کو ثابت کرنے کیلئے کام کر رہے تھے۔اسی طرح انہوں نے مالیگاﺅں دھماکوں کی تفتیش میں یہ ثابت کیا تھا کہ یہ دھماکے مسلمانوں یا پاکستانیوں نے نہیں بلکہ ہندو انتہا پسندوں نے کئے تھے۔کر کرے نے مالیگاﺅں دھماکوں میں ایک فوجی کرنل کو بھی گرفتار کیا تھا۔کر کرے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ممبئی میں موجود یہودی مرکز”نریمان ہاﺅس”ہندو انتہا پسندوں کو اس نوع کی کاروائیوں کیلئے مالی اعانت فراہم کرتا ہے۔کرکرے نے ایک موقعہ پر یہ کہا تھا کہ ”نریمان ہاﺅس”اور ہندو انتہا پسندوں کے مابین گہرے مراسم کے ٹھوس شواہد ملے ہیں ”۔کرکرے کی تفتیش کے نتیجے میںنریندر مودی اور ایل کے ایڈوانی جیسےسیاستدان بھی مجرم کی حیثیت سے سامنے آنے والے تھے۔یہی وجہ تھی کہ تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں کر کرے کے خلاف ہو گئی تھیں اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں۔ 26نومبر کے واقعات کی آڑ میں کر کرے اور اس کے دو ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا اور اس کا الزام اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں پر عائد کر دیا گیا۔ بھارت کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور عبد الرحمان انتولے کہتے ہیں کہ کرکرے اور اس کے ساتھیوں کے قتل کے تحقیقات ہونی چاہئیں ان کا مطالبہ درست ہے۔ مالیگاﺅں کے رہنماعبد الحمید ازہری نے ٹھیک کہاہے کہ کرکرے کی موت میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے۔26نومبرکے واقعہ کا بغور جائزہ لیا جائے تو اسرائیل ،امریکہ اور بھارت نے کر کرے کو راہ سے ہٹانے سمیت بہت سے فوائد حاصل کئے ہیں۔

پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کیلئے پاکستان پر دباﺅ بڑھایا گیا۔مقبوضہ کشمیر میںجاری تحریک آزادی کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا۔ بھارتی حکومت نے پوٹا اور ٹاڈا کی طرز پر دہشت گردی کے سد باب کیلئے ایک نیا قانون بنا ڈالا جس کے تحت کسی بھی شخص کو چھ ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے اس قانون کی مدد سے بھارتی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی جائے گی ۔ہمیں جنگ کی دھمیکیاں دی جارہی ہیں۔ بھارتی سورما پاکستانی قوم کو خوب جا نتے ہیں۔ کہ یہ قوم جذبہ شہادت دل میں رکھتی ہے۔ موت کی دھمکیوں سے ہم نہیں ڈرنے والے۔ موت کیا زندگی نہیںہوتی۔

حقوق انسانی



انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں بلا جواز گرفتار یوں۔ جبری گمشدگیوں ، غیر قانونی ہلاکتوں اور خواتین اور اقلیتیوں کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال دو ہزار چھ میں 446افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جبکہ 82کی سزا موت پر علمدرآمد کیا گیا ۔ پھانسی کی سزاﺅں پر علمدر آمد کے واقعات زیادہ تر صوبہ پنجاب میں ہوئے۔ پھانسی پر لٹکانے جانے والوں میں ایک کم عمر قیدی بھی شامل تھا۔ ایمنسٹی کے مطابق جہاں بلوچستان میں قوم پرستوں اور فوج کے درمیان لڑائی تیز ہوتی وہیں۔ حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں میں مقامی طالبان اور قبائلی عمائدین کے درمیان ایک امن معاہدے پر اتفاق کیا۔ بلوچ اور سندھی قوم پرستوں ، صحافیوں اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے کے شبہہ میں کئی لوگوں کو غائب کر دیا گیا۔ لواحقین نے ان کی بازیابی کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا تو حکومت اور سرکاری خفیہ اداروں کی طرف سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ تاہم لاپتہ افراد میں سے کچھ نے نمودار ہونے پر حکومتی اداروں پر تشدد اور حراست میں رکھنے کا الزام لگایا گیا۔ لاپتہ افراد کے بارے میںجاری کی گئی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو صدر پرویز مشرف نے فضول قرار دیا تھا۔ غیر قانونی ہلاکتوں کے ضمن میں وزیرستان کے مقتول صحافی حیات اللہ خان کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان کے اغواءاور ہلاکتوں کے واقعہ کے حوالے سے سرکاری سطح پر کی گئی تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ سال دو ہزار چھ میںجنوری اور اکتوبر میں پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں بچوں سمیت بالترتیب اٹھارہ اور بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ حکومت نے ہلاک ہونے والوں کو دہشت گرد تو قرار دیا لیکن انہیں گرفتار کرنے یا ان کی کار وائیاں روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہ کیے۔ پاکستان اہلکاروں نے دعویٰ کای کہ فضائی حملے امریکہ نے نہیں بلکہ پاکستانی افواج نے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کیے، لیکن عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹرز ہم گرائے جانے کے بیس منٹ بعد فضاءمیں نظر آئے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجائتوں اور جرگوں کے ذریعے خواتین کے حقوق غصب کیے جاتے رہے۔ صوبہ سرحد کے اضلاع مردان اور صوابی میں سال دو ہزار چھ کے وسط میں صرف تین ماہ کے دوران ساٹھ خواتین کو تاوان کے طور پر فریق مخالف کے حوالے کیا گیا۔ ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے خواتین کو قتل ، دہشت گردی اور بد عنوانی کے علاوہ دوسرے تمام مقدمات میں ضمانت کا حق دیا گیا، جس کے نتیجے میں زناءکے الزام میں قید تیرہ سو خواتین کو رہائی نصیب ہوئی۔ ایمنسٹی کے مطابق بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زلزہ متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے کئی منصوبے و سائل کی کمیابی اور انتظامی مسائل کے باعث شروع نہ ہو سکے۔ اکتوبر سال دو ہزار پانچ کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 73000افراد ہلاک جبکہ پینتیس لاکھ بے گھر ہوئے۔



بغداد کے نیشنل میوزیم کی تباہی

نمرود کے خزانے کی نمائش



5برس قبل ساری دنیا اس وقت حیرت میں ڈوب گئی تھی جب بغداد کے تاریخی نیشنل میوزیم کے لوٹنے کی خبر آئی تھی۔ عراق کا نیشنل میوزیم صدیوں پرانے ثقافتی اور تہذیبی ورثے کا امین تھا۔ جہاں ہزاروں سال قدیم نوادرات محفوظ تھے۔ عراق کی سرزمین جہاں الفاظ اور تحریر نے جنم لیا۔ جہاں دنیا کا پہلا شہر آباد ہوا یہاں سب سے پہلے قدیم تہذیب میسو پو ٹیمیا نے اپنی ابتداءکی تھی۔ بغداد نیشنل میوزیم کی تباہی اب بھی ساری دنیا کے سامنے ایک سوال ہے۔ اس کی منصوبہ سازی کس نے کی اور کن لوگوں نے اسے لوٹا۔ دو دن تک اس تاریخی میوزیم میںلوٹ مار ہو تی رہی اور یہاں اتحادی فوجوں نے کوئی کاروائی نہیں کی۔

صدام حسین حکومت کے خاتمہ کے بعد قومی عجائب گھر سے لوٹے گئے نوادرات میں سے سات سو کے قریب نوادرات گزشتہ دنوں ایک تقریب کے دوران عجائب گھر کو لوٹائے دیئے گئے۔ مٹی کے برتنوں سے لے کو سونے کے نادر زیورات شام کی حکومت نے عراق کو واپس کیے جو اس نے غیر قانونی کاروبار کرنے والوں سے برآمد کئے تھے۔ عراق پر سن دو ہزار تین کے امریکی حملے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی افرا تفری کے دوران عجائب گھر کو لوٹ لیا گیا تھا۔ اور عجائب گھر سے بہت سے تاریخی نوادرات چرا لیئے گئے تھے۔ اس لوٹ مار میں کم از کم ایک لاکھ ستر ہزار نوادرت تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ بہت سے نوادرات کو باز یاب کر ا لیا گیا ہے لیکن بہت سوں کا اب بھی کچھ پتہ نہیں۔

لوٹائے گئے لاکھوں ڈالر مالیت کے یہ نوادرات سترہ کریٹوں میں بغداد بذریعہ ہوائی جہاز پہنچائے گئے۔ جس کے بعد اسے شامی اور عراقی سرکاری حکام کے لئے کھولا گیا تاہم میوزیم عام لوگوں کے لیے بند رہا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار تین کے بعد یہ لوٹائے گئے نوادرات کی سب سے بڑی کھیپ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ خطے کے باقی ممالک بھی شام کے اس اقدام کی پیروی کریںگے۔ عراق میں نگران وزیر ثقافت و آثار قدیمہ، محمد عباس العریبی کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی اردن کا دورہ کریں گے تاکہ وہاں کے حکام کو ایک سو پچاس سے زائد نوادرات جلد از جلد لوٹانے کی ترغیب دے سکیں۔



عراق پر امریکی حملے سے قبل یہ قومی عجائب گھر دنیا میں تاریخی نوادرات کا ایک بہت بڑا خزینہ تھا۔ اور اس کا ”اشوریہ ہال“ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جہاں اس دور کے شاہی محل کی پتھر کی سلیں دیواروں کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی چہروں والے دو دیو قامت پروں والے بھینسے اس ہال میں استعداد ہیں۔ عراقی نیشنل میوزیم سے لوٹ مار کرنے والوں نے ہزاروں سال پرانے ڈیڑھ لاکھ سے زائد نوادر چوری یا تباہ کر دیے۔ حالات کی سنگین کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ یو نیسکو کے سربراہ کوئی چیر و ماتسورا کو امریکی اور برطانوی افواج سے یہ کہنا پڑا کہ وہ عراق کے تہذیبی ورثے اور آثار قدیمہ کا اس لا قانونیت کے دور میں تحفظ کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔

ہزاروں سال پہلے کی میسوپوٹیمیا تہذیب کے نوادرات پلک جھپتے ہی بغداد کے تاریخی میوزیم سے چوری نے کے بعد میوزیم کی ڈپٹی ڈائریکٹر نبہال امین خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو میوزیم کی تباہی کی تفصیل تباتے ہوئے رو پڑیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ میوزیم سے ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب نوادرات چوری یا تباہ کیے جا چکے ہیں۔ بغداد کے میوزیم میں بابل اور نینوا کے تاریخی نوادرات، سو میرین اور اسیرین کے مجسمے اور پانچ ہزار سال پہلے انسانی تاریخ کی تحریریں موجود تھیں۔ یہ تحریرں دو ہزار پانچ سو سال پہلے میسو پوٹیمیا کے اسکولوں میں اورک اور سو میرین رسم الخط میں لکھی گئیں تھیں۔ اس طرح کی تحریریں دنیا میں اور کہیں موجود نہیں ہیں۔

میوزیم کو انیس سو اکیانوے کی خلیجی جنگ کے دوران بند کر دیا گیا تھا ۔اور چھ ماہ پہلے ہی اسے دوبارہ کھولا گیا تھا۔ انیس سو اکیانوے کی جنگ میں بھی عراق کے تہذیبی ورثے اور تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا تھا۔ لیکن وہ بہت معمولی نوعیت کا تھا۔ مثلا ار کے دو ہزار سال قبل مسیح کے ایک تاریخی مقام میں شیل گرے جس سے نایاب اینٹوں کے کا م کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح موصل میں دسویں صدی کا ایک تاریخی کلیسا جزوی طور پر تباہ ہوا۔

انیس سواکیانوے کے بعد لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں سے تاریخی مقامات اور قومی میوزیم کے عملے میں کمی کر دی گئی تھی۔ پہلے بغداد کے میوزیم کے عملے میں اچانک کمی کر دی گئی تھی۔ پہلے بغداد کے میوزیم کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں مسلح گارڈ ہوتے تھے ۔ لیکن سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ فتح سے سر شار امریکی فوج نے اس ورثے کا تحفظ کیوں نہیں کیا؟

نہ ہموراہی کا عراق رہانہ صدام حسین کا ۔ لیکن عراق کے تاریخی ورثے میں ہونے والی لوٹ مار سے خطرہ یہ ہے کہ دنیا ہزاروں سال سے محفوظ ثقافتی ورثے سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے اور تاریخ سے سیکھنے کے لئے بھی کچھ نہ رہے۔ عجائب گھر کا یہ ہال سن دو ہزار میں ہونے والی لوٹ مار میں محفوظ رہا تھا کیونکہ اس ہال میں موجود پتھر کے نوادارت اس قدر وزنی اور بڑے تھے کہ انہیں اٹھا کر لیے جاناممکن نہیں تھا۔

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے ثقافت، یونیسکو نے کہا تھا کہ بغداد کے میوزیم سے صدام حکومت کے خاتمے کے وقت عجائب گھر سے چوری ہونے

والے تقریبا سات ہزار تاریخی نوادرات کا ابھی تک پتہ نہیں لگایا جا سکا۔

ا



ن میں تقریبا پچاس نوادرات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اور نمیبیا کا شیر، اور سمیراین بادشاہ، جو سونے اور ہاتھی دانت کی تختیوں پر بنے ہوئے ہیں، بھی اس میں شامل ہیں۔ دارالحکومت بغداد میں واقع انٹرنیشنل میوزیم نے مصر کے قدیم بادشاہ نمرود کے ذخائر کی مختصر مدت کے لیے نمائش کا اہتمام بھی کیا تھا۔ عراق پر جنگ کے بعد وہاں ہونے والی لوٹ مار کے واقعات ختم ہونے کے بعدیہ پہلا موقعہ تھی کہ عجائب گھر کا کچھ حصہ نمائش کی غرض سے لوگوں کے لیے کھولا گیا اور ملک کی ممتاز شخصیات اور مشہور صحافیوں کو محض تین گھنٹے کے لیے نمرود کے نوادرات دیکھنے کی اجازت دی گئی۔

شایدعراق میں تعینات امریکی انتظامیہ دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ انیس سو اسی کے عشرے میں دریافت کیے گئے ذخائر اب تک محفوظ ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ نمرود کے جواہرات کے ذخائر اس صدی میں دریافت کیے گئے سب سے قیمتی نوادرات ہیں۔

انیس سو نوے میں ان نوادرات کو نمائش کے لیے پہلی بار صدام حکومت کے ارکان کے لیے پیش کیا گیا تھا اور اب نمرود کے خزانے کی گزشتہ تین ہزار برس میں دوسری نمائش ہے۔ بغداد کے بین الاقوامی عجائب گھر کے ناظم تحقیق (ڈائریکٹر ریسرچ) ڈونی جارج کا کہنا ہے کہ اس بین الاقوامی عجائب گھر میں ہونے والی لوٹ مار صرف عراقی عوام کانقصان نہیں بلکہ پوری انسانیت کا نقصان ہے۔ لندن میں دنیا کے اعلی ترین عجائب گھروں کے مندوبین کے ایک مشترکہ اجلاس کے دوران ڈاکٹر جارج نے کہاکہ یہ اس صدی کا سب سے بڑاجرم ہے۔ برطانوی عجائب گھر میں ہونے والے اس اجلاس کے شرکاءکو بغداد کے بین الاقوامی عجائب گھر میں ہونے والی لوٹ مار میں کم از کم ایک لاکھ ستر ہزار نوادرات تباہ وبرباد ہو گئے ہیں یا پھر لوٹ لئے گئے ہیں۔ لندن میں منعقدہ اس اجلاس کا مقصد یہ ہے کہ طے کیا جائے کے کس طرح بین الاقوامی برادری عراق کے اس لٹے ہوئے یا تباہ و برباد ہوجانے والے ورثہ کی بقا، حفاظت و بحالی کے لئے کیا کر سکتی ہے۔

ان گم ، لاپتہ یا پھر لٹ جانے والی نوادرات میں پانچ ہزار برس پرانا سنگ مرمر کا ایک گلدان اور کسی بادشاہ کا ایک بے سر کا مجسمہ بھی شامل ہیں۔ ایک آسیر یائی بادشاہ کا ایک اور بات جو اس عجائب گھر میں واپس لایا گیا ہے وہ بھی اب ٹکٹرے ٹکڑے ہو چکاہے۔ ان اعلیٰ ترین بین الاقوامی عجائب گھروں نے امریکہ سے کہا ہے کہ عراقی سرحدوں کو محفوظ بنائے تاکہ ان لٹے ہوئے عراقی نوادرت کو بیرون ملک منتقل یا برآمدنہ کیا جا سکے۔ ان بین الاقوامی عجائب گھروں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی کہا ہے کہ اس لٹے ہوئے عراقی ثقافتی ورثہ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔ ڈاکٹر جارج کا کہنا ہے کہ ان نوادرات میں سے کئی تو صحافیوں کے ہاتھوں ملک سے باہر جا چکے ہیں اور سرحدیں امریکی دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔ برطانوی عجائب گھر کے ڈاکٹر جان کرٹس حال ہی میں بغداد میں واقع عراق کے بین الاقوامی عجائب گھر کے دورے سے واپس لوٹے ہیں۔ انہوں نے بذات خود عراقی لٹیروں کے ہاتھوں اس عجائب گھرکی تباہی و بربادی کا جائزہ لیا ہے۔ برطانوی عجائب گھر، جو روایتی طور پر عراق سے باہر نوادرات کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھتا ہے نے پہلے ہی محاصرہ میں گھر ے پانے عراقی ہم منصبوں کو ماہرانہ معاونت کی پیشکش کی ہے۔



ایران



آیت اللہ خمینی نے شاہ ایران سے جب اسلامی نظام کا مطالبہ کیا تواس وقت ان کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے آپ عوام کی حمایت کے بغیر یہ نظام کیسے قائم کر سکیں؟ آیت اللہ خمینی نے جواب دیا آج ماﺅں کی گود میں جو بچے ہیں یہ میری فوج ہیں اوریہی بڑے ہو کر ایران میں اسلامی نظام نافذ کریں گے انہی آیت اللہ خمینی کو جلا وطن کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنے جلا وطنی کے دن پہلے عراق اور پھر فرانس میں گزارے، اس دوران وہ مسلسل باہر سے بیٹھ کر اسلامی نظام لانے کی کوششوں میں مشغول رہے ان کی بات بالآخر ثابت ہوئی۔ 16برس جلاوطنی کے بعد جب وہ ایران پہنچے تو لاکھوں افراد انہیں خوش آمدید کرنے ایئر پورٹ پہنچے اور ان میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی جنہوں نے جوش و جذبے میں آکر آیت اللہ خمینی کی کار کو اپنے کاندھوں پر اٹھالیا ان نوجوانوں میں محمود احمدنژاد بھی تھے۔ جو بعد میں بھی اسلامی انقلاب کو کامیابی تک پہنچانے کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ جب امریکن سفارتخانے کے 52افراد کویر غمال بنایا گیا تو اس وقت بھی وہ اس گروپ میں اہم ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔ ایران کا امریکا سے یہ مطالبہ تھا کہ شاہ اور امریکن اثاثوں کو واپس کیا جائے444دن گزرنے کے بعد امریکا ایران کو 567ملین ڈالر کے اثاثے دینے پر رضا مند ہوا اس عرصے کے دوران شاہ ایران مصر میں گلے کے کینسر کی وجہ سے وفات پاگئے یرغمالیوں نے امریکا پہنچنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ان کے ساتھ اچھا برتاﺅ کیا گیا اور یہ بات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ایران اور عراق جنگ چھڑ گئی جو 8سال تک جارہی رہی اس جنگ میں مسلمانوں کا بڑا بھاری جانی نقصان ہوا، 1ملین معصوم افراد کی جانیں امریکی سازش کی نذر ہوگئیں۔ یہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی پوری آزادی ہے ایران میں 61فیصد لڑکیاں یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ تقریبا4ملین ایرنی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، 3ملین سے زیادہ گھروں میں سیٹلائٹ ٹی وی موجود ہے۔ جس میں Voice of Amercia، CNN ,BBC.کے علاوہ 700سے زیادہ دوسرے چینلز دیکھے جاتے ہیں ۔ 250000ایرانی BBCریڈیو سنتے ہیں ایران کے سب سے مشہور اخبار کو سرکولیشن 450000سے زیادہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ98فیصد ایرانی پڑھے لکھے ہیں، ایک گھر میں 4سے 6افراد رہتے ہیں۔ محمود احمد ی نژاد نے اگر چہ غریب گھرانے میں آنکھیں کھولیں لوہار کا بیٹا ہونے کے ناطے انہیں معلوم ہے کہ بھٹی سے نکلے ہوئے لوہے کو کس وقت چو ٹ مارنی چاہئے تاکہ وہ مرضی کے مطابق مڑ سکے انہوں نے تہران میں جب میئر کا انتخاب جیتا تو اس وقت فدا امت پسند ارکان کے علاوہ ان کے قریبی دوستوں نے ان کی مالی امداد کی۔ اسی طرح صدارتی انتخاب کی مہم میں بھی ان کا کوئی پیسہ نہ لگا۔ ایمانداری، اصول پسندی، اور سادہ زندگی گزارنا ان کی پہچان بن گئی ہے، میبر شپ کے دوران سرکاری رہائش سے دوری اپنائی اور ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہے۔ یہ سب کچھ محمود احمد نژاد نے ایرانی انقلاب کے بانی کے قریب رہنے کی وجہ ہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کے فورا بعد اپنے رہبر اور رہنما آیت اللہ خمینی کی قبر پر حاضری دینے گئے اور ان کو سلامی دینے کے ساتھ ساتھ ایران میں دی جانیوالی انسانی جانوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے کی یقین دہانی کرائی۔ کسی شخص کے اعلیٰ ظرف ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مرنے والوں کی قبر پر منتخب ہونے کے فورا بعد کیا۔ انصاف کی امید



تحریر: عطا محمد تبسم



1977ءمیں قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفے جاری تھی۔ جماعت اسلامی حیدرآباد کا دفتر قومی اتحاد کا مرکز تھا دن بھر کے ہنگاموں کے بعد کارکنوں کی ایک بڑی تعداد دفتر میں جمع رہتی تھی۔ اس دفترمیں ایک صاحب پرانے کپڑوں او رمیلی شیروانی اورٹوپی ملبوس میں اکثر ملتے تھے۔ بیمار اور کمزور ہونے کے باوجود ان کی قوت ارادی بڑی زبردست تھی۔ رات گئے باتیں کرتے کرتے اچانک ان کی آواز بلند ہوتی اور وہ پوچھتے کیا ہوا ہم انھیں کہنے مولانا کوئی خاص بات نہیں آپ آرام کیجئے۔ یہ مولانا عبدالقدوس بہاری تھے۔ جنہوں نے بہارکے فسادات میں اس قدر کا م کیا تھا۔ کہ مسلم لیگ والوں نے بہاری ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔ جسارت کے زمانے میں مولانا عبدالقدوس بہاری اکثر سرشام دفتر آجاتے ۔ وہ کسی نے کسی قومی مسلئے پر ہائی کورٹ میں درخواست لیے جاتے اوردیکھتے ہی دیکھتے ان کی درخواست اخبارات کے صضحہ اول کی زینت بن جاتی ۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے تن تنہا ہزاروں مقدمات لڑے اور عوام کے حق میں فیصلے کرائے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد اب کراچی میں کوئی ایسا نام نہیں رہا۔ جو عوامی مفادات میں عدالت میں جا کھڑا ہو اور عوام کے لیے فیصلے کرائے۔ مولانا عبدالقدوس بہاری کی تجویز تھی کہ حکومت کراچی اور حیدرآباد کے درمیان نئے شہر بسائے۔ تاکہ ایک طرف تو لوگوں کو رہائشی سہولت حاصل ہو اور دوسری جانب کراچی اور حیدرآباد کا درمیانی فاصلہ بھی کم ہو۔ سپر ہائی کے اطراف شہر بسانے کی آرزوں مولانا عبدالقدوس بہاری کے جیتے جی پوری نہ ہوسکی۔ انھوں نے وقت اور مسترد کہ املاک کے سینکڑوں مقدمے لڑے لیکن اپنے لیے نہ کوئی مکان لیا نہ ہی کوئی جائیداد بنائی۔ انکے بعد جس نام نے عدالتوں اور عوام میں اس حوالے سے شہرت پائی۔ وہ ایم ڈی طاہر ایڈوکیٹ ہیں۔ جو گذشتہ دنوں خالق حقیقی سے جا ملے۔ جنہوں نے عوامی مسائل پر جارہ جوئی سے شہرت پائی۔ ایم ڈی طاہر کو عدالت کے بارے میں نامناسب اور تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرنے پرچھ ماہ قید کی سزا بھی سنائی گئی۔ بعد میں سپریم کورٹ کے جسٹس منیر اے شیخ نے شخصی ضمانت پر ایم ڈی طاہر کی سزا معطل کرکے ان کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ ۔ ایم ڈی طاہر ایڈوکیٹ اپنی وکالت کے ابتدائی دنوں میں مختلف سیاسی اور سماجی مسائل پر شدید احتجاج کرتے رہے جس کی وجہ سے ان کو جیل بھی جانا پڑا تاہم بعد میں انہوں نے احتجاج کے بجائے ان مسائل کے حل کے لیے اعلی عدالتوں میں دارسی کے لیے آئینی درخواستیں دائر کرنا شروع کر دیں۔ مرحوم نے سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی جس پر عدالت نے انہیں جنرل یحیی خان سے ان کی بیماری کے دوران ملاقات کرنے اور ان کا بیان ریکارڈ کرنے سے کی اجازت دی تھی۔ ایم ڈی طاہر کو عوامی مسائل پر عدالت سے رجوع کرنے پر شہرت جنرل ضیاءالحق کے دور میں ملی جب انہوں نے موٹر سائیکل سوار کے لیے ہلمٹ پہنے کی پابندی کو چیلنج کیااور تین عشروں میںایم ڈی طاہر ایڈوکیٹ نے عوامی مسائل پر سینکڑوں درخواستیں عدالت کے روبرو دائر کرکے ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ مرحوم نے مشرقی پاکستان کے علیحدگی کے بعد بہاریوں کی آبادکاری، پتنگ بازی پر باندی ، پاکستانی حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں اکے اخراجات ، اونے پونے داموں سرکاری اراضی کرنے، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور صدر پرویز مشرف کے بطور آرمی چیف صدراتی انتخاب سمیت کئی اہم درخواستیں آج بھی عدالت کے روبرو زیر سماعت ہیں۔ اب نہ عبدالقدوس بہاری ہیں اور نہ ہی ایم ڈی طاہر ایڈوکیٹ ، اب نہ کوئی دودھ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، گوشت کے نرخوں، کرائیوںمیں اضافوں، بجلی کے نرخوں میں اضافوں کھیل کے میدانوں پر قبضے اور دیگر عوامی مسائل پر درخواست دینے والا ہے اور نہ ہی مقدمہ لڑنے والے۔ اب عوام کی فریاد حکام تک کون پہنچائے۔ کون ہے جو عوامی مسائل پر آئینی درخواستیں دائر کرے اور پھر کونسی عدالتیں ہیں جہاں انصاف کی دہائی دی جائے اور انصاف کی امید رکھی جائے۔

بھارت دنیا کے 20 خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل

عطامحمد تبسم



برطانوی اخبار ”دی ٹیلی گراف” کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین روز قبل ممبئی میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں جن میں 200 کے قریب افراد ہلاک اور 400 زخمی ہوئے، کے بعد بھارت کو دنیا کے 20 خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا جہاں سفر کرنا انتہائی خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ممبئی دہشت گرد حملوں کے بعد بھارت کو دنیا کے 20 خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہو نے کے بعد بھارت کی سیاحت کی آمدنی خطرے میں پڑ گئی ہے۔۔ دنیا کے خطرناک ممالک کی فہرست میں عراق، افغانستان، اسرائیل، مقبوضہ فلسطینی علاقے، میکسیکو، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ، چیچنیا، جمیکا، سوڈان، کولمبیا، ایرٹریا، کانگو، لائبریا، برونڈی، نائجیریا، زمبابوے اور لبنان شامل ہیں۔ بھارت کے پانچ ستارہ ہوٹل میں دہشت گردی کی واردات انتہا درجے کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اس دہشت گردی کے مراکز عوامی مقامات تھے ۔جنکے زریعہ دنیا میں بھارت کی اس اندرونی صورتحال کو اجاگر کرنا تھا۔ جو وہاں کے عوام میں بے چینی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ اور اس میں دہشت گرد کامیاب رہے۔دکن مجاہدین نامی تنظیم جو ایک ای میل پریس ریلیز سے وجود میں آئی ہے۔ ایک نئی تنطیم ہے ۔ جس کا سابق کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کا ا صرار کے دہشت گردون کا مرکز بیرون ملک ہے۔اور بھارتی میڈیا کی اس آواز میں آواز ملانا ایک پرانی عادت ہے۔ بھارت میں اس دہشت گردی میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کو ممبئی میں دھماکوں کی نذر ہوجانے والے دیانت دار و جاں باز پولس افسر ہیمنت کرکرے کو جان سے مارنے کی دھمکی پو نہ ہی سے فون پر ایک دن پہلے دی جا چکی تھی۔ ہیمنت کرکرے کا مکان پونہ ہی میں ہے۔ سادھوی پر گیہ سنگھ ٹھاکر دیانند پانڈے اور کرنل پروہت کے درمیان ایک کڑی تھی، سازش کی ہر میٹنگ میں یہ تینوں افراد برابرشریک رہا کرتے تھے اور یہ سازش مختلف مقامات پرگذشتہ کئی مہینوں سے چل رہی تھی۔ جن کی جھلکیاں ٹی۔وی کے پرائیوٹ نیوز چینلس پر کئی مرتبہ پیش کی جا چکی ہیں۔ مالیگاوں بم دھماکوں کے الزامات میں ملوث تمام افراد کسی نہ کسی طرح سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے ہیں۔ کہنے کے لئے تو صرف یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ملزمین ”مسلم آتنک واد ” کے خلاف محض انتقامی کارروائی کے طور پر مختلف مقامات پربم دھماکے کرنا چاہتے تھے۔ اب پتہ چل رہا ہے محض ‘انتقام ‘ ان تشدد پسندہندو تو ا کے علمبر داروں کا مقصد نہیں بلکہ موجودہ سیکولر جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر ملک میں ”ہندو راشٹر ” ہر قیمت پر قائم کر دینے کا مذموم منصوبہ تھا۔ ان کا تعلق مشترکہ طور پر بھوسلہ ملٹری اسکول سے ہے۔ یہ اسکول سینٹرل ہندو ملٹری سو سائٹی چلاتی ہے اور اس سوسائٹی کے RSS اور BJPکے ساتھ دلیرانیہ تعلقات ہیں۔ حال ہی میں اس اسکول میں اکھل بھارتیہ ودیا رتھی پریشد ABVPکی ایک شاخ بھی کھل چکی ہے۔ ملٹری اسکول سے تعلق اس لئے ضروری تھا کہ فوجیوں کی مدد کے بغیر کسی حکومت کا تختہ پلٹنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے ان تمام زیر حراست ملزمین کی ملاقاتوں کا مرکز و محور”ابھینو بھارت سنگھٹنا” تھا۔ اس سنگھٹنا کی صدر گاندھی جی کے قاتل نا تھو رام گوڈسے کی بھتیجی رام گوپالی گوڈسے کی بیٹی اور ویر ساور کر کے چھوٹے بھائی کی بہو ہمانی ساورکر ہے جو پو نہ سے ہندو مہاسبھا کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑ چکی ہے۔ان تمام ملزمین کے پیداوار کی جگہ کتنی زہریلی ہے اس کا پتہ مہا تماگاندھی کے قاتل کی قربتوں سے بھی ہوتا ہے ،فوجی افسروں اور اہل کاروں کا تعاون لے کر جدید اسلحہ جات کی تربیت کا اہتمام اور فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے والے جو شیلے بھاشن سن کربھی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ یہ محض انتقام نہیں عوامی رائے کے مطابق قائم شدہ جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے کی زبر دست زیر زمین سا زشیں چل رہی ہیں۔ ان ارادوں میںروڑے لگانے والوں کو وہ بڑی بے دردری سے ہلاک کرتے جارہے ہیں۔ اس لئے اب یہ قیاس میں بھی لگایا جارہا ہے کہ چند اہم ملزمین جنہوںنے بم دھماکوں میںاہم رول ادا کیا ہے اور ابھی تک جو پکڑے نہیں جا سکے شاید ان ظالموں نے پہلے ہی انہیں ہمیشہ کے لئے ٹھکانے لگا دیاہو۔مالیگا و ¿ں بم دھماکوں کے دو اہم ملزمین ہیں ایک فوجی کرنل پر وہت اوردوسرا دیانند پانڈے۔اتفاق سے دونوں ہی کو آڈیو اور ویڈیو گرافی کا شوق ہے یا غیر ممالک میں جاکر اپنی تیاریاں وہاں بتانے کے لئے یہ شو ق ان کے لئے ضروری تھا۔ دیا نند پانڈے عرف سدھا کر دودیدی کے لیپ ٹاپ میں ریکا رڈ کی ہوئی معلومات کا ذخیرہ ATSکے ہاتھوں لگ چکا ہے۔مراٹھی ”لو ک مت ” کی ایک رپورٹ کے بمو جب یہ لوگ موجودہ حکومت ہند کا تختہ پلٹ کر یہاں ”ہندو راشٹر ” قائم کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ بین الاقوامی سطح پر ایک تنظیم کی تشکیل اور غیر ممالک سے امداد بھی چاہتے ہیں ،اخبارات میں آچکا ہے بنگلہ دیش میں ‘ابھی نو بھارت ‘ کی ایک شاخ کسی دوسرے نام سے کھل چکی ہے اور ان کے ورکر یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاںجاتے آتے رہتے ہیں۔ خبر کے بموجب انہیں اندیشہ ہے کہ مقتدر سیاسی حلقوں میں ان کے مشن کی مخالفت ہوگی اسلئے اپنے دفاع کے لئے وہ معقول انتظام پہلے ہی کر رکھنا چاہتے ہیں۔ مراٹھی اخبار ‘لوک مت ‘ کی خبر کے بمو جب لیپ ٹاپ میں درج معلومات انتہائی سنسنی خیز ہیں۔ مالیگا و ¿ں بم بلاسٹ ا س کا ایک معمولی حصہ تھا اسی لئے دیا نند پانڈے نے پولس والوں سے یہ کہا تھاکہ” چاہے تو اس کی جان لے لو مگر لیپ ٹاپ کو ہاتھ مت لگا و ¿ !”قارئین کویاد ہو گاکہ دیا نند پانڈے کو صرف سدھا کردویدی کو ATSنے اکتوبرمیں کا نپور میں اتر پردیش کی پولس کی مدد سے گرفتار کیا تھا۔ یہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہے جس نے تین مضامین میں ایم۔اے۔ کیا ہے۔ کٹر ”ہندو توا واد” کا اس کے سرپر بھوت سوا ہو اتو خود ہی شنکر اچاریہ بن بیٹھا اور سوامی امرتا نند کا لقب بھی اختیار کرلیا۔ اس سے پہلے گرفتار شدہ لیفٹننٹ پر وہت کی طرح اس کے پاس بھی’ لیپ ٹاپ’ دستیاب ہے۔ اس لیپ ٹاپ میں ہندو راشٹر کے قیام کی سازش کے بارے میںاہم جانکاریاں موجو دہیں ‘پولس نے اس لیپ ٹاپ کو جانچنے کے لئے کالینہ کی فور ینسک لیبا رٹری میں دیا تھا اور لیبارٹری نے لیپ ٹاپ کی ایک MIrror Copy(نقل) پولس کے مطالعے کے لئے دے دی ہے۔پولس کی طرف سے صرف اتناکہا جا رہا ہے کہ اس ریکارڈمیں انتہائی سنسنی خیز ارادوں کا اظہار ہوتا ہے۔ سوامی دیا نند پانڈے عر ف سدھا کر دودیدی کومکوکا کی خصوصی عدالت سے یکم دسمبر تک پولس تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ دیا نند کے اہم ساتھی لیفٹننٹ پروہت کو ضابطہ شکنی کے الزام میں فوج سے معطل (Suspend)کیا جا چکا ہے۔ اس سے قبل پروہت کے پونہ میں رہائشی مکان پر چھا پہ ماراتھا اور کوئی دو گھنٹہ تک اس کی خانہ تلاشی لی جا چکی ہے۔ قانون کے مطابق پروہت کو ملازمت سے معطلی کے دوران صرف نصف تنخواہ میں گزر بسر کرنی ہوگی اور’مکوکا ‘ کے تحت چھ ماہ تک ضمانت پر رہائی ملنا بھی مشکل ہے۔ اس قصے میں بار بار بھارتی افواج اور ہندو انتہا پسندوں کا زکر آرہا ہے۔ جو اس بات کی شہادت ہے ۔ کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ جس کا ملبہ وہ پاکستان پر گرانا چاہتا ہے۔



Leave a Comment







مستقبل میں سابق صدر مشرف کا سیاسی کردار

July 27, 2009, 10:17 am

Filed under: Uncategorized

مستقبل میں سابق صدر مشرف کا کوئی سیاسی کردار

عطامحمد تبسم

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ وہ جو کچھ صحیح سمجھتے ہیں۔ اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ان کی آمد کے بارے میں ایک عرصے سے چہ مگوئیاں ہورہی ہیں۔ انہوں نے اپنے ۹ سالہ اقتدار میں دوست اور دشمن خوب پیدا کئے۔ گو ان کے سیاست میں حصہ لینے پر سرکاری ملازمین پر عائد دو سالہ مدت کی آئینی بندش میں ابھی کئی مہینے باقی ہیں،(یہ پابندی اس سال کے اواخر تک ختم ہو رہی ہے) ، پرویز مشرف پاکستان کی سیاست کے خدوخال سدھارنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے سیاست میں آنے ،دوبارہ سیاسی سرگرمیاںکے آغاز کا عندیہ بھی دیا۔اور وہ دوبارہ صدارت کے منصب پر فائز ہونے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔اپنی رٹائرمنٹ کے بعد وہ بھرپور طور پر زندگی انجوئے کررہے تھے۔ کہ پاکستانی سیاست کے کانٹوں نے ایک بار پھرانھیں گھسیٹ لیاہے۔ بات پہلے ان گھر کی بجلی سے شروع ہوئی ، بجلی کی عدم فراہمی نے ہر پاکستانی کو اس بارے میں حساس بنا دیا ہے۔ ان کے فارم ہاﺅس کو جنہوں نے قوائد کو بالائے طاق رکھ کربجلی فراہم کی تھی۔انھوں نے ہی یہ فائیلیں نکال کر میڈیا والوں کو پیش کردی۔اقتدار جانے کے بعد پاکستانی سیاست میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ کونسی فائل کس وقت کھولنی ہے۔یہ ان اہلکاروں کو خوب پتہ ہے۔

پرویز مشرف کے گولف کھیلنے،برج کھیلنے،لیکچر دینے کی خبروں کے ساتھ ہی ق لیگ میں ان کی آمد کی خبریں بھی تھیں۔آنے والے دنوں کی تیاریوں کے لئے یوں بھی نئی صف بندیاں ضروری ہیں۔لندن کے ذاتی فلیٹ میں اپنے دوستوں سے ملاقات ، بریج کا کھیل، انٹرویو ، کانفرنسوں میں لیکچر ان کے مشاغل اور ایک محب الوطن پاکستانی کے طرح ملکی خدمت کیلئے خود کو وقف کرنے کیلئے تیار پرویزمشرف ابھی ہوم ورک میں مصروف تھے۔کہ ان کا راستہ روکنے کے اقدام ہونے لگے۔ابتدائی طور پریز مشرف عملی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد ان دنوں اپنے کاروبار پر توجہ دے رہے تھے۔

اس امرکا انکشاف مصری روزنامے “البدیل نے کیا تھا۔ اخبارکے مطابق پرویز مشرف نے برطانہ کے دورے سے واپسی پرخفیہ طو رپر مصر گئے۔ پرویز مشرف نے یہ دورہ مشہور مصری بزنس مین اور ٹیلی کام گروپ “اورسکام” کے مالک نجب ساویرس کی دعوت پر کیا تھا۔ اس دورے کے دوران سابق پاکستانی صدر نے سخت سیکیورٹی میں قاہرہ کے “فورسیزن” ہوٹل میں قیام کیاتھا۔مسلم لیگ ق صدارت کے مسئلے پر مزید تقسیم ہوگئی ہے۔ اور اب کنگز پارٹی میں مشرف کے قدم رکھنے کی جگہ نہیں رہی ہے۔ لیکن سابق صدر مشرف کو اب بھی پیر صاحب پگارا کی آشیر باد حاصل ہے۔ جو ملکی سیاست کی ایک کرشماتی شخصیت ہیں۔بعید نہیں کہ اس بار بھی سیاست میںنیا گل کھل جائے۔

سپریم کورٹ نے ۳ نومبر ۲۰۰۷ کی ایمرجنسی اور پی سی اوججوں کی برطرفی کے کیس میں سابق صدر جنرل مشرف کو عدالت میں طلب کر کے اپنی صفائی میں بولنے کا موقع دیا ہے اس بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو طلب کرلیاہے۔اور مشرف عدالت میں نہیں آئیں گے۔ لیکن سابق صدر نے اپنے انٹرویو میں واشگاف لہجے میں کہا ہے کہ میں واپس ضرور جاﺅں گا۔عدالتوں کا سامنا کرنے کو تیار ہوںاور یہ کہ ق لیگ کی قیادت کی پیش کش ہوئی تو قبول کرلوں گا۔

یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ جوں جوں یہ کیس آگے بڑھے گا سپریم کورٹ دوسرے فریقین کو بھی عدالت میں طلب کرے گی۔ وہ فریق سپریم کورٹ کے فیصلہ کرنے والے جج بھی ہو سکتے ہیں اور جنرل مشرف کے وکیل بھی۔ وہ جنرل مشرف کی حکومت کے وزراءبھی ہو سکتے ہیں اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی۔ ایک طبقہ یہ امید بھی کر رہا ہے کہ جنرل مشرف سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوں گے بلکہ وہ ملک واپس بھی نہیں آئیں گے۔ ۔ بعض حلقے پرویز کو مقام عبرت بنا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کی گردن پتلی ہے ۔اس لئے ان پر مقدمہ چلے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں عبرت ناک سزا دی جائے ۔ ان کی پاکستان میں ساری جائیداد ضبظ کر لی جائے۔ نصاب کی کتابوں میں ان کے غیرقانونی اقدامات کو مخصوص جگہ دی جائے تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں ایسے اقدامات اٹھانے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے کالے کرتوتوں پر لعنت بھیجتے رہیں۔

لیکن یہ ایک پنڈورا بکس ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشرف کے اقدامات میں شریک سیاستدانوں کو ان جرائم سے کیسے مبرا قرار دیا جاسکتاہے۔سپریم کورٹ ایوب خان ،یحیی خان،اور ضیاءالحق ان کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں،ان کو راستہ دینے والے عدلیہ کے ارکان کے خلاف بھی کاروائی کرے۔ دنیا میں آمر کی لاشوں کو نکال کر ان پر مقدمے چلائے جارہے ہیں۔ہمارے یہاں پک اینڈ چوز کی پالیسی کیوں ہے۔ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ کو بھی ایسے قوانین پاس کرنے چاہئیں جن کی رو سے ڈکٹیٹر کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کو نہ صرف ہمیشہ کیلیے نااہل قراد دے دیا جائے بلکہ ان کیلیے اس سے بھی کڑی سزا تجویز کی جائے۔ کیونکہ ایسے ڈکٹیٹروں کو اگر کسی نے سہارا دیا ہے تو وہ ایسے مفاد پرست سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو قومی مفاد پر خودغرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر چوہدری برادران، مشاہد حسین، وصی ظفر، شیخ رشید، درانی، ظفراللہ جمالی، ڈاکٹر شیر افگن وغیرہ جنرل مشرف کی جھولی میں نہ بیٹھتے تو یہ کھیل آگے نہیں بڑھتا۔ایک معاصر اخبار نے تویہ بھی لکھا ہے کہ اس کیس کو آگے بڑھانے سے پہلے سپریم کورٹ کو اپنے چودہ رکنی بنچ پر



نظرثانی کرنی چاہیے اور ان ججوں کو بنچ میں نہیں رکھنا چاہیے جو ایمرجنسی اور ججوں کی برطرفی کے اقدامات سے متاثر ہوئے۔

۶۰۰۲ ء کے اختتام تک مشرف پاکستان کی مقبول شخصیت تھے ۔امریکہ ان کا سب سے بڑا سرپرست تھا۔پاکستان کے سیاست دانوں کا بڑا حلقہ ان کے گرد حلقہ ڈالے ہوئے تھا۔چیف جسٹس آف پاکستان کی برطرفی کے بعد مختلف واقعات اور فیصلوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جن سے جنرل (ر) مشرف کی ساکھ بری طرح گری اور ایوان صدر سے ان کے رخصتی کے دن قریب تر آتے چلے گئے۔ اوراگلے ہی سال اسی ملک کی انتہائی نا پسندیدہ شخصیت بن گئے ۔جولائی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی ؛ سپریم کورٹ کے فیصلے سے خود کو بچانے کے بحیثیت آرمی چیف 3 نومبر کی ایمرجنسی ؛آرمی چیف کے عہدے کا چھوڑنا؛ بدنام زمانہ این آر او، سیاسی حمایت کیلئے بینظیر کے ساتھ مشکوک ڈیل ؛ سعودی عرب کے دباو ¿ پر نواز شریف کی وطن واپسی؛ بینظیر کا قتل ؛ فروری 2008 ء کے انتخابات اور کنگز پارٹی ق لیگ کی شکست ؛ آصف زرداری کا مضبوط رہنماءکے طور پر سامنے آنا ، سابق آمر کا سیاسی طور پر تنہا ہو جانا ، امریکہ کی جانب سے نظریں پھیر لینا، اپنی اتحادی جماعت اور سابق ادارے سے دوری ، اور سب سے بڑھ کر لال مسجد میں لاتعداد معصوم بچیوں،نوجوانوں،کا قتل عام ، چند ایسے واقعات ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کے زوال پر مہر ثبت کی ہے۔ان میں سیاست دان ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں۔جنرل( ر) مشرف کے 8 سالہ دور اقتدار میں جو نشیب و فراز اور موڑ آئے ہیں۔ انہوں نے کبھی توقع بھی نہ کی کہ ان کی کیریئر میں ایسا موڑ آئے گا کہ ان کی کمانڈو حکمت عملی، ٹیکنیک اور سٹریٹجی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ ۔



Leave a Comment







حسینی لائیبریری اور ابن صفی کی یاد میں

July 24, 2009, 6:58 am

Filed under: Uncategorized

حسینی لائیبریری اور ابن صفی کی یاد میں

عطا محمد تبسم

مکتی گلی حیدرآباد میں چلتے ہوئے جانے کیوں مجھے حسینی لائیبریری کی یاد آگئی ۔ پھر اس جانب میرے قدم اٹھ گئے۔ لیکن اب وہاں حسینی لائیبریری کی جگہ کھلونوں کی دکان ہے۔ جو حسینی بھائی کی اولاد چلا رہی ہے۔ حسینی لائیبریری حیدرآباد کی مشہور لائیبریری تھی۔آنہ لائیبریری جس کے کھلنے سے پہلے لوگ آکر بیٹھ جاتے تھے اور رات گئے تک یہ کھلی رہتی تھی۔یہاں ہر طرح کی کتابیں تھیں۔ جاسوسی،ادبی، رومانی، ڈائجسٹ،رسالے اور اس زمانے میں پڑھنے والے بھی بہت تھے۔ حیدرآباد کی رونق ان لائیبریریوں سے قائم تھی۔جو گلی گلی میں کھلی ہوئی تھیں،لیکن حسینی بھائی اور ان کی اس لائیبریری کی بات ہی اور تھی۔ ہم لائیبریری کو کوئی کونہ پکڑ کر کھڑے کھڑے ہی پوری کتاب پڑھ ڈالتے۔پھر ایک ساتھ ۵، ۵، کتابیں لے جاتے۔ہماری صبح ان کتابوں سے ہوتی ،جو ہم آنکھیں ملتے ہوئے بلا منہ دھوئے،بستر سے اٹھے پڑھنا شروع کردیتے اور والدہ محترمہ کی جانب سے مدح سرائی کے بعد بادل ناخونستہ طوہا کرہا بستر سے اٹھتے۔حسینی بھائی کی لائیبریری سے حیدرآباد کی کئی نسلوں علم وادب حاصل کیا۔ جاسوسی ناولوں کے شوق ہی نے آگے تعلیم کے شوق کو پروان چڑھایا۔ ان جاسوسی ناولوں میں سب سے بڑا کمال ابن صفی کے ناولوں کا تھا۔جس کے بارے میں دنیا کے معروف ناول نگا ر اگاتھا کرسٹی نے کہاتھا کہ © © ، اگرچہ میں اردو نہیں جانتی لیکن مجھے برِ صغیر کے جاسوسی ناولوں کے بارے میں معلومات ہیں۔ وہاں صرف ایک ہی اصل ناول نگار تھا، ابنِ صفی: اردو کے جغادری نقادوں کی نظر میں جاسوسی ادب کی جو بھی اہمیت ہو، اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آج تک اردو کے کم ہی کسی دوسرے ادیب کو پڑھا گیا ہو گا۔ جس قدر ابن صفی کو پڑھا گیا۔ ان کی کتاب آنے سے پہلے پڑھنے والے ایڈوانس کاپی بک کرایا کرتے تھے۔ہمارے دوست افتخار جمیل جعفری کو یہ سرف حاصل ہے کہ انہوں نے ابن صفی سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ انھیں نواب شاھ میں شکار بھی کھیلایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابن صفی نے الااعظم اسکوئر میں ایک فلیٹ لے رکھاتھا جہاں وہ خاموشی سے لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔ابن صفی کی پیدائش 26 جولائی سنہ 1928ءکو الہ آباد ضلع یو پی کے چھوٹے سے شہر نارا میں ہوئی تھی۔ ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ نارا سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر نوح ناروی ان کی والدہ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ اس لیے ابن صفی کا خاندان بھی ادبی تھا۔ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں ”طلسمِ ہوش ربا“ کا مطالعہ کر لیا تھا۔ اس داستان نے جہاں ان کے ذہن میں تخلیقی اور تخیلاتی عناصر کی بنیاد ڈالی، وہیں اس کتاب کے محاورات اور تراکیب سے بھر پور زبان نے بھی ان کے ذہن کی تشکیل میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اپنے گھر میں انہوں نے اردو کی دیگر کلاسیکی کتابوں کے علاوہ ادب کی دوسری اصناف کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔ ایک روز انہیں عذرا اور عذرا کی واپسی جیسی دو کتابیں مل گئیں۔ یہ رائڈر ہیگرڈ کے ناول”شی“ کا ترجمہ تھی۔ ابن صفی نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ اس طرح کی چیزیں تو وہ بھی لکھ سکتے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے لکھنا شروع کر دیا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو انہوں نے ایک افسانہ”ناکام آرزو “کے نام سے لکھا، جو ممبئی کے ہفت روزہ رسالہ ” شاہد “ میں شائع ہوا ، جس کے مدیر عادل رشید تھے۔ ابن صفی نے شاعری بھی کی وہ جگر مراد آبادی کے طرزِ کلام سے متاثر تھے۔ انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ”باز گشت “ کے عنوان سے ترتیب دیا تھا جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔

آگرہ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد ابنِ صفی ایک اسکول میں استاد مقرر ہو گئے اور اپنا ذاتی ماہنامہ ” نکہت“ الہ آباد سے جاری کیا۔ اس کی اشاعت میں انہیں اپنے دوست عباس حسینی کا تعاون حاصل ہوا۔ نکہت کی شکل میں ابن صفی کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور فطری حس مزاح کے اظہا رکا موقع ملا۔



انہوں نے نکہت میں ڈیڑھ سو سے زائد طنزیہ مضامین لکھے جن میں کچھ پیروڈیاں بھی تھیں۔ ان میں سے مضامین کا انتخاب کتابی شکل میں شائع ہوا جس کا عنوان ہے ”ڈپلومٹ مرغا“ اسے پڑھنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ ابن صفی میں طنز و مزاح کی بے پناہ صلاحیتیں تھیں۔ لیکن آگے چل کر ابن صفی کو جاسوسی ناول

نگار کی حیثیت سے شہرتِ جاوداں حاصل ہونے والی تھی اس لیے انہوں نے چند انگریزی جاسوسی ناولوں کا ترجمہ کرنے کے بعد خود ناول لکھنے شروع کیے اور مارچ سنہ 1952ءمیں جب ابن صفی کاپہلا ناول ” فریدی اورحمید“ کے بنیادی کرداروں پر مشتمل ”دلیر مجرم“ کے نام سے الہ آباد سے شائع ہوا تو پھر انہوں

نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ”فریدی اور حمید“ کے کردار پر مشتمل تقریباً 45ناولوں کی زبردست کامیابی کے بعد سنہ 1955ئ میں انہوں نے عمران کا اچھوتا کردار تخلیق کیا۔ عمران، حمید، کرنل فریدی اور قاسم جیسے کرداروں کو انہوں نے زندہ جاوید بنا دیا۔ جاسوسی ناولوں کی تشکیل کا خیال ان کے ذہن میں یوں آیا کہ اس زمانے میں گھٹیا قسم کے رومانی اور جنسی ناولوں کا بازار میں سیلاب سا آگیا تھا اور اس زمانے کی نو جوان نسل تباہ ہو رہی تھی۔ اس وقت ابن صفی نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے جاسوسی ناول لکھنے شروع کیے کہ وہ نوجوان نسل کو فحش ادب کی طرف جانے سے روک دیں گے۔ انہوں نے جاسوسی دنیا میں ناول لکھنے شروع کیے تو اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ سنہ1952ء میں ابن صفی پاکستان چلے گئے۔ یہاں انھوں نے”عمران سرنیز“ اور جاسوسی دنیا کے علاوہ ہر ماہ ایک ناول شائع کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی وہ وقت آگیا کہ وہ اردو کے چند سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں شامل ہو گئے لوگ ان کے ناولوں کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ 1960ءمیں ابن صفی شدید طور پر علیل ہو گئے اور تین برسوں تک وہ کچھ نہ لکھ سکے۔ صحت یابی کے بعد ان کا پہلا ناول”ڈیڑھ متوالے“ شائع ہوا اور اس کی اتنی زبردست پذیرائی ہوئی کہ پندرہ ہی دنوں کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا۔ ابن صفی کے ناول جب ہندی میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئے تو اس زبان میں بھی انھیں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی پھر ان کے ناول بنگلہ، گجراتی، تامل اور تیلگو مںو بھی چھپے اور اس زبان کے بھی قارئین نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اشاعتی دنیا میں شاید سرقہ کی اتنی بدترین مثال دوسری نہیں ملے گی جتنی ابن صفی کے ناولوں کے سلسلہ میں ملتی ہے۔ ابن صفی کے ناولوں کی مقبولیت دیکھتے ہوئے کچھ اور اصحاب نے اسی طرح کے ملتے جلتے ناموں سے ناول شائع کرنے شروع کر دئے۔ کسی نے این صفی نام رکھا تو کسی نے اببن صفی اور ان اصحاب کے بھی سیکڑوں ناول شائع ہو گئے یہاں تک کہ کانپور کے ایک دیدہ دلیر پبلشر نے تو ابن صفی کے نام سے ہی ناول شائع کر نا شروع کر دئے۔ ابن صفی لاکھ تردید کرتے رہے کہ یہ ناول ان کے لکھے ہوئے نہیں ہیں لیکن کون سنتا تھا۔ ابن صفی نے ڈھائی سو سے بھی زائد جاسوسی ناول لکھے اور صرف 52سال کی عمر میں 26جولائی 1980ءکو ان کا کراچی میں انتقال ہو گیا۔ اب بھی میں جب کبھی ابن صفی کا ناول ہاتھ میں لیتا ہوں تو پھر میں اپنی لڑکپن کی یادوںمیں کھو جاتا ہوں۔ جہاں حسینی بھائی پان کھاتے ہوئے اپنی لائیبریری میں بیٹھے ہوئے نظر آتے



Leave a Comment







کراچی میں بجلی کا بحران 2015ء کے بعد بھی ختم نہیں

July 23, 2009, 11:17 am

Filed under: Uncategorized

کراچی میں بجلی کا بحران 2015ء کے بعد بھی ختم نہیں ہوگا

عطا محمد تبسم



جب صوبے کا وزیراعلی اس بے بسی کا اظہار کرے کہ کے ایس سی حکام ہمار فون تک نہیں اٹھاتے تو عام آدمی کیا کرے گا۔اب تک تو بجلی کی وجہ سے پانی کا مسئلہ تھا۔ اب آٹے کا بھی بحران آنے والا ہے۔ فلور ملیں بھی آج کل بجلی سے چلتی ہیں ۔ اگر انھیں بجلی پوری نہ ملی تو وہ پروڈکشن کہاں سے کریں گے۔ اب تو متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی،سینٹرز ناظمین نے جواسمبلیوں یا سینٹ میں اس بارے میں احتجاج کرسکتے تھے انھوں نے بھی عوام کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرنا شروع کردیاہے۔اس بار بجلی کی ستائی ہوئی عوام اس قدر غضبناک ہے کہ بہت سے لیڈروں اور جماعتوں کی لیڈری خطرے میں ہے۔۸۱ جون کو جب کراچی اندھیروں میں ڈوب گیا تھا۔تو وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھاکہ اگر کے ای ایس سی انتظامیہ نے صدر آصف علی زرداری سے کئے ہوئے وعدے کو پورا نہ کیا تو کے ای ایس سی کو حکومت کی تحویل میں لے لیا جائے گا، بجلی کا بحران سابقہ حکومت کا پیدا کردہ ہے لیکن ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے عوام کو ریلیف پہنچائیں گے۔ ، پیپلز پارٹی کی حکومت بجلی کے بحران کو دور کرنے کیلئے سنجیدہ ہے اسی لئے وفاقی وزیر پانی و بجلی سمیت صدر آصف علی زرداری نے اس مسئلے کے حل کیلئے خصوصی طور پر کراچی کا دورہ کیا اور کے ای ایس سی انتظامیہ کو ایک ماہ میں بحران ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی مہلت دی ہے، ابھی صرف دو ہفتے ہی گزرے ہیں ،اگر کے ای ایس سی انتظامیہ نے وعدہ خلافی کی تو حکومت فیصلہ کرچکی ہے کہ کے ای ایس سی کو اپنی تحویل میں لے لے پھر چاہے حکومت کو نفع ہو یا نقصان۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں بجلی پیدا کرنے کا ایک بھی پلانٹ نہیں لگایا گیا جس کا خمیازہ آج پوری عوام بجلی کے بحران کی صورت میں بھگت رہی ہے، بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے دور حکومت میں 8000 میگاواٹ بجلی کا کے ٹی بندر پروجیکٹ شروع کیا جس کو بعد میں آنے والی نواز شریف حکومت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی چوہدری نثار علی نے بجلی کی ضرورت نہ ہونے کا دعویٰ کرکے بند کرا دیا تھا اگر آج کے ٹی بندر پروجیکٹ مکمل ہوجاتا تو ملک میں بجلی کا بحران پیدا نہیں ہوتا۔بجلی کا یہ بحران ایک کوئی ایک دن پیدا نہیں ہوا ہے۔ کے ای ایس سی ایک ہاتھی ہے ۔ جو مر کر بھی سوا لاکھ کا ہے۔۵۰۰۲ میں کے ای ایس سی کو جن وعدوں پر نجی شعبے کے حوالے کیا تھا ۔کیا وہ پورے ہوئے۔ جوحلقے کل تک اس ادارے کو نجی شعبے میں دینے کے حامی تھے۔ وہ آج کیوں فیس سیونگ کے لئے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔کراچی میں بدترین لوڈ شیڈنگ ۶۰۰۲ سے شروع ہوئی تھی۔ اس دوران لوگوں کے احتجاج کا رخ مشرف ہٹاﺅ تحریک کی طرف موڑ دیا گیا۔ ۷۰۰۲ میں زلزلے کے جھٹکے بجلی نہ ہونے کی بنا پر ریکارڈ نہ ہو سکے ۔شہر کی مصروف آئی آئی چندریگر روڈ پر مبینہ طور پر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے اور جب محکمہ موسمیات سے رجوع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ دفتر میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے جھٹکوں کو ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

محکمے کے عہدے دار نے کہا کہ، ا ±نہیں نہیں معلوم کہ زلزلہ آیا بھی تھا کہ نہیں؟۔ ۷۰۰۲ میں بھی شہر میں اوسطاً چھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی۔ جب کہ نظام میں خرابی کے باعث یہ دورانیہ اکثر زیادہ ہوتا ہے۔

سخت گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہری راتیں جاگ کر گزارتے تھے ۔ اور اکثر مختلف علاقوں میں ہنگامے ہوتے تھے ۔ صورت حال کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری نے ’کے اِی ایس سِی‘ کے عملے کو طلب کرکے حالات 20دِن میں بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں اور آبادیاں اندھیروں میں ڈوبی رہتی ہیں۔اکثر ہسپتالوں میں آپریشنوں کا ملتوی کر دینا معمول بن گیا تھا۔ جون ۹۰۰۲ کر اچی میں بجلی کا بدترین بحران جاری رہا، شام سات بجے کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والی جامشورو ،حبکو اور دادو ٹرانسمیشن لائن ٹرپ ہونے کی وجہ سے بن قاسم پاور پلانٹ،کورنگی تھرمل پاور پلانٹ ،کورنگی اور سائٹ گیس ٹربائن بند ہوگئے جبکہ کے ای یس سی کا نظام درہم برہم ہونے سے کراچی ایٹمی بجلی گھر اور ٹپال ، گل احمد سمیت تمام نجی پاور پلانٹس بھی اپنی سپلائی جاری نہ رکھ سکے اسں طرح سارا شہر بجلی سے محروم ہوگیا۔۔ بن قاسم پاور پلانٹ کے دو یونٹ بند ہونے سے بجلی کا شارٹ فال چھ سو پندرہ میگا واٹ تک پہنچ گیا ، اس وقت شہر میں بجلی کی طلب چھ سو پچاسی میگا واٹ اورپیداوار سترہ سو اکتہر میگا واٹ تھی۔دوسری طرف ’کے اِی ایس سِی‘ اس بات کا شور مچاتی رہی ہے کہ تقسیم کے نظام پر برداشت سے زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے بریک ڈاو ¿ن ہونا معمول بن گئے ہیں۔ ابھی کراچی میں مزید حالات خراب ہوں گے۔ کیوں کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بجلی کا بحران 2015ء کے بعد بھی ختم نہیں ہوگا۔ ماہرین کے مطابق کے ای ایس سی کی نجی انتظامیہ 2012ء تک کراچی میں بجلی کا بحران ختم کرنے کا دعویٰ کررہی ہے یہ سراسر غلط ہے۔ اس وقت تک بجلی کی طلب میں 20 فیصد سالانہ اضافہ کی شرح سے 60 فیصد اضافہ ہوجائےگا۔ پیداوار میں مشکل سے 15فیصد اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق 2012 تک پیداوار میں 500 میگا واٹ سے کم اضافہ ہوگا۔ اس وقت طلب 2400 میگاواٹ ہے جس میں ایک ہزار میگا واٹ کی کمی ہے جو پوری ہونے کی توقع نہیں ہے۔ کے ای ایس سی کے سینئر انجینئرز کی رائے میں بجلی کے بحران سے کراچی کو آئندہ چھ سال تک نجات نہیں ملے گی۔ اس صورتحال میں جو کچھ ہورہا ہے ۔ وہ طفل تسلیاں ہیں۔ موسم بہتر ہوگا ۔لوگ بجلی اور کے ایس سی کو بھول جائیں گے، اگلے برس پھر یہی ہو

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

برظانوی صحافی ایوان ریڈلی اب دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے سرگرداں ہیں۔

ایک اور چراغ گل ہوا

چل چل میرے خامہ چل